سرکارِ بغداد حضور غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ

قطب الاقطاب، غوث اعظم، محبوب سبحانی، محی الدین سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی (پ ۴۷۰ھ، ۱۰۷۷ئ/م ۵۶۱ھ،۱۱۶۶ئ) حسنی و حسینی سید اور مادر زاد ولی تھے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ اخبار الاخیار میں فرماتے ہیں، اﷲ تعالیٰ نے آپ کو قطبیت کبریٰ اور ولایت عظیمہ کا مرتبہ عطا فرمایا، یہاں تک کہ تمام عالم کے فقہاء علماء طلباء اور فقراء کی توجہ آپ کے آستانہ مبارک کی طرف ہوگئی، حکمت و دانائی کے چشمے آپ کی زبان سے جاری ہوگئے اور عالم ملکوت سے عالم دنیاتک آپ کے کمال و جلال کا شہرہ ہوگیا، اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے علاماتِ قدرت و امارت اور دلائل و براہین کرامت آفتابِ نصف النہار سے زیادہ واضح فرمائے اور جودو عطا کے خزانوں کی کنجیاں اور قدرت و تصرفات کی لگامیں آپ کے قبضہ اقتدار اور دست اختیار کے سپرد فرمائیں تمام مخلوق کے قلوب کو آپ کی عظمت کے سامنے سرنگوں کردیا اور تمام اولیاء کو آپ کے قدم مبارک کے سائے میں دے دیا کیونکہ آپ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر فائز کیے گئے تھے جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے، ’’میرا یہ قدم تمام اولیاء کی گردنوں پر ہے‘‘۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں ؎
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
سربھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا

اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
حضرت غوث اعظم رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت کی آپ ﷺ نے فرمایا، اے عبدالقادر! تم لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لئے وعظ کیوں نہیں کرتے؟ عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ میں عجمی ہوں اس لئے عرب کے فصحاء کے سامنے کیسے وعظ کروں؟ فرمایا اپنا منہ کھولو پھر حضور علیہ السلام نے میرے منہ میں سات بار اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا جاؤ اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف بلاؤ۔ بعد ظہر جب آپ نے وعظ کاارادہ فرمایا تو کچھ جھجک طاری ہوئی حالت کشف میں دیکھا کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سامنے موجود ہیں اور فرما رہے ہیں منہ کھولو آپ نے تعمیل ارشاد کی تو باب علم وحکمت نے اپنا لعاب چھ بار آپ کے منہ میں ڈالا۔ عرض کی یہ نعمت سات بار کیوں عطا نہیں فرمائی، ارشاد فرمایا’’رسول معظم ﷺ کا ادب ملحوظ خاطر ہے‘‘۔ یہ فرماکر حضرت علی رضی اللہ عنہ غائب ہوگئے اور جب سرکار غوث اعظم نے خطاب فرمایا تو فصحائے عرب آپ کی فصاحت وبلاغت کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔
آپ کے وعظ میں ستر ہزار سے زائد لوگ شرکت کرتے جن میں علماء فقہاء اور اکابر اولیاء کرام کے علاوہ ملائکہ،جنات اور رجال الغیب بکثرت شریک ہوتے۔ اخبارالاخیار میں ہے کہ جتنے لوگ آپ کی مجلس میں نظر آتے ان سے کہیں زیادہ ایسے حاضرین ہوتے جو نظر نہیں آتے۔ آپ کی آواز دور ونزدیک کے سامعین کو یکساں سنائی دیتی تھی۔ کبھی آپ وعظ کے دوران فرماتے کہ قال ختم ہوا اور اب ہم حال کی طرف آتے ہیں، یہ کہتے ہی لوگوں میں اضطراب اور وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی،کتنے لوگ گریہ وزاری کرتے کپڑے پھاڑ کر جنگل کی طرف نکل جاتے۔ آپ کے تصرف وہیبت اور عظمت وجلال کے باعث کئی کئی جنازے اٹھائے جاتے اور سینکڑوں بیہوش ہوجاتے۔ آپ کی مجلس میں جو کرامات وتجلیات اور عجائب وغرائب ظاہر ہوئے ان کی تعداد شمار نہیں کی جاسکتی۔
شیخ شہاب الدین سہروردی فرماتے ہیں کہ شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ طریقت کے بادشاہ اور موجودات کے تصرف کرنے والے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو کرامات کا تصرف واختیار ہمیشہ حاصل رہا۔ امام عبد اللہ یافعی فرماتے ہیں کہ آپ کی کرامات حد تو اتر کو پہنچ گئی ہیں اور بالاتفاق سب کو اس کا علم ہے دنیا کے کسی شیخ میں ایسی کرامات نہیں پائی گئیں(اخبارالاخیار)۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں!’’قرب وولایت کا مرکزی منصب ائمہ اہل بیت سے منتقل ہوکر حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو عطا ہوا اور آپ ہی کیلئے مخصوص کردیا گیا،ائمہ اہل بیت اور آپ کے درمیان کوئی اور اس مقام پر فائز نہ ہوا۔ پس راہ ولایت میں اقطاب اور نجباء سب آپ ہی کے ذریعہ فیض پاتے ہیں کیونکہ یہ مقام آپ کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اسی لیے آپ نے فرمایا!
افلت شموس الاولین وشمسنا

ابدا علی افق العلی لاتغرب
پہلے لوگوں کے سورج غروب ہوگئے لیکن میرا سورج ہمیشہ بلند آسمان پر چمکتا رہے گا اور کبھی غروب نہ ہوگا‘‘۔(مکتوبات،جلد۲)
سورج اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈوبے

افق نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا
سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبہ کے طواف

کعبہ کرتا ہے طواف در والا تیرا
تفسیر مظہری میں سورئہ رعد کی آیت کے تحت مذکور ہے کہ’’حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کے دونوں صاحبزادے ایک عالم ملاطاہر لاہوری سے درس لیتے تھے۔ حضر ت مجدد رضی اللہ عنہ نے کشف سے دیکھا کہ اس عالم کی پیشانی پر شقی(بدبخت)لکھا ہے۔ آپ نے اپنے بیٹوں سے اس بات کا ذکر کردیا۔بیٹے استاد کی شفقت ومحبت کے باعث بضد ہوئے کہ حضرت مجدد ان کیلئے دعا فرمائیں کہ ان کی شقاوت سعادت سے بدل دی جائے۔ حضرت نے فرمایا!میں نے لوح محفوظ میں لکھا دیکھا ہے کہ یہ قضاء مبرم ہے جس کو بدلا نہیں جاسکتا۔ بیٹوں نے اصرار کیا تو فرمایا! مجھے یاد آیا کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میری دعا سے قضاء مبرم بھی بدل دی جاتی ہے اسلئے میں دعا کرتا ہوں، اے اللہ تیری رحمت وسیع ہے تیرا فضل کسی ایک پر ختم نہیں ہو جاتا میں پرامیدہو کر تیرے فضل وکرم کا طالب ہوں کہ تو ملاطاہر کی پیشانی سے شقاوت مٹا کر اس کی جگہ سعادت تحریر فرما۔ جیسے تو نے میرے آقا حضور غوث اعظم (رضی اللہ عنہ) کی دعا قبول فرمائی تھی۔ سبحان اللہ!حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کی شقاوت سعادت سے بدل گئی۔ سبحان اللہ حضرت مجدد الف ثانی نے حضور غوث اعظم کو آقا کہہ کر ان کے وسیلے سے دعا فرمائی اور وہ قبول ہوئی یہ شان ہے حضرت پیران پیر دستگیر کی۔‘‘ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں!
کس گلستان کو نہیں فصل بہاری سے نیاز

کون سے سلسلے میں فیض نہ آیا تیرا
راج کس شہر میں کرتے نہیں تیرے خدام

باج کس نہر سے لیتا نہیں دریا تیرا
سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے غوثیت کبریٰ کا منصب اور مقام تکوین عطا فرمایا،اسی لیے فرماتے ہیں،’’اگر میرا مرید مشرق میں کہیں بے پردہ ہوجائے اور میں مغرب میں ہوں تو بھی میں اسکی ستر پوشی کرتا ہوں‘‘۔(بہجۃ الاسرار)
دوسری جگہ فرمایا،
مریدی تمسک بی وکن بی واثقا

فاحمیک فی الدینا و یوم القیامۃ
’’اے میرے مرید میرا دامن مضبوطی سے پکڑلے اور مجھ پر پورا اعتماد رکھ میں تیری حمایت دنیا میں بھی کروں گا اور قیامت کے دن بھی‘‘۔
امام المحدثین شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اخبارالاخیار میں فرماتے ہیں!’’اگر دوسرے لوگ قطب ہیں تو یہ خلف صادق قطب الاقطاب ہیں اگر دوسرے لوگ سلطان ہیں تو یہ خلف صادق شہنشاہ سلاطین ہیں اور آپ کا اسم گرامی شیخ سید سلطان محی الدین عبد القادر جیلانی ہے جنہوں نے دین اسلام کو دوبارہ زندہ کیا اور طریقۂ کفار کو ختم کردیا اور نبی کریم ﷺ کا بھی یہی ارشاد ہے کہ الشیخ یحیی ویمیت۔شیخ کامل زندہ کرتا اور مارتا ہے‘‘۔
حکم نافذ ہے تیرا خامہ تیرا سیف تیری

دم میں جو چاہے کرے دور ہے شاہا تیرا
عرض احوال کی پیاسوں میں کہاں تاب مگر

آنکھیں اے ابر کرم تکتی ہیں رستا تیرا
امام المحدثین مزید فرماتے ہیں!شیخ کے مقام کا اس سے اندازہ کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ جو حی وقیوم ہے اس نے ہمیں اسلام عطا فرمایا اور غوث الثقلین نے اسے دوبارہ زندہ کیا۔ غوث الثقلین کے معنی ہی یہ ہیں کہ جنات اور انسان اسکی پناہ لیں،چنانچہ میں بیکس و محتاج بھی انہی کی پناہ کا طلبگار اور انہی کے دربار کا غلام ہوں مجھ پر انکاکرم اور عنایت ہے اور انکی مہربانیوں کے بغیر کوئی فریاد سننے والا نہیں ہے۔
پھر فرماتے ہیں ! ’’غوث اعظم دلیل راہ یقین،بالیقین رہبرا کابردیں۔
یعنی حضرت غوث اعظم راہ یقین کی دلیل ہیں آپ بلاشبہ اکابردین کے راہبر وراہنما ہیں‘‘۔
اوست درجملہ اولیاء ممتاز

چوں پیمبر درانبیاء ممتاز
یعنی آپ تمام اولیاء اللہ میں اس طرح منفرد ہیں جس طرح نبی اکرم ﷺ تمام انبیاء کرام علیم السلام میں نمایاں وممتاز ہیں۔
دردو عالم بہ اوست امیدم

ہست باوے امید جاویدم
یعنی دونوں جہاں میں میری امیدیں آپ کی ذات سے وابستہ ہیں،آپ ﷺ میری ہمیشہ کی امیدوں کے محور ہیں۔
مزید فرماتے ہیں،امید ہے کہ اگر کبھی راہ سے بھٹک جاؤں تو وہ راہبری کریں اور اگر ٹھوکر کھاؤں تو وہ مجھے سنبھال لیں،کیونکہ انہیں نے اپنے دوستوں کو یہ خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ایک رجسٹر بنادیا ہے جس میں میرے قیامت تک ہونے والے مریدوں کانام لکھا ہوا ہے۔ حکم الہٰی ہوچکا ہے کہ میں نے ان سب کی مغفرت فرمادی ہے کاش میرا نام بھی آپ کے مریدوں کے رجسٹر میں لکھا ہو،پھر مجھے کوئی غم نہ ہوگا کیونکہ میری خواہش کے مطابق میرا کام پورا ہوگیا ہے، میں نامراد بھی حضرت غوث الثقلین کا مرید بن گیا ہوں،قبول کرنا یا انکار کردینا یہ ان کے ہاتھ میں ہے میں ان کے طلب گاروں میں ہوں اور ان کا چاہنا ان کے اختیار میں ہے۔(اخبارالاخیار)
غور فرمایئے کہ اتنے عظیم محدث،عالم اسلام کے جلیل القدر امام شیخ عبد الحق محدث دہلوی جب بارگاہ غوثیت میںیوں عاجزی فرمائیں،امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی جب انہیں اپنا آقا کہہ کر بارگاہ الہٰی میں وسیلہ بنائیں،سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری اور تمام اولیاء ان کے ارشاد پر اپنے سروں کو جھکادیں، حضرت قطب الدین بختیار کاکی،حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند،حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانی،حضرت مخدوم علی احمد صابر کلیری،حضرت سلطان باہو، حضرت عبد الرحمن جامی،امام احمد رضا محدث بریلوی رحمہم اللہ تعالیٰ ان کی بارگاہ میں مدح سرائی کرتے ہوئے انہیں غوث الثقلین،غوث اعظم،محبوب سبحانی،پیرپیراںاور پیردستگیر کے القاب سے یاد کریں تو ان کے حقیقی مقام کو ہم آپ کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ یہ ان کی دلوں پر حکمرانی ہے کہ پوری دنیا میں ان کا عرس یعنی گیارہویں بڑے جوش وخروش سے منائی جاتی ہے اگر چند لوگ ان کی عظمت نہ بھی تسلیم کریں تو کیا فرق پڑتا ہے؟ اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ نے کیا خوب فرمایا!
ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تیرا ذکر ہے اونچا تیرا
مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعداء تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،جو شخص خود کو میری طرف منسوب کرے اور مجھ سے عقیدت رکھے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماکر اس پر رحمت فرمائیگا اگر اسکے اعمال مکروہ ہوں تو اسے توبہ کی توفیق دے گا، ایسا شخص میرے مریدوں میں سے ہوگاا ور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ میرے مریدوں،میرے سلسلے والوں،میرے پیروکاروں اور میرے عقیدت مندوں کو جنت میں داخل فرمائیگا۔(اخبار الاخیار)
کنجیاں دل کی خدا نے تجھے دیں، ایسی کر

کہ یہ سینہ ہو محبت کا خزینہ تیرا
نزع میں گور پہ سر پل پہ کہیں

نہ چھٹے ہاتھ سے دامان معلی تیرا
٭٭٭
 
آخری تدوین:
Top