فاروقی
معطل
سرِ مقتل بھی صدا دی ہم نے
دل کی آواز سنا دی ہم نے
دل کی آواز سنا دی ہم نے
پہلے اک روزنِ در توڑا تھا
اب کے بنیاد ہلا دی ہم نے
اب کے بنیاد ہلا دی ہم نے
پھر سرِ صبح وہ قصہ چھیٹرا
دن کی قندیل بجھا دی ہم نے
دن کی قندیل بجھا دی ہم نے
آتشِ غم کے شرارے چن کر
آگ زنداں میں لگا دی ہم نے
آگ زنداں میں لگا دی ہم نے
رہ گئے دستِ صبا کملا کر
پھول کو آگ پلا دی ہم نے
پھول کو آگ پلا دی ہم نے
آتشِ گل ہو کہ ہو شعلۂِ ساز
جلنے والوں کو ہوا دی ہم نے
جلنے والوں کو ہوا دی ہم نے
کتنے ادوار کی گم گشتہ نوا
سینۂِ نَے میں چھپا دی ہم نے
سینۂِ نَے میں چھپا دی ہم نے
دمِ مہتاب فشاں سے ناصر
آج تو رات جگا دی ہم نے
آج تو رات جگا دی ہم نے