سرِ مکتب سرِ محفل سرِ بازار گزری ہے - راحیل فاروق

سرِ مکتب سرِ محفل سرِ بازار گزری ہے
بہت مصروفیت میں زندگی بیکار گزری ہے

جگر جیسے نہ ہو ایسے جگر کے پار گزری ہے
نظر انداز سا کر کے نگاہِ یار گزری ہے

ہزاروں مرحلوں سے زندگی سرکار گزری ہے
کبھی گزری نہ تھی پہلے جو اب کی بار گزری ہے

نہاں خانوں میں اتنی روشنی ہوتی نہیں لیکن
تمھاری یاد ہی دل سے ستارہ وار گزری ہے

تلاطم آنسوؤں کا عرش کو بھی لے گیا شاید
ہوا ساون کی گزری ہے تو گوہر بار گزری ہے

لگی ہے آنکھ جب سے آنکھ لگنے ہی نہیں پائی
کبھی بے خواب گزری ہے کبھی بیدار گزری ہے

نظر سے حسن گزرا ہے لپٹ کر سات پردوں میں
قیامت سی کوئی باندھے ہوئے ہتھیار گزری ہے

تری فرقت میں جو آئی گئی ہے سانس سینے میں
اندھیرے گھپ میں گویا سونت کر تلوار گزری ہے

اسے جنت کا جھونکا جانتے ہیں مدرسے والے
زمانے کی ہوا جب پھاند کر دیوار گزری ہے

محبت کے گلی کوچوں سے دھتکاری گئی ہو گی
وفا پڑھتی ہوئی راحیل کے اشعار گزری ہے

راحیل فاروق​
 
Top