سرفروشی کی تمنا اوربسمل شاہجہانپوری

ایک غزل کا مطلع مشہور ہے۔
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زورکتنا بازوئے قاتل میں ہے

عام طور پر یہ مولانا ظفر علی خان (1873ءتا1956ء) کےنام سےمشہور ہے لیکن یہ مطلع ایک گمنام شاعر بسمل شاہجہانپوری کاہے۔ بسمل شاہجہانپوری نے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ہوش سنھبالنے کے بعد دل ودماغ میں یہی تڑپ تھی کہ برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہونا چاہیے۔ 1916ء میں ان کا رابطہ انہی خیالات کے حامل ایک اور نوجوانوں کے گروہ سے ہوا۔1918ء میں "مین پوری"سازش کے اہم واقعہ میں بسمل بھی شریک تھے 9اگست 1925ء کو انہوں نے کاکوری (لکھنو کا ایک مشہور قصبہ)ٹرین کی واردات میں حصہ لیا یہ سیاسی نوعیت کی واردات تھی۔ گرفتار ہوئے، مقدمہ چلتا رہاآخر19دسمبر1927ءکوبسمل شاہجہانپوری کو سزاموت دے دی گئی۔

بسمل شاہجہانپوری سیاست کے علاوہ شعروادب کابھی ذوق رکھتےتھے۔ مقدمے کےدوران ان کی کئی نظمیں مشہور ہوئیں، حکام نے ان کے کلام پر پابندی عائد کردی۔ زمانےکی دست وبرد سے یہی محفوظ نظم ہے اس کے ابتدائی چار شعر اورمقطع"بندے ماترم" نامی رسالہ میں اور بقیہ اورمقطع 1929ء میں "پشپانجلی"میں شائع ہوئے تھے۔پوری نظم لائق توجہ ہے ۔

سرفروشی کی تمنا اب ہمارےدل میں ہے
دیکھنا ہے زورکتنابازوئےقاتل میں ہے
راہ روئے راہِ محبت رہ نہ جانہ رہ میں
لذتِ صحرانوردی دوری منزل میں ہے
وقت آنے دے بتادیں گے تجھے اے آسمان
ہم ابھی کیا بتائیں کیاہمارے دل میںہے
اےشہیدملک وملت تیرے جذبوں کے نثار
تیری قربانی کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
دور ہواب ملک سے تاریکی بغض وحسد
بس یہی حسرت یہی ارماں ہمارے دل میں ہے
ساحل مقصود پر لے جا چل خداراناخدا
اپنے ارمانوں کی کشتی بڑی مشکل میں ہے
اب نہ اگلے ولولے ہیں نہ ارمانوںکی بھیڑ
ایک مٹ جانے کی حسرت اب دلِ بسمل میں ہے
 
Top