سراب (وہ خام خیالیاں جو میرے بلاگ پر تحریر کی جاتی ہیں)

رضوان

محفلین
کھوٹے سیاستدان کھرے سکے

ابھی اس پیپلز پارٹی کے بلکہ عوام کے خلاف ہونے والے سانحے کا اثر کم نہیں ہوا۔ بیانات جوابی بیانات، الزامات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
ایک شخص جس کا نام جانے کیوں اس کے والدین نے بہادری رکھا تھا شاید انہیں علم ہوگا کہ
آنکھوں اندھی نام نور بھری
نے چھوٹتے ساتھ جرنیل سے التجا کی ہے کہ ریلیوں اور جلوسوں پر پابندی لگائی جائے۔ اس ہی غیر متنازعہ مرنجانِ مرنج روٹی شوٹی کھاؤ سیاہ ستدان نے چیف جسٹس والے معاملے میں ایمرجنسی کا شوشہ چھوڑا تھا اب پھر میدان سے بھاگنے اور چور راستے کے ذریعے اقتدار کی ” ہما ” اپنے سر بٹھانے کے لیے شور مچا رہے ہیں۔ یہ ڈرائنگ روم کے سیاہ ستدان ہیں اور عوام سے منہ چھپانے کے بہانے تلاش کر رہے ہیں جس میں اہلِ جبہ و دستار ان کے ساتھ ہوں گے۔
یہ سب جمہوری طاقتوں سے خوفزدہ ہیں اور جبر کے ذریعے اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتے، جبر عدم برداشت کو جنم دیتا ہے غصہ پیدا کرتا ہے فوجی اقتدار جبر کا دوسرا نام ہے،
جبر رہے اور امن بھی ہو
یہ کیسے ممکن ہے تمہی کہو
میرے نزدیک وہ لوگ بہادر تھے جنہوں نے اس ریلی میں اس استقبال میں شرکت کی اور اس ریلی کو اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا استعارہ بنایا۔ اس ریلی میں شرکت کر کے ڈرائنگ روم کے سیاست دانوں پر نفرین کی۔
اس استقبال اور قربانی نے ایک دفعہ پھر ثابت کیا کہ بینظیر کچھ بھی کرے وہ مکار ہو یا کرپٹ وہ چالبازی کرے یا اقتدار کے لیے کوئی شارٹ کٹ اختیار کرے لیکن اس کی جیب میں پڑے سکے ہرگز کھوٹے نہیں ہیں۔
( کاش ان سکوں کو اپنی قیمت کا خود بھی اندازہ ہوجائے لیکن کیا فائدہ سکے استعمال تو سوداگر ہی کرتے ہیں)



(تنقید و تبصرے کے لیے " کھوٹے سیاستدان کھرے سکے" )
 

رضوان

محفلین
منگلا ڈیم

اس دفعہ چھٹی گزارنے کے لیے کافی سوچ بچار کے بعد منگلا ڈیم کا قصد کیا۔ اسلام آباد سے تقریبًا 125 کلومیٹر جی ٹی روڈ پر لاہور کی جانب جائیں تو کھاریاں سے پہلے دینہ نامی قصبہ آتا ہے جسکے 25 کلومیٹر دائیں جانب روہتاس فورٹ اور بائیں جانب اگر جائیں تو میر پور کے راستے میں منگلا ڈیم واقع ہے ۔کچھ پوچھ گچھ اور انٹرنٹ پر سرچ کرنے سے بھی معاملات اور راستہ واضح نہیں ہوا نہ ہی یہ معلومات ملیں کہ وہاں کس قسم کی تفریحی سہولیات ہیں۔ پھر بھی یہ سوچ کر چل دیے کہ چل کر دیکھیں گے ورنہ مچھلی کھا کر واپس آجائیں گے۔ جی ٹی روڈ پر آتے ہی گاڑی کی پچھلی بریک سے آواز آنے لگی حالانکہ چلنے سے پہلے ہی گاڑی مکمل چیک کر چکے تھے لیکن یہ معاملہ کچھ اور لگتا تھا گوجر خان پر ایک میکینک سے رجوع کیا اور جسنے کافی محنت کی لیکن بریک پسٹن ہی جام تھا جسکی وجہ سے ایک وھیل کی بریک ہی نہیں لگ رہی تھی۔ تقریبًا ایک گھنٹہ یہاں صرف کرنے کے بعد دینہ پہنچے اور جی ٹی روڈ پر لگے بورڈ کو فالو کرتے ہوئے بائیں مڑ گئے کچھ ہی دیر بعد کھیتوں سے ہوتے ہوئے منگلا کینٹ اور اسکے بعد ایک پل کراس کر کے منگلا ڈیم کی چڑھائی شروع ہوگئی یہاں ایک صاحب سے معلومات لیں کہ ڈیم پر کوئی ایسی جگہ ہے جو پکنک اسپاٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہو اور وہاں کیا سہولیات ہیں بندہ جانکار نکلا اور انہوں نے بتایا کہ آپ میر پور والے راستے پر ہی چلتے جائیں چڑھائی چڑھنے کے بعد بائیں جانب ایک پھاٹک ( بیریئر ) لگائے پولیس کے جوان بیٹھے ہوں گے وہاں شناختی کارڈ جمع کروائیں اور آگے چلے جائیں۔ اس کاروائی سے گزر کر آرمی واٹر اسپورٹس کلب کے بورڈ کا پیچھا کرتے ایک پارکنگ تک جا پہنچے جہاں ایک فوجی جوان کو مبلغ 40 روپے ( 10 روپے گاڑی اور پانچ روپے فی فرد ) ادا کیے۔ پارک اور منگلا جھیل کا نظارہ کیا تو تمام کلفت دور ہوگئی یہی پچھتاوہ ہوا کہ اتنی عمدہ سیرگاہ پر ہم پہلے کیوں نہ آئے۔ کافی لوگ کھانے پینے کا سامان اپنے ہمراہ لیے موجود تھے اور کچھ لوگ وہیں باربی کیو کر رہے تھے۔ واٹر اسپورٹس بمعہ حفاظتی اقدامات موجود تھیں یہی سب سے عمدہ اور منفرد بات تھی۔ عام طور پر چھوٹے بچوں کی دلچسپی کے کھیل تماشے اور جھولے تو کئی جگہ مل جاتے ہیں لیکن ٹین ایجر بچے کیا کریں؟ یہاں اسپیڈ بوٹ، یاچنگ، بڑی کشتی اور سب سے بڑھ کر واٹر اسکوٹر موجود تھے جسے بچوں نے خوب انجوائے کیا۔ واٹر اسکوٹر 250 روپے اور اسپیڈ بوٹ چھ افراد کےلیے تین سو سے آٹھ سو روپے میں فوجی جوان کرایہ وصول کر رہے تھے اور فوجی افسران کی فیمیلیاں اپنے حوالے سے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو سیریں کرارہی تھیں۔ لکھت پڑھت اور ٹکٹوں کا انتظام بھی دیسی سا تھا جس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ فوجی دال کالی ہے۔ ہاں بڑے اسٹیمر بھی موجود تھے جنکا ٹکٹ فی کس 40 روپے تھا اور خراماں خراماں تقریبًا ساری جھیل کی سیر کراتے ہیں۔
مغرب کے وقت واپسی ہوئی اور منگلا کینٹ کراس کر کے “ شاہ مچھلی فرائی “ کے جھونپڑے کے پچھلی طرف چارپائیوں پر بیٹھ کر مزیدار مچھلی کا ڈنر کھا کر رات ساڑھے نو بجے گھر واپس آگئے۔ اگر دیکھا جائے تو ٹوٹل 550 روپے کی سی این جی جلا کر چھ افراد نے ایک بہترین پکنک منائی۔


(تنقید و تبصرے کے لیے " منگلا ڈیم " )
 

رضوان

محفلین
اپنا گراں ہووے توتاں دی چھاں ہووے

اپنا گراں ہووے
توتاں دی چھاں ہووے
وانے دی منجھی ہووے
سر تلے بانھ ہو وے
ہتھ وچ بٹیرا رکھاں
شملہ اچیرا رکھاں
حجرے تے دیرا رکھاں
سَنگ تاں اچ ناں ہووے
اپنا گراں ہووے
توتاں دی چھاں ہووے
وانے دی منجھی ہووے
سر تلے بانھ ہو وے
چلماں دے سوٹے لاواں
کافیاں تے ڈوھڑے گاواں
تیرے بوھے تے آواں
تے نکئی جئی ہاں ہووے
اپنا گراں ہووے
توتاں دی چھاں ہووے
وانے دی منجھی ہووے
سر تلے بانھ ہو وے
جتنے دیھاڑے جیواں
خوشیاں دا ساتھی تھیواں
لسیاں تے دودھ پیواں
کِلے اُتے گاں ہووے
اپنا گراں ہووے
توتاں دی چھاں ہووے
وانے دی منجھی ہووے
سر تلے بانھ ہو وے
ہتھاں دی لکیراں ویکھاں
نالے تقدیراں ویکھاں
رانجھے تے ہیراں ویکھاں
وگدا چناں ہووے
اپنا گراں ہووے
توتاں دی چھاں ہووے
وانے دی منجھی ہووے
سر تلے بانھ ہو وے
بُجھے ہوئے بٹیرے کھاواں
جدوں وی ڈیرے جاواں
پیڑے تے برفی کھاواں
چَنگی جئی سراں ہووے
اپنا گراں ہووے
توتاں دی چھاں ہووے
وانے دی منجھی ہووے
سر تلے بانھ ہو وے

( ویڈیو اور تنقید کے لیے " اپنا گراں ہووے توتاں دی چھاں ہووے " )
 

رضوان

محفلین
Rohtas Develpment Committee کے صدر

مجھے اپنی بیٹی کو ٹیوشن سے واپس لینا تھا اسی وجہ سے کچھ جلدی میں تھا لیکن پھر بھی جب F-8 کی سروس روڈ پر ان بڑے صاحب نے ہاتھ دیا تو میں نے گاڑی روک دی کہ پشاور موڑ تک ہی انہیں جانا ہوگا ساتھ بٹھا لیتا ہوں۔ ساٹھ پینسٹھ سال کے دیکھنے میں صحت مند بغیر کوٹ لیکن واسکٹ پہنے اور ٹائی لگائی ہوئی تراشیدہ چھوٹی سی ڈاڑھی اور سر پر دوپلی سے ملتی جلتی ٹوپی کڑھائی دار ٹوپی۔
میں نے پوچھا کہ آپ کہاں جائیں گے؟
جواب ملا! رُھتاس سے آیا تھا ایک صاحب سے ملنے مجھے بٹھا کر ابھی تک واپس نہیں آئے اب جمائیاں لے لیکر تنگ آگیا ہوں تو سوچا کھنہ پُل پر ایک جاننے والے ہیں ان تک چلتا ہوں اب واپس جانے کا تو وقت بچا نہیں۔
( رُھتاس کا نام سنتے ہی مجھے تجسس پیدا ہوا کہ چچا میاں کو کھنگالنا چاہیے )
پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ٹوریسٹ گروپس کو لیجاتے ہیں پہلے مانکیالہ اسٹوپا دکھاتے ہیں پھر چکوال کے پاس جی ٹی روڈ سے ذرا ہٹ کر غوری کا مقبرہ ہے اور روہتاس سے واپس آکر قلعہ روات ہے۔
(یہ سارے میرے لیے انکشافات ہی تھے، مانکیالہ اسٹوپا کے متعلق سُن رکھا تھا مگر لوکیشن اب پتہ چلی۔) ابھی اسٹوپا اور بُدھ پر تبادلہ خیالات ہورہا تھا کہ G-9 آگیا اپنی بیٹی کو میں نے لیا اور پھر یہ صاحب گویا ہوئے کہ میرا عزم یہ ہے کہ دنیا میں روہتاس کا نام روشن ہو اس مقصد کے لیے مختلف اداروں کو خطوط لکھتا ہوں ڈونرز سے رابطے کرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ جس کسی سے ملوں اسے اس بات پر راضی کروں کہ وہ بھی اس پیغام کو آگے پہنچائے اس طرح چراغ سے چراغ جلا کر روہتاس اور پوٹھوہار کا جو عظیم ثقافتی ورثہ ہے اس سے ساری دنیا کو روشناس کرواؤں۔
کہنے لگے کہ چالیس سے زیادہ ممالک کا سفر کر چکے ہیں، بیس بائیس سال سے دبئی میں ہیں۔ وہاں کے شیوخ سے کافی پیسہ لگوایا ہے کویت کے شاہ سے کئی بلین ڈالر دلوائے ہیں جس سے روہتاس میں نکاسیِ آب کا پروجیکٹ مکمل ہوا۔ پھر پرویز مشرف اور وزیر اعلیٰ کے ذریعے مختلف تقریبات منعقد کیں جن سے قلعہ میں ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر کا قیام عمل میں آیا اور دیگر سہولیات کی فراہمی میں مدد ملی۔ سہیل گیٹ کی تکمیل اور تزئین و آرائش کا پروجیکٹ مکمل کروایا، پھر ٹلہ جوگیاں ہے اس کیطرف دنیا کو متوجہ کیا کہ یہ ہزاروں سال پرانا ورثہ ہے جہاں جانے تک کا رستہ نہیں تھا پھر بھی میلہ جوگیاں منعقد کرواکر تمام اقلیتی ممبران اسمبلی اور شاہانی جیسے تجارتی اداروں سے اسپانسر کروایا لوگوں کو ہیلی کاپٹر، جیپوں اونٹوں پر لیکر گئے۔ آرمی والوں کو قائل کیا ( ؟ ) کہ تم لوگ اپنی شوٹنگ رینج کے چکر میں لوگوں کو وہاں جانے سے مت روکو۔ پھر ذکر ہوا قلعہ نندنہ ( جہلم ) کا کہنے لگے میں عراق گیا جہاں شہر “ بیروں “ ہے جس کا رہنے والا البیرونی جب اس جگہ آیا اور یہاں بیٹھ کر اس نے زمین کا محیط معلوم کیا۔ تو میں نے عراق والوں سے کہا کہ تمہارے یہاں کا ایک فرزند ہمارے اس قلعہ میں آیا اور اس نے اتنا بڑا کام کیا اب اس کے نام کو باقی رکھنے کے لیے اس قلعے کی مرمت ہی کروادو انہوں نے کہا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں تو میں نے ان سے تیل مانگا کہ تم مجھے تیل دو میں اسے بیچ کر کام کرواتا ہوں۔ عراق والوں سے تین ملین ( ؟ ) کا تیل لیکر حکومت پاکستان کو دیا کہ یہ لو اور اب قلعہ نندنہ کی مرمت کرو۔
مختصر یہ کہ انہوں نے اپنی اکیلی ذات کے اتنے کارنامے گنوائے کہ اگر ایک فیصد بھی سچ ہو تو انہیں تمغہ امتیاز ملنا چاہیے لیکن خود انکے بقول وہ صرف خط لکھتے ہیں لوگوں سے رابطے کرتے ہیں لیکن میڈیا سے اور جہاں کام ہورہا ہوتا ہے وہاں سے کوسوں دور کسی اور سلسلے میں کسی اور کے ساتھ ہوتے ہیں اسی سال سے اوپر کی عمر بتاتے تھے لیکن ستر سے اوپر کے لگتے نہیں ہیں دو دفعہ سعودیہ کے شاہ کی درخواست پر خانہ کعبہ کی مرمت (؟) کے کام میں حصہ لے چکے ہیں اور مختلف سفارتکاروں کو اسی کام کے سلسلے میں لیکر تقریبًا پورا پاکستان دکھا چکے ہیں۔ ملین سال کی پوٹھوہاری ہسٹری ان کی فنگر ٹپ پر یاد ہے۔ بلوچستان والی ممّی کا معمہ حل کرنے میں مدد دے چکے ہیں۔ مہا بھارت ( کوروؤں پانڈوؤں والی ) کا مقام شاہپور (سرگودہا اور خوشاب کے درمیان ) بتاتے ہیں، اور انکا دعوہ ہے کہ فتح جنگ کا نام اسی نسبت سے فتح جنگ پڑا ( ویسے فتح عربی اور جنگ فارسی کا لفظ ہے کیا پانڈو بھی ہمایوں کی طرح شاہ ایران سے مدد لیکر آئے تھے؟)
انکی دلچسپ باتوں سے متاثر ہوکر انہیں میں اپنے گھر چائے پلوانے لایا انہوں نے اپنا کارڈ دیا ہے جسکے مطابق انکا اسم گرامی ڈاکٹر منیر صفدرخان ہے اور روہتاس ڈویلپمنٹ کمیٹی ( ROHTAS DEVELPMENT COMMITTEE ) کے صدر ہیں جسکے تین پتے لکھے ہوئے ہیں ایک سہیل گیٹ روہتاس دوسرا F-10/1 اسلام آباد اور تیسرا Block A North Nazimabad Karachi. اور انہیں چھوڑ کر آیا میں کھنہ پُل پر جہاں انکا گھر تھا۔
کیسے کیسے لوگ دنیا میں موجود ہیں کیا کیا کام کرتے ہیں اور یوں سرِ راہ آپ سے ٹکرا جاتے ہیں۔
( تبصرہ و تنقید کے لیے " ROHTAS DEVELPMENT COMMITTEE کے صدر " )
 

رضوان

محفلین
جو افغانستان میں بویا تھا وہ پاکستان میں کاٹ رہے ہیں!

کب ہم جاگیں گے ؟
کب ہم آواز بلند کریں گے؟
کیا ہمیں انتظار ہے کہ ہمارے گلے پر جب اسلامی ہلالی خنجر رکھا جائے گا تو ہم چیخیں گے؟
یا ہمیں یقین ہے کہ ہم پر کبھی وہ وقت نہیں آئے گا ؟
ہماری خاموشی ہمیں اسی مقام پر لے آئی ہے
“ آگے کنواں پیچھے کھائی “
ایک طرف فوج ایک طرف اسلامی طالبانی بھائی
فوجی سیکوریٹی فورس اوپر سے بم گراتی ہے
اسلامی طالبانی بھائی نیچے گلا کاٹتے اور آگ لگاتے ہیں۔
ٹانک ، ڈیرہ اور وزیرستان میں اسلام نافذ ہوگیا ہے
اب سوات کی باری ہے۔
اثنا عشری کافر، شیعہ کافر، بریلوی کافر، دیوبندی کافر
پاکستان میں 14 کروڑ کافر بستے ہیں
صرف چند لاکھ طالبان ہی مسلمان ہیں
انہیں ہی پاکستان پر حکومت کرنے کا حق ہے
پاکستان کا آئین ( ؟؟‌ )غیر اسلامی،
پاکستان کی عدالتیں غیر اسلامی
قرار دادِ مقاصد کو جس دن اس آئین کا حصہ قرار دیا گیا تھا مُلا نے اُسی دن سے بغلیں بجانی شروع کردیں تھیں ایک پَلا پلایا ملک مُلا کی گود میں آن گرا تھا مُلا نے آدھا اپنے خاکی جوڑی دار کی مدد سے گنوایا باقی کی اینٹ سے اینٹ اب بجا رہا ہے تاکہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا سکے۔
جو افغانستان میں بویا تھا وہ پاکستان میں کاٹ رہے ہیں!
پہلے صرف افیون سے ہیروئن آتی تھی
اب ہمارے بنائے طالبان آرہے ہیں ہم اب بھی اسلامی نظام مانگتے ہیں
صحیح اور سچا اسلام ڈھونڈتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
کیا میں بھی مسلمان ہوں؟
امن و سلامتی پھیلانے والا؟
کیا طالبان بھی امن و سلامتی پھیلا رہے ہیں؟
کیا فوج بھی امن وسلامتی پھیلا رہی ہے؟
کیا خوانین جنکے حج اور عمروں کی کوئی گنتی نہیں کیا یہ بھی امن و سلامتی کا اسلام
پھیلاتے ہیں؟
ہم سب کے السلام علیکم کا کیا مطلب اور جواب ہے؟؟؟؟



(تبصرہ و تنقید کے لیے جو افغانستان میں بویا تھا وہ پاکستان میں کاٹ رہے ہیں! )
 

رضوان

محفلین
لانگ مارچ

ہم میاں بیوی نکلے تو شام کی والک کے لیے تھے لیکن لوگوں کو اسلام آباد ہائی وے پر پارک کے ساتھ لانگ مارچ کے استقبال کے لیے منتظر پایا
ضمیر نے جھنجھوڑا اندر سے پرانے سرخے نے دور پریسٹرائیکا اور گلاسونوسٹ کی وادیوں سے انگڑائی لی۔
بیوی کی اجازت پائی اور بھاگم بھاگ گھر سے دونوں بچیوں کو بھی ساتھ لیا یوں ہم بھی آن براجمان ہوئے لوک ورثے والے اشارے کے کنارے اور آتے جاتے لوگوں کے نعروں سے دلوں کو گرمانے لگے،

گو مشرف گو
اب گندے کپڑے دھو

ہم ملک بچانے نکلے ہیں
آؤ ہمارے ساتھ چلو

چیف تیرے جانثار
بے شمار بے شمار
we want judges
not dogars

ڈوگرہ راج
نامنظور

سڑک کے کنارے کھڑے بچے بچیاں آنے والی گاڑیوں کو دیکھتے ہی نعرے بازی شروع کردیتیں جوابًا تھکے ماندے گرمی سے بیحال مگر پرجوش اور باعزم لوگ نئے جزبے سے نعرہ زن ہوجاتے اور یوں وقفے وقفے سے فضاء گو مشرف گو سے “ با مشرف “ ہو جاتی۔
سڑک کے کنارے کھڑے لوگ فون پر بار بار پوچھ رہے تھے
قافلہ کہاں پہنچا؟
اطلاع آئی “ رحمان پورہ میں کھانے کا انتظام ہے اس لیے رک گئے ہیں۔
آدھے گھنٹے بعد گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا تانتا بندھ گیا۔ رنگ برنگے جھنڈوں کی بہار آ گئی۔
سبز جھنڈے شیر والے
سبز اور سرخ انصاف والے
سبز جماعتیوں والے
اور سرخ ہتھوڑے والے اور سرخ ستارے والے
کیا زمانہ آگیا اس ایک قافلے نے کتنے ہی قافلوں کو اپنے اندر سمویا ہوا ہے۔
کون سوچ بھی سکتا تھا کہ ایک دن یہ سرخ اور سبز پرچم ایک سمت ایک قدم ہوکر چلیں گے۔

ہم سب نے ایک بات نوٹ کی کہ سوائے مزدور کسان پارٹی اور سول سوسائٹی کے کسی کے ساتھ خواتین شامل نہیں تھیں۔
کیوں؟؟؟؟
مجھے یہ منظر ٩٠ اکیانوے کے کمیونسٹ پارٹی کے پہلے کھلے جلسے میں لاڑکانہ لے گیا،
کیا وقت تھا کیا ولولے تھے۔۔۔۔۔۔۔

یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں

نعرے بھی تو بلندآہنگ ارمانوں کے سوا کچھ بھی نہیں!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 

رضوان

محفلین
سنگاپور حصہ ١

خاصا وقت گزر چکا ہے آج کل کرتے کرتے مگر نئی ملازمت کا کام ہے کہ اب تک سر اٹھانے کا موقع نہیں مل رہا۔ اصل میں یہ میری پہلے والی ہی کمپنی ہے جہاں تین سال بعد دوبارہ ملازمت شروع کی ہے۔
اسی سلسلے میں پچھلے تین ماہ میں دو چکر سنگاپور کے لگے ہیں اور سچ پوچھیں تو بڑا ہی غصہ آیا اپنی قسمت پر جو ہمیں سنگاپور لے آئی وہ بھی اس عمر میں جب لوگ عمرے کی بکنگ کرواتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اور بات کہ بقول اپنے ملک صاحب کے “ اب آ جو گئے ہیں تو“
اپنا ہاضمہ تو پہلے ہی کمزور تھا سنگا پور دیکھا تو بالکل ہی پتلے لگ گئے! رشک اور حسد کے مارے یہ سوچ سوچ کر کہ ہمارا کراچی جب عروس البلاد ( جانے دنیا کو اسکی خبر تھی بھی یا ہم نے آپو آپی ہی بنا ڈالا تھا) کہلاتا تھا تو سنگا پور مشرقِ بعید میں کہیں پوتڑوں میں لپٹا رہتا تھا آج کسی حسینہ طرحدار کو جب پاکستان کا بتائیں تو حدود واربعہ پوچھتیں ہیں۔

پوچھا تو ایر پورٹ پر اُس حسینہ نے اور بھی بہت کچھ تھا جو لکھنے کے قابل نہیں ہے بس آپ خود تصور کر لیجیے۔
حالت پتلی اسوجہ سے بھی ہوگئی کہ باوجود تاکید کے عربوں کی ہوائی کمپنی نے کارندے جسکے دیسی تھے ہمارا سامان اسی جہاز پر نہیں بھجوایا جسمیں ہم خود پدھارے تھے۔ گم شدہ سامان والے شعبے میں ایک اور مہربان خاتون کو اپنی بپتا سنائی اور اس کی تسلی تشفی سے مطمئن ہوکر بھائی خورشید کی طرف چل دیے جو مجھ سے ہفتہ بھر پہلے سے سنگاپور میں براجمان تھےاور ہوٹل ٨١ میں انہوں نے ہماری بھی بکنگ کروادی تھی ہماری سے مراد میری اور برادرم ملک عباس کی ۔ ہوٹل ٨١ صاف ستھرا ہوٹل تھا اور ہمیں اس وجہ سے بھی پسند آیا کہ اور کہیں جگہ دستیاب بھی نہیں تھی۔ یہاں سے قریب ہی مسجد عبدالغفور کے سامنے ملباری کا ریسٹورینٹ بھی ہے جہاں کا حلال کھانا دو وقت کھانے کے بعد بندہ شہزادہ طلال کو اور دنیا کے یہودیوں کو دعائیں دیتا ہے کہ جنہوں نے میکڈونلڈ کی شاخیں دنیا جہاں میں کھولیں کم ازکم سنگاپور میں تو میکڈونلڈ ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں کہ جہاں حلال اور ہائیجینک کھانا مل سکتا ہے(اپنے وطن میں میکڈونلڈ کو آگ لگانے والوں سے ایک سوال؛ سنگاپور، ہانگ کانگ، کوریا جیسے ملکوں میں جاکر کہاں کھاؤ گے؟؟؟؟؟)
اسی حرام حلال پر میرے ایک دوست یاسر صاحب فرمانے لگے کہ انگلینڈ میں ایک صاحب مے نوشی فرمارہے تھے تو ویٹرس اسنیکس بھی لے آئی صاحب نے استفہامی انداز میں پوچھا کیا یہ حلال ہے؟ ویٹرس نے کڑک کر جواب دیا کہ “ اس کے متعلق تو یقین نہیں ہے لیکن جو تم پی رہے ہو یہ یقیناً حرام ہے۔“
چھڈو جی آؤ ہوٹل ٨١ کی طرف پہلے ایک دو دن ہمیں کچھ زیادہ نہیں لیکن ہلکی پھلکی گڑ بڑ کا احساس ہواعباس نے بھی ذکر کیا کہ یار یہاں جوڑے کچھ زیادہ ہی نہیں آتے۔؟ ہاں یہ بات تو میں نے بھی نوٹ کی ہے۔ پھر پتا چلا صاحب یہ تو ہے ہی گھنٹے دو گھنٹے کی بکنگ کے لیے اب عباس اور میری نیندیں حرام
(نیندیں حرام ~~~~~~ وہ کس لیے آپ اندازہ لگائیے میں آتا ہوں ایک چھوٹے سے وقفے کے بعد)
 

رضوان

محفلین
حامد میاں

قصہ تو بہت لمبا ہے ربڑ کی طرح کھینچنے سے لمبا ہوجاتا ہے اور چھوڑنے سے جائے ہے سُکڑ
حامد سے پہلی ملاقات حالیہ ملازمت کے انٹرویو کے دوران ہوئی کہ وہ میرے ایک کولیگ ثاقب کا پرانا ساتھی تھا پہلا تاثر بھولا بھالا کیوٹ سا نوجوان جو اٹھلا اٹھلا کر باتیں کرتا ہو۔ ثاقب کا پرانا ساتھی تھا اس وجہ سے وہ اس سے ابے تبے کر کے ڈانٹ ڈپٹ کر کے بات کرتا تھا میں اور گیلانی پہلی ملاقات کی وجہ سے احترام دے رہے تھے اور حامد، بھائی جان بھائی جان کا ورد کر رہا تھا۔ کھانا ہم چاروں نے بلوچ کالونی کے ایک ریسٹورینٹ میں آکر کھایا اور ثاقب سے زندگی میں پہلی دفعہ بِل دلوایا۔ انٹرویو ہوگیا اس کے بعد کمپنی میں حامد کا فون آتا تو وہ ثاقب کا پوچھتا اور میری آواز پہچان کر شروع ہو جاتا، جانے کیا وجہ ہے کہ فون پر مجھ سے لمبی چوڑی بات نہیں ہوتی اور میں جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہوں۔ حامد مجھے باتونی بلکہ جھَکی لگا جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو قنوطی انداز میں ہمیشہ منفی ہی لیتا۔ تسلی دلاسے پر یہ بظاہر میری بات مان لیتا لیکن صاف طور پر اس طرح جیسے اسے یقین نہیں ہے بس آپ کی بات رکھ رہا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ دس پندرہ لوگوں کا ویزہ اور ٹکٹ نہیں آیا باقی ٢٠ ، ٢٥ افراد کی روانگی کی تاریخ طے ہوگئی۔ مجھے بھی یہ بتایا گیا تھا کہ مجھے پہلے بیج کے ساتھ جانا ہے اسی حوالے سے میں استعفٰی دے چکا تھا کہ عین وقت پر پتا چلا کہ صاحب آپ ابھی نہیں جارہے ۔ پہلے تو مجھے کائنات گھومتی دکھائی دی لیکن میرا قطر میں رابطہ تھا اسوجہ سے زیادہ مسئلہ نہیں ہوا ۔ وہ میرا شاید آخری روز تھا پاکستان کی جاب کا کہ حامد کا فون آیا اسے ساری صورتحال بتائی تو گویا ہوئے آپ نے بڑی بیوقوفی کی بھلا پاکستان میں کوئی ری زائن کرتا ہے اور ساتھ ہی بتایا کہ بس اتنے ہی لوگ اُنہیں چاہیے تھے جو لے لیے ہیں اور قصہ ختم سمجھیں۔ آخر ایک ماہ بعد دوبارہ دوبئی ایرپورٹ پر اکھٹے ہو گئے کہ انکی فلائٹ لاہور سے دوبئی اور پھر دوہا تھی اور اپنی کراچی دوبئی دوہا۔ ان لوگوں میں ایک میں ہی تھا جو اسی کمپنی میں ڈھائی سال بعد دوبارہ جا رہا تھا اسی لیے تمام پروسس اور لوگوں سے جان پہچان تھی اس لیے جہاں تک ہوسکی تمام لوگوں کی مدد کی
دوحہ پہنچ کر ہم سات آٹھ پاکستانیوں کا ایک گروپ بن گیا اور وقت اچھا گزرنے لگا ایک دوسرے سے واقفیت ہوئی پتا چلا کہ بھائی حامد کا تازہ بتازہ نکاح ہوچکا ہے لیکن اب بھائی صاحب کچھ خوش نہیں ہیں فون اور نٹ پر بھی بجائے پیار محبت کی بات کرنے کے ڈانٹ ڈپٹ اور آخری وارننگیں دے رہے ہوتے ہیں۔ آگے عید تھی اور ہم سب اکھٹے واپس آرہے تھے خریداری اکٹھی ہوتی انہوں نے چاکلیٹس خریدیں اور ساتھ ہی ایک سونے کا لاکٹ بھی باتوں سے پتا چلا کہ صرف بہن کے لیے ہے تو سمجھا بجھا کر ایک اور سیٹ اور اُسکی پسند کی چاکلیٹس خریدوائی گئیں پھر صاحب یہ شروع ہوگئے کہ بس وہ تو مجھے چپک ہی جاتی ہیں اور مجھے پسند نہیں اور یوں اور ووں۔ مجھ سمیت کچھ اور سینئر دوستوں نے کہا بھی کہ بھئی تمہاری بیوی ہے منکوحہ ہے اس کا حق ہے بلکہ اس دفعہ تو عید ہے اور رسم بھی ہے موقع بھی ہے اس لیے کاروائی ڈال دو جواب ملا نہیں بھئی نہیں توبہ کرو۔ (ایک تو حامد کی ہر بات نہیں سے شروع ہوتی ہے۔ کھانا کھاؤ گے؟ نہیں ابھی کھاتا ہوں۔ حامد والک پر چلو گے۔ نو پرابلم ۔ ریحان اس کے قریب تر تھا اُس نے پوچھا “حامد جب قاضی نے تجھ سے نکاح کے وقت پوچھا کہ قبول ہے تو تونے کیا جواب دیا؟ حامد نے کہا میں نے کہا نو پرابلم تو قاضی کہنے لگا کہ ہاں یا نہیں میں جواب دو نو پرابلم سے کام نہیں چلتا۔)
ایک ماہ پاکستان میں گزارنے کے بعد واپسی ہوئی تو چوپال میں حامد صاحب سب سے کہہ رہے ہوں کہ بس میں نے فیصلہ کر لیا ہے ۔ کیوں بھئی کیا ہوا ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے؟ اور بقول خود تمہارے لڑکی میں کوئی خرابی نہیں اس لیے ایسی باتیں نہیں کرتے۔ نہیں بس ابھی تو وقت ہے بعد میں زیادہ مسئلہ ہو جائے گا۔
ہم لوگوں نے ڈانٹا پھٹکارا بھی لیکن صاحب وہاں تو ایک ہی بات تھی۔ اس سے پوچھا کہ اتنا بڑا قدم اگر تمہارے خاندان میں کسی کے ساتھ ہوتا تو؟
کچھ نہیں ہوتا ایسا تو ہوجاتا ہے(پتا یہ چلا کہ صاحب کی جہاں پہلے لائن تھی وہ بھی فارغ ہوکر گھر آچکی ہیں) اور انہیں دُکھ ٥٠ہزار حق مہر اور نکاح پر ہونے والے خرچے کا تھا۔
خیر فون پر ان صاحب نے کچھ ایسی ویسی بات کی اور جب ایک ماہ بعد لاہور آئے تو دوسرے دن لڑکی والوں کی طرف سے لفافہ آگیا
گھوڑے نے پہلے پھونک ماردی۔
حامد کی بہن اور والد جب اُسکے سسرال گئے تو انہوں نے سارا کچا چٹھا کھول دیا کہ ابھی رخصتی بھی نہیں ہوئی اور حامد ہماری بیٹی کو طلاق کی دھمکیاں دے رہا ہے وہ بھی اس بات پر کہ فون کیوں بند ہے؟ صرف ہاں ہوں میں کیوں جواب دے رہی ہو؟ اتنے لمبے SMS کا جواب صرف OK میں اور ساتھ ہی آخر کی جو فون کالیں تھیں وہ اس لڑکی نے لاؤڈ اسپیکر پر سب گھر والوں کو سنادیں تھیں جنہیں سن کر حامد کے سابقہ سسر نے کہا کہ آپ کا بچہ نفسیاتی معالج کے پاس جانا چاھیے۔ ساتھ ہی حامد کو فون کر کے بتا دیا کہ میاں تمہاری لاٹری نکلی تھی کہ میری بچی کے نام اتنی جائداد اور فیکٹریاں ہیں اور تم اس قابل نہیں تھے۔
اب جب واپس دوحہ آئے تو حامد نے یہ خبر سنائی ہم سب سے تو جتنا ہوا اتنی لعن طعن کی۔
اب حامد کے ساتھ دوسرا ہاتھ یہ ہوا کہ وہ کزن جو فارغ ہوکر آئیں تھیں وہ کہیں اور سُدھار گئیں اور انکی سابقہ منکوحہ بھی ہفتہ بھر میں ایک اور پیا کے ساتھ ہنی مون پر روانہ ہوگئیں۔
ہمارے نصیب میں آہیں بھرتا اور ہر بات پر افسوس کرتا حامد رہ گیا۔ اب یہ حال ہے کہ فون نہیں ملتا تو کہتا ہے کہ بس پہلے تو ہمارا گھر اجاڑنے کے لیے Low rate voip سستا تھا۔ کوئی بات ہو اب اپنا رونا اور پچھتاوا لیکر بیٹھ جاتا ہے ریحان کہتا ہے اب تجھے گھر کا دُکھ نہیں ہے بلکہ لاٹری ہاتھ سے جانے کا دُکھ ہے۔
گھر والوں کو ایک اور گھر میں رشتہ کے لیے بھیجا ساتھ ہی کہتا تھا کہ دعا کرو یار یہاں بات بن جائے۔ وہ انکے رشتہ دار ہی تھے انہوں نے ہاں کر دی۔ دوسرے ہی دن حامد میاں آہیں بھرتے ہوئے فرمانے لگے “ یار میں پھنس ہی نا جاؤں ۔ مجھے یہ لڑکی اتنی زیادہ تو پسند نہیں تھیِ۔ “

ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ آخر یہ بندہ کس قسم کی چیز ہے؟؟؟؟
 
Top