سوات، سیاحوں کی جنت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سندباد

لائبریرین
فضاگٹ پارک
[align=justify:8c372a1460]منگورہ کے مشرق کی طرف مدین، بحرین روڈ پر ’’فضا گٹ‘‘ کے مقام پر ایک خوب صورت پارک واقع ہے۔ یہ پارک بلدیہ منگورہ کے سابق چیئرمین اور سوات کی مشہور سیاسی و سماجی شخصیت ملک بیرم خان کے متنوع ذہن کی تخلیق ہے جو دل کشی، رعنائی اور فطری مناظر کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ اُسے باقاعدہ پارک کی شکل 1984ء میں دی گئی۔یہ پارک قدرت کی بے پناہ رنگینیوں کا مظہر ہے اور دریائے سوات کے عین کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ اس کے دونوں جانب دریائے سوات سے نکلی ہوئی شفاف ندیاں رواں دواں ہیں جن کے بیچ میں پارک از حدخوب صورت اور پُر کیف منظر پیش کرتا ہے۔ ہرطرف سبزہ ہی سبزہ ہے اور حسین پھول خوشبو بکھیرتے نظر آتے ہیں۔
فضا گٹ کا پُرانا نام ’’قضا گٹ‘‘ ہے ۔ پشتو میں ’’قضا‘‘ موت اور’’گٹ‘‘ چٹان کو کہتے ہیں یعنی موت والی چٹان۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ریاستِ سوات کے قیام سے پہلے دریائے سوات کے کنارے کوئی سڑک نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ دریائے کے ساتھ واقع بلند پہاڑ کی چوٹی پر سفر کرکے بالائی سوات سے منگورہ اور منگورہ سے بالائی سوات جایا کرتے تھے۔ راستہ بڑا پُر پیچ اور تنگ تھا، پاؤں کی معمولی سی لغزش سے آدمی سینکڑوں فٹ بلندی سے نیچے گر کر دریائے سوات کی تند و تیز لہروں کا شکار ہو جاتا، اس لئے لوگ اُسے قضا گٹ کے نام سے پکارنے لگے۔ فضا گٹ کا پُرانا نام ’’کومبڑ‘‘ بھی ہے جب کہ اسے ’’فرنجل‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
مِنگورہ سے فضا گٹ جاتے ہوئے پارک سے پہلے سڑک کی دوسری جانب سوات(منگورہ)کی مشہور زمردکی کان نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ راستے میں دریائے سوات سے نکلی ہوئی ندی کے سنگ سنگ، جدید آبادی کے خوب صورت بنگلے اور ان سے متصل سرسبز و شاداب کھیت بڑی دل آویزی اوررعنائی کا باعث ہیں۔[/align:8c372a1460]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:3149f725be]فضا گٹ پارک میں ایک بڑی سی قدرتی چٹان ہے جس کے اُوپر کافی کھلی اور ہموار جگہ ہے۔جس سے دریائے سوات اور ارد گرد کے مناظر بہت رومان پرور اور نشاط انگیز دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں بچوں اور بڑوں کی تفریح طبع کے لئے کئی طرح کی دل چسپیاں فراہم کی گئی ہیں جس کے باعث یہاں ہر وقت ملکی و غیر ملکی سیاحوں اور مقامی لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
یہاں دریائے سوات کے کنارے جگہ جگہ چھوٹی کشتیاں( جن کو منفرد مقامی ہئیت کی وجہ سے پشتو میں ’’جالہ‘‘ کہا جاتاہے) سیاحوں کو دریا کی سیر کراتی نظر آتی ہیں جو دریا کی زورآور موجوں پر ہچکولے کھاتی ہوئی عجب سرشاری اور انبساط انگیزی کا موجب بنتی ہیں۔ پارک سے ذرا ہٹ کر دریائے سوات کے اُوپر دو مختلف جگہوں پر چیئر لفٹ کی طرز پر رسیوں سے چلنے والی ڈولیاں( جنہیں پشتو میں ’’زانگوٹی‘‘ اور انگریزی میں ’’ریور لفٹ‘‘ کہا جاتا ہے) لگی ہوئی ہیں جوبہ یک وقت چھ سواریوں کو دریا کے ایک کنارے سے دوسرے سرے پر پہنچا دیتی ہیں۔ ان چیئر لفٹس کی مضبوط رسیوں کو سوزوکی پک اپ کے انجن سے منسلک کیا گیا ہے اور باقاعدہ ایکسی لیٹر کے ذریعے ان کی رفتار بڑھائی اور گھٹائی جا سکتی ہے۔ چیئرلفٹس کو بریک کے ذریعے بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہ ڈولی نما چیئر لفٹس دریا کے دوسرے کنارے پر واقع مختلف دیہات کے مکینوں کی آمد و رفت کا سہل ذریعہ ہیں لیکن گرمیوں میں زیادہ تر باہر سے آئے ہوئے سیاح ان کے ذریعے دریائے سوات کا نظارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
فضا گٹ کا پورا علاقہ پانچ کلومیٹر پر محیط ہے ۔گرمیوں میں معتدل موسم کی وجہ سے یہاں کئی خوب صورت ہوٹل تعمیر کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں چند ریسٹ ہاؤس بھی ہیں جن میں آرمی ریسٹ ہاؤس، پولیس ریسٹ ہاؤس اور زمرد ریسٹ ہاؤس قابل ذکرہیں۔ یہاں دریائے سوات میں مقامی مچھیرے سوات کی لذیذ مچھلیاں پکڑکر منگورہ شہر کو فراہم کرتے ہیں۔
فضا گٹ پارک، مناظرِ فطرت اور دریائے سوات سے نکلی ہوئی ندیوں میں چاروں اطراف سے کچھ اس طرح گھرا ہواہے کہ یہ ملک بھر کا منفرد اور حسین ترین پارک بن سکتا ہے کیوں کہ اس کے ساتھ سرسبز و شاداب اور لہلہاتے ہوئے کھیتو ں کی شکل میں بہت سا میدانی علاقہ موجود ہے جو پارک میںباآسانی ضم کیا جا سکتا ہے۔ یہ پارک پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ قریبی پہاڑ کافی بلند ہیں اور خوب صورتی سے سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ اس لئے اگر یہاں ملم جبہ اور ایوبیہ کی طرح چیئر لفٹس لگوائی جائیں تو پارک کی اہمیت اور خو ب صورتی میںمزید اضافہ ہو سکتا ہے۔[/align:3149f725be]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
پانڑ، دنگرام، جامبیل، کوکارئ
[align=justify:8031856d2d]منگورہ میں حاجی بابا روڈ پر جنوب کی طرف سرسبز و شاداب کھیتوں کے درمیان ایک پختہ سڑک پانڑ، دنگرام، جامبیل اور کوکارئ تک چلی گئی ہے۔ پانڑ سے کوکارئ تک پورا علاقہ نہایت خوب صورت اور سرسبز و شاداب ہے۔ چاروں طرف بلند پہاڑ اور حدِ نظر تک سبزے کی بچھی دل موہ لینے والی چادر آنکھوں کو طراوت بخشتی ہے۔
پانڑ کا مقام کھلا کھلا سا اور میدانی ہے لیکن پانڑ سے آگے کی جانب بڑھتے ہوئے پورا علاقہ قدرے تنگ وادی کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ دنگرام سے آگے ’’جامبیل‘‘ اور ’’کوکارئ‘‘ بلند پہاڑوں کے عین وسط میں واقع ہیںاور یہاں سردی کے موسم میں کافی برف پڑتی ہے جس کی وجہ سے گرمی میں بھی یہاں کا موسم معتدل اور خوش گوار محسوس ہوتاہے۔ جامبیل تک سڑک پختہ حالت میں ہے لیکن آگے چند کلومیٹر تک سڑک کچی حالت میں ہے۔ جامبیل کے جنوبی پہاڑوں کے پار ضلع بونیر کا وسیع اور خوب صورت علاقہ واقع ہے جہاں مشہور روحانی بزرگ پیر بابا کا مزار مرجع خلائقِ عام ہے۔ حکومت نے جامبیل میں چنار کے مقام سے ضلع بونیر تک سڑک کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے جس پر اب تک کافی کام ہوا ہے۔ اس سڑک کی تکمیل سے بونیر کے قادر نگر اور پیر بابا تک کم وقت میں پہنچنا ممکن ہو جائے گا اور اس سے نہ صرف سوات آنے والے سیاحوں کے لئے کم وقت میں بونیر کے خوب صورت علاقوں کی سیاحت کرنا ممکن ہو جائے گی بلکہ اس طرح پیر بابا سے منگورہ تک آمد و رفت کے لئے کڑاکڑ کے طویل اور پُر پیچ راستے کی بجائے جامبیل کے مختصر اور آسان راستے کو استعمال کرنا ممکن ہو جائے گا جس سے وقت کی کافی بچت ہوگی۔
جامبیل اور کوکارئ کے پہاڑ ٹریکنگ اور کیمپنگ کے لئے نہایت موزوں اور محفوظ ہیں۔ اب بھی ٹریکنگ کے شوقین افراد پیدل پہاڑی راستے کے ذریعے کوکارئ کے چنار نامی مقام سے قادر نگر(پیربابا) تک پیدل جاتے رہتے ہیں اور راستے میں خوب صورت مناظر سے لطف اندوزبھی ہوتے ہیں۔[/align:8031856d2d]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:51efbce0d8]پانڑ اور دنگرام کو آثارِ قدیمہ کی وجہ سے غیر معمولی شہرت اور اہمیت حاصل ہے۔ پانڑ اور دنگرام میں ہزاروں سال قدیم زمانے سے تعلق رکھنے والے آثار وسیع رقبے میں ظاہر ہوئے ہیں جوبُدھ مت سے تعلق رکھتے ہیں او ر ان سے علاقے کی قدیم تہذیبی، سماجی اور مذہبی ترقی اور عروج کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پانڑ میں مختلف صنعتیں بھی قائم ہیں اور یہاں ایک ماڈل ٹاؤن کے لئے وسیع و عریض اراضی بھی منتخب کر لی گئی ہے جس پر عنقریب کام کا آغازہو جائے گا۔ پانڑ میں ملاکنڈ ڈویژن کا سب سے بڑا ٹیکنیکل ادارہ گورنمنٹ پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ اور ایک ٹیکنیکل کالج بھی واقع ہے جن میں سینکڑوں طالب علم فنی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔[/align:51efbce0d8]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
کانجو، علی گرام، کبل،
شاہ ڈھیرئ،ٹال، دردیال

[align=justify:a842446e49]منگورہ کی حدود ایوب برج پار کرکے ختم ہو جاتی ہیں۔ جہاں سے دریائے سوات کے پار کانجو کی حدود شروع ہو جاتی ہیں۔ کانجو چوک میں دائیں طرف سڑک ائیرپورٹ، ننگولئی، مٹہ، باغ ڈھیرئی اور لالکو تک چلی گئی ہے جو سوات کے نہایت خوب صورت اور دل کش مقامات ہیں۔ با غ ڈھیرئ میں دریائے سوات کے اوپر ایک خوب صورت پل بنا ہواہے، جس کو پار کرکے مدین، بحرین، کالام تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کانجو چوک کے بائیں جانب جانے والی سڑک پر ہوتے ہوئے سب سے پہلے آپ دل کش قدرتی مناظر سے لبریز کانجو ٹاؤن شپ پہنچیں گے جو پہاڑوں سے گھرا ہوا میلوں پر محیط خوب صورت ہموار قطعۂ اراضی ہے۔ جہاں ایک عظیم الشان رہائشی منصوبہ زیر تعمیرہے۔
کانجو ٹاؤن شپ سے کچھ فاصلہ پر ایک تاریخی مقام علی گرام واقع ہے۔ جہاں 1400 قبل مسیح کے قدیم آثار دریافت ہوئے ہیں۔ ان قدیم آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک قدیم بستی تھی جس میں بعض مقامات پر پہاڑوں کو کاٹ کر رہائش گاہیں تعمیر کی گئی تھیں۔ یہاں سے برآمد شدہ مٹی کے نفیس برتن اور دیگر اشیاء سوات کے دیگر آثار قدیمہ سے برآمد ہونے والے برتنوں اور اشیاء سے قدرے عمدہ اور ترقی یافتہ ہیں۔ یہاں کے آثار بدھ مت سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ان آثار کا تعلق بدھ دور سے قبل کے زمانے سے معلوم ہوتا ہے۔
کبل ، علی گرام سے دو کلومیٹر اور منگورہ سے 12کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک صاف ستھرا قصبہ ہے جس کا کچھ حصہ دریائے سوات کے کنارے آبادہے۔ کبل کا مقام گاف (Golf)کے خوب صورت اور دل کش گراؤنڈ کی وجہ سے پورے ملک میں بہت مشہور ہے۔ اس گاف گراؤنڈ میں کھیلنے کے لئے ماضی کے کئی حکمران باقاعدگی سے آتے تھے۔ گاف کا یہ میدان18 سوراخوں پر مشتمل ہے۔ یہاں ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس اور وسیع باغ بھی ہے جو ہر قسم کے پھلوں اور پھولوں سے لدا پھندا ہے۔
کبل چوک میں ایک راستہ مغرب کی طرف بری کوٹ اور چک درہ کی طرف بھی چلا گیا ہے جب کہ کبل کے قریب ’’توتانو بانڈئ ‘‘نامی مقام سے ایک سڑک خوب صورت اور حسین مناظر سے گھرے ہوئے مقامات سے گزرتے ہوئے ضلع دیر تک چلی گئی ہے۔
کبل کے بعد اگلا اہم گاؤں شاہ ڈھیرئی ہے۔ جہاں مشہور چائنا کلے کے ذخائر اور کارخانہ واقع ہے۔ شاہ ڈھیرئی سے سوات کے دو اور حسین و جمیل مقامات ٹال اور دردیال تک بھی جایا جا سکتا ہے جوحسین قدرتی مناظر سے مملو ہیں۔ لیکن یہاں سیاحتی سہولتیںموجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں تک سیاح بہت کم جاتے ہیں۔[/align:a842446e49]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
ملم جبہ
[align=justify:2741931a37]ملم جبّہ سوات کے سیاحتی مراکز میں منفرد خصوصیات کی حامل ایک جدید تفریح گاہ ہے۔ یہ پُرکشش اور قابلِ دید علاقہ دل کشی اور شادابی کا حسین مرقع ہے۔ ملم جبہ سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے شمال مغرب کی طرف 42 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ منگلور پُل کے قریب اس کا راستہ مدین، بحرین کے راستے سے الگ ہو جاتا ہے۔ اس کی مضبوط اور پختہ سڑک میں داخل ہوتے ہی انسان کو ایک خوش گوار کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ اس کی سڑک کے ایک طرف سرسبز پہاڑ، درخت اور دوسری جانب ایک چھوٹی سی ندی بہتی ہے جس میں پڑے ہوئے بڑے بڑے دیو ہیکل پتھر جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ اس ندی کا ماخذ گڈ اور جبہ نامی قدرتی چشمے ہیں۔ یہ ندی ملم جبہ کے قریب ’’سپینہ اُوبہ‘‘ نامی مقام سے شروع ہوکر سڑک کے ساتھ ساتھ بہتی ہوئی منگلور گاؤں کے قریب دریائے سوات میں شامل ہو جاتی ہے۔
ملم جبہ جاتے ہوئے راستے میں جہان آباد، تلے گرام، سیر، کشورہ، سپینہ اوبہ، گناجیر، کو، ملم اور جبہ جیسے علاقے آتے ہیں۔ ان میں تلے گرام ایک تاریخی جگہ ہے۔ یہاں پرآثار قدیمہ بھی ہیں۔ یہاں سڑک کے عین سامنے ننگریال نامی بلند وبالا پہاڑ پر وسیع علاقے میں آثار قدیمہ موجود ہیں جوبدھ مت کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں اور آثار قدیمہ سے شغف رکھنے والے سیاحوں کی دلچسپی اور لطف اندوزی کاایک بہت دل چسپ ذریعہ ہیں۔
ملم جبہ دو علاحدہ الفاظ کا مجموعہ ہے۔ ملم اور جبہ ملم الگ علاقہ اور جبہ الگ۔ لیکن دونوں علاقے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اس لئے دونوں کو یکجا ملم جبہ کہا جاتاہے۔ ملم جبہ مری کی طرح پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 9500 فٹ ہے اور اس کا رقبہ 250 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ گاڑی میں ملم جبہ کی طرف اُوپر چڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے انسان آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو۔ سیر نامی گاؤں سے آگے ساری سڑک پُر پیچ، دشوار گزار اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ سڑک کے نیچے بڑی بڑی گھاٹیاں مُنہ کھولے کھڑی ہیں لیکن یہ گہری گھاٹیاں دیکھ کر انسان کو خوف اور گھبراہٹ کی بجائے خوش گواری اور لطف کا احساس ہوتا ہے۔[/align:2741931a37]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:61a7f1820f]بعض جگہوں پر مسلسل چڑھائی زیادہ دشوار گزار، طویل اور تھکا دینے والے سفر کی وجہ سے بوریت اور اُکتاہٹ کا احساس بھی ہوتا ہے، تاہم ملم جبہ کے قریب پہنچتے ہی ٹھنڈی ٹھنڈی مدہوش اورمُعّطر ہوائیں سیاحوں کا استقبال کر تی ہیں۔ ملم جبہ کی سڑک بہت پختہ اور مضبوط ہے لیکن کہیں کہیں اس کے تنگ ہونے کا احساس شدت سے ہوتا ہے۔ اس لئے ڈرائیونگ میں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے۔ حکومت اگر یہ سڑک کشادہ کردے تو اس طرح ملم جبہ کی سیاحتی افادیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
ملم جبہ دسمبر سے ماہِ مارچ تک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ اس عرصہ میں یہاں12سے16 فٹ تک برف پڑتی ہے ۔ہلکی برفباری تو اپریل کے مہینے تک جاری رہتی ہے۔یہاں کا درجۂ حرارت سردیوں میںمنفی پانچ سے10 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جبکہ موسم گرما میں درجۂ حرارت دس سے پچیس ڈگری رہتا ہے۔
ملم جبہ سرسبز پہاڑوں اور دل کش مناظر کی وجہ سے خوب صورت اور پُر فضا مقام ہے۔ گرمیوں میں یہاں موسم بہت خوش گوار اور قدرے سرد ہوتا ہے۔ لیکن یہاں فراواں پانی کی قلت بہت محسوس ہوتی ہے جس کے باعث ملم جبہ کاحُسن دریا اور آبشار نہ ہونے کی وجہ سے مزید نکھرنے سے رہ گیا ہے، تاہم پہاڑوں پر پڑی ہوئی برف کے پگھلنے سے چھوٹے چھوٹے نالوں کے ذریعے صاف و شفاف پانی نشیب کی طرف بہتا ہے جس سے سیاحوں کے پانی کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ پہاڑوں کے اوپر اور پہاڑوں کے دامن میں جگہ جگہ میٹھے پانی کے گن گناتے چشمے موجود ہیں لیکن ان تک رسائی ذرا مشکل ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں قریب پڑی ہوئی برف سیاحوں کی دلچسپی اور لطف اندوزی کا ایک بہت دل چسپ ذریعہ ہے۔ سیاح پہاڑ پر چڑھ کر بہت آسانی سے برف تک پہنچ سکتے ہیں اور قدرت کا یہ اَن مول تحفہ اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ قدرتی برف کھاتے ہوئے بہت لطف محسوس ہوتا ہے اور خاص کر جب اسے گلاس میں ڈال کر اس کے ساتھ دودھ اور گُڑ یا چینی ملاکر کھایا جائے تو اس کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔
ملم جبہ کے قرب وجوار میں جنگلات وسیع قطعہ ء اراضی پرپھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں جگہ جگہ عجیب طرح کے خوب صورت پھول کھلے ہوئے ہیں۔ ملم جبہ مجموعی طور پراوپر تلے ڈھلانوں پر مشتمل ہے جس میں جگہ جگہ سیاحوں کے لئے پک نک منانے کے لئے قدرتی ہموار چمن زار موجود ہیں۔[/align:61a7f1820f]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:01a98955ff]کچھ عرصہ قبل ملم جبہ ایک غیر معروف سا علاقہ تھا لیکن حکومت نے اس تفریح گاہ کی ترقی کی جانب بھرپور توجہ دی اور اب یہ علاقہ سیاحتی طور پر ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔ حکومت پاکستان نے آسٹریا کی حکومت کے تعاون سے یہاں ایک جدید تفریحی منصوبہ مکمل کیا ہے جس سے یہاں کے قدرتی حسن میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت 52 کمروں پر مشتمل جدید طرز کا ایک عظیم الشان ہوٹل تعمیر کیا گیا ہے جس میں اِن ڈور اور آؤٹ ڈور گیمز کھیلنے کی سہولتیں فراہم کی گئیں ہیں۔ ’’اس کی انگ‘‘ یعنی برفانی کھیل یہاں پاکستان میں پہلی مرتبہ متعارف کیا جا رہا ہے۔ یہاں ’’اس کی اِنگ‘‘ کے لئے کھیل کا مخصوص ڈھلان باآسانی بنایاگیاہے جس کے تحت ’’ اس کی انگ‘‘ سے دلچسپی رکھنے والے سیاح جنوری سے مارچ تک یہاں آکر اس کھیل سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔
ہوٹل کے عین سامنے ایک خوب صورت چیئرلفٹ لگائی گئی ہے۔ لفٹ کے ہرکیبن میں دو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ جنہیں لفٹ ہوٹل کے قریب نشیبی حصہ سے ایک یا ڈیڑھ فرلانگ کی بلندی پر واقع چوٹی تک لے جاکر واپس لے آتی ہے۔
حکومت آسٹریا کے تعاون سے یہاں وسیع رقبے پر ایک قدرتی جنگل میں جنگلی جانورپالنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے جس سے قدرتی ماحول میں ہر قسم کے جانور پالے جائیں گے۔ علاوہ ازیںبجلی کی سہولت یہاں موجود ہے اور بجلی فیل ہوجانے کی صورت میں موجود دو جنریٹر بجلی پیدا کرتے ہیں ۔
ملم جبہ پروجیکٹ اپنی نوعیت کا واحد سیاحتی منصوبہ ہے جس پر 12 کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے جس میں تین کروڑ روپے کا زرمبادلہ بھی شامل ہے۔ اس پروجیکٹ پر 1980ء میں کام شروع ہوا۔ 1985ء میں پاکستان ٹورازم کی تحویل میں اس کے کام میں تیزی لائی گئی اور آخر کار1989ء کے اوائل میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس منصوبے کے تحت ملم جبہ میں سیاحوں کے لئے ہر قسم کی سہولتیں مہیا کی جارہی ہیں۔
ملم جبہ اور اس کے آس پاس کے علاقوںمیں اعلیٰ نسل کا چکور بھی پایا جاتاہے۔ سیب اور ناشپاتی یہاں کے اہم پھل ہیں۔ گندم، پیاز، آلواور ٹماٹریہاں کی عام فصلیں ہیں۔
ماسوائے ایک فور سٹار ہوٹل کے یہاں سیاحت کے لئے دوسری بنیادی ضرورتیںعنقا ہیں۔ اپنی فطری خوب صورتی اور حسین مناظر کی کشش کی وجہ سے یہ خوب صورت علاقہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ اگر چند ہوٹل، ریسٹورنٹ، ڈسپنسری اور روزانہ استعمال کی اشیاء کے لئے مارکیٹ وغیرہ کا اضافہ کیا جائے تو اس طرح یہ علاقہ مزید سیاحتی اہمیت حاصل کرجائے گا۔ جس سے یہاں کے غریب اور پس ماندہ باسیوں کا معیار زندگی بدلنے میں بھی خوش گوار رتبدیلی آجائے گی ۔
یہاں رات بسر کرنے کے لئے کوئی عام ہوٹل موجود نہیں ہے۔ شام کے وقت جلد واپسی کا سفر شروع کرکے رات بسرکرنے کے لئے منگورہ لوٹ جانا چاہئے۔[/align:01a98955ff]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
گلی باغ

[align=justify:2a650c50c5]گلی باغ وادئ سوات کا ایک نہایت حسین اور دل کش مقام ہیجو منگورہ سے قریباً 12 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سوات کے کنارے پر واقع ہے۔ گلی باغ میں ڈھلوانی سطح پرسڑک کے موڑسے دریائے سوات اور اس کے قرب وجوارمیںحسین سبزہ زار پھولوں سے لدے پھندے باغات اور سرسبز لہلہاتے کھیت دل و دماغ کو تازگی اور آسودگی کا ایک سُرور افزا احساس بخش دیتے ہیں۔ یہاں سیاحوں کے لئے قیام و طعام کی کوئی سہولت موجود نہیں تاہم مدین، بحرین اور کالام جانے والے سیاح یہاں کے حسین مناظر دیکھ کر کچھ دیر کے لئے بے اختیار رُک جاتے ہیں۔
گلی باغ میں آسٹریا حکومت کے تعاون سے ایک بڑا سیاحتی منصوبہ ’’ٹورازم اینڈ ہوٹل مینجمنٹ‘‘ کے نام سے شروع کیا گیاہے جوتکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ برلبِ سڑک حسین و دل کش مناظر کے جلو میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ جس پر ایک اندازے کے مطابق چار ملین ڈالر لاگت آئے گی۔ جس کے تحت یہاں ہر سال قریباً چھ سو افراد کو ہوٹلنگ اور سیاحت سے متعلقہ شعبوں میں تربیت دی جائے گی۔ یہ ایشیاء بھر میں اپنی نوعیت و اہمیت کے لحاظ سے منفرد منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے ملک عزیز میں سیاحت کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوگا۔[/align:2a650c50c5]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
خوازہ خیلہ،شین،
فتح پور، باغ ڈھیرئ
[align=justify:83e5e875d3]خوازہ خیلہ وادئ سوات کا ایک اہم تجارتی قصبہ ہے جومنگورہ سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ قصبہ دریائے سوات کے کنارے واقع ہے اور یہاں سیاحوں کی دلچسپی کے لئے کئی خوب صورت مقامات ہیں جن میں ’’گیمن پُل‘‘ کے قرب کا علاقہ قدرتی نظاروں اور کیپمنگ کے لئے موزوں و مناسب ہے۔ یہاں کے خوب صورت بازار میں سیاحوں کے لئے بنیادی ضرورت کی تمام جدید اشیاء باآسانی ملتی ہیں۔
خوازہ خیلہ میں سڑک تین حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک سڑک مشرق میں شانگلہ کی جانب جاتی ہے اور بشام کے قریب شاہراہِ ریشم سے مل جاتی ہے۔ دوسری سڑک شمال کی طرف سیدھی مدین اور بحرین کی جانب گئی ہے جب کہ تیسری سڑک مغرب کی طرف گیمن پُل کے ذریعے’’ مٹہ‘‘ کی طرف لے جاتی ہے۔
خوازہ خیلہ سے آگے بڑھتے ہوئے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک نہایت خوب صورت مقام’’شین‘‘ واقع ہے جس کے ایک طرف سرسبز و شاداب پہاڑ سر اُٹھائے کھڑے ہیں اور دوسری جانب دریائے سوات خاموشی سے بِہ رہا ہے۔ یوں تو دل کشی میں یہ پورا گاؤں ہی اپنی مثا ل آپ ہے لیکن دریا کے کنارے پر واقع گاؤں کا مغربی حصہ نہایت دل فریب اور خوب صورت ہے جہاں بڑی بڑی چٹانوں سے ٹکراتا ہوا دریائے سوات اس کی قدرتی خوب صورتی اور دل کشی میں اضافہ کرتاہے۔ دریا کے پار، شین کے عین سامنے ’’دُرش خیلہ‘‘ کا خوب صورت اور زرخیز علاقہ ہے جہاں سیب،املوک اور شفتالو(آڑو) کے وسیع باغات ہیں۔ میلوں وسیع ان باغات کے پھلوں سے ملک کوہر سال کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔
شین گاؤں دو حصوں میںمنقسم ہے ایک سم شین(میدانی علاقہ) اور دوسرا غر شین( پہاڑی علاقہ) دونوں حصوں میںبہت سے قدرتی چشمے ہیں جن کا شیریںٹھنڈا پانی مختلف قسم کی صحت بخش پہاڑی جڑی بوٹیوں سے کشید ہو کر نہایت روح افزا اور سرور افزا بن جاتاہے۔ یہاں کے مختصر بازار میں سیاحوں کے لئے ضروری سہولتیں دستیاب ہیں۔[/align:83e5e875d3]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:04accf5902]نیرنگئیِ قدرت سے گھرِے ہوئے اس مقام پر اکثر وبیشتر سیروتفریح کے لئے آئے ہوئے گھرانوں اور سیاحوں کی ٹولیاں یہاں کے قدرتی حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ دریا کے اُوپر رسیوں سے بنا ہوا ایک پُل ہے، جس پرکھڑے ہو کر دریائے سوات کا نظارہ بہت ہی بھلا معلوم ہوتا ہے۔
شین سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر آگے بڑھئے تو ایک اور نہایت حسین و جمیل تفریحی مقام ’’باغ ڈھیرئ‘‘ واقع ہے۔ جو سیاحوں کے لئے نہایت کشش اورجاذبیت کا حامل ہے۔ یہاں دریائے سوات انتہائی زور و شور کے ساتھ جھاگ اُڑاتا ہوا بہ رہا ہے۔ باغ ڈھیرئی میں سیاحوں کے لئے تفریحی سہولتیں اور دلچسپیاں موجود ہیں۔ دریا کے اُوپر بنائے گئے کننگھم پُل سے قرب و جوار کے نظارے بے حد طمانیت اورمسرت کاباعث بنتے ہیں۔ یہ پل سرجارج کننگھم کے نام سے موسوم ہے۔ وادئ سوات کا یہ گوشہ بہت پُرسکون ہے اور شہری زندگی کی آلائشوں اور ہنگاموں سے تھکے ہوئے لوگوں کے لئے نہایت سکون بخش ہے۔یہاں دو خوب صورت ہوٹل ہیں جن میں سیاحوں کے لئے جدید سیاحتی سہولتیں موجود ہیں۔ یہاں دریائے سوات کے کنارے کیمپنگ کی جا سکتی ہے اور محکمۂ ماہی پروری کے متعلقہ اہلکاروں سے اجازت لے کر یہاں مچھلی کا شکار بھی کیا جا سکتا ہے۔
باغ ڈھیرئ سے قریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ’’فتح پور‘‘ نامی ایک اور دل کش مقام آتا ہے جہاں کے مختصر بازارمیں سیاحوں کے لئے بنیادی سیاحتی سہولتیں دستیاب ہیں۔ یہ دل کش گاؤں دریائے سوات کے عین کنارے آباد ہونے کی وجہ سے نہایت خوب صورت اور دل کش ہے۔ دریا کے کنارے پرواقع اس کا مغربی حصہ سیر وسیاحت اور کیمپنگ کیلئے نہایت موزوں ہے۔ یہاں دریامیں مچھلی کا شکار بھی کیا جا سکتا ہے۔[/align:04accf5902]

٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
شانگلہ
(الپورئ،لیلونئی، کروڑہ،بشام، یخ تنگے)

[align=justify:9789f252d5]ضلع بونیر کی طرح شانگلہ بھی ایک سب ڈویژن کی حیثیت سے ضلع سوات کا ایک حصہ تھا لیکن جون 1995ء میں اُسے ایک الگ ضلع کی حیثیت دے دی گئی اور جولائی 1995ء میں باقاعدہ طور پر ڈپٹی کمشنر نے یہاں کے انتظامی اُمور کا چارج سنبھال لیا لیکن تاریخی طور پر ضلع شانگلہ اب بھی سوات کا ایک حصہ ہے اور اس کے عوام خود کوسوات سے تاریخی، جغرافیائی اور معاشرتی طور پر الگ نہیں سمجھتے۔ منگورہ سے شانگلہ کا فاصلہ 54 کلومیٹر ہے۔
شانگلہ ازحد خوب صورت علاقہ ہے لیکن سیاحتی طور پر سیاحوں کی نظروں سے اوجھل چلا آرہا ہے کیوں کہ یہاں نہ تو سیاحوں کیلئے بنیادی سہولتیں موجود ہیں اور نہ ہی اس کے خوب صورت مقامات تک پختہ سڑکیں ہیں۔ شانگلہ تک پہنچنے کے لئے خوازہ خیلہ تک مدین،بحرین روڈ پر ہی سفر کرنا پڑتا ہے، تاہم خوازہ خیلہ کے مقام پر ایک سڑک سیدھی مدین بحرین اور کالام تک چلی گئی ہے جبکہ دوسری پختہ سڑک پہاڑی راستہ پر مشرق کی جانب شانگلہ ٹاپ تک اُوپر ہی اُوپر موڑ در موڑ چلی جاتی ہے۔ اس کے بعد ڈھلان شروع ہوکر’’الپورئ‘‘ کے مقام پر ختم ہو جاتی ہے۔ الپورئ ضلع شانگلہ کا صدر مقام ہے اور ایک حسین و جمیل قصبہ ہے جس کے طویل بازار میں زندگی کی بنیادی ضرورت کی تمام اشیاء باآسانی مل سکتی ہیں۔یہاں ایک ڈگری کالج،ہسپتال، ہائی سکول، ٹیلی فون ایکس چینج اور ضلعی دفاتر ہیں۔ پشتو زبان کے مشہور صوفی شاعر حافظ الپورئ کا مزار بھی یہیں پر واقع ہے۔خاص الپورئ میں سیاحوں کے لئے دلچسپی کے خاص مواقع نہیں ہیں تاہم اس کے قرب و جوار میں سیاحوں کے لئے بہت سی دلچسپیاں موجود ہیں۔ اردگرد کے پہاڑوں میں خوب صورت دشت ہیں جن میں قدرتی چشمے اور دل کش آبشار شائقین فطرت کے لئے دل رُبائی اور تسکین کا باعث بنتے ہیں۔ الپورئ کے قریب ’’لیلونئی‘‘ کے نام کا ایک خوب صورت اور پُر کشش مقام ہے جو دل کشی میں سوات کے دیگر حسین اور صحت افزا مقامات سے کسی طور پر کم نہیں ہے۔[/align:9789f252d5]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:0a430f19e5]الپورئ سے آگے ’’کروڑہ‘‘ کے قریب سڑک پھر تین حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ یہ جنوباً چکیسر اور مارتونگ تک چلی گئی ہے جہاں مشہور تاریخی پہاڑ پیر سر واقع ہے جوسکندر اعظم کی گزرگاہ رہ چکا ہے۔شمالاً شاہ پور، داموڑئ اور اجمیر تک اور مشرق کی جانب یہ سڑک بشام جاکر شاہراہِ ریشم کے ساتھ مل گئی ہے۔ وادئ سوات آنے والے اکثر سیاح سوات کی دل فریب ذیلی وادیوں کی سیر و سیاحت کے بعد واپسی میں ملاکنڈ کے راستے کی بجائے شانگلہ سے ہوتے ہوئے بشام میں شاہراہِ ریشم کے راستے ایبٹ آباد نکل جاتے ہیں اور اس طرح وہ کم وقت اور کم خرچ میں ہزارہ ڈویژن کی خوب صورت وادیاں بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ہزارہ میں مانسہرہ سے براستہ بالاکوٹ،کاغان ویلی اور گڑھی حبیب اللہ سے مظفر آباد (آزاد کشمیر) اور پھر ایبٹ آباد سے نتھیا گلی،ایوبیہ اور مری بھی جایا جا سکتا ہے۔
بشام ضلع شانگلہ کا ایک خوب صورت اور دل کش علاقہ ہے جو منگورہ سے 97 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں سے ایک راستہ ایبٹ آباد اور دوسرا راستہ گلگت اور خنجر اب کی طرف چلا گیا ہے۔ یہاں پر آپ تاریخی دریا’’اباسین‘‘ کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں اور بشام کے قرب وجوار میں بکھری خوب صورتیوں سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ ضلع شانگلہ کے مذکورہ مقامات قدرتی حُسن و جمال سے مالامال ہیں لیکن سیاحتی سہولتوں کے فقدان اور بعض جگہوں پر سڑکوں کی خراب حالت کے باعث یہ علاقے سیاحوں کی نگاہوں سے اُوجھل ہیں۔ تاہم بشام میں سیاحوں کی سہولت کے لئے درمیانہ درجہ کے متعدد ہوٹل موجود ہیں اور یہاں پی ٹی ڈی سی کا ریسٹ ہاؤس بھی ہے۔
الپورئ سے پہلے بورڈ نامی مقام آتا ہے جہاں سے ایک سڑک سیدھی الپورئ تک پہنچاتی ہے جبکہ دوسری سڑک جنوب کی طرف یخ تنگے کی جانب مڑ گئی ہے۔اس سڑک پر آپ جوںہی قدم رکھیں گے، وہاب خیل کوٹکے کے قریب ایک خوب صورت آبشار آپ کو دعوتِ نظارہ دیتی نظر آئے گی۔ وہاب خیل کوٹکے ایک چھوٹا سا خوب صورت گاؤں ہے جس کی آبادی تین ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہاں کے قدرتی مناظر دل موہ لینے والے ہیں۔ اس مقام سے قریباً پانچ کلومیٹر آگے ملک خیل کوٹکے کے نام سے ایک بڑا گاؤں آتا ہے۔ بلند وبالا حسین پربتوں سے گھرا ہوا یہ مقام بہت خوب صورت ہے۔ اس کے بیچ میں ندی بہِ رہی ہے جواس مقام کے حُسن کو اور بھی دل فریب بنا دیتی ہے۔[/align:0a430f19e5]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:ac77d97e6f]ملک خیل کوٹکے کی آبادی 7000 نفوس پر مشتمل ہے جس کے زیادہ تر مکانات پہاڑوں کے اوپر واقع ہیں جو دُور سے بڑے دلآویز نظر آتے ہیں۔ یہاں ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے جس میں یہاں کے مکینوں کے لئے بنیادی ضرورت کی اشیاء ملتی ہیں، سیاحتی سہولتوں کے لحاظ سے یہ مقام خاصا پس ماندہ ہے۔ یہاں سیاحوں کے قیام کے لئے کوئی ہوٹل ہے اور نہ ہی طعام کا معیاری انتظام موجود ہے اس لئے وہاں جاتے ہوئے اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء ضرور لے جانی چاہئیں۔ یہاں ایک ہائی سکول، ٹیلی فون ایکس چینج اور پولیس چوکی بھی موجود ہے۔
یہاں ’’مشک بالا‘‘ کے نام سے ایک قیمتی جڑی بوٹی پہاڑوں میں بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے، جسے یہاں کے لوگ جنگل سے لاکر مکانوں کی چھتوں پر خُشک ہونے کے لئے رکھ دیتے ہیں اور پھر اُسے شہری علاقوں میں فروخت کے لئے لے جاتے ہیں جہاں انہیں اس کے اچھے خاصے دام مل جاتے ہیں۔مشک بالا کی تیز اور مخصوص خوشبو انسان کوعجیب طرح کاخوش کن احساس دلاتی ہے۔ یہ جڑی بوٹی یونانی ادویہ میں بطورِ خاص استعمال کی جاتی ہے۔ حکومت کے متعلقہ محکمہ کے اعلیٰ حکام کو یہاں کے پہاڑوں میں پائی جانے والی جڑی بوٹیوں پر باقاعدہ تحقیق کرنی چاہئے اور انہیں ان کی مخصوص افادیت کے پیش نظر مختلف قسم کے متعلقہ امراض کے لئے دوائیوں میں استعمال میں لانا چاہئے۔ یہاں کی پیداوار میں اخروٹ، ناشپاتی، املوک، مکئی اور آلو وغیرہ شامل ہیں۔ اس پورے علاقے کو غوربند کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے(اس نام کا ایک علاقہ افغانستان میں بھی موجود ہے)
ضلع شانگلہ کا سب سے زیادہ حسین اور دل فریب مقام ’’یخ تنگے‘‘ جو ’’ملک خیل کوٹکے‘‘ سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یہ سیاحوں اور فطری مناظر کے شائقین کے لئے دنیاوی جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ سیاحوں کی نگاہوں سے پوشیدہ یہ مسحور کُن وادی مناظرِ فطرت اور حُسن و دل کشی کے لحاظ سے مدین، بحرین اور ملم جبہ جیسے صحت افزا مقامات سے کسی طرح کم نہیں، لیکن سیاحتی سہولتوں کے شدید فقدان کے باعث یہ خوب صورت مقام عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔ اس کے بلند و بالا پہاڑ اور رعنائی سے بھرپور مناظر مصروف شہری زندگی کے بکھیڑوں کے ستائے ہوئے لوگوں کے لئے ایک پُر سکون اور خاموش گوشۂ عافیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔[/align:ac77d97e6f]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:9dece32f30]یخ تنگے فر اور کائل کے خاموش اور مسحور کن جنگلات کی ڈھلوان پر واقع ہے۔ یہاں کی آبادی بہت ہی کم ہے۔ سیاحتی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم یخ تنگے ٹاپ میں ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس ہے جومحکمۂ جنگلات کے دائرئہ اختیار میں ہے اور اس میں رہائش کے لئے متعلقہ محکمے سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ یہ ریسٹ ہاؤس رہائش کی جدید سہولتوں سے آراستہ ہے اور اس کے چاروں طرف دل فریب مناظر کی صورت میں حسن و جمال بِکھرا ہوا ہے۔ اس کی چاروں جانب سربفلک چوٹیاں، سرسبز و شاداب کھیت اور بلند و بالا درخت اس کی دلآویزی اور حسین مناظر کی خوب صورتی کو درجۂ کمال تک پہنچانے کا باعث ہیں۔
منگورہ سے یخ تنگی کا فاصلہ 70 کلومیٹر ہے جبکہ ملم جبہ سے یخ تنگی کا پہاڑی فاصلہ قریباً گیارہ کلومیٹر بنتا ہے لیکن دونوں علاقوں کے درمیان بڑے بڑے پہاڑ حائل ہیں جس کی وجہ سے راستہ مشکل اور دشوار گزار ہے۔ ملم جبہ اور بازار کوٹ (یخ تنگے کے قریب واقع ایک خوبصورت مقام) کے درمیان اگر صرف سات کلومیٹر نئی سڑک بنائی جائے تو دونوں صحت افزا مقامات آسانی سے ایک د وسرے کے ساتھ مربوط ہو سکتے ہیں۔ جس سے نہ صرف ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو سُندر پربتوں کے درمیان گھری ہوئی دونوں دھنک رنگ وادیوں کے حُسن و جمال سے بہ یک وقت لطف اندوز ہونے کا سنہری موقع میسر آسکے گا بلکہ حکومت کوبھی درختوں کی کٹائی کے بعد لکڑی کی ترسیل میں آسانی میسر آسکے گی۔
یخ تنگے کے قرب وجوار کے پہاڑوں میں میلوں کے احاطے میں گھنے جنگلات پھیلے ہوئے ہیں جن کی کٹائی کاکام یخ تنگے ریسٹ ہاؤس کے اُوپر واقع پہاڑ میں جاری رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یخ تنگے میں جابجا بڑے بڑے گیل اور درختوں کے تنے پڑے نظر آتے ہیں۔ یہ جنگلات جس قدر بے دردی سے کاٹے جا رہے ہیں، اس سے یقینا اس علاقے کے حُسن اور آب و ہوا کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ متعلقہ حکام کو اس کمی کو پورا کرنے کے لئے نئی شجرکاری کرنی چاہئے، ورنہ یہ انمول دولت ایک دن بالکل ناپید ہوجائے گی۔حکومت اور محکمہ سیاحت اگر اس علاقے میں سیاحتی سہولتوں کی فراہمی پر توجہ دیں تو بہت کم عرصے میں یہ علاقہ سیاحوں کے لئے غیر معمولی کشش، دلچسپی اور نہایت شہرت کا حامل ثابت ہوسکتا ہے۔[/align:9dece32f30]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:eb80fb23fc]یخ تنگے کے قریب پہاڑوں سے پھوٹنے والا ایک قدرتی چشمہ واقع ہے جس کا پانی اس قدر ٹھنڈا ہے کہ اس میں ہاتھ کودو منٹ سے زیادہ دیر تک ڈبوئے رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ ٹھنڈا میٹھا چشمہ نہایت صحت بخش اور روح افزا ہے۔ اس کے لذت بخش پانی سے جی نہیں بھرتا اور انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا پانی مسلسل پیتا ہی چلا جائے۔ پورن (شانگلہ کا ایک اور خوب صورت علاقہ) تک جانے اور واپس منگورہ آنے والی گاڑیاں اس چشمہ پر ضرور رکتی ہیں۔ سواریاں چشمہ کے پانی سے لطف اندوز ہوتی ہیں اور کنڈیکٹر گاڑیوں کے گرم انجنوں میں یہ سرد پانی ڈال دیتے ہیں۔چوں کہ یہاں کے تمام پہاڑوں میں قیمتی و نایاب جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں اور یہ پانی جڑی بوٹیوں کی خاصیتیں بھی اپنے ساتھ کشیدکرکے شامل کرلیتا ہے، اس لئے یہ پانی بعض بیماریوں کے لئے شِفا کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ یخ تنگے جاکر اس مشہور چشمے کا پانی نہ پینا کفرانِ نعمت کے مترادف ہے۔
سردیوں میں یہاں خوب برف باری ہوتی ہے۔ لمبے لمبے دیوقامت درخت اور پہاڑ برف سے ڈھک جاتے ہیں اور ہر چیزبرف کی سپید چادر میں لپٹی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ علاقہ اپریل، مئی تک برف کی فرغل اوڑھے رہتا ہے تاہم جون، جولائی کے مہینوں میں یہ برف پگھل کر پانی کی صورت میں یہاں کی ندی اور چشموں میں شامل ہو جاتی ہے۔
یخ تنگے کی سیروسیاحت ایک دن میں بھی کی جا سکتی ہے اور یہ دن آپ یخ تنگے کے خوب صورت ریسٹ ہاؤس کے طراوت بخش سبزہ زاروں میں گزار سکتے ہیں۔ سبزہ زاروں میں ایک دن کی سیر کے لئے متعلقہ محکمہ سے پیشگی اجازت کی ضرورت نہیں لیکن چند دن کے قیام کے لئے یخ تنگے ریسٹ ہاؤس بُک کروا کر آپ حقیقی معنوں میں یہاں کے دھنک رنگ مناظر سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء کا مناسب ذخیرہ ضرور لے جائیے کیوں کہ یہاں ہوٹل نام کی کوئی شے آپ کونہیں ملے گی۔ ریسٹ ہاؤس میں چند دنوں کا قیام یقینا آپ کے لئے نہایت سکون بخش اور پُر کیف ثابت ہوگا۔
[/align:eb80fb23fc]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
میاں دم
[align=justify:a0ba5e557a]میاں دم وادئ سوات کی ایک سحر انگیز وادی ہے۔ یہ خوش رنگ و گُل رنگ وادی اپنے دل کش مناظر اور معتدل آب وہوا کی وجہ سے دل و دماغ کو فرحت و آسودگی کا احساس بخشتی ہے۔ خاص مقام ’’میاں دم‘‘ پہاڑوں کی چوٹیوں سے قدرے نیچے آباد ہے۔ جس کو ہل ٹاپ بھی کہا جاسکتا ہے۔
میاں دم، سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے 32 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس حسین اور پُر فضا سیاحتی مقام تک پہنچنے کے لئے منگورہ کے جنرل بس سٹینڈ سے فلائنگ کوچ اور پرائیویٹ ٹیکسی مل سکتی ہے۔ میاں دم تک پہنچنے کے لئے آپ دریائے سوات کے سنگ سنگ حسین و دل کش مناظر سے بھری ہوئی سڑک پر سفر کریں گے۔ فتح پور سے آگے فتح پور چوکی کے قریب یہ سڑک تین اطراف میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک سڑک مدین، بحرین اور کالام کی طرف چلی گئی ہے اور دوسری سڑک ، باغ ڈھیرئی کے راستے سوات کی دیگر حسین وادیوں روڈینگار،بہا،شکر درہ اور مٹہ وغیرہ کا رخ کرتی ہے جب کہ تیسری سڑک جس پر ہمیں آگے بڑھنا ہے، مشرق کی طرف خم کھا کر ہمیں میاں دم پہنچا دیتی ہے، جو فتح پور سے قریباً9 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ جگہ سطح سمندر سے 6000 فٹ بلند ہے۔ یہاں کی آبادی قریباً سات ہزار افراد پر مشتمل ہے۔
میاں دم کی حدود میں داخل ہوتے ہی ٹھنڈک اور عطر بیزی کا ایک پُر مسرت احساس رگ و پے میں دوڑ جاتا ہے۔ چڑھائی پر چڑھتے ہوئے جوں جوں آپ میاں دم کے قریب ہوتے جائیں گے۔ اس خوب صورت وادی اور اس کی خوب صورت عمارات کے دل رُبا مناظر آپ پر اپنا جلوہ ظاہر کرتے چلے جائیں گے۔ میاں دم میں داخل ہوتے ہی وادی میں مشرق کی جانب واقع سرسبز بیل بُوٹوں، گھنے سایہ دار درختوں اور افسانوی ماحول میں رچا بسا پی ٹی ڈی سی کا میاں دم ریسٹ ہاؤس آپ کو اپنی طرف متوجہ کرے گا۔[/align:a0ba5e557a]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:688c2e2fc7]پہلے پہل اس علاقے میں میاں دم کے نام سے کوئی جگہ موجود نہیں تھی۔ جو مقام اب میاں دم کہلاتا ہے، وہ یہاں کے دومشہور گاؤں گوجر کلے(گوجروخوڑ) اور سواتی کلے(سواتو خوڑ) کے مابین حدِ فاصل تھا۔ ایک بار یہاں پر سید خاندان کے ایک بزرگ تشریف لائے اور موجودہ بس اڈے کے قریب ایک مکان میں مقیم ہوگئے۔ وہ مختلف بیماریوں اور تکالیف میں مبتلا افراد کا علاج آیاتِ قرآنی کا دم کرکے کرنے لگے۔ اُن کا نام میاں عثمان باباجی تھا لیکن علاقے کے لوگ احتراماً انہیں میاں جی کہا کرتے تھے۔ میاں جی کے علاج کی شہرت اور تاثیر کے چرچے اس قدر ہوئے کہ رفتہ رفتہ یہ پورا علاقہ ہی ’’میاں دم‘‘ کہلانے لگا۔ یہاں تک کہ اس علاقے کے دوسرے مشہور مقامات بشمول گوجر کلے اور سواتی کلے بھی ’’میاں دم‘‘ کی مرکزی شناخت میں ضم ہو کر رہ گئے۔
جنگلات کی قیمتی دولت سے مالا مال، بلند و بالاپہاڑوں کے طویل سلسلوں کے دامن میں واقع، میاں دم کا پورا علاقہ نہایت صحت بخش، خوب صورت، پُرسکون اور دل کش ہے۔ سیاحوں کی رہائش کے لئے یہاں پر جدید ہوٹل، موٹل اور تین دل کش ریسٹ ہاؤس ہیں جوبہت آرام دہ اور صاف ستھرے ہیں۔ ریسٹ ہاؤسز میں گھنے درخت ، کھلے ہوئے حسین مہکتے پھول، ہر طرف سبزے کی بچھی ہوئی دل موہ لینے والی چادر اور تاحدِنظر پُر لطف نظارے، قابلِ رشک ماحول فراہم کرتے ہیں۔
میاں دم کا خوب صورت بازار قریباً دو درجن دُکانوں پرمشتمل ہے جہاں زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے علاوہ سیاحتی سہولتیں بھی فراواں ہیں۔ دست کاری کی دُکانوں میں قدیم و جدید طرز کی خوب صورت شالیں، روایتی سواتی کشیدہ کاری سے مزین ملبوسات، علاقے کے مخصوص چاندی کے زیورات، منقش لکڑی کا قدیم سامان اور دیگر مقامی مصنوعات سیاحوں کی دلچسپی کا مرکزبنی رہتی ہیں۔یہاں ٹیلی فون کی سہولت بھی موجودہے جس کے ذریعے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک فوراً ہی رابطہ کیا جا سکتاہے۔[/align:688c2e2fc7]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:ef0d900d9f]میاں دم کی طرف جاتے ہوئے راستے میں برہم پٹی، سینے، نرے تنگے اور خیر آباد کے مقامات آتے ہیں ان میں ’’سینے‘‘ تاریخی اعتبار سے اہم ہے کیوں کہ یہاں ایک طرف پہاڑوں میں قریباً دو ہزار سال پُرانے آثارِ قدیمہ ہیں۔ اس مقام سے وقتاً فوقتاً پکی مٹی کے بنے ہوئے قدیم برتن اور دیگر نوادرات برآمد ہوتے رہے ہیں۔’’سینے ‘‘کے پیچھے ایک پُرانا تاریخی چینہ (چشمہ) بھی ہے جو ’’شاہ توت چینہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا پانی پہاڑوں میں موجود بہت سی صحت بخش اور قیمتی جڑی بوٹیوں سے کشید ہوتا ہوا آتا ہے، اس لئے مٹھاس کے علاوہ یہ پانی اپنے اندر قدرتی طور پر شِفا بھی رکھتا ہے ۔
میاں دم کے آس پاس پہاڑی مقامات میں مُلا بانڈہ، شام سر اور کافر بانڈہ بھی کافی مشہور ہیں۔ واضح رہے کہ پشتو زبان میں’’بانڈہ‘‘ یا’’بانڈئ‘‘ کا مطلب گاؤں یا دیہات ہے۔ان تینوں میں ’’شام سر‘‘ کی شہرت زیادہ ہے۔ شام پرندے کے علاوہ یہاں کے جنگلوں میں مرغ زریں بھی پایا جاتا ہے نیز ریچھ، بندر، گیدڑوغیرہ بھی وافر ملتے ہیں۔
شام سر پہاڑ کے آخری حصے کے مغرب کی طرف سڑک کے کنارے پر ’’برہم پٹی ‘‘نامی گاؤں آباد ہے۔ یہ اور اِس کے ارد گرد کا علاقہ بدھ مت کے آثارسے مالا مال ہے۔ برہم پٹی سے مدین کی طرف جاتے ہوئے ٹانگو کے مقام پر سڑک سے نیچے مہاتما بُدھ کا ایک مجسمہ ہے۔ مجسمے کے دائیں ہاتھ میں ایک ٹہنی ہے جس کے کنارے پر ایک پُھول ہے۔ پھول مجسمے کے چہرے کی طرف جُھکا ہوا ہے اور دائیں ہاتھ ہی کی ایک انگلی پھول کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ لوگ اس مجسمے کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے دور دراز کے مقامات سے آتے ہیں۔ ٹانگو سے مدین تک پیدل بھی جایا جا سکتاہے۔
میاں دم کے چاروں طرف اونچے برف پوش پہاڑ سر اُٹھائے کھڑے ہیں۔ اس کی بائیں جانب چھوٹا سا گاؤں ’’گوجر کلے‘‘ سطح سمندر سے سات ہزار فٹ کی اُونچائی پر واقع ہے۔ اس کے عین سامنے ’’گنہگار پہاڑ‘‘ کا طویل برف پوش سلسلہ نظر آتاہے۔ جس کی صحیح وجہ تسمیہ تو معلوم نہیں،البتہ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ شاید کسی خطا کی پاداش میں یہ پہاڑ سارا سال برف تلے دبا رہتا ہے۔[/align:ef0d900d9f]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:d235221cf6]میاں دم کے عین وسط میں صاف وشفاف پانی کی دو ندیاں گن گناتے جھرنوں اور شور مچاتے آبشاروں کے ساتھ بہ رہی ہیں۔ ان ندیوں کا سرچشمہ، پہاڑی چوٹیوں پر مستقل جمی ہوئی برف ہے، جس میں مختلف پہاڑی چشمے بھی اپنا حصہ ڈال دیتے ہیں۔ دُور سے دیکھنے پر یہ برف، بادلوں اور سُورج کی شعاعوں کے حسین امتزاج سے نہایت خوب صورت اور دل آویز منظرکو جنم دیتی ہے۔ خاص کر شام کے ملگجے اندھیرے میں یہ رنگ و روپ مزید نکھر آتا ہے، جس کی وجہ سے پوری وادی پر ایک حسین و جمیل طلسماتی سرزمین کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ یہاں کا درجۂ حرارت جون جولائی کے مہینوں میں 30 سے زیادہ نہیں ہوتا۔
میاں دم کے پہاڑوں پر سرسبز و شاداب دشت واقع ہیں۔ تاہم سیاحوں کی وہاں تک رسائی ذرا مشکل ہے۔ اُن تک پہنچنے کے لئے دشوار گزار پہاڑوں پر چڑھنا پڑتا ہے۔ یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ سوات کی مشہور بشی گرام جھیل تک جانے کے لئے میاں دم کے پہاڑی راستوں کے ذریعے باآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ عام طور پر سیاح، بشی گرام تک جانے کے لئے مدین میں علاقہ’’ چیل ‘‘کی طرف سے روانہ ہوتے ہیں، جو طویل اور دشوار گزار راستہ ہے۔ اس کے مقابلے میں میاں دم کا پہاڑی راستہ بہت آسان ہے۔
میاں دم میں خالص سواتی شہد اور موسمی پھل کافی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ مشروم یعنی کھمبی یہاں کی خاص پیداوا ر ہے۔ یہ علاقہ مختلف قیمتی اور نادر و نایاب جڑی بوٹیوں کے لئے بہت شہرت رکھتاہے۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ مخصوص پشتون تہذیب پر عمل پیرا یہ لوگ بہت سیدھی سادی زندگی گزارتے ہیں۔[/align:d235221cf6]
٭٭٭​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top