سر رہ گزر...پروفیسر سید اسرار بخاری

قمر الزمان کائرہ کہتے ہیں: اپوزیشن نے نگران وزیراعظم کے لئے تمام نام پی پی دشمنی میں دیئے، الیکشن کمیشن نے ناصر اسلم کو نگران وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا تو پی پی کے تحفظات برقرار رہیں گے۔
اب تو کائرہ خاموش ہو جائیں، کہ اب تو اُن سے طوطیٴِ شکر مقال کا عہدہ بھی چلا گیا، اس لئے کہ اُن کا وقت ہی پورا ہو چکا تھا، ناصر اسلم کے نام پر پی پی کو اتنا قلق کیوں ہے اس کے جواب میں کہیں کسی ناپسندیدہ بات کے کھلنے کا اندیشہ تو نہیں، آخر اپوزیشن جو پانچ سال تعاون کرتی رہی اور تعاون بھی وہ والا نہیں کہ اچھائی پر تعاون کرو اور گناہ و ناانصافی پر ہرگز تعاون نہ کرو، لیکن اب یہ نگران وزیراعظم کے عہدے پر اڑ جانا تو غماز ہے کہ اگر یہ ناصر اسلم آ گئے تو
ترا آنا دل کے ارمانوں کا لٹ جانا
کے مترادف ہو گا، کائرہ کی خدمات تو یاد رکھی ہی جائیں گی مگر جو ایک نقال کا کردار انہوں نے بھری پریس کانفرنس میں کیا اور کئی بار کیا تو یہ ایسا ناقابلِ فراموش کارکردگی ہے کہ دیوان سنگھ مفتون ہوتے تو اپنی کتاب” ناقابلِ فراموش“ کے بارے میں کہہ اٹھتے
ما ہر چہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
الا حدیثِ ”کائرہ“ کہ تکرار می کنم
(ہم نے جو پڑھا بھلا دیا ماسوا کائرہ کی نقالی کی بات کہ بھلائے نہیں بھُلتی)
کائرہ صاحب یہ قہر تو نہ ڈھائیں کہ اپوزیشن نے سارے نام پی پی دشمنی میں دیئے، دوستی جسے مفاہمت کہتے ہیں اُس میں تو ”ہم نے کیا کیا نہ کیا تیرے پیار میں“ پھر بھی گلہ ہے دشمنی کا۔ ”برایں عقل و دانش بباید گریست“۔ چلو مٹی پاؤ، کہ اب تو وہ بھی مٹی ہٹانے میں لگے ہیں، کہ پی پی نے چودھری ”مٹی پاؤ“ کے ارکان کو دعوت عام دے دی، مشرف کے آنگن میں چودھری صاحب کے دانہ ڈالنے پر جو چڑیوں کا چنبہ اکٹھا ہوا تھا وہ اُڈ پڈ گیا۔ چند ایک جو باقی ہیں شاید تیار بیٹھے ہیں، کیا کائرہ کو یہ بات نہیں چبھ رہی کہ عالمی سطح پر نگران وزیراعظم کے رواں دواں پھڈے کے باعث پاکستان کی کتنی رسوائی ہو رہی ہے، مگر یہ کیا جانیں رسوائیاں کہ پانچ سالہ نیکنامیاں ہی ان سے اٹھائے نہیں اٹھتیں۔
####
مزاحیہ فنکار عمر شریف اپنا نیا پروگرام ”گڈ نائٹ عمر شریف“ شروع کر چکے ہیں، اس پروگرام میں وہ صرف میزبان ہی نہیں بلکہ ایک ماہر نفسیات، محبت کے معاملات سلجھانے والے اور سماجی امور پر گہری نظر رکھنے والے فرد کا کردار بھی ادا کریں گے۔
پنجاب کی ایک مشہور کہاوت ہے: ”ویلیاں مستیاں تے گالہڑ امام“ یہ ہر کوئی جانتا ہے، کہ انسان کو اُس کی نادیدہ صلاحیتوں کی بنیاد پر شیر، گیدڑ، لومڑ، گالہڑ وغیرہ کہنے کا استعمال عام ہے، عمر شریف کا نام سامنے آتے ہی ذہن دو طرف جاتا ہے ایک جاتی عمرہ اور دوسرے نواز شریف کی طرف، گویا وہ اپنی ذات میں ایک مرکب نہیں مرکبات ہیں، مگر یہاں ہم نے اور کئی تراکیب قلم انداز کر دی ہیں، ایک بات ہم بلا کم و کاست عرض کر دیں کہ مزاح کو مزاح ہی رہنے دیں کوئی نام نہ دیں، کہ مزاح اور تمسخر میں کوئی عقلی فکری اور رشد و ہدایت کی بات نہیں کی جا سکتی اگر یوں ہوتا تو دنیا کے بڑے بڑے ریفارمر اور آسمانی کتابوں میں بلکہ کئی فکری و علمی کتابوں میں مزاح کو ذریعہ ابلاغ بنایا جاتا، بلکہ جب ہدایت و فکر کی بات مزاح کے رنگ میں پیش کی جاتی ہے تو وہ بیک وقت دو اثرات کھو دیتی ہے، نہ کوئی ہنستا ہے اور نہ کوئی سیکھتا ہے اس لئے جس تالاب میں عمر شریف زندہ چلے آ رہے ہیں اُسی میں رہیں، کسی قلزم کا رخ نہ کریں، کہ اسی میں ہے مزاح کی آبرو، جب وہ طربیہ وار آتے اور اک رقص شرر کی طرح پورا بھی نہیں آدھا جملہ بول دیتے ہیں، تو پنڈال زعفران زار بن جاتا ہے، اُن کے افتتاحی جملے کو آدھا وہ لفظوں سے پورا کرتے ہیں، اور آدھا اُن کی شکل و شباہت اور بل کھا کے آنا پورا کر دیتا ہے۔ ہر مزاح نگار خود نفسیاتی مریض ہوتا ہے، اور ہنسا کے اپنا ہی علاج کرتا ہے، اس لئے وہ مریضِ نفسیات تو ہو سکتا ہے طبیب نفسیات نہیں، البتہ حبیب نفس بن سکتا ہے، اور نفس جو کہے وہ زبان سے بہ اندازِ دِگر پیش کر کے لوگوں کو مسکراہٹیں، ہنسی اور قہقہے عطا کرتا ہے، یہ کیا کم خدمت ہے، کیا وہ نہیں مانتے کہ گڈ بائی عمر شریف سے نفسیاتی طور پر ڈر کر انہوں نے گڈ نائٹ عمر شریف پروگرام کا نام رکھ دیا ویسے گڈ نائٹ کے بعد بستر منتظر ہوتا ہے نہ کہ اسٹیج۔
####
چوہدری شجاعت حسین فرماتے ہیں: مشرف نے مذاکرات کی کامیابی ناکامی میں بدل کر آپریشن کا حکم دیا۔ اور طارق محمود نے کہا کہ مشرف کو پاکستان آ کر قانون کا سامنا کرنا چاہئے جبکہ مشرف کہتے ہیں: کہ انہیں بکتر بند گاڑی فراہم کی جائے،
بھوک سے مر جانے والے کو آپ کشتٴہِ مروارید بھی کھلا دیں تو وہ آنکھیں نہیں کھولتا، کیونکہ کشتٴہِ مروارید کی تاثیر میں شک نہیں مگر اس کا ایک وقت ہے، اور وہ یہ کہ بھوکا زندہ ہو پھر اُسے آپ لکشمی کی ٹکا ٹک کھلا دیں ٹھنڈا پانی پلا دیں، تو آپ کی نیکی ٹائم بار نہیں ہو گی، اور قیامت کو کام آئے گی، اب دیکھئے اگر پروین شاکر یوں کہتیں کہ
اُس نے ٹھنڈی ٹھار پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
تو سب کہتے کہ جب پیشانی گرم تھی تب ہاتھ رکھنا تھا، مگر اچھا کام غلط ٹائم پر کرنے سے تویہی ہو گا
کہ روح تک آ گئی تاثیر ”مرگِ ناگہانی“ کی
اسی طرح علم اگر کسی کے پاس ہو اور اُس کے اندر تخلیق کا چشمہ بھی ابلتا ہو تو وہ انتہائی سنجیدہ انداز میں جو بات کرتا ہے، اثر رکھتی ہے، اور دنیا میں علم ہی وہ جائز جادو ہے جو سر چڑھ کر نہیں روح میں اتر کر بولتا ہے، بہرصورت ہم شاید دوسری جانب نکل گئے، بات تو یہ ہے کہ اگر یہی بات جو 600 بے گناہ بچیوں کے قتل سے پہلے وہ کہہ دیتے تو شاید کچھ نہ کچھ مداوا ہو جاتا مگر اب جبکہ مشرف بے شرف حالت میں بکتر بند گاڑی مانگ رہے ہیں، اور عدالتوں کا سامنا کرنے آ رہے ہیں تو یہ مٹی ڈالنے والی بات ہے، اور اب کیا ہوت جب ”کھیت“ چک گیا چڑیاں، البتہ چودھری صاحب قبلہ نے جو کامیاب مذاکرات کئے اُن کا اجر اُن کو ضرور ملے گا، مگر وہ یعنی پرویز الٰہی یہ نہ کہتے کہ ہم مشرف کو دس بار صدر بنائیں گے، اور شاید اب بھی وہ ایسا کرنے کو پھر سے تیار ہو جائیں بشرطیکہ مشرف انہیں وزیراعظم بنانے کا پختہ یقین دلا دیں، مگر وہ تو ناپختہ ملزم سیاستدان کی صورت آنے کی بات کر رہے ہیں، شاید وہ اب کبھی نہیں آئیں گے تمہارا کیا بنے گا چوہدریو؟
####
حیرت ناک خبر ہے کہ امریکہ کی ایک گائے نے بھی خود ہینڈ پمپ چلا کر اپنی پیاس بجھا لی، دوسری جانب ہم ہیں کہ امریکہ کو تڑیاں لگاتے ہیں، خیر حکمران تو پانی بھرتے ہیں مگر ہم عوام کی بات کر رہے ہیں، جب کسی معاشرے میں علم و آگہی عام کر دی جائے تو وہ دوزخ بھی ہو تو جنت بن سکتی ہے، اس ذہین امریکی گائے نے امریکیوں ہی سے یہ طریقہ سیکھا اور اپنی وہ ذہانت استعمال کی جسے ہم آج تک جبلت سمجھتے رہے، گویا انسانوں میں اگر زیادہ تو کچھ نہ کچھ ذہانت جانوروں میں بھی ہوتی ہے، امریکہ کی اس مثال کو کاٹنے کے لئے ہم اپنی تاریخ میں سے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں، کہ اخْفش نام کا ایک بہت بڑا گرامر کا ماہر سکالر تھا وہ نئے نئے قواعد ایجاد کرتا اور اپنی بکری سے اُن کی تصدیق کراتا، جب وہ بکری کے حضور اپنا علمی کارنامہ پیش کرتا تو بکری اگر اثبات میں سر ہلا دیتی تو وہ اسے اپنی کتاب کا حصہ بنا لیتا اور اگر بکری نفی میں سر ہلاتی تو اُس قاعدے کو رد کر دیتا، یہ بکری تاریخ میں ”بُزِ اخْفش“ (اخْفش کی بکری) کے نام سے بہت مشہور ہے، کہئے جب امریکہ میں انسان ہینڈ پمپ تک کو نہیں جانتے تھے تب مسلمانوں کے ہاں ایک بکری گرامر کے قواعد و ضوابط کی تصدیق یا تردید کرتی تھی، مگر اب تو یہ حال ہے، کہ ہم امریکیوں کے بغیر جی بھی نہیں سکتے اور اُن کو بُرا بھی کہتے ہیں، امریکیوں نے ہمارے علوم و فنون کو لیکر سفر جاری رکھا چاند پر پہنچ گئے اور مریخ پر گاڑی چھوڑ آئے لیکن ہم ہر بات پر ایک بہانہ پیش کرتے ہیں کہ ہلاکو نے بغداد کو تاراج کر دیا، بیت الحکمت کی کتابیں دجلہ میں بہا دیں ورنہ ہم نہ جانے کہاں پہنچ گئے ہوتے، حالانکہ ہلاکو حملہ نہ کرتا تواس سے بھی بُرا حال ہوتا یہ تو بھلا ہو ہلاکو خان کا کہ بغداد پر حملہ کر دیا وگرنہ آج ہم دنیا کے سامنے اپنی نالائقی و غفلت کا کیا سبب پیش کرتے، یہاں یہ بات بھی لائق ذکر ہے کہ ہم تیل ، گیس رکھنے کے باوجود کرائے کی بجلی سے کام چلاتے ہیں تاکہ” حکمران گلشن“ کا کاروبار چلے ہم نے اپنی اس انتہائی ”ترقی یافتہ“ صورتحال میں سرے سے ہینڈ پمپ کا استعمال ہی چھوڑ دیا، حالانکہ جب تک ہینڈ پمپ تھے بل تھوڑا آتا تھا اور لوگ بھی سمارٹ رہتے تھے، اب عرصہ ہوا وطن عزیز میں کوئی پتلی کمر ہی نظر نہیں آتی۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 
Top