سوات، سیاحوں کی جنت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سندباد

لائبریرین
مدین
(تیراتھ، جونو سر، شاہ گرام، چیل)
[align=justify:2e61eb0b45]حسین سبزہ زاروں، گھنے جنگلات اور برف کی سپید فرغل پہنی ہوئی فلک بوس چوٹیوں کے دامن میں واقع مدین کی وادی، سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے 52 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ پختہ سڑک کے ذریعے منگورہ سے منسلک ہے اور سطح سمندر سے اس کی بلندی 4334 فٹ ہے۔
مدین سوات کی حسین ترین وادیوں میں سے ایک ہے۔ جہاں ہرطرف رنگینی، دل کشی، رعنائی اور حُسن کا راج ہے۔ دریائے سوات کے کنارے واقع یہ خوب صورت مقام دلوں میں نئی اُمنگ پیدا کرتا ہے۔ جو لوگ اس وادی کا رُخ کرتے ہیں یہاں کے دل فریب مناظر میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔
مدین کی حدود پیا خوڑ (پیاندی) سے لے کر مشکون گٹ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں کی کل آبادی قریباً50 ہزار نفوس پرمشتمل ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی قدیم تہذیب میں رنگے ہوئے ہیں۔ مذہبی لحاظ سے پکے مسلمان ہیں۔ جنگ و جدل کو پسند نہیں کرتے اور امن و آشتی سے رہنے والے یہ لوگ بڑے مہمان نواز ہیں۔
مدین کا پُرانا نام ’’چوڑڑئی‘‘ ہے۔ یہ نام وادئ سوات میں بُدھ مت کے دورِ عروج میں اُسے دیا گیا تھا۔ بعد میں والئی سوات میاں گل عبدالحق جہان زیب نے اُسے مدین کے نام سے تبدیل کیا۔مدین کے قرب وجوار میں کئی خوب صورت علاقے موجود ہیں۔ جن میں بیلہ، بشی گرام،شنڑکو، تیراتھ، قندیل، دامانہ، آریانہ، مورپنڈئ، چورلکہ، شاہ گرام، الکیش، کالاگرام، شیگل اور گڑھی نامی گاؤں کافی مشہور ہیں۔ ان علاقوں کی خوب صورتی اور حسین مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں مگران میں بعض علاقوں تک پختہ سڑک کی غیر موجودگی نے ان خوب صورت مقامات کوسیاحوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھا ہواہے۔ ان علاقوں میں تیراتھ ایک حسین و جمیل علاقہ ہے جو مدین سے جنوب کی طرف دریائے سوات کی مغربی سمت واقع ہے۔ اس مقام تک جانے والی سڑک دریائے سوات پر بنائے گئے ایک خوب صورت پُل کے ذریعے جرنیلی سڑک کے ساتھ منسلک ہے۔[/align:2e61eb0b45]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:dc97b3d271]یہ علاقہ قدیم تہذیب وثقافت،تاریخ و تمدن اور آثارِ قدیمہ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پر آثارِ قدیمہ کافی وسیع رقبے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جن پر کچھ عرصہ قبل محکمہ آثارِ قدیمہ نے باضابطہ طور پر کام شروع کیا تھا جس کے نتیجے میں بُدھ مت سے متعلق بہت سی قیمتی اشیاء اور نوادرات برآمد ہوئے تھے۔ یہاں مولا مولئی کے مقام پر ایک چٹان پر انسانی پاؤں کے نشانات بھی ملے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مہاتما بدھ کے قدموں کے نشانات ہیں۔ اس کے قریب ایک د وسری چٹان کے متعلق مشہور ہے کہ اس پر گوتم بدھ نے اپنے گیلے کپڑے سُکھائے تھے۔
جُونوسر،بابوسر، شاہی سر اور میخو سر تیراتھ کی مشہور پہاڑی چوٹیاں اور سیر گاہیں ہیں۔ ان میں جونو سر کی چوٹی کو نمایاں تاریخی مقام حاصل ہے۔ اس کی بلندی دس ہزار فٹ سے لے کر پندرہ ہزار فٹ تک ہے۔ اس کی چوٹی پر سیاحوں کے لئے سیر وسیاحت کی بہت سی دلچسپیاں موجود ہیں۔ یہ پہاڑ قدیم سوات کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں اگر ایک طرف سوات کے قدیم قبائل کی گم شدہ کڑیاںملتی ہیں تو دوسری جانب یہاں ایسے آثار اور روایات بھی موجود ہیں جن سے زرتشت مذہب، بُدھ مذہب اور آریا مت (ہندو)کے متعلق گراں قدر معلومات ہاتھ آسکتی ہیں۔ اس پہاڑ میں ’’سوما‘‘ (اسے باٹنی میں اِفیڈرا پلانٹ کہا جاتاہے اور اس سے ایفیڈرین نامی دوائی کشید کی جاتی ہے) نامی پودا بھی پایا جاتا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ ہر قسم کی جسمانی قوت کے لئے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتاب رِگ وید کے مطابق یہ پودا بہت قوت بخش ہے اور قدیم زمانے میں یہ روحانی قوت بڑھانے کا ایک بڑا محرک بھی سمجھا جاتا تھا۔ قدیم کتابوں میں اس پودے کے حیرت انگیز کرشمے بیان کئے گئے ہیں۔ اس پودے سے ’’سوم رس‘‘ نامی شراب بھی نکالی جاتی تھی،جس کا ذکر سوم رس کے نام سے ہندؤں کی قدیم متبرک کتابوںمیں تفصیل سے ملتا ہے۔اس پہاڑ کے متعلق یہ بات بھی کافی مشہورہے کہ کافروں کے زمانے میں اس کی چوٹی پر دوشیزائیںسوما چننے کے لئے چاند رات میں چلی جاتیں اور وہ یہاں چاند کی روشنی میں ناچتی تھیں اور شراب کشید کرنے کی خاطر اس پودے کو چنتی تھیں۔ اس وجہ سے پہاڑ کی اس چوٹی کا نام جونو سر (یعنی دوشیزاؤں والی چوٹی) پڑ گیا۔[/align:dc97b3d271]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:86c1fd9742]تیراتھ اور مدین کے درمیان تین چار مقامات پر دریائے سوات پر لکڑیوں اور رسیوں کے اشتراک سے خوب صورت پُل بنے ہوئے ہیں جن کے ذریعے متعلقہ علاقوں تک نقل و حمل میں بہت آسانی رہتی ہے۔ ان پلوں سے دریا اور ارد گرد کے دل کش مناظر بہت سُرورانگیز اور فرحت بخش محسوس ہوتے ہیں۔
وادئ مدین سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا علاقہ چیل ہے جو حقیقی طور پر فردوسِ بریں کا منظر پیش کرتاہے۔ چیل کی سڑک مدین بازار سے جنوب مغربی جانب ایک کچے راستے کی شکل میں الگ ہوئی ہے۔ یہاں ہرطرف سبزے کی بچھی ہوئی چادر دل کش آبشاروں کا ترنم اوربہتے ہوئے ندی نالوں کا سُرور انگیز آہنگ ایک عجیب سی موسیقی کا سماں پیدا کرتا ہے۔ یہاں آکر انسان کو یوں محسوس ہوتاہے جیسے وہ جنت کے ایک پُرسکون اور خوب صورت باغ میں گھوم رہا ہو۔ پہاڑوں میں بِل کھاتی ہوئی سڑک بہت خوب صورت لگتی ہے۔ سڑک کے سنگ سنگ بہتی ہوئی بشی گرام کی ندی اور اس کے کنارے پرکھِلے ہوئے خوب صورت پھول پُوری وادی کی فضاء کومعطر بنا دیتے ہیں۔ ندی کا پانی جب بڑے بڑے پتھروں سے ٹکراتاہے تواس سے ہلکی سی پُھوار نکلتی ہے جس کے ساتھ پھولوں کی خوش بُو شامل ہو جاتی ہے تو ساری فضا رنگ و بو کے سحر میں ڈوب جاتی ہے۔ مدین آکر اگر چیل کونہ دیکھا جائے تو مدین کی سیر ادھوری رہ جاتی ہے۔
وادئ مدین کے بلند پہاڑوں کی چوٹیاں ہر وقت برف سے ڈھکی رہتی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پہاڑوں نے سپید چادراوڑھ رکھی ہو۔ یہاں کے ندی نالے اور گن گناتے آبشار کائنات کے فطری حُسن و جمال کے حقیقی مظہرہیں۔ پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ وادی بلاشبہ بہت خوب صورت ہے۔ اس کے ایک طرف دریائے سوات بپھرے ہوئے شیر کی مانند دھاڑتاہوا بہِ رہاہے اور دوسری طرف چیل خوڑ دریائے سوات سے جا ملتی ہے۔چیل خوڑ کو دریائے بشی گرام بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دریا، دریائے سوات کا معاون دریاہے اور اس کا اصل منبع بشی گرام جھیل ہے۔ چیل اور اس کے ارد گرد علاقوں سے بھی برف کا پانی پگھل کر بشی گرام خوڑ میں شامل ہو جاتاہے۔ مدین میں پُل پر سے دریائے بشی گرام اور دریائے سوات کے اتصال کامنظر نہایت دل کش ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتاہے۔[/align:86c1fd9742]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:ef143b31cb]وادئ مدین میں پھلوں اور دیگر میوہ جات کے بڑے بڑے باغات ہیں۔ جن میں سیب کے باغات کافی مشہورہیں۔ یہاں جوار، مکئی، آلو، املوک، اخروٹ، آلوچہ،اور عناب وغیرہ بھی وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ شہد یہاں کا خاص تحفہ ہے جو یہاں موجود شہد کی مکھیوں کے فارموںسے حاصل کیا جاتا ہے اور سیاح اُسے دور دراز کے مقامات تک بطورِ سوغات لے کر جاتے ہیں۔ مدین بہت سی مفید جڑی بوٹیوں کا مرکز بھی ہے۔ یہاں کے جنگلوں میں بہت سی ایسی کارآمد جڑی بوٹیاں (خصوصاً مشکِ بالا) ملتی ہیں جو مختلف دواؤں میں استعمال ہو تی ہیں۔
وادئ مدین میں ایک بارونق بازار ہے جس میں ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز بآسانی ملتی ہے۔ بازار کا ایک حصہ قدیم آبادی پر مشتمل ہے۔ جہاںبازار سے تنگ گلیوں کی صورت میں راستے گئے ہیں۔ یہ آبادیاں قدیم طرزِ تعمیر کا عجب سا تاثر دیتی ہیں۔ آبادیوں میں جابجالکڑی کے مضبوط شہتیروں اور تختوں کے استعمال سے پوری وادی کو ایک خاص مماثلت اور اچھوتی انفرادیت حاصل ہے۔
مدین بازار کادوسرا حصہ دریائے بشی گرام پُل سے آگے ہے۔ جہاں زیادہ تر جدید ہوٹل اور ریسٹورنٹ ہیں۔ اس کے ساتھ ہینڈی کرافٹس کی دُکانوں میں قدیم نوادرات اورسوات کے آثار قدیمہ میں نکلنے والی دیگر قیمتی اشیاء کی دل کش سجاوٹ نوادرات جمع کرنے والے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتی ہے۔
قریباً پچیس برس قبل وادئ مدین میں موسم سرما میں غیر ملکی یورپی سیاحوں کا ہر وقت جم غفیر رہتا تھا۔ سینکڑوں (Overland) پیدل چلنے والے سیاح یہاں مہینوں تک ڈیرا ڈالتے تھے۔ بازار میں مقامی لوگوں کی نسبت ان کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ وہ یو رپ سے براستہ تُرکی، ایران اور افغانستان سے ہوتے ہوئے پاکستان آتے اور یہاں زیادہ عرصہ تک قیام کے متمنی سیاحوں کا بیس کیمپ مدین ہوا کرتا تھا۔ عام طور پر خواتین سیاح مقامی لوگوں سے اُن کے گھروں کا نصف یا پورا گھر کرایہ پر لے کر قیام پذیر ہوا کرتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مدین کے اکثرمرد، خواتین، بچے اور بچیاں انگریزی ، فرانسیسی، جرمنی اور اٹالین زبانیں کافی حد تک سمجھتے تھے۔ اب بھی یورپ سے پاکستان آنے والے سیاح اگر سوات آئیں تو یہاں کا چکر ضرور لگاتے ہیں۔
مدین میں چیل روڈ پر ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش کا ایک سرکاری فارم بھی ہے۔ جہاں سے چھوٹی مچھلیوں کو افزائشِ نسل کے لئے دریائے اوشو و اتروڑ وغیرہ میں ڈالا جاتا ہے اوربڑی مچھلی کو فروخت بھی کیا جاتاہے۔
وادئ مدین میں سیاحوں کے لئے بہت سی جدید سہولتیں موجودہیں۔ جدید ہوٹل ہیں اور ٹیلی فون کا ڈائریکٹ ڈائلنگ سسٹم ہے۔ موسم گرما میں فیملی کے لئے ہوٹلوں کے علاوہ پورے سیزن کے لئے فلیٹ نما مکانات بھی کرایہ پر ملتے ہیں۔یہاں منگورہ سے ہر پانچ دس منٹ کے وقفہ سے مدین کے لئے فلائنگ کوچ، ویگن اور پرائیویٹ گاڑیاں چلتی ہیں۔ سڑک کی حالت کافی بہترہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ مدین کے نواح میں موجود ان خوب صورت علاقوں تک پختہ سڑکوں کی تعمیر ممکن بنائی جائے جو انتہائی خوب صورتی کے باوجود سیاحوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔[/align:ef143b31cb]

٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
بشی گرام جھیل
[align=justify:9965f740ce]وادئ سوات کی یہ حسین و جمیل اور طلسماتی جھیل سوات کے مشہور تفریحی مقام مدین سے جنوب مشرق کی طرف آٹھ گھنٹے کی پیدل مسافت پر واقع ہے۔ بشی گرام محض ایک جھیل کا ہی نام نہیںبلکہ یہ ایک وسیع وفراخ وادی کا نام بھی ہے جس کی خوب صورتی اور رعنائی قابلِ دید ہے۔
اس تک پہنچنے کے لئے شنڑ کو نامی مقام تک چھ کلومیٹر کا راستہ بذریعہ بس طے کیا جاتاہے اور آگے شمال مشرق کی طرف بشی گرام جھیل تک آٹھ گھنٹے کا طویل سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ بیس کلومیٹر کا یہ راستہ اگرچہ کافی دشوار گزار ہے لیکن تمام راستہ حسین مناظر اور فطری رعنائیوں کی رنگینیوں سے اس قدر معمورہے کہ انسان کو راستے کی پیچیدگیوں کے باوجود تھکاوٹ اوربوریت کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ بشی گرام ایک انتہائی دل کش اور خوب صورت مقام ہے۔ یہاں فطرت اپنے اصل رنگ و روپ میں نمایاںہے لیکن یہاں تک رسائی کا سہل ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے حسن و جمال کا مرقع یہ سرسبز و شاداب علاقہ سیاحوں کی نظروں سے پوشیدہ ہے۔ یہاں کسی بھی قسم کی سیاحتی سہولت موجود نہیں ہے۔ تاہم انتہائی پس ماندگی کے عالم میں زندگی گزارنے والے یہاں کے کوہستانی باشندے بہت صاف دل اور مہمان نوازہیں اور اپنے مخصوص رسم و رواج کی بھی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔
بشی گرام میں قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیوں کی افراط ہے۔ جن پر علم نباتات کے ماہرین ریسرچ کریں تو انہیں انسانیت کی فلاح کے لئے استعمال میں لایاجا سکتا ہے۔ یہاں سردیوں میں کافی برف باری ہوتی ہے۔ گرمیوں میں بھی یہ برف عموماً پہاڑوں کے دامن تک رہتی ہے اور پہاڑ تو ہمیشہ برف کی فرغل پہنے رہتے ہیں۔ بشی گرام میں جابجا ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے ہیں جن کا پانی قدرتی دوا کاکام دیتا ہے۔[/align:9965f740ce]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:b542d51089]بشی گرام جھیل تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ مدین میں چیل نامی گاؤں سے ہوتے ہوئے شینکو، ڈبوگے، بیلہ، کرڈیال، کس، مغل مار اور بشی گرام نامی قابل ذکر دیہات کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ اس جھیل تک پہنچنے کے لئے دوسرا راستہ سوات کے ایک اورحسین وجمیل مقام میاں دم سے چلا گیاہے۔ جہاں سے شام سر، پیازوبانڈہ، کافر بانڈہ اور نکئی بانڈہ جیسی مشہور چراگاہوں اورسیرگاہوں سے ہوتے ہوئے بشی گرام جھیل پہنچا جا سکتا ہے۔جھیل بشی گرام کی سیاحت کا موزوں مہینہ ستمبر ہے کیوں کہ اس مہینہ تک برف پگھل چکی ہوتی ہے اور راستے آسان ہو جاتے ہیں تاہم پہاڑوں کے بیشتر حصوں پر برف پورا سال موجود رہتی ہے۔
بشی گرام تک جانے والے راستے میں نہایت حسین اور دل فریب مقامات آتے ہیں جہاں حسن، دل کشی اور رعنائی جیسے قدم قدم پربکھری ہوئی ہے۔ پورا علاقہ مختلف قسم کی قیمتی جڑی بوٹیوں اور جنگلی پھولوں سے اٹا پڑا ہے۔ بعض مقامات پر صاف پانی کے ٹھنڈے میٹھے چشمے ہیں جن کا پانی نہایت صحت بخش اور سُرور افزا ہے۔ جھیل بشی گرام تک جانے والے خواہش مند سیاحوں کو گروپ کی شکل میں جانا چاہئے اور اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء، گرم کپڑے، ضروری ادویات اور شب بسری کے لئے گرم کمبل یا سلیپنگ بیگ ضرور لے جانے چاہئے کیوں کہ رات کے وقت وہاں شدید سردی پڑتی ہے ۔ بشی گرام جھیل کے قرب وجوار میں کھانے پینے کی اشیاء آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔تاہم قرب وجوار کے دیہات میں مقامی لوگ سیاحوں کی شب بسری اور ان کے کھانے پینے کا بندوبست بخوشی کرتے ہیں۔ سیاح اگر ان کو نقدی کی شکل میںمعمولی سی رقم دینا چاہیں تو ٹھیک ورنہ وہ سیاحوں کی خدمت بلا معاوضہ کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ نہایت پس ماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن زندگی کی بنیادی سہولتوں کی عدم دست یابی کے باوجود ان کے چہروں پر خوشی ،شادمانی اور اطمینان کی چمک نظر آتی ہے۔[/align:b542d51089]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:2b3150a480]بشی گرام جھیل کے قرب وجوارمیں رہنے والے لوگ ستمبر کے مہینہ میں برف باری شروع ہونے سے قبل یہاں سے رختِ سفر باندھ لیتے ہیں اور بعض لوگ میاں دم اور بعض مدین کی راہ لیتے ہیں۔ کیوں کہ ستمبر کے آخر میں جب برف باری شروع ہوتی ہے تو ہر شے برف کی سپید چادر اوڑھ لیتی ہے اور شدید ترین سردی کی وجہ سے وہاں کسی ذی روح کا رہنا دشوار ہو جاتاہے۔ گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی یہ خانہ بدوش لوگ دوبارہ اپنے ٹھکانوں کی راہ لیتے ہیں۔
سیب، اخروٹ، انگور اور دیگر میوہ جات یہاں فراوانی سے پیدا ہوتے ہیں جبکہ عام فصلوں میں جو، گندم، چاول، بھنڈی، مٹر اور ٹماٹر شامل ہیں۔ یہاں بعض دیہات میں شہد کی مکھیاں بھی پالی جاتی ہیں۔ یہاں کا خالص شہد بہت مشہور ہے اوراکثر لوگ خصوصی طور پر یہاں سے شہد منگواتے ہیں۔
جھیل بشی گرام سوات کی دوسری مشہور جھیلوں درال اور سیدگئی سے بڑی اور گہری ہے۔ جب آٹھ گھنٹے کا سفر طے کرکے، دور سے جھیل پر نظر پڑتی ہے تو عجیب قسم کی خوشی اور طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ پورے راستے کی تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے اور جسم میں نئی تازگی آجاتی ہے۔ جھیل کا نیلگوں پانی اتنا ٹھنڈا ہے کہ اس میں دو تین منٹ سے زیادہ ہاتھ نہیں رکھاجا سکتا۔
جھیل سے دریائے بشی گرام کی شکل میں پانی ’’چیل‘‘ گاؤںسے ہوتے ہوئے مدین کے مقام پر دریائے سوات کے ساتھ جا ملتاہے۔ اس کے ساتھ راستے میں مختلف مقامات شینکو، چیل اور ڈبرگے جیسے بلند وبالا علاقوں سے بھی برف کا پانی پگھل کر دریائے بشی گرام کے ساتھ شامل ہوتاہے۔ جھیل بشی گرام اور اس کے قرب وجوار کا علاقہ بلاشبہ خوب صورتی اور رعنائی سے اس قدر مالا مال ہے کہ اس پر کسی طلسماتی نگری کا گمان گزرتا ہے۔ جھیل کا طلسماتی ماحول انسان کو سحر زدہ کر دیتا ہے۔یہاں کی خوب صورتی اور رعنائی میں اتنی کشش ہے کہ یہاں سے جانے کوجی ہی نہیں چاہتا۔[/align:2b3150a480]

٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
سوات کوہستان
[align=justify:f804ce8e08]سوات کوہستان وسیع و عریض وادئ سوات کا ایک خوب صورت اور پُر کشش علاقہ ہے۔ اس کی حدود مدین اور بحرین کے درمیان واقع ایک حسین مقام ’’ساتال‘‘ (مشکون گٹ) سے شروع ہوتی ہیں اور بحرین ، کالام، اُتروڑ، گبرال، اُوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ کے سحر انگیز مقامات اور ان کی بلند و بالا برف پوش چوٹیوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ جغرافیائی طور پر سوات سے کوئی الگ علاقہ نہیں ہے بلکہ اپنی مخصوص زمینی ساخت، زبان اور بلند و بالاپہاڑوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اُسے’’سوات کوہستان‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
بحرین کو سوات کوہستان کا دروازہ کہا جاتا ہے اور اس مقام پر مہوڈنڈ اور گبرال سے نکلا ہوا دریائے سوات درال ندی کو اپنی بپھری ہوئی لہروں میں ضم کر لیتا ہے۔ سوات کوہستان کا پورا علاقہ سردیوں میں برف کی سپید چادر اُوڑھے رکھتا ہے اور یہاں سردیوں میں 10 سے 16 فٹ تک برف پڑتی ہے۔ اس کے پہاڑی علاقے برفانی بادو باراں کی لپیٹ میں رہتے ہیں اور بیشتر علاقوں کے مکین اپنے اپنے گھروں میں شدید برف باری کے باعث محصور ہوکر رہ جاتے ہیں۔ سردی کے موسم میں بعض اوقات یہاں بڑے بڑے گلیشیئر پہاڑوں کی بلندیوں سے لڑھکتے ہوئے نیچے کی طرف آتے ہیں جن کی تند و تیز ہوا سے بڑے بڑے مضبوط درخت بھی جڑ سے اُکھڑ جاتے ہیں۔ سردی کے موسم میں زیادہ برف باری کی وجہ سے اُتروڑ، گبرال اور مٹلتان وغیرہ کی وادیوں سے دیگر علاقوں کا زمینی راستہ کٹ جاتا ہے اور کئی ہفتوں تک یہاں کے باشندے سوات کے مرکزی شہر منگورہ تک آنے جانے سے قاصر رہتے ہیں۔
بحرین کی وادی میں زیادہ تر جوکوہستانی بولی جاتی ہے، اُسے توروالی کہتے ہیں جبکہ کالام اور اس کے قرب و جوار کے مقامات کے لوگ گاؤری نامی کوہستانی زبان بولتے ہیں۔ تاہم پشتو زبان یہاں عام بولی جاتی ہے اور بیشتر لوگ اُردو بھی باآسانی بول اور سمجھتے ہیں۔’’سوات کوہستان‘‘ کا پورا علاقہ وادئ سوات میں سب سے زیادہ حسین اور پُر کشش ہے۔[/align:f804ce8e08]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:c323510d4d]جہاں خوب صورت جھیلیں ہیں، گن گناتے آبشار ہیں، صحت بخش پانی کے چشمے ہیں، مُنہ زور ندیاں ہیں، فلک بوس اوربرف پوش چوٹیاں ہیں، گھنے جنگلات ہیں، قیمتی جڑی بوٹیاں ہیں، گل رنگ اور خوش رنگ پھول ہیں، نایاب پرندے اور جنگلی جانورہیں، دل موہ لینے والے وسیع سبزہ زار ہیں اور سب سے بڑھ کر پُر خلوص اور مہمان نواز لوگ ہیں۔ جن کی تمام تر معیشت کا انحصار جنگلات کی رائلٹی اور سیاحوں کی آمد و رفت پر ہے۔ پورے علاقہ میں سیاحوں کے لئے ہر قسم کی سہولتیں موجود ہیں۔ ہر معیار کے جدید ہوٹل اور ریسٹ ہاؤس ہیں جن میں سیاحوں کے لئے ٹیلی فون سمیت ہر نوع کی سہولتیں موجود ہیں۔
کوہِ ہندوکش اور کوہِ ہمالیہ کے طویل سلسلوں سے گِھراا ہوا یہ پورا علاقہ نہایت خوش گوار اور معطر آب وہوا پر مشتمل ہے۔ یہاں کے پہاڑوں اور جنگلات میں مرغ زرین، چکور، ہرن اور ریچھ وغیرہ جیسے نایاب پرندے اورجانور پائے جاتے ہیں۔ جن کے تحفظ کے لئے حکومت نے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے یہ نادر جانور اور نایاب پرندے یہاں سے بڑی تیزی سے معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
یہاں دریائے سوات کے ٹھنڈے پانی میں ٹراؤٹ مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں جو اپنی منفردلذّت کے لحاظ سے شہرت کی حامل ہیں۔ ان مچھلیوں کا شکار خود بھی کیا جا سکتا ہے اور تیار تازہ مچھلیاں خریدی بھی جا سکتی ہیں۔ تاہم ان کے شکار سے لطف اندوز ہونے کے لئے متعلقہ محکمہ کے مجاز اہل کاروں سے باقاعدہ اجازت(پرمٹ) لینا پڑتی ہے۔
سوات کوہستان اپنی بے پناہ خوب صورتی اور غیر معمولی رعنائی کی وجہ سے سیاحوں کے لئے جنت کی حیثیت رکھتا ہے اور یہاں کی معّطر اور پُر کشش وادیوں کی رنگینوں سے لطف اندوز ہوکر سیاح بار بار یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔نہ صرف یہاں کے حسین قدرتی مناظر سے محظوظ ہوتے ہیں بلکہ یہاں کی مقامی مصنوعات، تازہ پھل، شہد اور اخروٹ جیسی سواتی سوغات بھی اپنے ساتھ لے جا تے ہیں۔[/align:c323510d4d]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
بَحرین
[align=justify:5cca50b808]گل و لالہ کی وادی بحرین، سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے 64 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ وادی حسن و دل کشی اور خوب صورتی میں سوات کے دیگر علاقوں سے نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 4500 فٹ ہے اور آبادی قریباً 40 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہاں سے مانکیال کی 19 ہزار فٹ بلند چوٹی برف کی سپید چادر میں لپٹی بہت دل کش نظر آتی ہے۔ کوہِ سجن یہاں کا مشہور اور بلند پہاڑ ہے۔ بحرین کی حدود پنجی گرام سے لے کر لامبٹ تک پھیلی ہوئی ہیں۔
بحرین کے ارد گرد بلند و بالا پہاڑ ہیں جن میں مشرقی پہاڑوں کے دامن میں دریائے سوات خوف ناک اور تند و تیز لہروں کے ساتھ بہِ رہاہے۔ بحرین کے ایک طرف مانکیال پہاڑ ہے تو دوسری طرف جنوباً چمکتا ہوا ایک گاؤں’’آئین‘‘ ہے۔ اس کے شمال کی جانب سڑک سے چند کوس دور پہاڑوں میں پنجی گرام کا چھوٹا سا حسین اور تاریخی گاؤں ہے جس کا نام بدھ مت کے عہد کی یاددلاتا ہے۔
بحرین کا پُرانا نام’’برانڑیال‘‘ تھا۔ اس سے قبل اس کا نام ’’بھونال‘‘ تھا۔ جو صدیوں پُرانا نام ہے۔ یہاں کی فطری خوب صورتی ، دل کشی اور رعنائی جب بانئی سوات بادشاہ صاحب نے دیکھی تو دو دریاؤں کے حسین ملاپ کے باعث اُسے بحرین( دو دریاؤں کی ملنے کی جگہ) کا نام دیا اور یہی اس کی وجہ تسمیہ بھی ہے۔
دو دریاؤں کے سنگم پر واقع یہ زرخیز وادی سیر و تفریح کی بہترین جگہ ہے۔ جہاں ہر سال گرمیوں میں سیاحوں کا جم غفیر رہتا ہے۔ یہاں سیاحوں کے لئے بہت سی سہولتیں موجودہیں۔ متعدد جدید ہوٹل ہیں جن سے باہر دریا اور علاقے کے مناظر بہت حسین اور دل کش معلوم ہوتے ہیں۔ آمد و رفت کا ذریعہ منگورہ سے ویگن، بس اور فلائنگ کوچ سروس ہے۔ یہاں تک سڑک پختہ اور رسائی آسان ہے۔ ٹیلی فون کی سہولت موجود ہے اور ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز آسانی سے مِل سکتی ہے۔[/align:5cca50b808]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:81893b7ea3]شام کے وقت بحرین کا منظر بہت سُہانا اور رومان پرور ہو جاتا ہے۔ وادی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاتے ہوئے ایک عجیب طرح کی لطافت، اُمنگ اور رومانوی جذبے سے سرشاری کا نازک احساس اُمڈ آتا ہے۔ سرد ہوا کے خوش گوار جھونکے، پانی کی لہروں کی نغمگی اور آبشاروں کا پُر لطف شور ہلکی ہلکی روح پرور موسیقی کو جنم دیتا ہے جس سے انسان پر مدہوشی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ نیم تاریکی میں ڈوبی ہوئی وادئ بحرین شام کے وقت یورپ کے کسی پُر رونق اور حسین بازار کی طرح دکھائی دیتی ہے کیوں کہ اس وقت پیدل چلنے والے سیاحوں کی گروہ در گروہ ٹولیاں بحرین کے بازار اور اس سے ملحقہ باہر کالام کی طرف جاتی ہوئی سڑک پر دور تک پیدل گھومتی پھرتی ہیں جس سے بحرین میں رونق اور رنگ وبُو کا ایک حسین سماں بندھ جاتا ہے۔
بحرین سے بارہ میل کے فاصلے پر ایک اور دل کش مقام کولالئی ہے جو سطح سمندر سے تقریباً 5000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ جگہ بہت حسین اور پُر سکون ہے۔ یہاں دریاکے کنارے ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس ہے جس سے اردگرد پہاڑوں اور دریائے سوات کا منظر بہت دل فریب اور سحر انگیز نظر آتا ہے۔ قدرت نے یہاں کے مناظر کو بہت سُرور، رعنائی اور دل کشی بخشی ہے جس کی وجہ سے یہاں آکر انسان خود کو جنت کی ایک حسین وادی میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سیر و تفریح کی بہترین جگہیں مانکیال، پشمال، شیلہ در، ارین، شگئی اور لگن ہیں۔جہاں سیر کے لئے پیدل جایا جا سکتا ہے۔ بحرین کے قریبی پہاڑ بھی سیر کے لئے دل کش تفریح گاہوں کا سامان مہیا کرتے ہیں۔علاوہ ازیں بحرین کے قریب برلبِ سڑک واقع’’شِفا‘‘ نامی چشمہ بہت مشہور ہے۔ مقامی لوگوں کی روایت ہے کہ اس چشمے کا پانی کئی قسم کی بیماریوں کے لئے شِفا ہے۔
بحرین میں کئی مقامات پر دریائے سوات اور درال ندی پر لکڑی اور رسیوں کے معلق پُل بنے ہوئے ہیں۔ صحت بخش آب و ہوا کی وجہ سے یہ جگہ بہترین تفریح گاہ تصور کی جاتی ہے۔ اس لئے سوات کے دیگر تفریحی علاقوں کی نسبت یہاں سیاحوں کا ہجوم اور رونق زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔ رنگ برنگ لباسوں میں ملبوس سیاح بحرین کے پُر رونق بازار میں مختلف اشیاء کی خریداری کرتے نظر آتے ہیں۔[/align:81893b7ea3]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:c28ebaff3c]یہاں ہینڈی کرافٹس اور دیگر دُکانوں میں سیاحوں کی دلچسپی کی بہت سی اشیاء اور ان کے ذوق کے مطابق طرح طرح کے تحفے تحائف ملتے ہیں۔ جن میں سواتی کمبل، نمدہ، شال، کُرتے، ٹی کوزی سیٹ، شولڈر بیگ، ہینڈ بیگ، کُشن، ریڈی میڈ سوٹ، زری کی ٹوپی اور دیگر سواتی مصنوعات شامل ہیں۔ یہاں کا خاص تحفہ سیاہ زیرہ اور خالص قدرتی شہد ہے۔
یہاں کے لوگ بہت وضع دار اور انسان دوست ہیں۔ مہمانوں کی عزت کو مقدم سمجھتے ہیں۔ مذہب کے معاملے میںبہت سخت(مسلمان) ہیں۔ یہاں کے باشندے تاریخ کے نامور اور مجاہد بزرگ میاں قاسم بابا کی تبلیغی مہم کے نتیجہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔مخصوص علاقائی تہذیب و ثقافت پر عمل پیرا یہ لوگ بہت سادہ اور خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں۔[/align:c28ebaff3c]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
درال ڈنڈ (جھیل)
[align=justify:10582be857]وادئ بحرین کی مغربی سمت کوہِ ہندوکش سلسلے کی چوٹیوں کی اوٹ میں وادئ سوات کی ایک حسین جھیل ’’درال ڈنڈ‘‘ واقع ہے۔ اس ڈنڈ (جھیل) سے نکلی ہوئی’’درال ندی‘‘ کا صاف و شفاف پانی جب بپھری ہوئی موجوں کی شکل میں بحرین پُل کے نیچے دریائے سوات کے ساتھ جا ملتا ہے تو فضا میں ایک طرح کی نغمگی اور موسیقی بِکھر جاتی ہے۔ پُل پر سے درال ندی اور دریائے سوات کا خوب صورت ملاپ بہت حسین اور طلسماتی لگتا ہے۔ درال ڈنڈ بہت ہی دل کش اور رعنائی سے بھرپور جگہ ہے۔ اس کی بے پناہ خوب صورتی کی وجہ سے اس کے متعلق بہت سی دیو مالائی اور ناقابلِ یقین کہانیاں مشہور ہیں۔ اس جگہ کے ساتھ جنوں اور پریوں کی روایتی کہانیاں بھی منسوب کی گئیںہیں۔ درال ندی اور دریائے سوات کی ملاپ والی جگہ اگر کوئی انسان یا گاڑی ڈوب جائے تو اس کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔
درال جھیل برف میں ڈوبا ہوا فلک بوس چوٹیوں کے درمیان ایک بڑی گلیشیئر کا پانی جمع ہونے سے وجود میں آئی ہے جس کا پانی سردیوں میں جم جاتا ہے اور موسمِ گرما میں اِسی پانی سے درال اور دریائے پنج کوڑہ(دیر) ٹھاٹھیں مارنے لگتے ہیں۔دریائے درال، بحرین پہنچ کر دریائے سوات میں ضم ہو جاتا ہے جب کہ دریائے پنج کوڑہ دوسری جانب ضلع دیر کی طرف جا نکلتا ہے اور 112 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد یہ بھی دریائے سوات کے ساتھ مل جاتا ہے۔ اس جھیل تک رسائی پیدل راستے کے ذریعے بحرین سے دریائے درال کے ساتھ پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت میں قریباً20گھنٹے کا طویل سفر طے کرکے ممکن ہے۔ جھیل تک پہنچنے کا ایک اور راستہ سخرہ نامی خوب صورت مقام سے بھی جاتا ہے جو نسبتاً بحرین والے راستے سے آسان ہے، تاہم حکومت نے حال ہی میں بحرین بازار سے آگے کچھ فاصلے پر اس تک پختہ سڑک کی تعمیر شروع کی ہے جس میں ابھی تک صرف 6 کلومیٹر کی سڑک بن چکی ہے۔ اگر درال جھیل تک پختہ سڑک کی تعمیر مکمل ہوئی تو یقیناً بحرین کی سیاحتی افادیت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا کیوں کہ درال جھیل از حد خوب صورت اورطلسماتی ہے، تاہم اب بھی پیدل راستہ کے ذریعے یہ جھیل مہم جُو اور ہائیکنگ کے شوقین افراد کے لئے بہت ہی پُر کشش ہے جو اپنی وسعت اور گہرائی کے لحاظ سے نہایت دل کش ،خوب صورت اورپُر ہیبت ہے۔ درال ندی کے ساتھ ساتھ حال ہی میں جو چھ کلومیٹر کی پختہ سڑک تعمیر کی گئی ہے، اس کے آخری سرے پر سیر و تفریح کی بہترین دل چسپیاں موجود ہیں۔ یہاں کا موسم گرمیوں میں بھی قدرے سرد رہتا ہے اور ندی پر بنا ہوا رسیوں کا پُل یہاں کے حُسن و رعنائی میں اضافے کا باعث ہے۔[/align:10582be857]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:7df58431ab]بحرین ہی سے قریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بجاٹ نامی آبشار تک پیدل راستہ کے ذریعے جایا جا سکتاہے۔ راستے میں کئی خوب صورت بستیاں آتی ہیں جن میں لگن اور داریل قابلِ ذکر ہیں۔ یہاں کے مناظر خوب صورتی اور رعنائی کے لحاظ سے ناقابلِ فراموش ہیں۔ حسن ولطافت کی اس وادی میں ایک پُر سکون حُسن پھیلا ہوا ہے۔ خوب صورت باغات اور لہلہاتے کھیت یہاں کی دل کشی اور خوب صورتی میں بے نظیر اضافہ کرتے ہیں۔ پچاس فٹ کی بلندی سے آبشار کی صورت میں نیچے گرتا ہوا پانی نہایت دل پزیر اور فرحت انگیز منظر پیش کرتا ہے جو ایک چھوٹی سی جھیل کی شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ بحرین آنے والے سیاحن اکثر اس حسین آبشار کا نظارہ کرنے ضرور جاتے ہیں۔
آبشارسے بھی درال جھیل تک پہنچنا ممکن ہے لیکن یہ راستہ بعض مقامات پر آسان اوربیشتر جگہوں پر انتہائی خطرناک، ڈھلوانی اور تنگ گھاٹیوں پر مشتمل ہے۔ راستے میں حدِ نگاہ تک گھنے جنگلات پھیلے ہوئے ہیں جن میںدرندے بھی پائے جاتے ہیں۔مسلسل چڑھائی پر مشتمل صبر آزما اور طویل تھکا دینے والا سفر اگرچہ مشکل ضرور ہے مگر شائقینِ فطرت کے لئے بہت پُرکشش اور دل چسپ ہے۔ دریا کے کنارے جگہ جگہ قدرتی چشمے اور کئی چھوٹی جھیلیں مناظرِ فطرت کے آفاقی حُسن کو مزید سُرورانگیز بنا دیتی ہیں۔ جھیل تک پہنچنے کے لئے انفرادی سفر کی بجائے اجتماعی سفر کو ترجیح دینی چاہئے کیوں کہ راستہ سنسان اور طویل ہے۔ اس لئے اپنے ساتھ چند دنوں کے کھانے پینے کی اشیاء اور شب بسری کے لئے خیمے اور سردی سے بچاؤ کے لئے گرم کپڑے بھی ساتھ لے جانے چاہئیں۔ اگر یہ مہم کسی تجربہ کار گائیڈ کی معیت میں سر کی جائے تو راستے کی مشکلات میں کمی آسکتی ہے ۔بحرین سے مناسب نرخ پر مزدور(قُلی) اور گائیڈ مل سکتے ہیں۔ جھیل کے فطری حسن و جمال سے لطف اندوز ہونے کے لئے جون، جولائی اور اگست کا وقت موزوں ترین ہے۔ یہاں پہنچ کر بِلا شُبہ فطرت کے حسن و شباب سے دل کو سُرور اور دماغ کو فرحت و تازگی کا ایک لازوال احساس ملتا ہے۔[/align:7df58431ab]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
سیدگئی ڈنڈ (جھیل)
[align=justify:4b84379e9d]سیدگئی جھیل، سوات کی ان حسین و جمیل اور دل کش جھیلوں میں سے ہے، جو طویل پیدل مسافت اور قدرے مشکل راستہ کے باوجود سیاحوں کے لئے نہایت کشش رکھتی ہے۔ طلسماتی خوب صورتی کی حامل، سیدگئی جھیل جانے کے لئے سوات کے ایک مشہور قصبہ مٹہ سے روانہ ہوکر پہلے ’’مانڈل ڈاگ‘‘ نامی مقام تک پہنچنا پڑتا ہے، پھر وہاں سے ’’گام سیر‘‘ اور ’’چاڑما‘‘ کے خوب صورت مقامات سے ہوتے ہوئے ’’سُلاتنڑ‘‘ کے دل کش گاؤں تک جایا جاتا ہے جہاں سے آگے ’’سیدگئی جھیل‘‘ تک پورا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ مٹہ سے سلاتنڑ تک سڑک کی حالت بعض جگہوں میں اچھی ہے لیکن بیشتر مقامات پر سڑک بہت خستہ اور کچی حالت میں ہے یہی وجہ ہے کہ سلاتنڑ تک فور وہیکل ڈرائیو یا جیپ کے ذریعے ہی پہنچنا ممکن ہے۔ سلاتنڑ سے جھیل سیدگئی تک قریباً آٹھ گھنٹے کا پیدل سفر ہے۔
سیدگئی جھیل تک پہنچنے کا دوسرا اور قدرے آسان راستہ باغ ڈھیرئ کے قریب واقع سوات کے ایک حسین مقام ’’ لالکو‘‘ سے بھی گیا ہے جو سلاتنڑ والے راستہ سے مختصر اور آسان ہے۔
سلاتنڑ پہاڑوں سے گھرا ہوا ایک دل کش مقام ہے جس کے قرب وجوار کے پہاڑوں میں گھنے جنگلات کے طویل سلسلے ہیں۔ سلاتنڑ میںبڑے بڑے سلیپروں کے ڈھیر نظر آتے ہیں جو حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے بارش کے پانی سے بوسیدہ ہو رہے ہیں۔ بہت سے گرے ہوئے قیمتی درخت بوسیدہ ہو چکے ہیں اور اس قیمتی دولت کومحفوظ کرکے کام میں لانے والا کوئی نہیں۔ سلاتنڑ میں ندی کے سنگ سفر کرتے ہوئے بہت سے دل کش اور دلآویز مقامات آتے ہیں جہاں قدم قدم پر خوش رنگ جنگلی پھول اور قدرتی مناظر دل ودماغ کو فرحت دیتے ہیں۔ بہت سی پہاڑی چوٹیوں کو سر کرتے ہوئے اور دل کش و حسین سبزہ زاروں اور گھنے جنگلات سے ہوتے ہوئے سیدگئی جھیل پہنچنا ممکن ہے۔ جھیل پر جوں ہی اچانک نگاہ پڑتی ہے تو آنکھیں اس کے حسن و دل کشی سے خیرہ ہو جاتی ہیں۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ پہاڑوں کے اوپر قدرت نے کس قدر حسین و دل کش اور وسیع و عریض جھیل اُبھاری ہے۔ سیدگئی جھیل کے پہاڑی سلسلہ کو ’’سپین سر‘‘ یعنی سفید چوٹی بھی کہا جاتا ہے۔[/align:4b84379e9d]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:51a9c76c6d]سیدگئی جھیل تک جانے والا بیشتر راستہ برف سے ڈھکا ہوا ہے اور بعض مقامات پر تو برف اتنی زیادہ ہے کہ چلنے میں دُشواری محسوس ہوتی ہے۔ راستے میں کئی چھوٹی جھیلیںبھی آتی ہیں جن میں ’’کنگروجھیل‘‘ قابل ذکر ہے۔ یہ چھوٹی سی جھیل پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اور اس کا نیلگوں پانی نہایت طراوت بخش محسوس ہوتا ہے۔
سیدگئی جھیل بلند پہاڑوں کی چوٹیوں کے درمیان بنے ہوئے ایک قدرتی میدان میں واقع ہے جو قریباً 3 یا 4 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس کا صاف و شفاف نیلگوں پانی دُور سے اپنے سحر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جھیل کے اطراف میں ہر طرف سپید برف کی چادر بچھی ہوئی ہے اور اس کے قرب میں بلند و بالا چوٹیوں پر پڑی ہوئی برف، سورج کی روشنی میں قوس و قزح کا ایک روح پرور منظر پیش کرتی ہے۔
یہ جھیل ضلع سوات اور ضلع دیر کی پہاڑی سرحد پر واقع ہے ۔ اگرچہ یہ جھیل سوات کی حدود میں ہے لیکن اس کا پانی ’’درئہ عشیری‘‘ کے راستے دیر کے دریائے پنج کوڑہ میں جا شامل ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ دریائے پنج کوڑہ کا اصل منبع یہ عظیم الشان جھیل ہے۔
سیدگئی جھیل سے ایک راستہ درال جھیل اور گبینہ جبہ تک بھی چلا گیا ہے جو قدرتی حسن ورعنائی سے مالا مال علاقے ہیں ۔ جہاں فطرت اپنے اصل رنگ ورپ میں ہے اور جن
کی طلسماتی خوب صورتی سحر زدہ کردیتی ہے۔
سیدگئی جھیل تک جانے کے لئے کھانے پینے کی اشیاء اور گرم کپڑے ضرور ساتھ لینے چاہئیے۔ کیوں کہ اس مقام تک پہنچتے ہوئے راستے میں کم از کم ایک رات ضرور بسر کرنی پڑتی ہے۔ یہ رات راستے میں آنے والے بانڈوں(دیہاتوں) میں بسر کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں مقامی لوگ بہت تعاون کرنے والے ہیں۔ جھیل تک پہنچنے کی مہم گروپ کی شکل میں طے کرلینی چاہئے اور اپنے ساتھ مقامی گائیڈ ضرور لے جانا چاہئے ورنہ راستہ میں بھٹکنے کا امکان ہے۔ جھیل کی سیاحت کے لئے موزوں وقت جولائی کے آخر سے لے کر ستمبر کے آخر تک ہے۔
سیدگئی جھیل جتنی خوب صورت ہے، اس سے کہیں زیادہ خوب صورتی اس تک جانے والے راستہ میں بکھری ہوئی ہے۔ جھیل تک جانے والا راستہ جتنا مشکل ہے، اتنا ہی حسین اور پُر لطف بھی ہے۔ قدرت نے جتنی خوب صورتی وادئ سوات کے اس گوشے کو بخش دی ہے، اگر یہاں تک پختہ سڑک کی تعمیر ممکن ہو جائے تو یہاں آنے والے سیاح بِلا مبالغہ سوئٹزرلینڈ کو بھی بُھول جائیں گے۔[/align:51a9c76c6d]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
کالام
[align=justify:294c502233]قدرت کی بے پناہ نیرنگیوں سے معمور وادئ کالام سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے 96 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال کی جانب واقع ہے۔یہ پختہ سڑک کے ذریعے منگورہ سے ملی ہوئی ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 6886 فٹ ہے اور اس کی آبادی قریباً 50 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں کی بلند ترین چوٹی فلک سیر کہلاتی ہے۔ جو چو بیس ہزار فٹ بلند ہے۔ یہ بلند پہاڑ سوات اور چترال کے درمیان ایک طرح کی قدرتی حد بندی بھی ہے۔ کالام کی سرحدیں دیر، چترال، گلگت، تانگیر اور انڈس کوہستان سے ملی ہوئی ہیں۔
کالام کی وجۂ تسمیہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ہزاروں سال قبل یہاں ایک خاندان آباد تھا جس کا نام ’’کال‘‘ بیان کیا جاتا ہے۔ کوہستانی زبان میں ’’لام‘‘ گاؤں کوکہتے ہیں۔ اس وجہ سے اس علاقے کا نام ’’کالام‘‘ یعنی ’’کال کا گاؤں‘‘ رکھا گیا۔ کال کی نسل کے لوگ آج بھی کالام میں موجود ہیں اور انہیں ’’کالام خیل‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
کالام جدیدسیاحتی سہولتوںاوراپنی بے انتہا خوب صورتی کی وجہ سے سیاحوں کے لئے بڑی کشش رکھتا ہے۔ یہاں کے خوب صورت بازار میں سینکڑوں دُکانیں ضروریاتِ زندگی کی تمام تر سہولتوں سے آراستہ ہیں۔ منگورہ کے جنرل بس سٹینڈ سے کالام تک ہر وقت ویگن، فلائنگ کوچ اور ٹیکسی گاڑیاں چلتی ہیں۔ کالام جاتے ہوئے راستے میں دوسرے خوب صورت مقامات مدین اور بحرین آتے ہیں جن سے آگے بڑھتے ہوئے سارے راستے پر پُر شور دریائے سوات کے سنگ سنگ سفر کرکے کالام پہنچا جا سکتا ہے۔ سیاحوں کے ٹھہرنے کے لئے کالام میں بہت سے خوب صورت اور پُر آسائش ہوٹل ہیں۔ سینکڑوں ہوٹلوں کی موجودگی کی وجہ سے کالام کو اگر ہوٹلوں کا شہر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کالام جانے کے لئے بہترین موسم مئی سے اکتوبر تک ہے جب کہ نئے بیاہتے جوڑوں کے لئے ماہ ستمبر سے اکتوبرکے آخر تک کا وقت آئیڈیل ہے۔
کالام سے پہاڑی راستوں کے ذریعے پیدل، براستہ اتروڑ دیر کوہستان اور کندیا کوہستان سے براستہ اشلوگا ہوتے ہوئے تانگیر، داریل، گلگت اور چترال تک بھی جایا جا سکتا ہے جن پر زمانۂ قدیم میں مشہور سیاح ہیون سانگ اور فاہیان بھی گزرے تھے۔[/align:294c502233]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:f9327803c9]کالام کے چاروں طرف بلند و بالا پہاڑوں کے لامتناہی سلسلے ہیں جن کے بیچ میں وادئ کالام دلہن کے ماتھے پر سجے خوب صورت جھومر کا منظر پیش کرتی ہے۔ رنگ برنگ قدرتی پھولوں کے تختے ،اخروٹ اور سیب کے جھومتے ہوئے درخت اور مکئی کے لہلہاتے کھیت خوب صورت منظر کشی کو جنم دیتے ہیں۔ دریا کا مد بھرا شور اور دھوپ کی تمازت میں چاندی کی مانند چمکتی برف، سب مل کر انسان کو مسحور کر دیتے ہیں اور دل کو ٹھنڈک اور دماغ کو فرحت و سرور بخش دیتے ہیں۔
یہ علاقہ دریائے سوات کے کنارے کنارے فطری مناظر کے لحاظ سے کاغان سے بہت زیادہ خوب صورت اور میدانوں کی شادابی کی وجہ سے کشمیر ثانی ہے۔ یہاں قدرتی جھیلیں ہیں، دریائے سوات سے ہر سُو نکلے ہوئے ندی نالے ہیں، سرسبز کھیتوں میں جا بجا خوب صورت پھول کِھلے ہوئے ہوتے ہیں، پہاڑوں پر برف کی رنگا رنگ چٹانیں نظر آتی ہیں، جن میں طرح طرح کے پھول اور پھلوں کے درخت و پودے ہیں۔ دور سے پہاڑوں پر برف کے چھوٹے چھوٹے گلیشیئرز کا سہانا منظر اور مانکیال پہاڑ کی 18750 فٹ بلند چوٹی پر سورج کا طلوع و غروب ہونا، رات کی خاموشی اور ستاروں کا جھرمٹ کالام کے وجدانی مناظر ہیں۔ گرمیوں میں یہاں مون سون ہواؤں کے اثرات نہیں ہوتے جس کے باعث یہاں کا موسم خشک اور معتدل رہتا ہے۔خاص کالام کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ دن کے وقت یہاں تیز ہوائیں چلتی ہیں اور شام کے وقت یہ ہوائیں رک جاتی ہیں۔ لہٰذا دن کے وقت گرمی اور رات کو زیادہ سردی کا قطعی احساس نہیں ہوتا۔
وادئ کالام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ زیریں وادی اور بالائی وادی زیریں وادی دریائے سوات کے دائیں طرف واقع ہے، جہاں کالام کا قدیم گاؤں آباد ہے کچے پکے مکان جن میں لکڑی کاکام نمایاں نظر آتا ہے، قدیم وجدید کا حسین امتزاج پیش کرتے ہیں۔ دریائے سوات کے بائیں طرف ایک پُر رونق بازار ہے جس میں ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز باآسانی ملتی ہے۔ بازار میں ہروقت ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا جمِ غفیر موجود رہتا ہے۔[/align:f9327803c9]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:ca0d2884e5]دریائے سوات کے دائیں کنارے پر ایک قدیم مسجد ہے جس کی تعمیر میں زیادہ تر بھاری بھرکم لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ اس کے مضبوط اور بڑے بڑے دیوہیکل شہتیر صدیوں پُرانے ہیں۔ یہ مسجد کافی بڑی ہے جس میں علاقے کے لوگ اور دُور درازسے آئے ہوئے مہمان سیاح نماز ادا کرتے ہیں۔باہر کے لوگوں کے لئے یہ مسجد نماز کے علاوہ اپنی منفرد طرزِ تعمیر اور غیر معمولی قدامت کی وجہ سے بھی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔
بالائی کالام دریائے سوات کے بائیں جانب ریت کے اونچے ڈھلوانی ٹیلوں کے اوپر ’’فلک سیر‘‘ پہاڑ کے دامن میں ایک بڑے میدان میں واقع ہے۔ جہاں جدید تعمیرات نے کالام کی خوب صورتی میں مزید اضافہکیا ہے۔ بالائی کالام میں ہر قسم کے سرکاری دفاتر، پولیس سٹیشن، ٹیلی فون ایکسچینج، ہسپتال، تحصیل ہیڈ کوارٹر اور دیگر جدید عمارتیں واقع ہیں۔ یہاںکی رنگ برنگ جدید عمارتیں عجیب طرح کی سرخوشی کا باعث بنتی ہیں۔یہاں پر واقع تمام ہوٹل ہر طرح کی جدید سہولتوں سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔ بالائی کالام میں پی ٹی ڈی سی موٹل اور فرنٹئیرہاؤس اپنی خوب صورت عمارتوں اور سرور افزاء ماحول کی وجہ سے دیکھنے کے قابل ہیں۔ بالائی کالام کو ’’کس‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہاں سے زیریں کالام کانظارہ بہت دل کش، پرکیف اور جاذب نظر ہے۔
دریا کی دوسری طرف دریا سے نکلی ہوئی چھوٹی چھوٹی نہروں پر چارپائیاں اور میز و کرسیاں رکھ دی گئی ہیں جن پر سیاح ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے کھانا کھاتے اور چائے پیتے نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں بہت رونق اور گہما گہمی ہوتی ہے۔ یہیں پر دریا کے عین کنارے ایک وسیع رقبے میں سیاح دن کے وقت مختلف سرگرمیوں میں منہمک نظر آتے ہیں۔ اس جگہ کو ’’مینا بازار‘‘ کہا جاتا ہے۔ دن کے وقت اپنے بچھڑے ہوئے ساتھیوں کو یہیں پر تلاش کیا جاسکتا ہے۔
زیریں کالام کا ایک حسین منظر اس وادی کے دو دریاؤں کا پُر کشش سنگم ہے۔یہاں دریائے اُتروڑ اور دریائے اُوشو آکر ملتے ہیں اس کے علاوہ قدرتی چشمے اور جھرنے بھی اس مقام پر آکر ملتے ہیں۔ دریائے سوات کا تندوتیز سلسلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔کالام کا پانی بہت سرد اور ہاتھوں کو سُن کر دینے والا ہے۔ یہاں ٹراؤٹ مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں جو لذت اور تازگی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ محکمۂ ماہی پروری کے متعلقہ اہل کاروں کی اجازت سے یہاں ٹراؤٹ مچھلیوں کا شکار بھی کیا جا سکتا ہے۔[/align:ca0d2884e5]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:7fbc537c2c]یہاں تین بڑے قبیلے قابل ذکر ہیں جو درہ خیل، نیلور اور جافلور کے ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں کالام میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں اور اس معاملے میں کالام کو مختلف علاقائی زبانوں کا گڑھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہاں داشوی، گاؤری، توروالی، قاش قاری، اُشوجی، تانگیری، گوجری اور پشتو زبانیں بولی جاتی ہیں۔ قومی زبان اردوبھی یہاں عام بولی اور سمجھی جاتی ہے اور جب مختلف زبانیں بولنے والے ملکی اور غیر ملکی مہمان سیاح یہاں آکر اپنی اپنی زبانیں بولتے ہیں تو یہاں پر زبانوں کے بین الاقوامی میلہ لگنے کا سا گمان ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے یہاں آکر انسان ایک نئی تہذیب اور ثقافت سے آشنا ہو جاتاہے۔
اس علاقہ کے لوگ ڈھیلے ڈھالے روایتی لباس زیب تن کرتے ہیں جن میں خوب صورت اور مخصوص قسم کی گل کاری سے مزین لباس اور چاندی کے روایتی زیور میں ملبوس خواتین انسان کو قدیم زمانے کی یاد دلاتی ہیں لیکن سیاحوں کی افراط کی وجہ سے یہ روایات اب ماضی کا قصہ بنتی جا رہی ہیں۔
کالام برف پوش چوٹیوں، گھنے چیڑودیار کے جنگلوں، بنفشہ، سیب، زیرہ اور مختلف پھلوں اور پھولوں کی ایک دل کش جلوہ گاہ ہے۔ یہاں دیار،فر، سپروس اور کائل کے درخت عام ہیں۔ یہاں بڑی بڑی چراگاہیں بھی ہیں جن میں موسم گرما میں بھیڑ بکریاں چرائی جاتی ہیں۔ یہ بھیڑ بکریاں خانہ بدوش لوگوں کی ہوتی ہیں جنہیں اجڑ اور گوجر کہتے ہیں۔ تاہم مویشیوں کی زیادتی اور ان کی خوراک کی کمی کے باعث دوسرے مقامی لوگ بھی اپنے مال مویشی موسمِ گرما کے اوائل میں ان چراگاہوں میں لے جاتے ہیں اور موسمِ سرما کے شروع میں واپس لے آتے ہیں۔ یہاں قیمتی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں جو باٹنی(Botany) کے ماہرین کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ اگر اس سلسلے میںتحقیق کا آغازکیا جائے تو بہت سی ایسی قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں ہاتھ آسکتی ہیں جو مختلف دوائیوں اور دیگر مفید کاموں میں مستعمل ہو کر انسانیت کی فلاح و بہبود کا موجب بن سکتی ہیں۔
کالام خاص سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر گھنے جنگلا ت کا ایک وسیع سلسلہ ہے جس میں سورج کی روشنی بمشکل چھن چھن کر آتی ہے۔ اِن وسیع و عریض جنگلات میں شاہ بلوط، شیشم، صنوبر اور اخروٹ کے درخت عام ہیں۔جنگلات کا یہ سلسلہ اوشو اور مٹلتان تک پھیلا ہواہے۔
کالام میں کھیتی باڑی کا پیشہ عام ہے۔ یہاں کی پیداوار میں آلو،سیب اور اخروٹ خصوصی طور پرقابلِ ذکر ہیں۔ آلو تو اتنا زیادہ پیدا ہوتا ہے کہ اُسے پاکستان کے تمام علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔ پھلوں میں یہاں کے سیب بہت زیادہ مشہور ہیں جو اپنی مِٹھاس اور لذت میں منفرد ہیں۔
شہد اور تازہ پھل، کالام میں کڑھے ہوئے ملبوسات، شالیں، چاندی کے ظروف، ہاتھ کے بنے ہوئے کھیس، چادریں اور لکڑی کی منقش اشیاء یہاں کے خاص تحفے ہیں۔[/align:7fbc537c2c]
٭٭٭​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top