مکمل سحرِ بنگال

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 96
بنگالی ادب اور ایک گمنام شاعرہ
کسی ملک کی حیاتِ قومی کا مطالعہ کرنے کے لئے جن پہلوؤں کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ان میں سے ادبیات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ادب کے ذریعے انسان کی انفرادی اور اجتماعی دونوں ذہنیتوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔ اس لئے وہ قوم لائقِ نفرین ہے جس کے ادبیات میں ہر قسم کا رطب و یابس موجود ہو۔ غائر نظر سے دیکھا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کم از کم عصر جدید میں خوب و زشت کی بیشتر ذمہ داری ان حاملانِ ادب پر عائد ہوتی ہے جو رسائل ادبیّہ کے مدیر یا دارالتصانیف کے ناظم و ناشر ہیں۔ اعتراض ہو سکتا ہے کہ موردِ الزام یا لائقِ تحسین ان ہستیوں کو کیوں نہ ٹہرایا جائےجن کی نگارش کاغذ پر کثیف یا لطیف نقوش پیدا کرتی ہے۔ یہ صرف اس حد تک درست ہے کہ ادب شخصی تخیلات ، جذبات اور احساسات کا پرتو ہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان کی کاوش دماغی انہی حاملانِ ادب کی فرمائشات اور ذوق کی بلندی و پستی کے تابع ہوتی ہے۔
تخلیق ادب کے اس عمیق نکتہ پر غور کرنے سے پہلے اس امر کو سمجھنا ضروری ہے کہ ہر ادب میں دو عناصر پائے جاتے ہیں۔ پہلا اکتسابی یا ارثی کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ عنصر ہے جو ایک فاتح قوم مفتوح قوم کے لئے یا ایک نسل دوسری نسل کے لئے بطور ورثہ چھوڑ جاتی ہے۔

صفحہ 97
مثلاً یورپ میں یونان کا ادب روم کو ملا، یا ہندوستان میں ایرانی اور بعد میں انگریزی ادبیات کے نقوش یہاں کے لوگوں کے دل و دماغ پر مرقسم ہو گئے۔ ایسی صورت میں اسلوب بیان کرنے کے اندر تصنع اور آورد کو زیادہ دخل ہوتا ہے، اور صداقت و سادگی کا فقدان۔جذبات کے پیکر غیر فطری لباس میں نظر آتے ہیں استعارے اور تشبیہات بھی مانگے کے ہوتے ہیں۔
دوسرا عنصر وہ ہے جسے طبعی بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ رنگ صرف اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب کہ ذاتی ماحول کے مطابق اور خالص انفرادی تاثرات کے بموجب اپنے جذبات کی ترجمانی دل سے کی جائے۔ اس کے ذریعے ہم کائینات کے پوشیدہ راز معلوم کر کے دوسروں کو سمجھا دیتے ہیں اور نہ مٹنے والے نقوش ہمیشہ کے لئے چھوڑ جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت ہندوستان میں مختلف زبانوں کے بے شمار رسائل شائع ہو رہے ہیں اور ہر سال سینکڑوں کتابیں تصنیف ہوتی ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی خالص ہندوستانی پیدا وار نہیں کہا جا سکتا۔ ایک اردو ہی کو لیجئیے۔ ایرانی رنگ تغزل اور انگریزی طرزِ فسانہ نویسی اس قدر حاوی ہے کہ اگر کوئی طبعزاد چیز بھی لکھی جائے تو اسے طبعزاد ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ تاہم بنگال ایک ایسا صوبہ ہے جس کو اس کلیّہ سے مستثنٰے کیا جا سکتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ابتدا ہی سے اس کا خزینہء ادب اس قدر لبریز تھا کہ بیرونی بھیک کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ اور اگر کسی نے نذرانہ پیش بھی کیا تو خود دار طبیعت نے اس کی اثر آفرینی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور اس وقت بھی جب کہ یہاں انگریزی معاشرت کے جراثیم بکثرت موجود ہیں۔

صفحہ 98
وہ اپنے شعار قومی اور روایاتِ ملکی پر قانع ہیں۔
علاوہ ازیں زبان کی نزاکت، اس کے فطری لوچ اور قدرتی فضاؤں کے لحاظ سے بھی بنگال خوش نصیب ہے۔ ہر شاعر اور ہر فسانہ نویس اپنے صحیح جذبات کو حقیقی رنگ میں بیان کرنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ اسی لئے اس میں حد درجہ بے ساختہ پن پایا جاتا ہے۔ شاعری کے ضمن میں اگر کبھی محبوب کو یاد کیا گیا تو بالکل اس طرح گویا وہ سامنے موجود ہے۔ اسی طرح افسانے کے واقعات آنکھوں کے سامنے چلتی پھرتی تصویریں معلوم ہوتے ہیں۔ مرد عورت کو یاد کر کے خون کے آنسو بہاتا ہے اور عورت مرد کے فراق میں جاں بلب نظر آتی ہے۔ اردو کی طرح نہیں کہ محبوب کو ہر صورت میں صنف قوی سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
شاعری کے لئے آلام حیات اور آرزوؤں کی پامالی بہت ضروری چیز ہے۔ اس کے بغیر صحیح جذبات بیدار نہیں ہوتے۔ مرد اپنے غمگین دل کی افسردگی کو سینکڑوں ذرائع سے محو کر سکتا ہے ۔ یار دوستوں کی بے تکلف محفل میں اُٹھ بیٹھ کر، مختلف تفریحات میں حصہ لے کر ، اقتصادی مشاغل میں منہمک رہ کر، وہ ان کلفتوں کو جلد ہی بھول جاتا ہے۔ جو اس کی روح کے لئے بارِ گراں بنتی ہیں۔ برخلاف اس کے صنفِ نازک کے لئے جس کی ہر آزادی پر بھی سینکڑوں پابندیاں عائد ہوتی ہیں، مقسوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے جذبات کو سینہ ہی میں پرورش کرے۔ اور کبھی ان کی تسکین کا خیال بھی نہ کرے۔ چنانچہ میں سمجھتی ہوں کہ ایک عورت کے اعماقِ قلب سے نکلے ہوئے گیت یا اس کے قلم سے لکھے ہوئے افسانے میں جتنی صداقت ہو سکتی ہے ، مرد کے ہاں ممکن نہیں۔

صفحہ 99
اسی لئے میں نے ان سطور میں ایک خاتون کی شاعرانہ شخصیت کے لئے مخصوص کیا ہے۔
سُربالا دیوی۔۔۔ میرے وطنِ عزیز کی بے مثل شاعرہ جس کا پاکیزہ کلام ہر ملک کے لئے ایک نمونہ ء ادب بن سکتا ہے۔ اس قدر گمنامی کے پردہ میں زندگی بسر کر رہی ہے کہ خود بنگال کے بڑے بڑے ادب نواز طبقوں میں اس کا نام تک سننے میں نہیں آیا۔ جس زمانہ میں یہ شانتی نکیتن کے اندر موسیقی کی تعلیم حاصل کر رہی تھی، مجھ سے ملاقات ہوئی۔ نہایت متین و سنجیدہ، کم سخن اور آنکھوں میں ایک وحشت سی تھی، پہلے تو میں اس کی فطرت سمجھ ہی نہ سکی۔ خیال ہوا کہ شاید دیوانی ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اسے مطالعہ ء قدرت کا بے حد شوق ہے۔ بارہا میں نے دیکھا کہ موسم سرما کی بہتے ہوئے پانی کو منجمد کر دینے والی خنک راتوں میں وہ صحن چمن میں بیٹھی ماہ و انجم سے ہمکلام ہے۔ جس دن چاند پورے شباب پر ہوتا وہ اکثر قریب کے ایک چشمے کے کنارے اپنا رباب لے کر چلی جاتی۔ اور سکوت شب کو اپنے دلنواز نغمے سنا کر بیدار کر دیتی۔یوں دوسرے شعراء کا کلام بھی اسے یاد تھا مگر عموماً اپنی ہی غزلیں گاتی تھی۔وہ مجھ سے کہا کرتی تھی کہ حقیقت نگر آنکھیں قدرت کی جمال آفرین کیفیتوں میں اس حسن کا مطالعہ کر سکتی ہیں جو ایک شاہدِ رعنا کے ظاہری خدوخال یا خود ارادی ناز و انداز میں کبھی ممکن نہیں۔
ایک رات کا منظر وہ ان الفاظ میں پیش کرتی ہے
میں ایسے سمے کو کبھی نہ بھولوں گی۔
جب ٹھنڈے چشمے کی سنجیدہ روانی میں مدہم سروں کا باجا بجتا تھا۔

صفحہ 100
جب سرد ہوا کے ہلکے جھونکوں سے
ننھی شاخوں پر سبز پتے رقص کرتے تھے
جب سُرمئی رنگ کی کہر کے دھندلے پردوں سے
چاند کی سنہری کرنیں چھن چھن کر آتی تھیں
جب بھیانک جنگل کے سکوتِ مطلق میں
وحشی درندے تھم تھم کر چلاتے تھے
جب خنکی و دہشت کے اس ہوش ربا عالم میں
مجھے پرمیشور آ آ کر تسکین دیتے تھے
میں ایسے سمے کو کبھی نہ بھولوں گی

بچپن اور بچپن کی بے فکری کا زمانہ اور اس زمانے کی معصومیت مرتے دم تک یاد آتی ہے۔اس کھوئے ہوئے عہد زریں کا نوحہ ہر شخص کی زبان سے سن لو۔ لیکن صنف نازک جس نرالے انداز میں اس کو یاد کرتی ہے، وہ اسی کا حصہ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار سُربالا دیوی اپنی مبدرجہ ذیل نظم کو گاتے گاتے خود رونے لگی تھی۔ ( ترجمہ میں وہ خوبی کہاں جو اصل میں ہے)
کیسا پیارا پیارا بچپن کا زمانہ تھا
نہ کوئی فکر ، نہ غمگین جذبات کا ہجوم
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 101
میرا دل رنج و غم کا مرکز بن جاتا ہے
جب مجھے پچھلی باتیں یاد آتی ہیں
گھر کے کُل دھندوں سے فارغ ہو چکنے پر
سہیلیوں کی سنگت میں کھیلا کرتی تھی
ان کی شرارت سے دل جل جاتا تھا
(لیکن ) اس جلن میں لذت ہوتی تھی
چاندنی راتوں میں ندی کے کنارے پر
ریتلی مٹی کے محل سب مل کے بناتے تھے
ایک رانی بنتی، چند سکھیاِ ں، ایک داسی
پھر راجہ کے بنانے میں جھگڑا ہوتا تھا
ایک کہتی میں بنوں، دوسری کہتی میں بنوں
کوئی منہ پُھلا کر رہ جاتی، کوئی روٹھ کر چل دیتی
لیکن روز کا کھیل بدستور ہوتا، اور سب شامل ہوتیں
لڑ پڑنا آپس کا، پھر مل جانا آپس میں
کیسا پیارا پیارا بچپن کا زمانہ تھا
میں سمجھتی ہوں کہ اس بے مثل شاعرہ کا معصوم دل بھی ننھے کام دیو (کیوپڈ) کی کمان

صفحہ 102
سے نکلے ہوئے کسی تیر سے چھلنی ہو چکا ہے۔بسا اوقات محض چھیڑنے کی غرض سے اور کبھی کبھی سنجیدہ طور پر میں نے پوچھا بھی کہ کہیں مرضِ محبت تو لاحق نہیں ہو گیا۔ لیکن ہر بار میرے استفسار کے جواب میں سوائے مسکرا دینے کے زبان سے کوئی لفظ نہیں کہا۔ اس لئے کم از کم مجھے یقین ہے کہ اگر وہ تبسم خفی کسی روز تکلم بلیغ بن گیا تو دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کے یہ چند اشعار اس کے ذاتی تاثرات کا نتیجہ ہیں۔
اے عشق! اے بربطِ قلب کے سب سے بلند (آہنگ) نغمے
تو پیغامِ سروش ہے نا امید زیست کے لئے
(تجھ میں) لذتِ غیر فانی ہے بیداری ِ روح کی
تیرا ہی ذوقِ نظر ہے دیدہءعبرت بیں میں
تو کاشفِ فطرت ہے عقدہ ء لاینحل کا
حسن سر بسجدہ ہے تیری بارگاہ میں
آسمانی پریاں تیرا گیت سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہیں
ہاں گا! اور گائے جا! اے عشق نغمہ نواز۔
مختلف آلامِ حیات ، ہر وقت کی وحشت و بے چینی اور مسلسل اضطراب، انسان کو عارضی طور پر اہلِ دنیا سے بیزار کر دیتے ہیں اور وہ مجبوراً گوشہ ء تنہائی کو پسند کرتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر تمناؤں کی شکست کا سلسلہ جاری رہے تو وہ دل برداشتہ ہو کر قدرت کے خلاف جنگ

صفحہ 103
کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے۔ اور لامذہبیت کے سوگوار دامن میں پناہ لینی پڑتی ہے۔ سُر باال دیوی پر بھی ایک بار یہ کیفیات طاری ہوئی تھیں۔ لیکن نفسیات کے ایک دقیق پہلو کو جس سادگی کے ساتھ بیان کیا ہے وہ تعریف سے مستغنی ہے۔ صرف ایک شعر کا مفہوم یاد ہے۔ کہتی ہے
جب دل میں آرزوؤں کا ایک طوفان برپا تھا تو دعا مانگنے کے لئے ہاتھ اٹھ جاتے تھے۔ آرزوئیں پامال ہو چکیں اس لئے اب خدا بھی یاد نہیں آتا۔
ایک اور شعر میں کہتی ہے
کبھی کبھی تمناؤں کا پامال ہو جانا بھی اشد ضروری ہے ورنہ خدا کی شان قہاری کو ثابت کرنا دشوار ہو جائے گا۔
اس قسم کے انقلاب انگیز خیالات بنگال کے مشہور شاعر نذر الاسلام کے کلام میں بکثرت موجود ہیں۔ اور اسی لئے ان کو بجا طور پر باغی شاعر کا خطاب دیا گیا ہے۔ کسی آئندہ فرصت میں ان کی شاعری پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گی۔
ہرچند بنگالی زبان میں الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔ ایک ہی مفہوم کو کئی کئی لفظوں سے ادا کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب جذبات و احساسات کا ہیجان نا قابل بیان حد تک بڑھ جاتا ہے تو دنیا کی کسی زبان میں ان کا اظہار آسان نہیں۔ خدا جانے سُربالا دیوی پر ایک مرتبہ کس نوع کے جذبات طاری ہوئے کہ وہ ان کو الفاظ میں ظاہر کرنے سے قاصر رہ گئی۔ کہتی ہے؎
آج میرے سینے کے نیچے ایک نمعلوم درد پیدا ہو رہا ہے
دل میں کبھی نہ گھٹنے والا جوش زلزلہ انگیز ہے
میں کچھ کہنا چاہتی ہوں (لیکن) کہہ نہیں سکتی
آج اپنے الفاظ کی تنگ دامانی مجھ پر ظاہر ہو گئی
انسان مجبور محض ہے، پھر منصوبے بیکار
قدرت جو چاہتی ہے، ہو کر رہتا ہے
کاش! آج میری زبان برق گیر بن جائے۔
اس میں صاعقہ ریزی کی قوت پیدا ہو
میرے دہنِ قلم سے آتش باری ہونے لگے
اپنے مشتعل جذبات کو تحریر میں مقیّد کر دوں
لیکن خوب سمجھتی ہوں یہ کبھی نہیں ہو گا
دل کی ٹیسیں رہ رہ کر بڑھتی جاتی ہیں
اج رو کر آنسو بہانے سے بھی قاصر ہوں
آہ ! آنکھوں کے چشمے! تیری تنگ ظرفی
نغماتِ موت کے بول تک یاد نہیں آتے
اظہار کی ساری قوتیں کس نے سلب کر دیں؟
لیکن نہیں میں خاموش رہوں گی۔ بالکل خاموش

صفحہ 105
میرا سکوتِ مطلق ہی شرحِ بسیط بن جائے گا۔
واہ! سکوتِ مطلق کو شرح بسیط لکھنا کتنا بلند اور فلسفیانہ تخیل ہے۔یہ حقیقت ہے کہ شاعر جسے بجا طور پر لسان الغیب کا خطاب دیا گیا ہے۔ ان رموز کی عقدہ کشائی کر لیتا ہے جو عام انسانوں کی فہم و ادراک سے دور ہوں۔ اس موقعہ پر مجھے ایک اردو شعر یاد آ گیا۔ ( شاعر کا نام یاد نہیں ہے) ؎
اسے صیاد نے کچھ، گُل نے کچھ، بلبل نے کچھ سمجھا
چمن میں کتنی معنی خیز تھی ایک خامشی میری
سُربالا دیوی نہایت اعلیٰ خاندان کی شریف النسب خاتون ہے۔ اس کے والد نون چندر چٹر جی جن کو کلکتہ یونیورسٹی نے ڈی، او، ایل کی اعزازی ڈگری دی تھی فارسی زبان کے بہت بڑے عالم تھے۔ حتٰی کہ اس زبان میں اپنا کچھ کلام بھی چھوڑا ہے۔ اس لئے وراثتاً باپ کا ذوق بیٹی کو ملا۔اور وہ بھی فارسی زبان کی لطافت اور شیرینی سے محفوظ نہ رہی۔ عمر خیاؔم کا کلام اسے خاص طور پر پسند ہے۔ اور خافظ کے بعض اشعار بھی ازبر تھے۔
ایک مرتبہ میں نے اس کو نہایت پریشان حالت میں دیکھا۔ سر کے بال الجھے ہوئے، چہرہ خاک آلود، پھٹے پرانے کپڑے، ایک راہبہ کی صورت بنائے دریا کے کنارے بیٹھی بنسی بجا رہی تھی۔ جب میں قریب پہنچی تو اس پر ایک وجد طاری تھا۔ اس لئے کچھ دیر ایک طرف خاموش کھڑی رہی۔ لیکن دلی عقیدت کے باعث زیادہ عرصہ تک تاب نہ ہو سکی۔ اور وفورِ جوش میں اس سے لپٹ گئی۔ اس کے لبوں میں ارتعاش تھا اور آنکھیں اس قدر سرخ تھیں گویا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 106
شراب پی رکھی ہے۔ میں نے اس کے حسب و نسب کا ذکر کر کے اس کو متوجہ کیا کہ اس زدہ حالت میں رہنا زیبا نہیں۔ اس نے فوراً کوئی جواب نہ دیا۔ بلکہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ کچھ دیر بعد بولی۔
میں یہ سب کچھ جانتی ہوں کہ؎
صوفی صومعہء عالمِ قدسم لیکن
حالیہ دیر مغانست حوالت گاہم
اس کی عمر تقریباً 23 سال ہے۔ ابھی تک اس نے شادی نہیں کی لیکن نہایت تقدس کی زندگی بسر کر رہی ہے اور کسی کو آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کی بے خودی کا اصل سبب کیا ہے۔ اس کا کلام بہت زیادہ نہیں ہے لیکن جو کچھ بھی ہے عمدہ اور قابلِ وقعت ہے۔ میں کوشش کروں گی کہ کسی طرح اسے حاصل کر کے کتابی صورت میں مجتمع کر دیا جائے اور اگر ممکن ہو سکے تو دوسری زبانوں میں بھی منتقل کر دیا جائے۔

صفحہ 107
سوتیلے بچے
حسنہ صرف اٹھارہ ماہ کی معصوم بچی تھی۔ جب کہ اچانک وہ یتیم ہو گئی۔ باپ جو کچھ چھوڑ کر مرا تھا، وہ اس کے اور بیوہ کے لئے کافی تھا۔ اور غالباً اس کی ماں کو دوسری شادی کی ضرورت لاحق نہ ہوتی ۔ مگر ایک اور بچے کی ولادت نے جس کی پیدائش کے آثار باپ کے انتقال سے تین ماہ قبل ہی شروع ہو گئے تھے۔ واقعات میں گہرا تغیر رونما کر دیا۔ لڑکی کو خانگی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لئے معمولی گھریلو تربیت کافی ہو سکتی تھی اور اس کے بعد وہ کسی دوسرے کی شریک حیات ہو کر اپنا بار غریب ماں کے شانوں سے ہٹا دیتی۔ لیک جمالؔی لڑکا تھا، اسے اعلیٰ تعلیم کی ضرورت تھی تا کہ جوان ہو کر وہ خود کوئی ذریعہ معاش نکالے ۔ اس کی شادی ہو اور اس طرح وہ نہ صرف اپنا پیٹ پالے بلکہ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھا سکے۔اثاثہ اتنا زیادہ نہیں تھا کہ وہ تمام اخراجات اس سے پورے ہو جاتے ۔ اور یوں بھی عورت ہزار قابل اور تربیت یافتہ ہو مگر مرد کی سر پرستی کے بغیر ایک بچے کی تعلیم کماحقہ نہیں ہو سکتی۔
یہ تھی وہ مجبوری جس نے جمیلہ کے دل میں دوسری شادی کا خیال پیدا کر دیا۔ وہ اپنی

صفحہ 108
ذات کے لئے کسی قسم کے آرام و آسائش کی متمنی نہیں تھی۔ اور اگر ایسا ہوتا تب بھی کوئی عیب کی بات نہیں تھی۔ اس نے دنیا میں دیکھا ہی کیا تھا۔ ازدواجی زندگی کے صرف دو سال گزارے تھے کہ بیوہ ہو گئی۔ وہ جوان تھی اور خوبصورت بھی۔ مگر اسے اپنے سے زیادہ بچوں کا خیال تھا۔وہ چاہتی تھی کہ کسی ایسے شخص سے رشتہ ء مناکحت قائم کیا جائے جو اس وقت تک یا تو مجرود رہا ہو یا پہلی بیوی سے اس کی کوئی اولاد نہ ہو تا کہ اس کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے پائے۔
آخر کچھ عرصہ کے بعد جمیلہ اپنے دور پرے کے ایک رشتہ دار کی منکوحہ بن گئی۔ جس کی شارفت اس کے طرز عمل سے ظاہر تھی۔ باوجود سوتیلا باپ ہونے کے وہ ان یتیم بچوں کو بالکل اس طرح پیار و محبت کے ساتھ رکھتا گویا وہ خود اس کے بچے ہیں۔ لیکن اس کے معنے یہ نہیں تھے کہ وہ صرف انہی دو بچوں کا سرپرست رہنا اپنے لئے کافی سمجھتا۔ اور ان کی خاطر خود اپنے سلسلہ ء نسل کو منقطع کر دیتا۔ لہذٰا یہ جمیلہ کی غلطی تھی کہ اس نے یہ محسوس کر لینے کے بعد کہ وہ ایک مزید بچے کی ماں بننے والی ہے، مخموم رہنا شروع کر دیا اور یہ احساس اس کے لئے اس قدر سوہانِ روح ثابت ہوا کہ اس کا نخلِ حیات ثمر بار ہونے سے قبل ہی خزاں رسیدہ ہو گیا۔ وہ بستر مرگ پر تھی۔ جانکنی کا عالم تھا کہ عین ان لمحات میں اس نے اپنے عزیز شوہر کو پاس بلا کر تاکید کی
کہ تم میرے بچوں کو ہمیشہ اپنا ہی سمجھ کر اچھی طرح رکھنا ۔ اگر ان کو کوئی ایذا پہنچی تو میری روح کو اطمینان نصیب نہیں ہو گا۔
اس طرح رشید کے ذمے ایک ایسے فرض کی ادائیگی ہو گئی جس کے لئے وہ کسی طرح پابند نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن اسے اپنے الفاظ کا پاس تھا ۔ اس نے بچوں کی عمدہ پرورش کا وعدہ

صفحہ 109
کر لیا تھا۔ جب کہ اس کی مرنے والی بیوی پر زندگی کے آخری لمحات گزر رہے تھے۔اس نے تہیہ کر لیا کہ میں اپنی باقی ماندہ زندگی تنہا گزار دوں گا۔ لیکن یار دوستوں نے اور عزیز و اقارب نے چین نہ لینے دیا۔ ان کا مشورہ یہی تھا کہ اسے دوسرا نکاح کر لینا چاہئیے۔ سب یک زبان ہو کر کہتے تھے کہ چھوٹے بچوں کی پرورش بغیر عورت کے غیرممکن ہے۔اول اول تو رشید نے ان باتوں پر غور ہی نہیں کیا لیکن آخر کہاں تک۔ ہفتے کے ساتوں دن تک یہی ایک موضوع اس کے سامنے زیرِ بحث رہتا۔ وہ مخالف کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ مگر دوسرے لوگ اصرار کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ ییہاں تک کہ اس کے دلک میں بھی ایک خوشگوار زندگی بسر کرنے کی آرزو پیدا ہونے لگی۔ مگر بچوں کا خیال دل سے دور نہ ہوا۔ اس نے سوچا شادی کسی کنواری لڑکی سے کرنی چاہئیے اور وہ بھی ایسی شریف اور نیک طینت لڑکی ہو کہ رشک و حسد کے ماتحت ان یتیم و یسیر بچوں کو کسی قسم کی ایذا نہ پہنچائے۔ اگر وہ چاہتا تو ان بچوں کو کسی اعلیٰ قسم کی درسگاہ میں داخل کر دیتا۔ جہاں بچوں کی رہائش اور ہر طرح کی تربیت کا بھی انتظام ہوتا لیکن وہ یہ جانتا تھا کہ تمام دنیا طعنے دے گی کہ بے ماں باپ کے بچوں کو یتیم خانے میں جھونک دیا۔ اس لئے مجبور تھا کہ انھیں گھر پر ہی رکھے۔
بہت چھان بین کے بعد آکر اس نے کلثوم کے ساتھ رشتہ ء ازدواج قائم کر لیا۔ جو اس کے ایک دوست کی بہن تھی۔ اعلیٰ تعلیمیافتہ اور بہت خوش اخلاق۔ اس نے روز اوّل سے بچوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاص کا اظہار شروع کر دیا تھا اس طرح کہ گویا وہ اسی کے بچے ہیں۔
سویرے اٹھ کر وہ ان دونوں کا منہ دھلاتی۔ ناشتہ کا انتظام کرتی اور پھر ابتدائی

صفحہ 110
تعلیم کے لئے سبق پڑھا کر اپنی موجودگی میں یاد کراتی رہتی۔حسنہ کو سینے پرونے کا کام بھی سکھانا شروع کیا ۔ شام کا وقت ان کے کھیل کے لئے مخصوص تھا مگر دونوں بچے اس قدر شریر اور کام چور تھے کہ ہڑھنے کی طرف توجہ ہی نہ دیتے۔ ہر وقت ان کا کھیل کود میں ان کا دھیان رہتا۔ جب ذرا آنکھ بچتی پڑوس کے بچوں میں جا ملتے۔ جن کو سوائے آوارہ پھرنے کے کوئی دوسرا کام نہیں تھا۔ یہ بھی انھی کی طرح آزاد رہنا چاہتے تھے۔پڑوس والے بھی یہی چاہتے تھے کہ یہ دونوں بچے ان کے بچوں کے ساتھ آ کر کھیلیں کیونکہ حسنہ اور جمالی کھانے پینے کی کچھ نہ کچھ چیز چھپا کر ان کے لئے لے جاتے تھے۔ اس لئے کلثوم اگر ڈانٹ ڈپٹ کرتی تو محلے کی تمام عورتیں اس کا ناک میں دم کر دیتیں۔ کہ لاوارث بچوں کے ساتھ زیادتی کرتی ہو۔ ان دونوں کو بھی اس طرح شہہ پڑتی ۔ وہ ہنستے ، قہقہے لگاتے اور سوتیلی ماں کو منہ چڑا چڑا کر باہر بھاگ جاتے۔
وہ سبق دینے بیٹھتی تو دونوں چلّا چلّا کر رونے لگتے۔ محلہ کی کوئی عورت آتی اور کلثوم کو ہزار صلواتیں سنا کر بچوں کو اپنے ساتھ لے جاتی۔ دن بھر خاک دھول میں کھیلنے کے باعث ان کے کپڑے کبھی صاف ستھرے نہ رہتے۔ وہ روز ان کا سر دھو کے تیل ڈال کے کنگھی کرتی مگر ہمیشہ ریت میں اٹے ہوئے نظر آتے۔
ابتدا میں کلثوم نے درگزر سے کام لیا پھر شوہر سے شکایتیں شروع کیں۔ وہ تنبیہ کر دیتا ، دونوں بچے دبک کر بیٹھ جاتے، لیکن وہ دن بھر گھر میں نہیں رہتا تھا۔ اس کے جاتے ہی وہ اپنی شرارتیں شروع کر دیتے۔ گھر میں رہتے تو کچھ نہ کچھ نقصان پہنچاتے۔ پتھر مار کر صراحی پھوڑ دی۔ صاف برتنوں میں چولہے کی راکھ ڈال کر انھیں خوب خراب کر دیا۔ کیچڑ میں بھرے ہوئے پاؤں لے جا کر اُجلے فرش
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 111
کا ستیا ناس کر دیا۔ حسنہ مشین لے کر بیٹھ جاتی کہ ہم گڑیا کے کپڑے سئیں گے اور ایک دو سوئیاں توڑ کر بس کرتی۔ غریب کلثوم پریشان ہو گئی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔ جانتی تھی کہ شوہر سے روز کی شکایت بھی اچھی نہیں۔ کیونکہ رشید پہلے تو بچوں کو دھمکا دیا کرتا تھا مگر بعد میں بعض محلے والوں نے اس کے کان بھرنے شروع کر دئیے کہ سوتیلی ماں دن بھر بچوں پر ظلم کرتی ہے۔ وہ خود بھی دیکھتا کہ حسنہ اور جمالی اس کے سامنے نہ کسی قسم کی شرارت کرتے ہیں اور نہ باہر جاتے ہیں۔ اسے بھی یقین ہونے لگا کہ کلثوم کو ان بچوں سے عداوت ہو گئی ہے۔ وہ زبان سے کچھ نہ کہتا مگر بچوں کو بھی بے قصور جان کر کسی طرح کی سزا نہ دیتا۔ لیکن آخر کہاں تک۔ اسے سخت کوفت ہونے لگی۔ جب باہر نکلتا، محلے والے اس کا پیچھا نہ چھوڑتے، خوب ملامت کرتے کہ بچوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ سوتیلی ماں نے انھیں جینا دشوار کر دیا ہے۔ وہ کبھی سن کر خاموش ہو جاتا، کبھی وعدہ کرتا کہ آئیندہ انھیں تکلیف نہ پہنچے گی۔ اور کبھی محض ٹالنے کے لئے بطور مذاق کہہ دیتا کہ میں بھی ان کا سوتیلا باپ ہوں۔
خانگی زندگی میں بے لطفی شروع ہو گئی۔ رشید کلثوم کی طرف سے بدظن کہ اس کی وجہ سے تمام پریشانیاں ہیں۔ اور اسے شوہر سے شکایت کہ وہ دوسروں کی بات میں آ کر اس کی طرف سے اعتماد کھو بیٹھا جبکہ ذمہ دار صرف وہ نالائق بچے ہیں۔
ابھی جاڑے کی ابتدا ہی تھی کہ رشید کو نزلہ و زکام کی شکایت ہوئی۔ پھر کھانسی شروع ہو گئی۔بخار آنے لگا۔ یہاں تک کہ وہ بالکل صاحب فراش ہو گیا۔دفتر سے چھٹی لے لی۔ علاج معالجہ

صفحہ 112
ہوتا رہا۔ مگر افاقہ نہ ہوا۔ کلثوم نہایت خلوص و محبت کے ساتھ اس کی تیمار داری میں مشغول رہتی اکثر آدھی آدھی رات تک اسی خیال میں جاگتی رہتی کہ عزیز شوہر کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ اب رشید کو احساس ہوا کہ وہ حقیقتاً ایک نیک بیوی ہے۔ افرا پرداز لوگوں نے خواہ مخواہ شکایت کر کےاسے بدظن کر دیا تھا۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ بچے بہت شریر اور بدتہذیب ہیں۔ چونکہ اب وہ دن بھر گھر میں رہنے لگا تھا اس لئے ان کی فطرت کا مطالعہ کرنا آسان ہو گیا۔ پہلے وہ اس کے سامنے دبے لچے بیٹھےرہتے تھے اور صرف غیر موجودگی میں اودھم مچاتے تھے ،لیکن انھوں نے دیکھا کہ اب باپ دن پہر گھر میں رہنے لگا ہے تو اس کی موجودگی کی پرواہ نہ رہی۔ ہر وقت لڑ نا جھگڑ نا ، شور غل اور ہر قسم کی بیہودگیاں ، وہ دل ہی دل میں جلتا اور سوچتا کہ کس جرم کی پاداش میں یہ مصیبت گلے پڑی ہے۔ ان کا وجود اس کے لئے سوہانِ روح ہو گیا۔مگر ایک مرنے والی کے الفاظ اسے یاد آ جاتے اور وہ سختی سے کام نہ لیتا۔
مرض بڑھتا گیا اور آخر اسے اپنے بچنے کی امید ہی نہ رہی۔ مرنے سے کچھ دیر قبل اس نے کلثوم کو پاس بٹھا کر آخری وصیت کی
تم خوب جانتی ہو کہ یہ بچے نہ میرے ہیں نہ خود تمہارے۔ بلکہ حسن اور جمیلہ کے۔ حسن کے مرنے کے بعد جمیلہ نے میرے ساتھ شادی کی محض اس غرض سے کہ ان بچوں کی پرورش اچھی طرھ ہو۔ میں نے ان کو اپنی اولاد کی طرح سمجھا۔ اور جمیلہ کے مرنے کے بعد تمہارے ساتھ رشتہ قائم کیا محض اس لئے کہ ان بچوں کی پرورش اچھی طرح ہوتی رہے تا کہ جمیلہ کی روح کو کسی قسم کا صدمہ نہ پہنچے۔ اب میرا آخری وقت ہے میں تم کو ہدایت کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد تم دوسری شادی کر لینا،

صفحہ 113
تا کہ بچوں کی پرورش اچھی طرح ہوتی رہے۔ اب یہ تمہارے سپرد ہیں۔ شروع سے اب تک ہر ماں اور ہر باپ، خواہ حقیقی یا سوتیلے، دونوں کے لئے وبالِ جان بنے رہے، جب تم شادی کر لو گی تو کچھ دنوں کلے بعد تمہاری باری آئے گی۔ اور تمہاری زندگی کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔ اس وقت تم ان بچوں کو اپنے آئیندہ ہونے والے شوہر کے سپرد کر دینا۔ اور وصیت کرنا کہ وہ بھی کسی دوسری عورت سے شادی کر لے تا کہ ان بچوں کی پرورش ہوتی رہے۔ اور میرا خیال ہے کہ تمہارے وہ شوہر بھی مرتے وقت اپنی بیوی کو ہدایت کر دیں گے کہ وہ بیوہ نہ رہے۔ اور اس بیوہ کے مرنے کے بعد اس کا خاوند بھی کسی دوسری عورت سے شادی کر لے گا۔ میرا خیال ہے کہ ان منحوس بچوں کے لئے ماں باپ کا سلسلہ عرصہ ء دراز تک جاری رہے گا۔ وہ باری باری مرتے رہیں گے اور مشیّت ہمیشہ ان کی پرورش کا سامان پیدا کر دیا کرے گی۔
رشید دم توڑ رہا تھا۔ کلثوم رو رہی تھی اور دونوں بچے پڑوس کے گھر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ قہقہے لگا رہے تھے۔

صفحہ 114
بازیچہ ء اطفال
سکوتِ شب پر غروب آفتاب کی سنہری کرنوں کا غازہ پھرا ہوا تھا۔ اس لئے کائینات کے ہر ذرے سے تبسم کی جھلک نمایاں تھی۔اس وقت گنگا کے دلفریب مگر سنسان ساحل پر ایک لڑکا اور ایک لڑکی ریتلی زمین کے اس مختصر حصے کو بازیچہ ء اطفال بنائے کھیل میں مشغول تھے۔ ان کے احساسِ ہنگامی کے مطابق اس وقت دنیا اور دنیا کی تمام کائینات سمٹ کر صرف ریت کے چمکتے ہوئے ذروں اور بہتے ہوئے پانی کی موجوں میں سما گئی تھی، وہ نہیں جانتے تھے کہ دوسرے طبقات ارض میں کیا ہو رہا ہے۔قدرت بھی خدا کے پیدا کئے ہوئے ان دو معصوم بچوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔
لڑکا کہیں سے درخت کی چھوٹی ٹہنی لے آیا تھا اور ساحل کے قریب گھٹنے ٹکائے اس سے گنگا کے پانی کو گھنگول گھنگول کر خوش ہو رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ خود پانی بھی اس بچے کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کرنے کے لئے بیتاب ہے۔ کیونکہ اپنے اندرونی جوش کے باعث وہ بیرونِ ساحل ہو جانا چاہتا تھا۔ کچھ فاصلے پر لڑکی اپنے ایک پاؤں پر ریت جما کر اور ننھے ننھے ہاتھوں

صفحہ 115
سے تھپک تھپک کر ایک بھاڑ تیار کرنے میں مصروف تھی، وہ دونوں دھوبی کے بچے تھے۔ اس لئے ان کے خیالات کی پرواز اسی فضا تک محدود تھی۔ جس میں سان س لے کر انھوں نے زندگی گزاری تھی۔
بناتے بناتے بھاڑ سے بالکا بولی
"دیکھ ٹھیک نہیں بنا تو میں تجھے پھوڑ دوڑ گی۔"
پھر بڑے پیار سے اسے تھپک تھپک کر ٹھیک کرنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی " اس کے اوپر ایک کٹی بناؤں گی۔ وہ میری کٹی ہو گی۔ اور منوہؔر ۔۔۔ نہیں وہ کٹی میں نہیں رہے گا۔ وہ باہر ہی کھڑا کھڑا بھاڑ کے اندر آگ پر پتے اور ایندھن ڈالتا رہے گا۔ جب وہ تھک کر ہار جائے گا اور مجھ سے بہت کہے گا تب اسے اپنی کٹی کے اندر بلا لوں گی۔"
منوہؔر اس کے ان تمام دلی تاثرات سے بے خبر اپنے کھیل میں محو تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ سمندر کے نشیب و فراز کی طرح ایک ہی وقت میں اس کے لئے غصّہ اور پیار کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کبھی بے قصور اس پر عتاب نازل کرنے کا ارادہ ہوتا ہے۔ اور کبھی رحم کھا کر سایہء عاطفت میں لے کیا جاتا ہے۔
وہ پھر سوچنے لگی، " منوہر بڑا ہی اچھا اور پیارا پیارا ہے۔ مگر ہے بڑا دنگئی ، ہر وقت شرارت کرتا ہے ۔ ہمیں چھیڑتا ہی رہتا ہے۔اب اس نے دنگا کیا یا ہمیں چھیڑا تو ہم اسے اپنی کٹی میں سانجھی نہیں کریں گے۔ اگر اس نے سانجھی ہونے کے لئے بہت کہا تو اس سے شرط کرا لیں گے کہ دیکھو بھئی ! ہمیں چھیڑنا مت۔ یہ بات اگر وہ مان گیا تب سانجھی کر لیں گے۔ اور اگر پھر بھی اس نے شرارت کی تو ہمیشہ کے لئے ناتہ توڑ کر کُٹی کر دیں گے۔ پھر نہیں بولیں گے۔"
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 116
لڑکی۔۔۔ سُر بالا۔۔ زندگی کی سات بہاریں دیکھ چکی تھی۔ منوہر اس سے صرف دو سال بڑا تھا۔ وہ دونوں رشتے کے بھائی بہن تھے۔
سُربالا ایک دم اس طرح چونک پڑی گویا کسی نےاس کے کان میں کوئی عجیب بات کہہ دی ہے۔ وہ سوچنے لگی بھاڑ کی چھت تو گرم ہو گی، اس پر منوہر رہے گا کیسے؟ میں تو رہ جاؤں گی مگر وہ جلے گا ضرور۔ پھر سوچا ۔ اس سے کہہ دوں گی بھئی ! چھت بہت تپ رہی ہے تم جل جاؤ گے اندر مت جاؤ۔ پھر اگر وہ نہیں مانا؟ میرے پاس بیٹھنے کو آیا ہی تو؟ہاں میں کہہ دوں گی بھئی ! ٹہرو، میں بھی باہر آ جاتی ہوں۔ پھر وہ میرے پاس آنے کی ضد کرے گا کیا؟ ضرور کرے گا، وہ ہے بڑا ہٹی۔ پھر میں اسے آنے نہیں دوں گی۔ بیچارہ تپے گا۔ بھلا کچھ ٹھیک ہے۔ زیادہ کہا تو میں بھی دھکا دے دوں گی۔ اور کہوں گی۔۔ ارے جل جائے گا مورکھ۔
یہ سوچنے پر اسے بڑا مزا سا آیا۔ اس کا منہ سوکھ گیا۔ اسےایسا معلوم ہوا گویا منوہر دراصل دھکا کھا کر زمین پر گر گیا ہے۔ وہ اس ہنسی دلانے والے مگر قابل رحم نظارہ کو سچ سمجھ کر مسکرا پڑی۔ اس نے دو ایک زور کے ہاتھ لگا کر بھاڑ کو دیکھا۔ وہ اب بالکل تیار ہو گیا تھا۔ اور جس طرح بڑی ہوشیاری کے ساتھ ماں اپنے شیر خوار بچے کو بچھونے پر لٹاتی ہے ویسے سُر بالا نے بھی اپنا پاؤں آہستہ آہستہ بھاڑ کے نیچے سے کھینچ لیا، اس کام کو کرتے وقت وہ بھاڑ کو اس طرح چمکارتی جاتی تھی گویا وہ ایک سوتا ہوا بچہ ہے جس کے اٹھ جانے کا اندیشہ ہے۔ بھاڑ اس کے پاؤں پر ہی ٹکا ہوا تھا، اسے فکر تھی کہ کہیں پاؤں کا سہارا ہٹ جانے پر وہ ٹوٹ نہ جائے ، جب پاؤں نکال لینے پر وہ نہ ٹوٹا اور جوں کو جوں ٹکا رہا تو سُر بالا ایک بار خوشی سے ناچ اٹھی۔ گویا اس نے بہت بڑی

صفحہ 117
فتح کی ہے۔وہ فوراً ہی منوہر کو بلانے کے لئے تیار ہو گئی تا کہ اپنی چترائی سے بنائے ہوئے بھاڑ کو دکھا کر اور زیادہ خوش ہو سکے۔
ڈھیٹ لڑکا پانی سے الجھ رہا تھا اسے خبر بھی نہیں تھی کہ اس کی لاعلمی میں کتنی زبردست کاریگری ہو گئی ہے۔شاید اتنا اچھا بھاڑ اس نے خواب میں بھی نہ دیکھا ہو گا۔
مگر اس نے خیال مکیا ۔۔ ابھی نہیں ، پہلے کٹی تو بنا لوں۔
یہ سوچ کر سُر بالا نے ریت کی ایک چٹکی لی اور بہت احتیاط سے بھاڑ کے اوپر ڈال دی۔ اس طرح چار پانچ چٹکیاں اور ڈالیں ۔ پھر اطمینان کا سانس لیا۔ گویا کٹی بھی تیار ہو گئی۔ اس نے خیال کیا اب سب کام مکمل ہو چکا ہے۔ منوہر کو بلانا چاہئیے۔ مگر اپنے گھر کے بھاڑ کا اس نے پورا پورا دھیان کیا تو پتہ چلا کہ ایک کمی رہ گئی ہے۔دھوں کہاں سے نکلے گا۔ تھوڑی دیر سوچ کر اس نے ایک تنکا بھاڑ کے سر پر گاڑ دیا ۔ گویا وہ دھوئیں کی چمنی تھی۔ اب تو بھاڑ تیار ہو گیا۔ اس نے آخری نظر ڈالی۔ کہیں کوئی کسر باقی نہ رہ گئی ہو۔ وہ اسے دیکھ دیکھ کر خوشی سے پھولی نہیں سماتی تھی۔ اگر کوئی اس سے پوچھتا کہ پراتما کہاں براجتے ہیں تو وہ کہہ دیتے کہ میرے بھاڑ کے اندر۔
منوہر کو خود ہی اپنی سُر بالا کا خیال آ گیا۔ اسے یاد کر کے اس نے پانی سے ناتہ تور لیا اور ہاتھ لی لکڑی کو پوری طاقت سے گنگا کی موجوں کے سپرد کر دیا۔ وہ چپکے چپکے قریب آیا تو دیکھا کہ سُربالا اپنے بھاڑ کے طلسمات کو سمجھنے میں مشغول ہے۔

صفحہ 118
منوہر نے زور سے قہقہہ لگایا کہ تمام فضا گونج اٹھی۔اور سُر بالا بھی چونک پڑی۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر اس زور سے لات ماری کہ بنے بنائے بھاڑ کا کام تمام ہو گیا۔ ہنستے ہنستے اس کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ قہقہہ لگاتے ہوئے اس نے کہا
سُرّو رانی
وہ مومی مورت کی طرح بالکل خاموش کھڑی رہ گئی۔ اس کے رخسار جو چند لمحے پیشتر مسرت و انبساط کی نورانی ضیا سے دمک رہے تھے، یکلخت ماند پڑ گئے۔ اس کےخیالات اسے دوسری ہی دنیا میں لے گئے تھے۔اس کی نظر کے سامنے ایک عظیم الشان جنت تھی جس کو اس کی قوتِ بازو نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا۔ پھر اس نے دیکھا کہ وہ اس جنتِ جدید کی کوبصورت اور فردوسی شان دکھانے کے لئے ایک شخص کو بلانا چاہتی تھی۔ لیکن افسوس! کہ وہی شخص آیا اور اس نے لات مار کر اسے توڑ پھوڑ کر تباہ و برباد کر دیا۔ دل کی آرزوئیں خاک میں ملیا میٹ ہو گئیں۔ اس کی روح رنج و محن سے معمور ہو گئی۔
ہمارے لائق قارئین میں سے کوئی ہوتا تو ان ضدی بچوں کو سمجھاتا کہ یہ دنیا عارضی اور جلدی فنا ہونے والی ہے۔ اس میں دکھ کیا اور سکھ کیا۔ جو جس چیز سے بنتا ہے ، اسی میں مل جاتا ہے۔ پھر افسوس اور غصے کی کیا بات ہے۔ یہ تمام نگری پانی کا بلبلہ ہے۔ پھوٹ کر کسی روز پانی ہی میں مل جائے گا۔ اور پھوٹ جانے ہی میں بلبلے کی اصلیت کا راز پنہاں ہے۔ جو اس چیز کو نہیں سمجھتے، وہ رحم کے مستحق بھی نہیں۔

صفحہ 119
اری ضدی لڑکی! یہ تمام دنیا خدا کی بنائی ہوئی ہے۔ ایک نہ ایک دن اسی ذات میں جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، گھل مل کر ختم ہو جائے گی۔ تو کس لئے رنج و غن سہہ کر ملول ہو رہی ہے؟ تیرا ریت کا بنا ہوا بھاڑ جتنی جلدی بنا تھا اُتنے ہی جلدی ڈھے گیا۔خاک سے بنا تھا خاک میں مل گیا۔ رنج کرنے سے کیا فائدہ ہے؟ اس بننے اور بگڑنے سے تو سبق حاصل کرنا چاہئیے۔ جس ہستی نے لات مار کر پھاڑا توڑا ہے ، وہ خدا کا بھیجا ہوا اور تیرے ساتھ کھیلا ہوا تیرا پریمی ہے۔ تو بھی اس سے پریم کر کیونکہ اس سارے جگت کا دوسرا نام ہی پریم نگر ہے ۔ تو غصے کو دور کر کے اس کے ساتھ اس طرح مل جا ، جیسے ریت پھر سے ریت میں مل گئی۔ پرمیشور تجھ پر نئے طریقے سے اپنی کرپا کرنا چاہتے ہیں۔ تو ضدی مت بن۔ اور اپنی ہٹ کو چھوڑ دے۔ تو پرماتما کی پیدا کی ہوئی مخلوق کے ساتھ دل لگا۔ پرماتما تجھ پر دیا کریں گے۔
لیکن خود بچاری سُربالا کے خواب و خیال میں بھی فلسفہ کے یہ دقیق رموز نہ آ سکتے تھے۔ اور نہ اس کو سمجھانے کے لئے کوئی عالم فاضل گنگا کے کنارے گیا۔ اگر کوئی جاتا بھی تو شاید اس کا تمام فلسفہ بیکار رہ جاتا۔ کیونکہ وہ اس قدر غصہ میں بھری ہوئی تھی کہ کسی کی بات ہی نہ سنتی۔ اور اگر سنتی تو باقتضائے عمر اسے مطلق نہ سمجھ سکتی۔
خیر کچھ بھی ہو وہاں صرف منوہر تھا جو فلسفہ کی اوّلیات سے بھی ناواقف تھا۔ لیکن اس کے جذبات کی عجیب کیفیت تھی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اندر ہی اندر اس کے دل کو مسوس رہا ہے۔ کچھ دیر بعد اس نے کسی قدر ضبط سے کام لے کر کہا

صفحہ 120
چل پگلی سُرّو ۔۔ تو روٹھ گئی۔
سُربالا ویسے ہی کھڑی رہی۔ ذرا نہ ہلی نہ کچھ کہا۔
سُربالا پر پھر بھی کچھ اثر نہ ہوا۔
سُرّی۔۔ سُرّیا۔۔۔ او سُرّو۔۔ بولتی نہیں مردار۔
اب تابِ ضبط نہ تھی۔ منوہر کی آواز بھرا گئی۔ اور سُر بالا منہ پُھلا کر کھڑی ہو گئی۔ منوہر کی کانپتی ہوئی آواز کا مقابلہ اس سے نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ بظاہر خفا اور خاموش تھی مگر خوب پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی۔
سُرّی۔۔ او سُرّیا ! میں منوہر ہوں۔ منوہر۔ مجھے مارتی کیوں نہیں۔ دیکھ میں کھڑا ہوں۔ تو مجھے مار۔
یہ منوہر نے اس کی پیٹھ کے پیچھے کھڑے ہو کر کہا۔ اور کچھ ایسی آواز میں گویا وہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اس کے آنسو نہیں بہہ رہے۔ حالانکہ وہ بہہ رہے تھے۔
ہم نہیں بولتے جی، ہم نہیں بولتے۔
وہ بولنا نہیں چاہتی تھی مگر بولے بغیر رہا بھی نہ گیا۔ کیونکہ اس کا بھاڑ، اس کی ساری دنیا، بلکہ خود اس کا وجود منوہر کی بھرائی ہوئی آواز میں جذب ہو کر اپنی خودی کو مٹا چکا تھا۔ منوہر نے اپنے جوش کو دبا کر کہا
سُرّو ! منوہر تیرے پیچھے کھڑا ہے۔ وہ بڑا پاپی ہے۔ تو اس سے مت بول لیکن
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 121
تو خفا ہو کر اس کے سر پر ریت کیوں نہیں ڈال دیتی۔اس نے تیرا بھاڑ توڑا ہے۔ تو اس کے بال خراب کر دے۔
سُر بالا نے کڑک کر کہا
ثُپ رہو جی۔ ہم نے کہہ دیا ہم نہیں بولتے۔
ضدی لڑکی کا تمام رنج و غصہ کبھی کا ختم ہو چکا تھا۔وہ نرم پڑ گئی تھی۔ ظاہری باتوں کا مطلب کچھ اور ہی تھا۔اس کی مسرت غصے کے روپ میں جلوہ گر ہوئی تھی۔ دوسرے الفاظ میں بچپن کی معصومیت پر شرارت غالب آ چلی تھی۔ منوہر بولا۔
لو سُرّو ! میں نہیں بولتا۔میں بیٹھ جاتا ہوں۔ یہیں بیٹھا رہوں گا۔ تم جب تک نہیں کہو گی، نہ اٹھوں گا نہ بولوں گا۔
منوہر چپ ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ہار کر سُر بالا بولی
ہمارا بھاڑ کیوں توڑا جی؟ ہمارا بھاڑ بنا کے د۔

صفحہ 122
لو ابھی لو۔
ہم ویسا ہی لیں گے۔
ویسا ہی لو۔ بلکہ اس سے بھی اچھا۔
اس پر ہماری کٹی تھی۔ اس پر دھوئیں کا راستہ تھا۔
لو سب لو۔ تم بتاتی جاؤ، میں بناتا جاؤں۔
ہم نہیں بتائیں گے۔ تم نے کیوں توڑا؟ تم نے توڑا ، تم ہی بناؤ۔
اچھا۔ پر تم ادھر دیکھو تو۔
ہم نہیں دیکھتے۔ پہلے بھاڑ بنا کے دو۔
منوہر نے ایک بھاڑ بنا کے تیار کیا ، پھر کہا
لو بھاڑ بن گیا
کیا بن گیا؟ بالکل ویسا ہی۔
ہاں خود دیکھ لو۔
دھویں کا راستہ بنایا ؟ کٹی بنائی؟
وہ کیسے بناؤں؟ تم بتاؤ تو۔
پہلے بناؤ، پھر بتا دوں گی۔
منوہر نے بھاڑ کے سر پر ایک سینک گاڑ کر اور ایک پتے کی اوٹ لگا کر کہا
بنا دیا دھویں کا راستہ۔ دیکھ لو

صفحہ 123
فورا! مڑ کر سُر باال نے کہا
سینک ٹھیک نہیں لگی جی۔ پتا ایسے لگے گا جی۔ اچھا اب جا کر تھوڑا پانی لاؤ۔ بھاڑ کے سر پر ڈالیں گے۔
منوہر پانی لایا اور ثُلو میں لے کر بھاڑ کی مٹی پر چھڑکنا چاہتا تھا کہ خود سُربالا نے ایک لات مار کر بھاڑ کو پہلے کی طرح چکنا چور کر دیا۔ اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئی۔
منوہر بھی خوشی سے ناچ اٹھا۔
گنگا پانی بچے کی ہنسی سے ملتی جلتی مدہم آواز کے ساتھ آہستہ آہستہ بہہ رہا ہے۔سورج کی آخری شعاعوں کا الوداعی تبسم صرف دو بلند درختوں کی چوٹیوں پر نظر آ رہا تھا۔ہوا کی رفتار میں ایک عجیب لطافت محسوس ہو رہی تھی۔ گھنے درخت سر جھکائے ہوئے فلسفیوں کی طرح اپنے خیالات میں محو معلوم ہوتے تھے۔ بڑھتی ہوئی تاریکی کے اندیشے سے سُربالا اور منوہر ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈال کر گھر کی طرف چل پڑے۔ اب ان میں سے کسی کے دل میں غصہ یا رنج کا نام تک نہیں تھا۔

صفحہ 124
کیا عورت ناقص العقل ہے
تاریخ یونان کا ایک گمشدہ ورق
سکندر ۔ کرہ ارض کا فاتح سکندر اعظم ۔۔ ممالک محروسہ سے خراج لیتا۔ اپنی سلطنت کے حدود کو وسیع کرتا ، گرجتے ہوئے بادل اور کڑکتی ہوئی بجلی کی مانند تباہی و بربادی کا طوفان لے کر ہمت و استقلال اور عزم و ارادہ کو سینے میں لئے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ موسم گرما کے جھلستے ہوئے آفتاب کی شعاعیں، موسم سرما کی خون منجمد کر دینے والی ہوا کے تیز و تند جھونکے اس کی نظر میں کچھ وقعت نہ رکھتے تھے۔
اسی دوران میں اس کا گذر ایک ایسی سرزمین میں ہوا جس کی عنانِ حکومت صنفِ نازک کے قوی ہاتھوں میں تھی۔اور بیشتر آبادی بھی اسی جنس پر مشتمل تھی۔ سکندؔر اس سے بے خبر تھا کہ کائناتِ عالم کا نظم و نسق صرف عورت کے دم سے ہے۔ اس لئے ارادہ کیا کہ حسبِ معمول فوج کشی کر کے اس ریاست کو بھی فتح کر لے۔
سمندر میں یکے بعد دیگرے بڑھنے والی موجوں کی طرح فوج کی قطاریں آراستہ کی جا رہی
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 125
تھیں کہ سکندؔر کی بارگاہ میں ایک عورت آلاتِ حرب سجائے لوہے میں ڈوبی ہوئی حاضر ہوئی۔ اور مودّبانہ طریقے پر ایک منقّش شمشیر نذر کرتے ہوئے اپنی ملکہ کا پیغام پیش کیا۔
اے سکندر یہ حقیقت ہے کہ اس وقت بڑی بڑی سلطنتوں پر تیرا پرچم لہرا رہا ہے اور تیرے نام کا سکّہ خشکی اور تری پر رواں ہے۔لیکن تیرے حق میں بہتر یہی ہے کہ ہمارے مقابلہ میں نبرد آزمائی کے خیال خام کو ترک کر کے اپنی راہ لے۔ اگر اس میدانِ کارزار میں تجھ کو فتح ہو بھی گئی تو بے سود ہے۔کیا تاریخِ عالم میں تیرے نام کے ساتھ یہ الفاظ نہیں لکھے جائیں گےکہ " بے رحم سخت دل سکندؔر نے صنف نازک کے مقابلہ میں شمشیر اٹھائی۔ اور اس کے بہادر سپاہیوں نے کمزور عورتوں کو تہ تیغ کیا؟ " تصویر کے دوسرے رخ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے سوچا جائے کہ اگر حُسنِ اتفاق سے ہمیں فتح ہوئی جس کا ہمیں یقین ہے۔ کیونکہ ہماری فوج کا ہر رکن فن سپہ گری میں یکتائے روز گار ہے۔تو کیا یہ امر تیرے لئے زبردست ذلت کا باعث نہیں ہو گا۔ کہ سکندّر کو۔۔۔سکندرِ اعظم کو ۔۔۔ صنفِ نازک نے شکست دے دی۔ اور اس کے بہادر سپاہیوں کو کمزور خواتین کی تیز تلواروں نے خون میں نہلا دیا۔" لہٰذا قبل اس کے کہ تیر اپنی کمان سے جدا ہو انجام پر نظر ڈال لینی ضروری ہے۔۔
سکندّر جس کا عزم راسخ جس کا ارادہ قوی جس کا قانون اٹل اور جس کا فیصلہ قطعی ہوتا تھا، یہ معقول بات سن کر دنگ رہ گیا۔ اور فوراً اپنی فوجوں کو وطن کی طرف مراجعت کا حکم دے دیا۔ نیز شہر پناہ کے صدر دروازے پر خود اپنے ہاتھ سے یہ عبارت کندہ کر دی
" کج فہم سکندؔر بے شمار سلطنتوں کو مغلوب کرنے کے بعد اس زمین پر آیا۔ اور اس نے عورت کی دانشمندی کے سامنے سر تسلیمِ خم کیا۔ مرد قوتِ بازو سے فتح حاصل کرتے ہیں۔ اور صنفِ نازک عقل و دانائی سے۔

صفحہ 126
نصف ایکٹ کا ڈرامہ
افراد تمثیل
سربالا: تہذیب مغربی کی دلدادہ ایک نوجوان خاتون
منوہر: شنتی نکتین کا ایک عاشق مزاج طالب علم
منظر
صبح کا وقت۔ گوشہ ء چمن ، چشمے کی روانی، طیور کے چہچہے، آہنی بنچ، ایک مرد، ایک عورت، ایک کتا
مقام: حدیقہء نباتات ، کلکتہ
زمانہ: عصر جدید

صفحہ 127
منوہر: (مضمحل لہجہ میں) سُر بالا! کس قدر حیرت انگیز امر ہے۔ میں عرصہ ء دراز سے تمہاری محبت میں گرفتار ہوں، مگر تم کو ذرا بھی احساس نہیں۔
سُربالا: (لبوں کو چباتے ہوئے)نہیں منوہر، تمہارا خیال ہے۔ میں محبت کا جواب محبت سے دیتی ہوں، مگر تم خود اس حقیقت کو محسوس نہیں کرتے۔
( نگاہیں جھک جاتی ہیں )
منوہر: (خفیف تبسم کے ساتھ) تو پھر کیوں نا ہم ایک دوسرے کے شریکِ حیات بن جائیں۔ کیا تمہیں کچھ پس و پیش ہے؟
سُربالا: (مصنوعی حیا سے) ہر گز نہیں، یہ تو میری دلی آرزو ہے۔ میں تیار ہوں، جب جی میں آئے، چاہے کل ہی سہی۔
( چار متبسم لب۔۔۔۔۔ ایک طویل بوسہ)

پردہ گرتا ہے۔
 
Top