سراج_الدین_ظفرؔ صاحب“ کا یومِ ولادت... 25؍مارچ 1912

سیما علی

لائبریرین
آج - 25؍مارچ 1912

استاد شاعر سیمابؔ اکبر آبادی کے شاگرد، لب و لہجے کے حوالے سے بے حد منفرد شاعر ”#سراج_الدین_ظفرؔ صاحب“ کا یومِ ولادت...

نام #سراج_الدین اور تخلص #ظفرؔ تھا۔
25؍مارچ 1912ء کو جہلم میں پیدا ہوئے۔ 1928ء میں میٹرک اور 1930ء میں ایف سی کالج لاہور سے ایف اے کیا۔ پھر کالج کی تعلیم چھوڑ کرہوابازی کی تعلیم شروع کی اور دہلی فلائنگ کلب سے ہوابازی کا اے کلاس لائسنس حاصل کیا۔ والد کے ناگہانی انتقال کے وجہ سے یہ سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ 1933ء میں ایف سی کالج سے بی اے کیا۔ 1935ء میں ایل ایل بی کیا۔ ابتدا میں انھوں نے وکالت شروع کی، لیکن جلد ہی اس پیشہ سے ان کی طبیعت اکتا گئی۔ دوسری جنگ عظیم میں افسر کی حیثیت سے ہوائی فوج میں بھرتی ہوگئے اور دس برس تک متعدد عہدوں پر فائز رہے۔ 1950ء میں اس ملازمت کو خیرباد کہا اور تجارت کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی شاعری کرتے تھے۔ ان کے دوشعری مجموعے ’’زمزمۂ حیات‘‘ 1946ء اور ’’غزال وغزل‘‘ 1968ء میں شائع ہوئے۔ ’’غزال وغزل‘‘ پر 1969ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔افسانوں کا مجموعہ ’’آئینے‘‘ 1943ء میں فیروز سنز نے شائع کیا۔ شروع میں انھوں نے سیمابؔ اکبرآبادی سے اصلاح لی۔ 06؍مئی 1972ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:32

🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻

🌹🎊 معروف شاعر سراج الدین ظفرؔ صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت... 🎊🌹

نمود ان کی بھی دور سبو میں تھی کل رات
ابھی جو دور تہ آسماں نہیں گزرے
---
اے دوست اس زمان و مکاں کے عذاب میں
دشمن ہے جو کسی کو دعائے حیات دے
---
ہجومِ گل میں رہے ہم ہزار دست دراز
صبا نفس تھے کسی پر گراں نہیں گزرے
---
وہ تماشا ہوں ہزاروں مرے آئینے ہیں
ایک آئینے سے مشکل ہے عیاں ہو جاؤں
---
مخمور بوئے زلف نہ آئیں گے ہوش میں
چھڑکے ابھی نسیمِ بہاراں گلاب اور
---
ساغر اٹھا کے زہد کو رد ہم نے کر دیا
پھر زندگی کے جزر کو مد ہم نے کر دیا
---
اصلاح اہل ہوش کا یارا نہیں ہمیں
اس قوم پر خدا نے اتارا نہیں ہمیں
---
میں نے کہا کہ تجزیۂ جسم و جاں کرو
اس نے کہا یہ بات سپرد بتاں کرو
---
اٹھو زمانے کے آشوب کا ازالہ کریں
بنامِ گلُ بدناں رُخِ سوئے پیالہ کریں
---
شوق راتوں کو ہے در پے کہ تپاں ہو جاؤں
رقصِ وحشت میں اٹھوں اور دھواں ہو جاؤں
---
ہم میں کل کے نہ سہی حافظؔ و خیامؔ ظفرؔ
آج کے حافظؔ و خیامؔ ابھی باقی ہیں
---
دن کو بحر و بر کا سینہ چیر کر رکھ دیجئے
رات کو پھر پائے گل رویاں پہ سر رکھ دیجئے
---
ہم آہوانِ شب کا بھرم کھولتے رہے
میزانِ دلبری پہ انہیں تولتے رہے
---
یا رب سراب اہل ہوس سے نجات دے
مجھ کو شراب دے انہیں آب حیات دے
---
اس طرح شوقِ غزالاں میں غزل خواں ہو ظفرؔ
شہرتِ مشک غزلِ شہر ختن تک پہنچے

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
 
Top