سوانح عمری فردوسی صفحہ 12

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سوانح عمری فردوسی

صفحہ
12

2808pdf.jpg
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ٹائپنگ از نایاب
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سوانح-عمری-فردوسی.73980/page-3#post-1538986

خجستہ در گہ محمود غزنوی دریا است
چگونہ دریا کان را کرانہ پیدا نیست
چہ غوطہ ہا زوم و اندر دند یدم در
گناہ بخت من ست این گناہ دریا نیست
اتفاق یہ کہ جس دن ناصر لک کا عریضہ پہنچا ۔ سلطان نماز جمعہ پڑھنے کے لیئے جامع مسجد میں آیا تھا ۔ اتفاق سے ان اشعار پر نظر پڑی ۔ نہایت متاسف ہوا ۔ مسجد سے آ کر ناصر لک کا عریضہ دیکھا ۔ اور بھی مکدر ہوا ۔ جن لوگوں نے فردوسی کے حق میں کانٹے بوئے تھے ان کو بلا کر سخت توبیخ کی ۔ کہ تم نے دنیا میں مجھ کو بدنام کر دیا ۔
ناصر لک نے گو فردوسی کی بہت کچھ خاطر مدارات کی تاہم سلطان کے ڈر سے اپنے پاس نہ ٹھہرا سکا ۔ فردوسی یہاں سے بھی نکلا ۔ اور ماژندران میں آیا یہاں وہ شاہنامہ کی نظر ثانی میں مشغول ہوا ۔
ماژندران کی حکومت قابوس میں دشمگیر کے خاندان میں چلی آتی تھی ۔ اس زمانہ میں سپہبد فرمان روان تھا ۔ اس کو فردوسی کے آنے کی خبر ہوئی تو نہایت مسرت ظاہر کی ۔ اور فردوسی کو دربار میں بلایا ۔ فردوسی نے مدحیہ اشعار اضافہ کر کے شاہ نامہ پیش کیا ۔ سپہبد نے چاہا کہ فردوسی کو دربار سے نہ جانے دے ۔ لیکن پھر سلطان محمود کا خیال آیا ایک گراں بھر صلہ بھیج کر کہلا بھیجا کہ محمود آپ سے ناراض ہے اس لیئے آپ کو ٹھہرا نہیں سکتا آپ کہیں اور تشریف لیجایئے ۔
دیباچہ نویسوں نے لکھا ہے کہ فردوسی یہاں سے بغداد گیا ۔ خلیفہ عباسی نے اس کی بڑی قدر کی ۔ فردوسی نے عربی میں قصیدے لکھ کر پیش کیئے ۔ اور اہل بغداد کی فرمائش سے یوسف زلیخا لکھی، سلطان محمود کو ان حالات کی اطلاع ہوئی تو خلیفہ عباسی کو تہدید کا خط لکھا کہ فردوسی کو فورا یہاں بھیج دیجئے ورنہ بغداد ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ہاتھیوں کے پانوں کے نیچے ہوگا ۔ وہاں سے تین حرف الف لام میم لکھ کر آئے کہ سورہ الم تر کیف کی طرف اشارہ تھا ۔ لیکن یہ تمام بے سروپا مزخرفات ہیں ۔
ایک دفعہ سلطان محمود ہندوستان کی مہم سے واپس آ رہا تھا ۔ راستہ میں دشمن کا قلعہ تھا ۔ وہیں ٹھہر گیا اور قاصد بھیجا کہ حاضر خدمت ہوکر اطاعت بجا لائے ۔ دوسرے دن قاصد جواب لایا ۔
 
Top