سندھ کا مسئلہ

سندھ کا مسلہ (بشکریہ بی بی سی اردو)
سہیل سانگی حیدر آباد
وقتِ اشاعت: Monday, 27 August, 2007, 10:59 GMT 15:59 PST
ایک معلوماتی مٍضمون
آئے دن سندھ کےلوگ احتجاج اور مظاہرے کرتے رہتے ہیں آخر مسئلہ کیا ہے کہ آئے دن سندھ کےلوگ احتجاج اور مظاہرے کرتے رہتے ہیں اور آزادی کے ساٹھ برس گزارنے کے بعد بھی اپنے آپ کو خوش نہیں پا رہے ہیں۔
وہ وفاق کے ہر منصوبے کو بڑے شک و شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد سندھ میں کیا ہوا، اور سندھی عوام کے ساتھ کیا ہوا؟
دراصل یہی وہ اسباب ہیں جس کی وجہ سے سندھ کے قدیم باشندے ناخوش ہیں۔
آزادی سے لے کر اب تک کی سندھ کی سیاسی، معاشی اور سماجی صورتحال پر سرسری نظر اسباب و وجوہات کو عیاں کردیتی ہے۔

زبان اور ثقافت
قیام پاکستان کے بعد سندھ سے مجموعی آْبادی کی بیس فیصد ہندو آبادی کے انخلاء اور اس کے بدلے بھارت کے مختلف صوبوں سے آ کر بسنے والی بڑی آبادی کی وجہ سے سندھ کے سماجی، ثقافتی اور سیاسی حیثیت متاثر ہوئی۔
ہندو آبادی زبان اور ثقافت کے لحاظ سے سندھ کا حصہ تھی۔ ہندوؤں نے مختلف شہروں میں سکول، کالج، تفریح گاہوں اور ہسپتالوں کے حوالوں سے کئی فلاحی کام کیے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سندھ میں ایسے کاموں اور ایسی سہولیات بڑھانے اور برقرار رکھنےکا سلسلہ رک گیا۔ دوسری زبانیں بولنے والوں کی ایک بڑی آبادی کے بسنے سے سندھ کی زبان اور کلچر پر برا اثر پڑا۔ اس کے علاوہ حکومتی سطح پر بھی بعض ایسے اقدامات کیے گئے جس سے سندھی زبان کی حیثیت مزید متاثر ہوئی۔
آزادی کے ایک سال بعد سندھ یونیورسٹی کو کراچی سے حیدر آباد منتقل کر دیاگیا اور کراچی کے لیے الگ یونیورسٹی قائم کی گئی۔ سندھ کے ممتاز دانشور محمد ابراہیم جویو نے ایک مقالے میں کہا تھا کہ سندھ یونیورسٹی کی حیدر آباد منتقلی کے وقت وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے خوش گپیوں میں کہا تھا کہ یہ یونیورسٹی اونٹ اور گدھا گاڑی کلچر والوں کے لیے ہے۔

آئندہ پانچ برسوں میں کراچی یونیورسٹی میں سندھی کو امتحانی زبان کے طور پر ختم کردیاگیا اور صرف اردو، بنگالی اور انگریزی میں امتحان دینے کی اجازت دی گئی۔ کچھ ہی عرصہ بعد کراچی میں بعض سندھی سکول بند کر دیےگئے یا غیر سندھیوں کو بطور اساتذۃ مقرر کیا گیا۔

زمینیں
1947 میں ہریانہ اور راجپوتانہ سے نقل مکانی تو بند ہوگئی لیکن یو پی اور سی پی سے ہجرت کا سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ باہر سے آنے والے لوگوں کی تعداد یہاں سے جانے والوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھی۔ اس صورتحال پر سندھ کے وزیرِاعلیٰ ایوب کھوڑو کو مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ سندھ نے صرف سات لاکھ مہاجر قبول کرنا منظور کیے تھے، مزید لوگ نہ بھیجے جائیں۔ مہاجروں کی آبادکاری کے لیے وزارتِ بحالیات اور کئی چھوٹے بڑے ادارے قائم کیے گئے۔ چنانچہ جعلی کلیموں کے ذریعے بڑی بڑی جائیدادیں ہتھیانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ حکومت کے بیشتر اہلکار مہاجر یا پھر پنجابی تھے۔ انہوں نے افسرشاہی کو اپنے قبضے میں لے کر ہندوؤں کی متروکہ شہری جائیدادوں کے کلیم منظور کرانے کے ساتھ ساتھ زرخیز اور قابل کاشت دیہی زمینوں پر بھی قبضہ کرلیا جو ہندو چھوڑ گئے تھے۔ ان زمینوں کے حقیقی وارث سندھی کسان تھے لیکن آزادی کے خواب کی تعبیر کے برعکس ہندو کی جگہ مسلمان مہاجر آگیا۔ پنجاب کے ایک محقق احمد سلیم اس صورتحال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ کلیم یا تو بالکل جھوٹے ہوتے تھے یا پھر اصل سے زیادہ۔ قیامِ پاکستان سے چند ہی ماہ قبل سندھ اسمبلی نے ایک بل منظور کیا تھا کہ صوبے میں ہندوؤں کے پاس مسلمانوں کی جو زمینیں گروی ہیں ان کو وہ بیچ نہیں سکتے۔ اس قانون پر پنجاب میں توعمل درآمد کیا گیا لیکن سندھ میں گورنر نے بل پر دستخط نہیں کیے اور وہ باقاعدہ قانون نہ بن سکا۔ پھر جب پاکستان بنا تو یہ زمینیں ہندوؤں کی ملکیت قرار دے دی گئیں اور کلیموں کے ذریعے مہاجروں کو ملیں۔ مقامی لوگ زمین کی ملکیت سے محروم ہوگئے۔ بعض دستاویزات کے مطابق یہ اراضی40 لاکھ ایکڑ یا کل زرعی زمین کا بیالیس فی صد تھی۔
اسی کے ساتھ سندھ ریفیوجی رجسٹریشن آف لینڈ کلیم ایکٹ کے تحت مارچ 1947 کے بعد ہندوؤں کی بیچی گئی زمینوں کے معاہدوں کو منسوخ قرارا دے دیا گیا۔ سندھ ریفیوجی ایکٹ کے تحت ہجرت کر کے آنے والوں کو بھارت میں اپنی جائیداد کے ثبوت سے مستثنیٰ قرار دیاگیا۔ جب بھارتی حکومت نے زرعی اصلاحات کے تحت زمینیں ضبط کیں تو حیدرآباد دکن، یو پی، سی پی وغیرہ کے ان متاثرہ لوگوں کا نقصان پورا کرنے کرنے کے لئے1958 میں ایک اور قانون بنایا گیا۔ بعد میں جب حکومت کو محسوس ہوا کہ معاملہ گڑبڑ ہے تو صدر ایوب خان نے 1961 میں مارشل ریگولیشن کے ذریعے کلیموں کی دوبارہ تصدیق لازمی قرار دی لیکن چند ہی ماہ میں انہیں یہ قانون واپس لینا پڑا۔

شہری جائیدادیں
پچاس کی دہائی میں ہی ایک اور قانون بنایاگیا کہ مقامی لوگ دس ہزار روپے سے زیادہ مالیت کی شہری جائیداد نہیں خرید سکتے۔ بڑے بڑے مکانات، ہوٹل، سینما ہاؤس نیلام کیےگئے اور ان کی ادائیگی کلیم کے کاغذات کے ذریعے کی گئی جن کا یا تو وجود نہ تھا یا کوئی ثبوت نہ تھا۔ پچاس ہی کے عشرے میں کوٹری بیراج بنا تو اس کے زیرِ کمانڈ تین لاکھ چالیس ہزار ایکڑ زمین سول اور فوجی نوکرشاہی کو دی گئی۔ پروفیسر عزیزاحمد اپنی کتاب ’کیا ہم اکٹھے رہ سکتے ہیں‘ میں لکھتے ہیں کہ زمینیں سندھی ہاریوں کے پاس جانے کی بجائے پنجابیوں، مہاجروں اور پٹھانوں کے ہاتھوں میں جانا شروع ہوئیں۔
انیس سو اکیاون میں ایک سندھی روزنامہ نے اپنے اداریے میں لکھا: ’سندھ کے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک بڑھ رہے ہیں کہ نئے بیراج کی زمینیں باہر کے لوگوں کو دی جائیں گی۔ اگر ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کے بعد سندھ اور وفاقی حکومتیں سندھ کے لوگوں سے تعاون کی توقع نہ رکھیں۔ سندھ کے ہاریوں کا ان زمینوں پر پہلا حق ہے۔ سندھ کے ہاری کے پاس ہل نہیں تھا وہ ہندوؤں کی زمینیں کاشت کرتے تھے۔ اور اب پہلے سے زیرِ کاشت زمینیں مہاجروں کو دی گئی ہیں، اور نئی زمینیں نوکر شاہی کو دی جائیں گی‘۔ اس اداریے میں سندھ کی سیاسی جماعتوں اور لوگوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ساٹھ کے عشرے میں گدو بیراج تعمیر ہوا تو تربیلا ڈیم ، منگلا ڈیم، اور اسلام آباد کے متاثرین، ریٹائرڈ اور عنقریب ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین، انعام اور خطاب پانے والوں کو اور نیلام کے ذریعے یہ زمین دینے کا فارمولہ بنایاگیا۔
صورتحال یہ بنی کہ زمین حاصل کرنے والے 172 سرکاری اہلکاروں میں صرف ایک سندھی تھا۔ نیلامی کی زمینوں کا فائدہ صرف پنجاب کو ہوا۔ سندھ میں کہاوت کے طور پر کہا جانے لگا کہ خدا کرے کسی کو کوئی خطاب نہ ملے یا کوئی کھلاڑی اچھا کھیل نہ کھیلے کیونکہ اس کا معاوضہ سندھ کی ہی زمین دینے کی شکل میں ادا کیا جائےگا۔ سندھی عوام کی مہاجروں اور پنجابیوں سے ان بن کی جڑیں اسی غیر منصفانہ تقسیم میں ہیں۔
جب ون یونٹ بنا تو فیصلہ سازی، تمام سرکاری ریکارڈ، سب کچھ لاہور منتقل ہوگیا۔ ملازمتوں کے دروازے بھی سندھ کے لوگوں کے لیے بند ہوگئے۔ اختیار و اقتدار کی لاہور منتقلی اور ون یونٹ کا قیام اور مزید پنجابی آبادی کے سندھ میں بسنے کا باعث بنی۔

کراچی کو سندھ سے الگ کرنا
ابھی دیہی و شہری آبادی میں جائیدادوں پر قبضے کے معاملے چل ہی رہے تھے کہ سندھ کے عوام پر دوسرا حملہ کیا گیا۔ سندھیوں کے معاشی، سیاسی اور ثقافتی مرکز کراچی کو وفاقی دارالحکومت بنانے اوراسے وفاق کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔
سندھی لیڈروں کے وفد نے زیارت میں جا کر قائد اعظم سے ملاقات کی اور کراچی کو وفاق کے حوالے کرنے کی مخالفت کی۔ قائد اعظم کا کہنا تھا کہ اس سے سندھ کے لوگوں کا فائدہ ہے۔ جولائی انیس سو اڑتالیس کو گورنر جنرل کے حکم پر کراچی اور اس سے ملحقہ علاقوں سمیت 812 مربع میل مرکزی حکومت کے حوالے کردیا گیا۔ قائد اعظم انتقال کر گئے اور ان کے بعد کراچی کے سلسلے میں سندھی عوام کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ کراچی کو سندھ سے الگ کرکے وفاقی علاقہ بنانے کے فیصلے کے خلاف سندھ سراپا احتجاج بن گیا۔ اس مسئلے پر قائم ہونے والے سندھ عوامی محاذ کے سینکڑوں کارکنوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ بگڑتی ہوئی صورتحال کےپیشِ نظر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ایک پنجابی وکیل دین محمد کو سندھ کا گورنر بنایا۔ اس پر سندھ کے عوام نے مزید ناراضگی کا اظہار کیا۔ نئے گورنر نے سندھ میں اسیمبلی توڑ کر گورنر راج نافذ کردیا۔
کراچی کو وفاق کی تحویل میں دینے سے سندھ کو زبردست مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ دستور ساز اسمبلی کی رپورٹ نے نقصان کا اندازہ چھ سو سے آٹھ سو ملین روپے تک لگایا۔ جن عمارتوں میں وفاقی ادارے قائم کیے گئے ان کی مالیت پینتالیس کروڑ بنتی تھی۔ وعدے کے مطابق یہ خسارہ وفاق کو پورا کرنا تھا لیکن ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
وفاق کی تحویل میں جانے کے باوجود کراچی میں سب سے بڑے ہسپتال، تمام تعلیمی اداروں وغیرہ پر اٹھنے والے اخراجات حکومتِ سندھ ادا کرتی رہی۔ دستور ساز اسمبلی کی رپورٹ کے مطابق 1955 میں یعنی قیام پاکستان کے سات سال بعد کراچی میں سندھ کی جائیداد کی قیمت 96 کروڑ پچاس لاکھ تھی۔ چنانچہ حکومت سندھ کا بجٹ مستقلاً خسارے کا بجٹ بن کر رہ گیا۔

پانی اور مالیات کے مسائل
سندھ کے حوالے سے دو اور امور بڑے متنازع رہے ہیں جن میں دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم اور قومی مالیاتی ایوارڈ شامل ہیں۔ ان دونوں معاملات پر خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے درمیاں اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ پانی کا معاہدہ ایک ایسے دور میں ہوا جب سندھ میں مرکز کی مسلّط کردہ جام صادق کی غیر مقبول حکومت تھی۔ سندھیوں کو ہمیشہ شکایت رہی ہے کہ اس معاہدے میں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے لیکن آگے چل کر اس معاہدے پر بھی حکومتِ پنجاب نے عمل کرنے سے انکار کردیا۔ قومی مالیاتی ایوارڈ مرکز اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل اور آمدن کی تقسیم کا فارمولہ ہوتا ہے۔ اس میں یہ بھی طے کیا جاتا ہے کہ کس صوبے کو کتنی رقم ملے گی۔ اس ایوارڈ کا فیصلہ بھی فاروق لغاری کے نگران دور میں کیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت سندھ میں نگراں وزیراعلیٰ ممتاز بھٹو تھے اور اس معاہدے پر ان کی ہی پارٹی کے نبی بخش بھرگڑی کے دستخط ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کو پس منظر میں رکھ کر سندھ کا مسئلہ سمجھا جا سکتا ہے۔ انہی مسائل پر صوبے میں بے چینی اور عدم اطمینان رہا اور وقتاً فوقتاً تحریکیں بھی چلتی رہی ہیں۔
 
Top