سنو جاناں!

عروض کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔ موزوں طبع ہونا ضروری ہے۔ ورنہ بات کتنی ہی شاعرانہ کیوں نا ہو وہ نثر نگاری کے زمرے میں ہی رہتی ہے۔ اور بھر حال نثر کتنی ہی عمدہ الفاظ میں کیوں نہ ہو شاعری شاعری ہی ہے ۔
عروض تو میں بھی نہیں جانتا جناب۔ لیکن پھر بھی اساتذہ کی نظر میں میرے چند ناقص اشعار کسی بحر میں ضرور ہوتے ہیں۔ اسی کا نام موزوں طبع ہے شاید۔
صد فی صد اتفاق! یا تو نظم ہوتی ہے یا پھر نثر ۔۔۔ ۔ نثر کو نظم کہنا اور اس قسم کی دوغلی اصناف تراشنا کوتاہیٔ فن کے علاوہ کچھ نہیں یار لوگوں نے تو "آزاد غزل" بھی اختراع کر لی تھی اور اس کی بھر پور وکالت بھی کی لیکن شاید غزل اپنے وجود کے اندر اتنی تناور ہو چکی ہے کہ یہ حرکت ایک مسخرے کی ادا سے زیادہ مقام نہ پا سکی
اور آخری بات ۔۔۔ ۔ بالکل ٹھیک کہا بسمل نے ۔۔۔ اصل بات موزونی طبع ہے نہ کہ فن عروض ۔۔۔ بقول شخصے:

شعر گویم بہتر از قند و نبات
من نہ دانم فاعلاتن فاعلات
درست فرماتے ہیں جناب۔ شاعری سیکھنے کے لیے عروض کا جاننا ضروری نہیں، البتہ بہتر ضرور ہے۔ بغیر عروض سیکھے کیسے شاعری کریں ،اور طبیعت کی موزونیت کو کیسے بروئے کار لائیں، ملاحظہ فرمائیے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
آپ نے بہت خوب طریقہ لکھا ہے :)میرے خیال میں گانے کی دھنوں کی بجائے ۔۔ طبلے کی تالوں اور "ماتروں" کی لے میں شاعری بہت عمدہ کی جا سکتی ہے کیونکہ لے اور تال کا عروض کے ساتھ بہت گہراتعلق ہے۔ بلکہ شاید ہندی/ پنجابی کا عروض تو ماتراؤں سے ہی تعلق رکھتا ہے
 

سید ذیشان

محفلین
صد فی صد اتفاق! یا تو نظم ہوتی ہے یا پھر نثر ۔۔۔ ۔ نثر کو نظم کہنا اور اس قسم کی دوغلی اصناف تراشنا کوتاہیٔ فن کے علاوہ کچھ نہیں یار لوگوں نے تو "آزاد غزل" بھی اختراع کر لی تھی اور اس کی بھر پور وکالت بھی کی لیکن شاید غزل اپنے وجود کے اندر اتنی تناور ہو چکی ہے کہ یہ حرکت ایک مسخرے کی ادا سے زیادہ مقام نہ پا سکی
اور آخری بات ۔۔۔ ۔ بالکل ٹھیک کہا بسمل نے ۔۔۔ اصل بات موزونی طبع ہے نہ کہ فن عروض ۔۔۔ بقول شخصے:

شعر گویم بہتر از قند و نبات
من نہ دانم فاعلاتن فاعلات

ویسے آپ ن م راشد کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ جنہوں نے عمر کے آخری حصے میں نثری نظمیں کہنا شروع کی تھیں۔ جب کہ وہ خود بڑے استاد تھے شاعری کے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ویسے آپ ن م راشد کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ جنہوں نے عمر کے آخری حصے میں نثری نظمیں کہنا شروع کی تھیں۔ جب کہ وہ خود بڑے استاد تھے شاعری کے۔
مجھے کسی کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ میں اپنی بات کرتا ہوں ۔۔ مجھے نثری نظم سے اختلاف ہے۔ سو میں نے بیان کر دیا جن لوگوں کی طبیعت موزوں نہ ہو اور وہ منظوم کلام نہ کہہ سکتے ہوں تو کچھ بھی لکھ کر اسے نثری نظم کا نام دینے سے وہ نثر ۔۔ نظم کے درجہ پر فائز نہیں ہو جاتی اس سے بہت پہلے مسجع اور مقفیٰ نثر موجود تھی جس میں موجودہ نثری نظموں سے کہیں زیادہ ردھم روانی اور قوافی کا اہتمام موجود ہوتا لیکن اس کے باوجود بڑے بڑے انشا پردازوں نے اپنی ایسی تحریروں کو نثری شاعری کا نام نہیں دیا بلکہ اسے نثر ہی لکھا اور پڑھا گیا زیادہ سے زیادہ اسے نثر مقفیٰ کا نام دے دیا گیا
 

سید ذیشان

محفلین
مجھے کسی کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ میں اپنی بات کرتا ہوں ۔۔ مجھے نثری نظم سے اختلاف ہے۔ سو میں نے بیان کر دیا جن لوگوں کی طبیعت موزوں نہ ہو اور وہ منظوم کلام نہ کہہ سکتے ہوں تو کچھ بھی لکھ کر اسے نثری نظم کا نام دینے سے وہ نثر ۔۔ نظم کے درجہ پر فائز نہیں ہو جاتی اس سے بہت پہلے مسجع اور مقفیٰ نثر موجود تھی اس میں موجود نثری نظموں سے کہیں زیادہ ردھم روانی اور قوافی کا اہتمام موجود ہوتا لیکن اس کے باوجود بڑے بڑے انشا پردازوں نے اپنی ایسی تحریروں کو نثری شاعری کا نام نہیں دیا بلکہ اسے نثر ہی لکھا اور پڑھا گیا زیادہ سے زیادہ اسے نثر مقفیٰ کا نام دے دیا گیا
قادری صاحب آپ کی بات سے میں متفق ہوں۔ اور میں آپ کے قول کی قدر کرتا ہوں۔ آپ پر تنقید کرنا میرا مقصد نہیں تھا۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ کچھ ایسے شاعر بھی ہیں جو کہ بڑے شاعر ہیں لیکن وہ نثری نظم کو شاعری سمجھتے ہیں۔ ظاہری سی بات ہے کہ ان کی نثری نظم میں اور ہم جیسے شاعری سے ناواقف لوگوں کی نثری نظم میں پڑا فرق ہے۔ میں صرف اصول پر بات کر رہا تھا۔
امید ہے آپ نے پرا نہیں منایا ہو گا۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے آپ ن م راشد کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ جنہوں نے عمر کے آخری حصے میں نثری نظمیں کہنا شروع کی تھیں۔ جب کہ وہ خود بڑے استاد تھے شاعری کے۔

نثری نظم کے حق میں دلائل بہت اچھے ہیں، مثلاً یہ کہ شاعر نزول کے وقت قافیہ ردیف اور وزن وغیرہ کے پھیر میں آ جاتا ہے اور وہ لمحہ ضائع ہو جاتا ہے۔ نثری نظم کی ترویج کیلیے شعوری کوشش کی گئی ہے اور بڑے شعرا نے ایسی نظم کہنے کی کوشش کی، اب بھی کرتے ہیں لیکن اس کا چلن عام نہیں ہو سکا، اس کو نہ حیثت ملی، نہ پذیرائی نہ مقبولیت۔

دراصل یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے نہیں جتنا بظاہر دِکھتا ہے۔ موزوں طبع آدمی کی تو ہر بات لگتا ہے موزوں ہوتی ہے۔ اکثر میں نے بچوں کو دیکھا کہ جب سرخوشی کی حالت میں بے اختیار جملے منہ سے نکالتے ہیں تو کئی موزوں ہوتے ہیں۔ اور جو شخص شعوری کوشش کر کے تقطیع وغیرہ کی مبادیات جان لے اور کچھ مشق کر لے تو کچھ عرصہ بعد ان چیزوں کی طرف اس کا دھیان نہیں جاتا۔
 

احمد بلال

محفلین
میرا سیلولر سوشل نیٹورک پے روز ایسے دسیوں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو بیچارے اپنے آپ کو شاعر سمجھتے ہیں لیکن شاعری کا ”ش“ بھی نہیں آتا۔ انہیں جا کر اگر کوئی کہہ بھی دے کہ بھئی با وزن شعر کہیں تو کہتے ہیں میاں انتہا پسند نا بنو۔ شعر کہنے کے لئے کچھ سمجھنے کی ضرورت نہیں۔
غلط سوچ ہے۔
سعر کہنا اتنا آسان نا کسی دور میں رہا ہے نہ رہے گا کے بنا سیکھے اور جانے آجائے۔
ورنہ ان لوگوں کا کیا ہوگا ( الف عین شاکرالقادری محمد وارث یا اور بہت سے شعرا جنہوں نے اپنی زندگیاں زبان کی خدمت کرنے میں لگا دی ہیں؟) جو محنتیں کر کے کسی مقام پے پہنچتے ہیں؟
خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی تصویر
 

محمد وارث

لائبریرین
خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی تصویر

خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی صورت

امیر مینائی

اور اقبال کچھ یوں گویا ہیں

صد نالۂ شب گیرے، صد صبحِ بلا خیزے
صد آہِ شرر ریزے، یک شعرِ دل آویزے

راتوں کے سینکڑوں نالے، سینکڑوں آفت خيز صبحیں، سینکڑوں شرر ریز آہیں اور پھر کہیں جا کر ایک دل آویز شعر ہوتا ہے۔
 

احمد بلال

محفلین
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی صورت

امیر مینائی

اور اقبال کچھ یوں گویا ہیں

صد نالۂ شب گیرے، صد صبحِ بلا خیزے
صد آہِ شرر ریزے، یک شعرِ دل آویزے

راتوں کے سینکڑوں نالے، سینکڑوں آفت خيز صبحیں، سینکڑوں شرر ریز آہیں اور پھر کہیں جا کر ایک دل آویز شعر ہوتا ہے۔
واہ کیا بات ہے ۔ کمال ہے۔ بہت خوب
 

الف عین

لائبریرین
یہ میری نظر سے گزری ہی نہیں!!
کم از کم جو کلام نظم کی صورت ہوتا ہے، اس کو میں نثری نظم سمجھ کر اصلاح کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ جیسے یہاں عنبرین کی نظم۔ لیکن جب اسی طرح کی نثری غزل کہی جاتی ہے تو میں بھی طبیعت کی موزونی۔ عروض کی ابتدائی معلومات کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔
 
Top