سمیرہ موسیٰ شہید۔۔۔ مسلمان خاتون جوہری سائنس داں

جاسم محمد

محفلین
سمیرہ موسیٰ شہید۔۔۔ مسلمان خاتون جوہری سائنس داں
محمد عثمان جامعی اتوار 19 جنوری 2020
1956413-sumeramosa-1579283042-243-640x480.jpg

جوہری طاقت برائے امن کے لیے کمربستہ سمیرہ کے قتل کی سازش کی کہانی

سَمِیرہ موسیٰ ۔۔۔۔یہ نام آپ نے سُنا ہے؟ شاید آپ میں سے کچھ لوگ ہی اس شخصیت سے واقف ہوں گے۔۔۔وہ بھی بھولی بسری کہانی کے طور پر۔۔۔جن کے ذہنوں میں اس نام کے ساتھ ہی کچھ حوالے بجلی کی طرح کوند گئے ہوں گے۔۔۔جوہری سائنس داں۔۔۔حادثے میں موت۔۔۔موساد۔

امت مسلمہ کی اس عظیم خاتون کی داستان ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے جو سُرخ چہرے کے ساتھ کف اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کو سائنس میں کچھ نہ کرنے کا طعنہ دے کر مسلم نوجوانوں کو احساس کمتری کا شکار کرنے کے فریضے کی تکمیل کرتے ہیں، اور یہ کہانی ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازشوں کے وجود سے انکاری ہیں۔

سمیرہ موسیٰ مصر سے تعلق رکھنے والی جوہری سائنس داں تھیں۔ وہ جوہری سائنس کے پُرامن مقاصد، خاص طور پر بیماریوں کے تدارک، کے لیے استعمال کے لیے کوشاں تھیں۔ وہ ’’خطرہ‘‘ تب بنیں جب انھوں نے سستی دھاتوں کے ایٹم توڑ کر کم خرچ جوہری بم بنانے کی مساوات وضع کی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ جاننے سے پہلے سمیری موسیٰ کی مختصر سی زندگی کے نشیب وفراز کا قصہ پڑھیے۔

سَمِیرہ موسیٰ نے 3 مارچ 1917کو مصر کے شمالی علاقے غربیا میں جنم لیا۔ ان کے والد علاقے کے مشہور سیاسی کارکن تھے، جب کہ والدہ اپنی بیٹی کے عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی سرطان کے باعث دنیا چھوڑ گئیں۔ سمیرہ کمسن ہی تھیں کہ ان کے والد انھیں لے کر مصر کے دارالحکومت قاہرہ منتقل ہوگئے، جہاں انھوں نے اپنی جمع پونجی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں لگا کر یافت کا بندوبست کیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس ذہین لڑکی نے سیکنڈری ایجوکیشن میں اعلیٰ ترین نمبر حاصل کرکے خود کو انجنیئرنگ کی تعلیم کا حق دار بنالیا تھا، مگر اس نے آگے پڑھنے کے لیے قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبۂ سائنس کا انتخاب کیا۔

1939میں سمیرہ نے شان دار کام یابی کے ساتھ بی ایس سی ریڈیالوجی کی تکمیل کی، جس کے بعد انھوں نے ایکسرے کی تاب کاری کے اثرات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنالیا۔ کلیہ سائنس کے سربراہ علی مصطفیٰ مشرفۃکو اپنی فطین طالبہ سے توقع تھی کہ وہ تدریس کے پیشہ اپنا کر اور فیکلٹی سے بہ طور استاد وابستہ ہوکر ذہنوں کی آبیاری میں ان کی مدد کرے گی۔ سمیرہ اپنے شفیق استاد کی امید پر پوری اتریں۔ وہ قاہرہ یونی ورسٹی کے کلیہ سائنس کی پہلی خاتون اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئیں، یہ اس جامعہ میں تدریس کے منصب پر بھی کسی عورت کی پہلی تقرری تھی۔ اولیت کا یہ سلسلہ اس وقت معراج کو پہنچ گیا جب وہ جوہری تاب کاری کے مضمون میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرکے اس شعبے میں پہلی خاتون سائنس داں قرار پائیں۔

سمیرہ موسیٰ جوہری طاقت کے پُرامن مقاصد کے استعمال پر یقین رکھتی تھیں اور اس نظریے کی پرچارک تھیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’میری خواہش ہے کہ سرطان کے لیے جوہری علاج دست یاب ہو اور اتنا سستا ہو جیسے اسپرین (ٹیبلیٹ)۔‘‘ ان کے اس قول نے بڑی شہرت حاصل کی، اور شاید یہ سوچ بھی ان کی موت کا سبب بنی۔ اپنے اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے سخت محنت کی اور ان کی تحقیقی سرگرمیوں کا محور یہی سوچ بنی رہی۔ یہ خیال ہی کیا کم قیامت خیز تھا کہ سمیرہ موسیٰ کی اس مساوات نے تو ہلچل ہی مچادی جس کی مدد سے سستی دھاتوں کے جوہر توڑ کر ایک سستا جوہری بم بنانا ممکن ہوجاتا۔ یہ استحصال زدہ تیسری دنیا کی اقوام خاص طور پر مسلم ممالک کو ایٹمی حملے کے خوف سے نجات دلانے کا تیر بہ ہدف نسخہ تھا، تو دوسری طرف ایٹم بم اور دیگر بڑے پیمانے پر ہلاکت پھیلانے والے ہتھیاروں کے بل پر دنیا میں من مانی کرنے والے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی۔

سمیرہ موسیٰ نے ’’جوہری توانائی برائے امن کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا، جس میں بہت سے ممتاز سائنس داں مدعو کیے گئے تھے۔ اس پلیٹ فارم سے اس زیرک اور انسانیت دوست سائنس داں نے ’’جوہر برائے امن‘‘ کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی۔ سمیرہ موسیٰ کی کوششوں سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں جوہری توانائی کے خطرات سے بچاؤ کے لیے بہت سی سفارشات مرتب کی گئیں اور کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے لیے سمیرہ موسیٰ پیش پیش رہیں۔

سرطان کے مرض سے جنگ سمیرہ کی سرگرمیوں میں اہم ترین رہی، جس کا سبب ان کی والدہ کا اس موذی مرض کا شکار ہوکر دنیا سے چلے جانا تھا۔ وہ مختلف اسپتالوں میں جاکر رضاکارانہ طور پر سرطان کے مریضوں کی ان کے علاج میں مدد کرتی تھیں۔

اس باصلاحیت سائنس داں اور محقق کی شہرت مصر کی سرحدیں پار کرکے دور دور تک پہنچ چکی تھی۔ جوہری سائنس میں بے مثال کام یابیوں کی بنا پر سمیرہ موسیٰ کو 1950میں امریکا کی فُل برائٹ (Fulbright) اسکالرشپ ملی اور انھیں امریکی ریاست میسوری کی سینٹ لوئس یونی ورسٹی میں تحقیقی سرگرمیوں کے لیے مدعو کیا گیا۔ ساتھ ہی امریکا پہنچنے پر انھیں امریکی شہریت کی بھی پیشکش کی گئی، مگر سمیرہ نے پیروں میں پڑی اس امریکی شہریت کو لات مار دی جس کی خاطر لوگ امریکیوں کے پیروں میں پڑ جاتے ہیں۔ انھوں نے یہ پیشکش رد کرتے ہوئے کہا،’’میرا مُلک میرا انتظار کر رہا ہے۔‘‘

امریکا میں قیام کے بعد وہ وطن واپسی کی تیاری کر رہی تھیں کہ انھیں کیلیفورنیا کی کچھ جوہری تجربہ گاہوں کے دورے کی دعوت دی گئی۔ وہ پہلی غیرملکی ہوتیں جو امریکا کے ان حساس مقامات تک براہ راست رسائی حاصل کرپاتیں۔ اس دعوت پر امریکا میں نسل پرستانہ اور منفی ردعمل سامنے آیا۔

بتایا جاتا ہے کہ 5 اگست 1952کو وہ کیلیفورنیا کے لیے روانہ ہوئیں۔ راستے میں ایک وادی سے کچھ پہلے ان کی کار کسی پُراسرار حادثے کا شکار ہو کر چالیس فٹ گہرائی میں جاگِری اور وہ فوری طور پر جاں بہ حق ہوگئیں، مگر کار کے ڈرائیور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کار کے گرنے سے عین پہلے چھلانگ لگاکر بچ گیا۔۔۔۔لیکن کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا! سمیرہ کو مدعو کرنے والی فیکلٹی کا کہنا تھا کہ انھیں لانے کے لیے کوئی کار نہیں بھیجی گئی تھی، جب کہ ڈرائیور کی شناخت بھی جعلی تھی۔

اس سانحے پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا گیا۔ ڈرائیور کا لاپتا ہونا صاف بتا رہا تھا کہ سمیرہ حادثے کا شکار نہیں ہوئیں انھیں باقاعدہ سازش کے تحت قتل کیا گیا ہے، مگر جس سائنس داں کی امریکا میں اتنی آؤ بھگت کی گئی اور جسے امریکی اپنی شہریت دینے کے لیے بے تاب تھے اس کی پُراسرار موت کا معاملہ دبا دیا گیا۔ اس شک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سمیرہ موسیٰ کو قتل کیا گیا اور یہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی کارستانی تھی۔ ایک ممتاز عرب اور مسلم سائنس داں ہونے کی حیثیت سے اور سستے جوہری بم کے تصور کے باعث سمیرہ اسرائیل کا ہدف تھیں۔

مصر کے آن لائن اخبار ’’ایجپٹ انڈیپنڈینٹ‘‘ پر دست یاب عرب امارات کی ویب سائٹ البیان سے لے کر شایع کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق سمیرہ کے قتل کی سازش میں نمایاں ترین کردار مصری اداکارہ راقیہ (یا راکیہ) ابراہیم لیوی کا تھا۔

مصر سے تعلق رکھنے والی یہودی اداکارہ راقیہ کا مصری ہونا اسے اسرائیل کے ساتھ وفاداری سے باز نہ رکھ سکا۔ یعنی وطن پر مذہب، نسل اور نظریہ بازی لے گیا۔ اسرائیل کے قیام کے بعد وہ مصر کے یہودیوں کو اکساتی تھی کہ ترک وطن کرکے صہیونی ریاست میں جابسیں۔ اگرچہ اس نے شادی ایک مصری مسلمان انجنیئر مصطفیٰ والی سے کی، مگر یہ رشتہ عربوں اور مصریوں سے محبت اور وفا کا تعلق نہ بن سکا۔ اسرائیل اور صہیونیت سے وابستگی میں وہ اتنی کٹر اور بے باک تھی کہ اس نے ایک فلم میں ایک ایسی بَدّو عورت کا کردار ادا کرنے سے انکار کردیا تھا جسے فلسطین کی جنگ میں مصری فوج کے لیے لڑتے دکھایا گیا تھا۔ راقیہ ابراہیم کے تعصب اور انتہاپسندی کا یہ عالم تھا کہ اس نے مشہورزمانہ کینز فیسٹیول میں مصری وفد کی قیادت کرنے سے اس بنا پر انکار کر دیا تھا کہ وہ یہودی ہے۔

13-1579283061.jpg


شوہر سے علیحدگی کے بعد 1954میں راقیہ مصر چھوڑ کر امریکا جابسی۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ سمیرہ کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی راقیہ ابراہیم تھی، جو موساد کی آلۂ کار کے طور پر اس سازش کا حصہ بنی۔ اس ضمن میں سب سے اہم شہادت راقیہ کی پوتی ریٹا ڈیوڈ ٹامز کی ہے، جو راقیہ کے امریکی شہریت کے حامل یہودی شوہر کے تعلق سے راقیہ کی پوتی ہیں، جنھوں نے 2012 میں پہلی بار اس موضوع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سمیرہ موسیٰ کو قتل کیے جانے کا مزید ثبوت فراہم کردیا۔ راقیہ کی پوتی کا کہنا ہے کہ اس کی دادی کی ڈائریوں میں، جو کیلیفورنیا میں واقع راقیہ کی رہائش گاہ کی لائبریری میں چھپائی گئی تھیں، سمیرہ موسیٰ کے قاہرہ میں واقع گھر کی مختلف مواقع کی تصاویر ملی ہیں۔

اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ راقیہ نے سمیرہ کے گھر کی چابی کا نقش صابن کی بَٹی پر اُتار لیا تھا، جو اس نے مصر میں موجود موساد کے ایک ایجنٹ کے حوالے کردیا۔ اس کارروائی کے کچھ عرصے بعد راقیہ، سمیرہ کو اپنے ساتھ قاہرہ میں ایک اوپیرا دکھانے کے بہانے لے گئی۔ سمیرہ کی غیرموجودگی میں موساد کے ایجنٹ اس کے گھر میں داخل ہوئے اور اس کے تحقیقی مواد کی تصاویر اُتار کر لے گئے۔ صاف لگتا ہے کہ راقیہ نے موساد کے دیے گئے مشن ہی کے تحت سمیرہ سے دوستی گانٹھی تھی۔ یہ دوستی اس وقت اختتام پذیر ہوگئی جب راقیہ نے امریکی حکام کی جانب سے مذاکرات کار کا کردار ادا کرتے ہوئے سمیرہ کو امریکی شہریت اور امریکا میں رہ کر کام کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ سمیرہ کے انکار پر اس نے دھمکی دی کہ ’’اس کا نتیجہ قبر ہوگی۔‘‘

جب سمیرہ امریکا کے دورے پر پہنچیں تو راقیہ ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ان کا تعاقب اور ان کی تمام سرگرمیوں کی بابت معلومات حاصل کرتی رہی۔ ان ہی معلومات کی مدد سے موساد سمیرہ کو اپنے جال میں پھنسانے اور انھیں قتل کرنے میں کام یاب ہوئی۔

یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ راقیہ ابراہیم کے بطن سے مصر کے معروف سیاست داں، سابق وزیرخارجہ اور عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل کے منصب پر فائز رہنے والے امر موسیٰ (عمرو موسیٰ) نے جنم لیا! جو اس رشتے سے انکار کرتے رہے ہیں، مگر یہ حقیقت ایک اسرائیلی اخبار Haaretz بھی سامنے لاچکا ہے۔

اسرائیل کو سمیرہ سے کیا دشمنی تھی؟ یہ سامنے کی بات ہے۔ اماراتی ویب سائٹ البیان کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کو خدشہ تھا کہ سمیرہ کی اہلیت کے باعث مصر جوہری بم بنانے کے قابل ہوجائے گا۔ چناں چہ پہلے راقیہ کے ذریعے سمیرہ کو امریکا منتقل ہونے اور امریکا کے لیے کام کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی، تاکہ وہ مصر یا مسلم دنیا کے کام نہ آسکیں، جب اس مقصد میں کام یابی حاصل نہ ہوئی تو ان کی جان لینے سے بھی دریغ نہ کیا گیا۔

سمیرہ موسیٰ جیسی نابغہ روزگار مسلم سائنس داں کی شہادت ایک سانحہ ہے، مزید المیہ یہ کہ اس عظیم نقصان کا تذکرہ بھی نہیں ہوتا۔ اتنا ہی نہیں، ان کا تحقیقی کام بھی اس بہانے کے ساتھ دبا لیا گیا ہے کہ وہ تمام عربی میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کا تحقیقی کام سامنے کیوں نہیں لایا جاتا؟ دوسرا سوال یہ کہ مصر کی سلامتی کے ادارے اتنے بے خبر کیوں تھے کہ ان کی ایک عظیم سائنس داں تک ایک ایسی خاتون کی رسائی ہوگئی جس کی اسرائیل دوستی بالکل واضح تھی اور سمیرہ موسیٰ کی حفاظت کے لیے اقدامات کیوں نہ کیے گئے؟ اپنی اس غفلت کے ہاتھوں مصر نے نہ صرف اپنا جوہرنایاب کھو دیا بلکہ مسلم دنیا کو بھی ایک قابل فخر سائنس داں کی صلاحیتوں کو صحیح معنی میں بروئے کار آنے سے پہلے ہی محروم کردیا۔

یہ بھی سُن لیجیے کہ مصریوں نے اپنی جس محبوب اداکارہ راقیہ ابراہیم کی سرگرمیوں سے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور جسے کینز فیسٹیول میں مصری وفد کی قیادت کا اعزاز عطا کرنے کی کوشش کی تھی، امریکا منتقل ہونے کے بعد اسے امریکا کے لیے اسرائیل کی خیرسگالی کی سفیر مقرر کیا گیا۔ یہ سمیرہ موسیٰ کے قتل میں معاونت کا صلہ تھا۔
 

محمد سعد

محفلین
امت مسلمہ کی اس عظیم خاتون کی داستان ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے جو سُرخ چہرے کے ساتھ کف اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کو سائنس میں کچھ نہ کرنے کا طعنہ دے کر مسلم نوجوانوں کو احساس کمتری کا شکار کرنے کے فریضے کی تکمیل کرتے ہیں
بد قسمتی سے، بلڈ پریشر کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا کر غصے سے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ یہ جملہ لکھتے ہوئے مصنف صاحب اس نکتے پر غور نہ کر سکے، کہ اگر ہمارے پاس سائنس دانوں کا اتنا قحط نہ ہوتا تو چند ایک سائنس دانوں کو قتل کر کے ہماری سائنسی ترقی کا راستہ روکنا بھی اتنا آسان نہ ہوتا۔
اتنا ہی نہیں، ان کا تحقیقی کام بھی اس بہانے کے ساتھ دبا لیا گیا ہے کہ وہ تمام عربی میں ہے۔
یعنی کہ جن ادروں میں سمیرا کام کرتی رہی تھیں، وہاں ان کے ساتھ کام کرنے والے سائنس دان بھی ان کے کام سے استفادہ نہ کر سکے، مصر سے شائع ہونے والے درجنوں تحقیقی جرائد بھی عربی میں موجود اس تحقیقی مواد کو سمجھنے میں ناکام رہے اور باوجود اس کے کہ سستی جوہری توانائی میں دنیا کا ایک بڑا حصہ دلچسپی رکھتا ہے، کوئی اس حل پر نہیں پہنچ سکا جو انہوں نے دریافت کیا تھا۔ اس میں تو ہم سب کی نا اہلی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ ایسے میں تو یہ گلہ کرنا سراسر جائز ہے کہ امت مسلمہ میں سائنس دانوں کا اتنا قحط ہے کہ ایک خاتون کے قتل ہونے سے سارا باب ہی بند ہو گیا۔
 
Top