سوانح عمری فردوسی صفحہ 11

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سوانح عمری فردوسی

صفحہ
11


11rxac6.jpg
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ٹائپنگ از نایاب
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سوانح-عمری-فردوسی.73980/#post-1537683


کا پتہ نہ لگا سکے ۔ اب اس نے ہرات سے طوس (1) کا رخ کیا ۔ طوس سے قہستان گیا ۔ ناصر لک یہاں کا حاکم تھا ۔ اس کو خبر ہوئی تو ندیمان خاص کو استقبال کے لیئے بھیجا اور نہایت اخلاص کے ساتھ پیش آیا ۔ فردوسی نے ایک مثنوی لکھنی شروع کی تھی ۔ جس میں حاسدوں کی در اندازی اپنی مظلومی اور سلطان محمود کی بد عہدی و نا قدر دانی کا ذکر تھا ۔
بہ غزنین مرا گرچہ خون شد جگر
زبیدا و آن شاہ بیدا دگر
کزان ہیچ شد رنج سی سالہ ام
شنید از زمین آسمان نالہ ام
ہمی خواستم تا افغانہا کنم
بہ گیتی از ود استانہا کنم
بگویم زماؤ رش وہم از پد رش
نہ ترسم بغیر از خداوند عرش
چو دشمن نمی داند از دوست باز
بہ تیغ زبانش کنم پوست باز
و لیکن زفرمودہ محتشم
ندا نم کزین پیش چون سر کشم
فرستادم ار گفتہء داشتم
بہ نزدیک خود ہیچ نگذاشتم
اگر باشد این گفتہا نا صواب
بسوزان در آتش بشو آن دراب
گزشتم ایا سرور نیک راے
ازین داوری تا بد یگر سرائے
رسد لطف یزدان بفریاد من
ستاند بمحشر از و دا دمن
فردوسی نے مثنوی کے اشعار ناصر لک کو سنائے تو اس نے سمجھایا کہ بد گوئی اہل کمال کی شان نہیں ۔ میں لاکھ روپے ان اشعار کے معاوضہ میں دیتا ہوں ۔ اشعار کہیں ظاہر نہ ہونے پائیں ۔ فردوسی نے منظور کیا ، ناصر لک نے سلطان محمود کی خدمت میں عریضہ لکھا کہ فردوسی کے حق میں بڑا ظلم ہوا ۔(2)
فردوسی جب غزنین سے روانہ ہوا تھا تو جامع مسجد کی دیوار پر یہ اشعار لکھ آیا تھا ۔
)1( چہار مقالہ 12
)2( یہ دیباچہ کی روایت ہے ۔ چہار مقالہ میں قہستان کے بجائے طبرستان اور ناصر لک کے بجائے سپہ دار شیرزاد کا نام ہے ۔ دولت شاہ نے طبرستان کے بجائے رستمدار لکھا ہے ۔ طبرستان ، و رستمدار دراصل ایک ہی ہیں ۔ لیکن سپہدار اور ناصر لک دو شخص ہیں ۔ دولت شاہ نے ان میں سے ایک کو چھوڑ دیا ہے ۔
 
Top