سربستہ راز

سیما کرن

محفلین
رفتہ رفتہ کھل رہے ہیں راز سربستہ سبھی
جستجوئے شوق ہمیں لے چل درِ جاناں کبھی
ہم بھی اپنے رب سے پوچھیں کیسی تھی وہ مصلحت
شخصیت تھی بے وقعت اور ہم تھے سرگرداں کبھی
آج اپنے مول ہم خود ہی لگائے بیٹھے ہیں
حرف دو انمول ہیں، تھی زیست بے مایہ کبھی
وقت نے بدلا ہے چولا موسموں کے درمیاں
جسم اپنا کھوجتا تھا رات میں سایہ کبھی
سیما کرن
 

یاسر شاہ

محفلین
سیما بہن السلام علیکم اورخوش آمدید
آپ کے کلام میں کچھ بنیادی مسائل ہیں انھیں درست کیاجائے تو آپ کی یہ کاوش باقاعدہ غزل میں بدل سکتی ہے ۔ان مسائل کے حل کے لیے اعجاز صاحب اصلاح سخن میں تشریف لاتے ہیں۔
 

سیما کرن

محفلین
مجھے خوشی ہو گی اگر اصلاح کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا بھی پتہ چل جائے۔
عین نوازش ہو گی۔
 

یاسر شاہ

محفلین
مجھے خوشی ہو گی اگر اصلاح کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا بھی پتہ چل جائے۔
عین نوازش ہو گی۔
رفتہ رفتہ کھل رہے ہیں راز سربستہ سبھی
جستجوئے شوق ہمیں لے چل درِ جاناں کبھی
غزل کے مطلع سے قافیے ردیف اور وزن کا تعین ہوتا ہے ۔آپ کی غزل کے مطلع سے تعین نہیں ہو پا رہا۔اگلے اشعار کو دیکھ کر تعین کیا جائے تو ردیف کبھی بنتی ہے جبکہ مطلع میں "سبھی" بھی ہے جو کہ ٹھیک نہیں کیونکہ ردیف وہ لفظ ہے جو غزل میں ہو بہو رپیٹ ہوتا ہے ،اسی طرح قافیہ بھی طے نہیں ہو پا رہا کیونکہ سربستہ ،جاناں اور بے مایہ وغیرہ ہم قافیہ الفاظ نہیں ۔اسی طرح وزن کی بات کی جائے تو آپ کی غزل کے کچھ مصرع
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
کے وزن میں ہیں مگر سب نہیں لہذا وزن کا بھی مسئلہ درپیش ہے۔یہی وہ بنیادی مسائل ہیں جن کی طرف آپ کی توجہ مبذول کی تھی۔
 
Top