مکمل سحرِ بنگال

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 1
سحر بنگال

سحرِ بنگال
محترمہ طاہرہ دیوی شیرازی
کے افسانوں کا مجموعہ
ناشر
ساقی بُک ڈپو دہلی
طبع اوّل جولائی 1935 ء
اِدریسُ المطابع دہلی

صفحہ 2
لکھی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت
ہوں گی اے خوابِ جوانی تیری تعبیریں بہت
اقبال

صفحہ 3

نذرِ عقیدت
علامہ نیاز فتحپوری
کی
خدمت میں

طاہرہ دیوی شیرازی

صفحہ 4
تفصیل نقوش

صفحہ 5
دیباچہ
طاہرہ دیوی شیرازی کا یہ دوسرا افسانہ ہے جو نگار میں شائع ہو رہا ہے۔ آپ نسباً ہندو اور ازدواجاً مسلمان ہیں۔ لیکن اعتقاد کے لحاظ سے بالکل میری ہمنوا ہیں۔ یہ افسانہ فن کے لحاظ سے اردو میں اس ارتقائی درجہ کی چیز ہے جہاں مردوں کا دماغ بھی مشکل ہی سے پہنچ سکتا ہے۔ چہ جائیکہ عورتیں۔ طاہرہ دیوی نہ صرف فارسی بلکہ فرانسیسی زبان کی بھی ماہر ہیں۔ اور غالباً یہیں سے یہ معمہ حل ہوتا ہے کہ ان کی افسانہ نگاری میں یہ رنگ کہاں سے آیا۔ زبان کی صفائی و شگفتگی کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بنگال کی ایک ہندو خاتون اتنی صاف اور صحیح اردو لکھنے میں کیونکر کامیاب ہو سکیں۔
یہ ہیں وہ الفاظ جو علامہ نیاز پوری نے کچھ میری شخصیت اور کچھ میرے ایک افسانے کے متعلق جو نگار بابتہ جولائی 34 ء میں شائع ہوا تھا ، قلمبند فرمائے۔ جب میں نے ان سطور کا مطالعہ کیا تو میری مسرت کی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ نیاؔز جیسے بلند پایہ ادیب کی یہ رائے میرے لئے نہ صرف باعثِ عزت ہے بلکہ مجھ جیسی ایک مبتدی کی ان سے ہمت افزائی بھی ہوتی ہے۔
اردو میں لکھنے سے قبل ہندی، بنگالی یا انگریزی میں خصوصاً اور فارسی یا فرانسیسی میں محض " تذکرۃً " میں نے جو کچھ تحریر کیا ، وہ خارج از بحث ہے تاہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ ان زبانوں کے ذریعے میں نے قلم پر قدرت حاصل کر لی تو صحافت اردو میں شہرت پانا میرے لئے بہت آسان

صفحہ 6
ہو گیا۔ چنانچہ ادیب فاضل کے امتحان سے فارغ ہوتے ہی میں نے تہیہ کر لیا کہ اس بساطِ ادب پر بھی کچھ مہرے چلنے چاہئیں۔ اور خدا کے فضل سے میں ایک حد تک اپنی آرزو کی تکمیل میں کامیاب ہو گئی۔ مجھے افسوس ہے کہ اچانک علیل ہو جانے کے باعث معض مدیران رسائل کی فرمائشات کماحقہ پوری نہ کر سکی۔ پھر بھی فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ اس وقت ہندوستان کے تمام بلند پایہ جرائد میں بالواسطہ یا بلاواسطہ میرے افسانے شائع ہو چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیشِ نظر مجموعے میں چند فسانے طبع زاد ہیں۔اور باقی ماخوذ یا ترجمہ۔ میں نے ترجمہ کرتے وقت اس امر کو ملحوظ رکھا ہےکہ اصل افسانے کی خوبیاں برقرار رہیں۔ چنانچہ ادبی دنیا کے سالنامے میں بطور تعارف لائق مدیر کے یہ الفاظ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
جنابہ طاہرہ دیوی صاحبہ کے "خوابِ رنگین" کے متعلق یہ عرض کر دینا کافی ہے کہ اگر آج موپساں زندہ ہوتا تو یہ فیصلہ نہ کر سکتا کہ ترجمہ کون سا ہے اور اصل کون سا۔
میں نے ایران کے دورانِ قیام میں فرانسیسی ادب کا بالاستعیاب مطالعہ کیا تھا۔ اس وقت کے کچھ نقوش دل و دماغ پر مرقسم رہ گئے تھے، ہندوستان آنے کے بعد ان کو اردو کے سانچوں میں ڈھالا تو ان کی ہئیت مختلف ہو گئی۔ بعض جگہ پلاٹ کے اندر بھی مختلف تبدیلیاں پیدا کر دی ہین جس کے باعث ان کو اچھی طرح پہچاننا بھی دشوار ہے۔ کہ وہ اس" آواگون "سے قبل کس صورت میں تھے۔
اس مجموعے کو مرتب کرنے سے قبل تمام افسانوں پر ایک سرسری نظر ڈال لی گئی ہے۔" دختر کفش دوز" کو علامہ نیازؔ نے بہت ترمیم و تنسیخ کے بعد شائع کیا تھا جس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ اور نہ میں

صفحہ 7
خود سمجھ سکی۔ اب میں نے اس کو اصل مسودے کے مطابق چھپوا دیا ہے۔ کیونکہ میں اس قطع و برید سے متفق نہیں ہوں۔ اگر نیازؔ صاحب کا اعتراض یہ ہو کہ اس میں بصورت موجودہ عریانی بہت ہے۔ تو میں کہوں گی کہ عریانی ہی آرٹ کی عراج ہے۔ لہٰذا اس سے احتراز کرنا مناسب نہیں ہے۔مجھے یقین ہے کہ قارئین اسے بہت ہی زیادہ پسند فرمائیں گے۔ کیونکہ نگار میں شائع ہونے کے بعد خود میں نے پانچ چھ مختلف رسائل میں اس کو چھپا ہوا دیکھا۔ اگرچہ ان مدیران کی یہ جراءت قابل اعتراض ہے کہ بغیر حوالے کے اس کو نقل کر لیا۔ اور مجھے اطلاع تک نہ دی۔ تاہم اس سے افسانہ کی مقبولیت کا اندزاہ بخوبی ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ بعض دوسرے افسانے بھی کئی دیگر رسائل میں نقل کئے گئے۔ میں علامہ نیازؔ کی حد درجہ شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اپنے قیمتی مشوروں سے ہمیشہ میری اعانت فرمائی۔" سکون کی جستجو " کو انھوں نے خاص طور پر پسند کیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ میں نے اس افسانے کے اندر جس اعلیٰ پیرایہ میں تجزیہء نفسی
کیا ہے ادبِ اردو میں اس کی کوئی مثال ملنی محال ہے۔ PSYCHO-ANALYSIS
بنگالی ادب سے متعلق مضمون کو ان اوراق میں شامل نہیں کرنا چاہئیے تھا لیکن چونکہ اس میں ایک خاتون کی افسانوی زندگی کو بے نقاب کیا ہے نیز اس کی رومانوی شاعری کے چند نمونے پیش کئے ہیں۔ اس لئے اس مجموعہ میں اس کو جگہ دینا کچھ غیر موزوں نہیں ہے۔ سُربالا دیوی سے مجھے اس قدر محبت ہے کہ اپنی اکثر افسانوں میں عموماً ہیروئن کا نام یہی تجویز کرتی ہوں۔ "نصف ایکٹ کا ڈرامہ " ایک ہلکا سا طنز ہے ان حاملانِ ادب کی طرزِ نگارش پر جو ایک ایکٹ کے ڈرامے اتنے مختصر لکھتے ہیں کہ اگر ان کو تمثیل کیا جائے تو مشکل سے پانچ منٹ درکار ہوں گے۔ اور اس طرح ڈرامہ کا مقصد خبط کر کے اپنی حماقت کا ثبوت دیتے ہیں۔

صفحہ 8
اکظر احباب جن کو میرے افسانے پسند ہیں۔ خطوط کے ذریعہ میری شخصیت کے متعلق استفسار کرتے ہیں۔ مگر میں مفصل حالات قلمبند کرنے سے اجتناب کرتی رہی اور یہی مناسب بھی تھا۔ کیونکہ میری زندگی بجائے خود ایک افسانہ ہے۔ اس وقت مختصراً صرف اتنا عرض کروں گی کہ ارض بنگال میرا عزیز وطن ہے۔ اور جیسا کہ علامہ نیاؔز نے لکھا ہے میں نسبتاً ہندو ہوں۔ زندگی کی ابتدائی منزلیں جس المناک ماحول میں گزاریں۔ اس کے تصور ہی سے انقباضِ روح ہونے لگتا ہے۔ بعد ازاں اگر شانتی نکیتن میرے لئے گہوارہ ء تربیت نہ بنتا تو نہ مجھے نگار خانہ ء ادب میں اپنے نقوش کی نمائش کا موقع ملتا۔ اور نہ میری روح مسرت و شادمانی کی فضا میں سانس لیتی۔ فارغ التحصیل ہونے اور منزلِ شباب میں قدم رکھنے کے بعد سب سے پہلا دل جس نے میرے نغمہء محبت کا گیت گایا ایک مسلمان دل تھا اس لئے میں ازدواجاً مسلمان ہوں۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد 31 ء میں عہدہء سفارت پر فائز ہو کر جب میرے عزیز شوہر کو ایران جانا پڑا تو میں بھی ساتھ گئی۔ چنانچہ وہاں فارسی اور فرانسیسی کا کافی مطالعہ کرنےکا موقع مل گیا اور اس وقت بھی شاید اسی زرّیں فضا میں سانس لیتی ہوئی جو صدیاں گزر جانے کے باوجود ابھی تک بادہ ء حافظؔ کی سرمستیوں سے معمور ہے۔ لیکن فیقِ زندگی کی بے وقت موت نے مجھے وطن واپس بھیج دیا۔ یہی المِ حیات مستقل طور پر میرے لئے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ اگر ادبی انہماک کی ایک حد تک باعثِ تسکین نہ ہوتا تو یقیناً پیمانہ ء زیست کبھی کا چھلک چکا ہوتا۔
دارجلنگ
19جولائی 35ء
طاہرہؔ دیوی شیرازی
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 9
دختر کفش دوز
وہ ہنوز اپنے بسترِ استراحت پر دراز تھی۔ ایک نیم عریاں حالت میں۔گردن شانے تک کھلی ہوئی تھی۔ اور دونوں شانے نصف سینے تک برہنہ تھے۔ لبوں پر مسکراہٹ، آنکھوں میں برقِ تبسم۔۔۔ نرم مخملی تکیہ میں اس کے سر سے نشیب پیدا ہو گیا تھا۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی۔شاید کوئی خواب دیکھا ہو گا۔
وہ کوشش کر رہی تھی کہ اس کی تعبیر معلوم کرے۔ دائیں ہاتھ کی نازک انگلایں مسہری کے آبنوسی کٹہرے پر مشق موسیقی کرنے میں مصروف تھیں۔ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کچھ گنگنا بھی رہی ہے۔ بہت مدہم سروں میں۔۔ صرف اپنے ہی نفس کو محظوظ کرنے کے لئے۔
گنگنانا کیا ہے؟
جذباتِ جنسی کے ایک نا قابلِ بیان ہیجان کی پرجوش اور کیفیتِ شباب سے لبریز شعاوں میں گھر کر تاثراتِ قلب کو نہایت لطیف مگر مبہم پیرایہ مین ظاہر کرنے کی کوشش کا اصطلاحی نام۔ عہدِ شباب اور نسائیت۔ ۔ ناممکن ہے کہ ان دونوں کا اجتماع ایک ہی پیکر میں

صفحہ 10
ہو جائے۔ اور فضا نغموں سے معمور نہ ہو۔ اس کا دوسرا ہاتھ عطریت سے لبریز سیاہ بالوں میں چھپا ہوا تھا۔ ان بالوں میں جن کی حقیقت کو دنیا آج تک نہ سمجھ سکی۔ نہ صرف میں بلکہ کرّہ عرض کا ہر متنفس صحیح طور پر یہ بتا دینے سے قاصر ہے کہ وہ کسی سوختہ جگر شاعر کے قلبِ حزیں کا دود عنبریں تھا یا کسی بلبلِ دام درگرفتہ کا ایک یاس آمیز نغمہ متشکل جو اس کے کاسہ ء سر سے مِس ہو کر پہلے تو منجمد ہوا اور پھر تار تار ہو کر گداز سینے اور بلوریں شانوں پر اس طرح منتژر ہونے لگا گویا تخلیق کی ساعتوں سے قبل ہی اس کی قسمت میں اضطراب ِ پیہم رقم کر دیا گیا تھا۔
حریری چادر اور وہ بھی شبنمی رنگ کی۔۔۔ نہ اتنی دبیز ہو سکتی ہے اور نہ اس قدر غیر شفاف کہ کسی کے سینہ پر پڑ جانے کے بعد مینائے شباب کی خمار آگیں کیفیات کو اپنے اندر مستور کر لے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ سر سے پاؤں تک تقوٰی شکنی کی حد تک برہنہ تھی۔ ہاں برہنہ کیونکہ جالی دار مہین چولی اور مختصر زیر جامہ میں اتنی صلاحیت کہاں سے آ سکتی ہے کہ وہ اچھی طرح پردہ پوشی کر سکے۔ اور خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ اس لباس کا رنگ بھی اس نوعیت کا ہو کہ بلوری جسم کی نقرئیت کے ساتھ وصل ہو کر اسی مٰن مدغم ہو جائے۔ تاہ مسہری کے چاروں طرف پیازی ریشم کے زرکار پردے آویزاں تھے۔اس لئے نا ممکن تھا کہ ان کو اٹھائے بغیر کسی کی مشتاق نگاہیں اس مرکز حسن و جمال سے کماحقہ اکتسابِ نور کر سکیں۔
اس نے جمائی لیتے ہوئے ان لبوں کو وا کیا جن کا خطِ اتصال اس وقت تک ناممکن التعین تھا ۔ بازوؤں کو بھی زحمتِ جنبش دی۔ اور کچھ ایسی ادا کے ساتھ ان کو اٹھایا کہ ان کے درمیان پیدا ہونے والی قوس ہلالِ عید سے خراجِ تحسین طلب کرنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں ابھی تک خمار باقی تھا۔کیونکہ اپنی
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 11
دوسری سالگرہ کا جشن منانے کے سلسلے مین وہ کافی رات گزر جانے کے بعد مصروف خواب ہوئی تھی، دوسری سالگرہ اس لئے کہ محل کی چاردیواری میں آئے اس کو دو ہی سال گزرے تھےیوں اس کی عمر اٹھارہ سال تھی مگر ابتدائی سولہ برس ایک ایسی فضا میں گزرے تھےجہاں فکر معاش سے تنگ آ کر قلبِ انسانی میں خودکشی کی آرزو پیدا ہو جاتی ہے۔جشنِ سالگرہ کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
قدرت کے بھی کھیل نرالے ہیں۔ وہ زلفیں جو دو سال قبل شرمندہ ء روغنیات بھی نہ ہوئی تھیں۔ مختلف الالوان پھولوں کی نکہت بار آغوش میں آسودگی حاصل کرنے لگیں۔ وہ سر جس کی آرائش کے لئے ایک دھجی بھی نصیب نہ ہوئی تھی۔ زریں و منور تاج سے مزّین ہونے لگا۔ اس کا وہ جسم جو ہمیشہ پھونس اور خس و خوشاک سکے سخت بستر پر لیٹنے کا عادی تھا اس طرح کہ ہر کروٹ کے ساتھ دس بیس تنکے بدن میں چبھ جاتے اور اسے خبر تک نہ ہوتی۔ مخمل و کمخواب کے نرم و نازک گدیلوں پر لطفِ خواب حاصل کرنے لگا۔ اس طرح کہ اگر اعضاء کی غیر ارادی جنبشوں سے بستر پر ایک سلوٹ بھی پڑ جاتی تو اسے چین نہ آتا۔ تا وقتیکہ اسے درست و ہموار نہ کر دیتی۔ اس کا معدہ جو مکروہ اپلوں کی مضمحل آنچ پر سِکی ہوئی دبیز روٹیوں کو آسانی سے قبول کر لیتا تھا۔ اس قدر نزاکت پسند ہو گیا کہ اگر دودھ کو بھی چبا کر نہ پیا جاتا تو سو ہضمی کی شکایت پیدا ہو جاتی۔ وہ پہلے ایک مفلوک الحال ہستی کی صرف لخت جگر تھی اور اب ایک صاحب ریاست نواب کی منظور نظر سے بھی کچھ زیادہ۔ بوسیدہ اور متعفن جھونپڑے میں دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر اسے قصر شاہی کی چار دیواری میں آ کر ملی۔ اس لئے اس کا دماغ تخت السرائے سے فلک الافلاک پر پہنچ گیا تھا۔
انگڑائی لیتے وقت اس نے اپنے جسم کو سمیٹتے ہوئے کچھ اس طرح سانس لیا کہ حریری چادر

صفحہ 12
کے پلّو ایک طرف کھسک گئے۔ اور گداز سینے کی وہ "عریانیاں "بھی بالکل بے نقاب ہو گئیں جن کو کبھی مستور نہ رکھنے کی نیت سے سرسری طور پر" محرم نشین" کر دیا تھا۔نور کے سانچوں مین ڈھلی ہوئی ان مرمریں چڑیوں نے اپنے شبنمی نشیمنوں سے سر نکال لئے جن کا محض ایک جلوہ بے محابا صرف ایک گریز پا جھلک زاہدِ خلوت نشین پر خدا جانے کون سی کیفیت طاری کر دیتی ہے جس کے زیرِ اثر تھوڑی دیر کے لئے محراب و منبر سے لے کر تسبیح کے دانوں تک زہد و اتقا کی ہر شے رقص کرتی ہوئی اس کی نگاہ کے سامنے سے گزر جاتی ہے اور ہوش آنے پر اولین فرصت میں وہ یہ سوچنے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا حیات انسانی کا منتہائے مقصود صرف عبادت ہی ہے یا کچھ اور بھی؟ اگر اس وقت وہ اپنا عکس کسی آئینے میں دیکھ لیتی تو ناممکن تھا کہ جوشِ سرمستی سے خود اس کی رگوں میں دوڑنے والا خون زراب نہ بن جاتا۔
کیا وہ حسین تھی؟
یہ ایک احمقانہ سوال ہے۔ اگر وہ حسین نہ ہوتی تو محلوں کی رنگین فضا میں سانس لینے والا نواب سرسوتی ندی کے کنارے ماہی گیروں کی بستی مٰں جا کر کبھی گوارا نہ کرتا کہ ایک دختر کفش دوز کو حاصل کرنے کے لئے اس کراہیت آمیز ماحول میں زندگی کے چار دن بسر کرے۔ اس کے اپنے محل میں علاوہ مہ جبین بیگم کے سینکڑوں پری تمثال کنیزیں اس کی نفسانی خواہشات کو تسکین دینے کے لئے موجود تھیں۔ اورا س سوال کا جواب کہ " وہ کون سی ادا تھی جس نے نواب کا دل موہ لیا؟" صرف نواب ہی دے سکتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہےکہ اگر جوانی کے ساتھ معصومیت بھی ہو یعنی نشہ ء شباب میں چور ہو جانے کے بعد بھی خود عورت کے دل میں غرور شباب پیدا نہ ہو تو اس کی ہر ادا ہلاکت آفرین حد تک دلربا بن جاتی ہے۔ وہ تصنع اور بناوٹ سے قطعی معرا گاؤں کے سادہ ماحول میں پل کر جوان ہوئی

صفحہ 13
تھی اس لئے نہیں جانتی تھی کہ نسوانی اعضاء کی ساخت میں کچھ ایسے ہتھیار پوشیدہ ہوتے ہیں جن کو ساتھ لے کر شہر پناہ کو عبور کئے بغیر قلعہ فتح کر لینا ممکن ہے۔ چنانچہ جب پہلی بار نواب نے اس کی نور منجمد سے ترشی ہوئی کلائی کو زور سے بھینچتے ہوئے ظاہری تحکمانہ لیجے میں کہا " مچھلی پکڑنے کا یہ سامان ساحل تک لے چلو۔ " تو وہ مطلق نہ سمجھ سکی کہ اس جذبہ فشار کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔
مردانہ جذبات کی تابش نسوانی اثمار خام کو بہت جلد پکا کر رسیلا کر دیتی ہے۔ محل کی فضا میں آنے سے قبل اس دیہاتی دشیزہ کے سینہ کے ابھار کو اتنی سرفرازی بھی نصیب نہ ہوئی تھی کہ گرفت لینے سے مٹھی بھر جاتی۔ یا دو چار ہی مرتبہ تبادلہ ء صہبا کر لینے کے بعد یہ کیفیت ہو گئی کہ اگر ان مینائے شباب کا ایک جلوہ ء مسکر اقصائے عالم پر چھا کے فضا میں ممتزج ہو جاتا تو بلا مبالغہ اسرافیل بھی ایک بار جھوم کر اپنا صور سنبھال لیتا۔ اس ؐخیال سے کہ شاید قیامت کے لمحے نزدیک آ پہنچے ہیں۔
اس نے سیاہ لمبی زلفوں کو جو منتشر ہو جانے کے لئے ہی سنواری گئی تھیں۔ اپنی مرمریں انگلیوں کے شانے سے درست کیا اور کسی قدر کسمساتے ہوئے کروٹ بدلی۔ اس کی نظر کے سامنے خوبصورت تاروں کا پنجرہ دریچہ کی محراب میں لٹک رہا تھا جس کے اندر امریکہ کی سب سے زیادہ خوشنما اور نایاب چڑیا کو حبس دوام کی سزا دی گئی تھی۔ اس نے مسہری پر لیٹے لیٹے ایک فلسفی کی طرح غور کرنا شروع کر دیا۔ اس نے چڑیا کی زندگی کا موازنہ خود اپنی ہستی سے کیا ، کچھ زیادہ فرق نہیں تھا۔ دونوں کے لئے بہترین خورد و نوش ، بہترین آسائش اور خدمت کے لئے بہترین ملازم موجود تھے۔ رہنے کی چار دیواری بھی دونوں کلے لئے نہایت خوشنما اور قابلِ دید تھی۔ مگر آزادی۔۔ اُف! آزادی کا فقدان

صفحہ 14
تھا۔ محل میں آنے سے قبل دیہات کی سادی فضا میں صبح سے شام تک اس کا شغل حیات ایک غیر معّین و بے ترتیب لائحہ عمل کے ماتحت ہوتا تھا۔ کسی دن وہ مچھلیاں پکڑنے ندی کے کنارے چلی جاتی۔ اور دن بھر جال لئے کنارے پر بیٹھی رہتی۔ یا کشتی پر سوار ہو کر ساحل سے کچھ دور جا نکلتی۔ گھاٹ کے قریب گھٹنے ٹکا کر سطح آب پر چھا جاتی۔ میلے کچیلے ہاتھوں کی اوک سے پانی پینا اس کا معمول تھا۔ وہ خود بانسری بجانے سے ناواقف تھی لیکن جب گاؤں کے دوسرے لڑکے مچھلیاں پکڑتے وقت سرود نَے چھیڑتے تو وہ مست و بےخود ہو کر پانی میں انگلیاں تر کر کے ساحل کے قریب اگنے والی گھاس پر چھینٹے دینے لگتی۔ گھر کا ایندھن ختم ہونے لگتا تو وہ بانس کی ٹوکری یا ٹین کا تسلہ لے کر مویشیوں کے پیچھے پیچھے جاتے اور صبح سے شام تک اتنا گوبر سمیٹ لیتی کہ اس کے اپلے کئی ہفتے تک کافی ہو جاتے۔ اگر کسی روز اس کے باپ کی طبیعت خراب ہوتی تو وہ اس کا ہاتھ بٹانے کے لئے سوت کو بٹ دیدی۔ اس نے پرانی جوتیوں میں معمولی سلائی کرنا بھی سیکھ لی تھی۔ کشتی میں سیر کرنے والے لوگوں کے بوٹوں پر پالش کرنا خاص طور پر اسی کے ذمہ تھا ، اس کا باپ ذات کا ماہی گیر، لیکن پیشہ کے لحاظ سے موچی تھا۔
گاؤں میں اس کی بہت سہیلیاں تھیں۔جن کے ساتھ برسات کا تمام موسم وہ جھولا جھول کر گزارتی تھی۔ وہ ان کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر پیا کو یاد کرتی ، لیکن نہیں جانتی تھی کہ پیا کس کو کہتے ہیں۔ وہ پریم کی بنسی بڑے شوق سے سنتی مگر اس جذبہ سے نا واقف تھی۔ کیونکہ پریم کے لفظ سے اس کے کان آشنا تھے مگر لب نا آشنا۔ موسم گرما میں تمازت آفتاب سے اس کے بوسیدہ کپڑے پسینہ میں شرابور ہو جاتے مگر محل میں استعمال ہونے والے روغن و عطریات کے مقابلہ میں پسینہ کی وہ مہک

صفحہ15
اسے زیادہ مرغوب تھی۔ وہ کج فہم اور ناقص العقل ہونے کے باوجود اس رمز کو سمجھتی تھی کہ عطر پھولوں سے کشید کیا جاتا ہے۔ اور پسینہ خود انسان کے جسم کا فشردہ ہوتا ہے۔
محل میں اس کو کسی قسم کی تکلیف نہ تھی لیکن اسے یہ گوارا نہیں تھا کہ پانی کے دو گھونٹ بھی پیئے تو کنیز کے ہاتھوں سے اور وہ بھی چاندی کے کٹورے میں۔ اس کی روح تڑپتی تھی اُپلوں کی آنچ پر سکی ہوئی جو اور جوار کی گدری روٹیوں کے ساتھ تیل میں بھنا ہوا سرسوں کا ساگ کھانے کے لئے۔ اور محل میں اسے مرغ و مزعفر ، متنجن و بریانی اور قورمہ و پلاؤ ملتا تھا۔ آم اسے مرغوب تھے مگر اس طرح چوسنا چاہتی تھی کہ رس ان کے اندر سے ٹپک ٹپک کر تمام کرتے کو بھنکا دے۔ اور وہ خود ندی کے کنارے بیٹھ کر اپنے ہی ہاتھوں اسے دھو کر صاف کر لے۔ محل میں چینی کی خوشنما قابوں کے اندر نہایت پُر تکلف طریقے پر لنگڑے ، مالدے اور سفیدے کی قاشیں اس کے سامنے آتیں، وہ خوردو نوش سے فارغ ہو جاتی تو کنیزیں سلفچی ، آفتابہ اور تولئے لئے آ موجود ہوتیں۔ وہ چاہتی تھی کہ جنگلی گلاب توڑتے وقت اس کی انگلی میں کانٹا چبھ جائے محض اس لئے کہ کوئی سہیلی قریب آ کر اتنا پوچھ لے کہ " تکلیف زیادہ تو نہیں ہوئی" اور وہ ہنس کر "نہیں" کہہ دے، بر خلاف اس کے محل کی چاردیواری میں سونے سے قبل اس کو اپنی سیج صد ہا قسم کے پھولوں سے مزین ملتی اور اسے یہ سن کر افسوس ہوتا کہ ایک بوڑھے مالی نے ان کو چنا ہے۔اس کا خیال تھا کہ گرمی کی سہانی راتوں میں نیند کا لطف اسی وقت آ سکتا ہے جب مچھر خوب کاٹیں۔ اور انسان بیدار ہو ہو کر سو جائے۔ کیونکہ اس انقطاعِ تسلسل میں غیر ارادی طور پر علیٰحدہ ہو جانے والی
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 16
لیکن یہاں مسہری کے ریشمی زرّیں پردے ایک بُھنگے کو بھی قریب نہ پھٹکنے دیتے۔ اور اسی لئے وہ بیدار نہ ہوتی تا وقتیکہ افق مشرق کی دیوی اپنی نرم و نازک انگلیوں سے بند پپوٹوں کو گُدگدا کر غنچہء نرگس کو شگفتہ نہ کر دیتی۔ یہ ضرور ہے کہ محل میں آنے کے بعد سے اس کی طبیعت کسی قدر نفاست پسند ، آرام طلب اور عیش پرست ہو گئی تھی اور نزاکت اس درجہ تجاوز ہو گئی تھی کہ حنا ملے جانے کی تکلیف سے ہاتھ لال ہو جاتے تھے۔ مگر اقتضائے فطرت اس کو اس ماحول سے مانوس نہ ہونے دیتا تھا۔
بڑی بحث و تمحیص کے بعد اس نے نواب سے اجازت حاصل کر لی تھی کہ ہمیشہ سالگرہ کے دوسرے دن دیہاتی روایات کو قائم رکھنے کے لئے اپنی سابقہ طرزِ معاشرت کا اعادہ کیا کرے گی۔چنانچہ آج سالگرہ کا دوسرا دن تھا۔ اور اسی لئے صبح کا سورج زیادہ درخشانی کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ محل کے شاہانہ ماحول میں گاؤں کی بے تکلف زندگی کے سادہ مناظر کس طرح پیش کئے جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ غیر معمولی طور پر بہت زیادہ مسرور ےھی۔ اس قدر مسرور کہ جوشِ مسرت میں اسے اپنے تن بدن کا ہوش ہی نہ رہا اور اسی نیم عریاں حالت میں ریشمی پردوں کو حقارت سے جھٹکتے ہوئے مسہری سے نیچے اتر آئی۔ قد آدم شیشے میں اسے اپنا عکس نظر آیا۔ اس کے بعض وہ اعضاء بھی دوسروں کے لئے جنت نگاہ بن جانے کے لئےبرہنہ تھے جن کو وہ خود اپنی آنکھ سے دیکھنا گوارا نہ کرتی تھی۔ اور اس خیال کے ساتھ کہ وہ نواب کے حکم کے مطابق اس کے جذبات میں ہر وقت ایک ہیجان قائم رکھنے کی خاطر نیم عریاں حالت میں رہتی ہے، اس پر شرم و حیا کا پسینہ آ گیا۔ اور وہ معجوب و منعفل ہو کر جلدی سے ملحقہ کمرے میں روپوش ہو گئی۔

صفحہ 17
اس نے سیٹی بجاتے ہوئے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور غیر ارادی طور پر کچھ سوچتا ہوا دریچہ کے قریب پہنچ گیا ، اس کی متجسس نظریں صحنِ چمن میں کسی کو دیکھ لینے کے لئے بیتاب تھیں۔اس وقت وہ خود خاص مشرقی طرز کی پوشاک میں ملبوس تھا لیکن کمرے کا باقی ماحول مغرب کی حیا سوز تہذیب کے زیرِ اثر عمیق عریانیت کا مخرب الاخلاق مجموعہ تھا۔ بالکل برہنہ عورتوں کے فوٹو اور تصاویر سے دیواروں کو زینت دی گئی تھی۔ یونانی ضمیات کی روایاتِ قدیم کو مادی شکل میں پیش کرنے والے مرمریں و بلوریں مجسمے طاقوں اور میزوں پر سجے ہوئے تھے۔ جن میں عشق و محبت کے دیوتا حسن و جمال کی دیویوں کے ساتھ محوِ اختلاط تھے۔ خلوت کی بعض رنگینیوں کو جو صرف خلوت ہی میں رنگین و لطیف معلوم ہوتی ہیں جلوت میں کچھ اس قدر عریاں طریقہ پر پیش کیا گیا تھا کہ ان کا عملی پہلو اختیار کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن نفسِ انسانی پر اس کیفیت کا طاری ہو جانا یقینی تھا۔ گویا وہ تراشے ہوئے لیموں تھے جن کو زبان سے چکھے بغیر کام و دہن ان کی ترشی سے لذٹ یاب ہونے لگتے ہیں۔ فرش پر بچھائے ہوئے قالین بھی عریانی کے بے مثل نمونے تھے۔ مثلاً ایک قالین پر دکھایا گیا تھا کہ زہرہ بام فلک پر آسودہ ء خواب ہے اس طرح کہ عالم رویا میں کسی سے ہم آغوش ہو جانے کی کشمکش میں وہ تمام اعضائے حسن برہنہ ہو گئے تھے جن کو صرف ایک نظر دیکھ لینے سے عابد تہجد گزار کو بھی دوبارہ غسل و وضو کی حاجت لاحق ہو سکتی ہے۔ایک کونے میں کیوپڈ کو دکھایا گیا تھا جو کمان کا چلّہ چڑھائے یہ سوچ رہا تھا کہ تیر کس ڈھب سے چلایا جائے کہ زہرہ کا دل نشانہ بن سکے۔ اس کے پسِ منظر میں صبح کی دیوی آروا ایک عالم بیخودی میں جلوہ فگن تھی۔ مسہری کے ریشمی پردوں پر بھی زرکار نقاشی پیش کی گئی تھی۔ اس کا وہ حصہ جو بستر پر دراز ہو جانے کے بعد نظر کے سامنے رہتا ہے۔ خاص طور پر قابل دید تھا۔

صفحہ 18
کہا جا سکتا ہے کہ اس کا وہ تقویٰ شکن منظر کوک شاستر کے تمام مصور صفحات پر سبقت لے گیا تھا۔ مختصر یہ کہ اس فضائے شباب میں چمکنے والا ہر ستارہ اس قدر ہیجان انگیز اور مستی میں ڈوبا ہوا تھا کہ ایک عصمت مآب دوشیزہ بھی ان جلوؤں میں گھر جانے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے اپنی نسائیت کو خیرباد کہہ کر لڑکی سے عورت بن جانے کے لئے مجبور ہو جاتی۔
نواب ا بھی اپنے خیالات ہی میں محو تھا کہ دروازے پر لٹکنے والے پردے میں جھنکار پیدا ہوئی کیونکہ اسے بلور کی مختلف مچھلیوں اور موتیوں کو منسلک کر کے تیار کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی نسوانی قدموں کی ہلکی چاپ نے مدہم سروں کا نغمہ منتشر کر دیا ۔ ایک کنیز اندر داخل ہوئی لیکن کچھ اس ادا کے ساتھ کہ یہ معلوم ہوا گویا طاق میں رکھی ہوئی کسی چینی کی مورت میں جان پڑ جانے کے باعث حرکت پذیری کی قوت پیدا ہو گئی ہے۔ وہ بھی سر سے کمر تک سوائے دو مقامات کے بالکل برہنہ تھی۔ اور اگر اس وقت بجائے دن کے رات ہوتی تو شاید انھیں بھی عریاں کر دیا جاتا۔ روزِ روشن میں ان کو محض اس لئے مستور رکھا جاتا ہے مبادا درختوں کی ڈالیوں پر چہچہانے والے طوطوں میں سے کسی کی نگاہ پڑ جائے اور وہ ان کو کتر لینے کے لئے آمادہ ہو جائے کیونکہ ایک نوحیز لڑکی کی ملکیت میں کچھ ایسی چیزیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں جن پر سیب اور رنگترہ کا دھوکا ہو جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ تھالی میں رکھ کر جامِ شراب کیوں لائی تھی۔ جب کہ اس کی آنکھیں مینا بدوش تھیں۔
نواب نے کوئی لفظ کہے بغیر اس آتشِ سیال سے اپنی تشنگی بجھائی۔ تاہم لبوں کی تر دامنی کو خشک کرنے کے لئے کنیز کے سُرخ اطلسی رخسار سے صاف کر لیا۔ وہ لجاتے ہوئے آداب بجا لائی۔ اور جلدی سے اس طرح چلی گئی گویا آئی ہی نہ تھی۔
نواب کو پل پل کی خبر مل رہی تھی۔ کنیزیں آتی تھیں اور کہہ جاتی تھیں کہ اب محل کی چار دیواری میں دیہاتی طرزِ زندگی کا کون سا نمونہ پیش کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بستر سے اٹھنے کے بعد بیگم سب سے پہلے اس تالاب پر گئی جس میں شوقین مزاج نواب نے پانی کے مختلف جانور پال رکھے تھے۔ رنگ برنگ کی خوبصورت مچھلیاں، راج ہنس ، مرغابیاں، قازیں، بطخیں اور خدا جانے کیا کیا ۔ اس نے عنبریں بالوں کی عطریت ، رخساروں پر ملے ہوئے غازہ کی خوشبو، پھولوں کے گجروں میں بسی ہوئی مرمریں گردن کی مہک ، لبِ لعلیں پر جمی ہوئی مسّی کی دہڑی، نرگسی آنکھوں میں تڑپنے والی سرمہ دنبالہ دار کی ہلکی سی لہر، صندل بھری مانگ کی گلنار رنگینی، مصنوعی خال کی شرمگیں ملاحت اور غرض یہ کہ ہر وہ چیز جس سے تزئین جمال ہوئی تھی ملتانی مٹی اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کے ذریعہ ارادتاً دور کر دیا۔گدلے مکروہ پانی میں جس کی غلاظت فضا کو بھی متعفن کئے دیتی تھی اس نے غسل کیا وہ خود ایک بنت البحر بن کر جل پریوں کے ساتھ کھیلنے لگی، اس نے مچھلیوں کو پکڑا اور چھوڑ دیا۔ کبھی راج ہنس کو سر پر بٹھا لیتی اور کبھی مرغابی کو شانہ پر جگہ دیتی۔ اس کے مست قہقہوں سے تمام فضا معمور تھی۔ اس نے پانی کے چھینٹے دے کر قازوں کو ستایا اور خوب دل لگی کرتی رہی۔ پھر تالاب سے ملحق جھاڑیوں کے کنج عزلت میں چھپ کر اس نے کھدر اور گاڑہے کا لباس پہنا خودرو پودوں سے ہر قسم کے پھول توڑے اور ہار بنا کر گلے میں ڈال لیا۔ اب اس کی کلائیوں میں بجائے طلائی پٹریوں اور منقش کنگنوں کے صرف کانچ کی چوڑیاں تھیں۔ اس نے دیسی چمڑے کاگنواری جوتا پہنا اور پانی کا گھڑا سر پر رکھ کر چل پڑی۔ اپنے شاہی کمرے کی طرف نہیں ایک دربان کے جھونپڑے کی جانب جس کو عارضی طور پر خالی کرا لیا تھا ۔ وہاں جا کر وہ چکی میں جوار پیسنے بیٹھ گئی۔ اور اس انہماک میں خدا جانے

صفحہ 20
کیا گاتی رہی۔
اُپلوں کی آنچ پر تین چار گدری روٹیاں پکائیں۔ جب کہ اس دوران میں پالک کا ساگ سرسوں کے تیل میں الگ بھنتا رہا۔ اس نے کھانا کھا کر مٹی کے آبخورے سے پانی پیا اور تنکوں کے سخت بستر پر تھوری دیر کے لئے لیٹ گئی۔ اپنے ماں باپ، بھائی بہن، اپنی سکھیوں ، اپنی بھینسوں اور گاؤں میں پلے ہوئے کتوں کو یاد کر کے اس نے رونا شروع کر دیا۔ اور اس کے آنسو آنچل میں جذب ہوتے چلے گئے۔
نواب کو جب ان باتوں کی خبر ملتی تو وہ دل ہی دل میں افسردہ ہوتا ، وہ پشیمان ہو رہا تھا
کہ ایک دیہاتی لڑکی کو محل میں لا کر کیوں رکھا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ خود اپنی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ ٹاٹ کا پیوند ٹاٹ ہی میں اچھا رہتا ہے۔ گندے پانی میں پرورش پانے والی مچھلی صاف ستھرے آب زم زم میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ کتے کو گھی ہضم نہیں ہوتا ۔ سرسوتی ندی کے کنارے اس حسین دوشیزہ کو دیکھ کر اس نے خیال کیا تھا کہ یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ گُڈری میں لعل کو چھپا کر رکھ دیا۔ در آنحالیکہ وہ طلائی زنجیر میں منسلک ہو کر گلے کا ہار بن جانے کے قابل ہے۔ اس کو اپنے محل میں لا کر وہ خوش ہوا تھا کہ قدرت کی ایک زبردست غلطی پر تصحیح کر دی ہے۔ یہ قدرت کی کج فہمی تھی کہ وہ خوب و زشت میں امتیاز نہ کر سکی۔اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ کونسی چیز کس جگہ کے لائق ہے۔ لیکن تلخ تجربہ کرنے کے بعد اسے محسوس ہوا کہ خود اس سے ایک حماقت سرزد ہو گے۔ یہ
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 21
درست نکلا۔ لیکن اس کی چند عادتوں میں تبدیلی واقع ہوئی ، فطرت یکسر نہ بدل سکی۔ اور آخر کار ثابت ہو گیا کہ شیر کا بچہ انسان کی گود میں پل جانے کے بعد انسان سے کتنا ہی مانوس کیوں نہ ہو جائے اپنی بہیمانہ خصلت کو نہیں چھوڑ سکتا۔
وہ تصورات کی دنیا میں واقعات گزشتہ کا مطالعہ کرنے لگا۔ وہ ایک روز اپنے مصاحبوں کے ساتھ مچھلی کے شکار پر گیا تھا۔ سرسوتی ندی کے کنارے اسے کشتی میں ایک نوحیز لڑکی نظر آئی، پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑوں میں وہ ایسی معلوم ہوتی تھی گویا سیاہ بدلیوں میں سے چاند جھانک رہا ہے۔ اس نے چار روز کے لئے لڑکی کو اپنی خدمت پر مامور کیا لیکن وہ پھول کو صرف آنکھ سے دیکھ لینے کا قائل نہیں تھا ، گلچینی کی آرزو بھی دل میں پیدا ہو گئی۔ چنانچہ چلتے وقت اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ غالباً بڈھا باپ اس ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا مگر پانچ سو کی کثیر رقم نے اس کی زبان بند کر دی۔ دولت ناممکن باتوں کو بھی ممکن کر دکھاتی ہے۔
دختر کفش روز جب محل میں آئی تو کئی روز تک ہر شے کو تعجب کی نگاہوں سے تکتی رہی۔ عرصہ تک اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کپڑوں کے اندر سورج کی کرنوں جیسی چمک کیوں پیدا ہو جاتی ہے۔ اور وہ اس قدر ہلکے اور مہین کیوں ہوتے ہیں کہ پورے تھان کو مٹھی میں لے لینا ممکن ہے۔ وہ صڑف پکی اینٹ سے پاؤں مانجھنے کی عادی تھی۔ کنیزوں نے اسفنج کے ٹکڑے اور ربڑ کے جھانوے دئیے تو حیران رہ گئی کہ یہ کس لئے ہیں۔ اور اگر بروقت اسے منع نہ کر دیا جاتا تو شاید وہ گلگونہ یا غازہ کی ایک انگلی بھر کر منہ میں رکھ لیتی، یہ سمجھ کر کہ یہ بھی کوئی کھانے کی شے ہے۔ اس نے صرف بانسری کے نغمے سنے تھے۔ ہارمونیم، ستار اور رباب سے اس کے کان نا آشنا تھے۔ ناچ کا مفہوم اس کے ذہن میں صرف اس قدر


صفحہ 22
تھا کہ کچھ عورتیں ایک حلقہ میں کھڑے ہو کر اور گھونگھٹ نکال کر اپنے جسم کو ایک مخصوص طریقہ پر جنبش دیں، کبھی ان کا سر آگے کی طرف جھکے اور کبھی پشت کی جانب۔ بعض دفعہ پاؤں زمین پر زور سے مارا جائے اور بعض دفعہ ہلکا۔ محل کی بزمِ نشاط میں اس نے دیکھا کہ صرف ایک نوجوان عورت مجمع کے سامنے اس طرح رقص کرتی ہے کہ اکثر اس کا سینہ کمر تک اور ٹانگیں بالائی سرے تک برہنہ ہوتی ہیں۔ وہ بے حیائی کے اس منظر کو دیکھ کر ابتدا میں خود شرما جاتی تھی ۔ وہ بمشکل سمجھ سکی کہ آخر ناچ میں اس چیز پر زور کیوں دیا جاتا ہے کہ چھاتیاں اور کولھے بھی اپنی اپنی جگہ رقص کریں ۔ آنکھیں مٹکیں، اور رخسار تھرکیں۔ مختلف قسم کے نرت دیکھ کر اس نے خیال کیا کہ غالباً رقاصہ ہوا کے سمندر میں تیرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے دیہاتی گیتوں میں کوئی لفظ ایسا نہیں تھا جو جذبات میں ہیجان پیدا کر کے انسان کو گناہ کی ترغیب دے۔ بر خلاف اس کے یہاں شعر کا ہر مصرعہ بذاتِ خود ایک دفتر معصیت تھا۔
نواب اپنے خیالات میں محو تھا اور ابھی کسی نتیجہ پر نہ پہنچا تھا کہ آئندہ اس دیہاتی لڑکی کے ساتھ کس قسم کا طرزِ عمل اختیار کیا جائے۔ کہ اسے اطلاع ملی کہ ہر ہائنیس گوبر کا ڈھیر سامنے رکھے اپلے تھاپ رہی ہیں۔ آتشِ غضب اس کے سینے میں بھڑک اٹھی اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب اس کم نصیب کماری کو محل کی چار دیواری سے نکال دیا جائے۔
وہ لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور دربان کے جھونپڑے کی طرف چل دیا۔
قریب پہنچ کر اس نے دیکھا کہ محل میں رہنے والی بیگم نے گاڑھے کا لباس زیب تن کر رکھا ہے، آستینیں کہنیوں تک چڑھی ہوئی ہیں۔ اور دونوں کلائیاں نجاست سے آلودہ ہیں۔ اسے آتا دیکھ کر

صفحی 23
وہ کھڑی ہو گئی اور کسی قدر جھک کر بولی " آئیے بابو جی"۔۔
اس نے سنا تھا کہ امیر آدمیوں سے بابو جی کہہ کر بات کرتے ہیں۔ اور اسی لئے گاؤں کا ہر شخص تحصیلدار کو "بڑے بابو" اور نائب تحصیلدار کو " چھوٹے بابو" کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا، اگرچہ وہ کنیزوں کی زبان سے نواب کی شان میں بڑے بڑے القاب سن چکی تھی اور خود بھی ان ذی وقار لفظوں سے اس کو یاد کر چکی تھی۔ مگر دیہاتی معاشرت کا خیال کر کے اس نے یہی مناسب سمجھا کہ نواب کو بھی بابو جی ہی کہا جائے۔
اپنے ہی جملے ہر جو خود اس کے خیال کے مطابق انوکھا تھا، وہ مسکرائی۔ اور یہاں تک مسکرائی کہ کھل کھلا کر ہنسنے لگی۔ ایک عورت اور خاص طور پر فضائے شباب میں سانس لینے والی عورت کا تبسم جب بڑھتے بڑھتے دلفریب مگر مدہم قہقہے کی صورت اختیا کر لیتا ہے تو بلا مبالغہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے گویا ساغر و مینا کے باہم ٹکرانے سے جلترنگ کی ایک خاص نوع کا نغمہ پیدا ہو رہا ہے جس کے ترنم میں قلقلِ مینا کا بھی تھوڑا سا حصہ شامل ہے۔
"بابو جی" اس نے مسکراتے ہوئے دوبارہ کہا۔ " میں نے تمہارے جوتوں کو صاف کر کے چمکا دیا ہے۔ اپنے نوکر کو بھیج کر منگا لو"
نواب نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ جھونپڑے کی دیوار کے ساتھ پانچ سات جوڑے جوتیوں کے رکھے ہوئے تھے۔ اس کی تیوری پر بل پڑ گئے۔ یہ اس کی شانِ امارت کی زبردست توہین تھی کہ ایک عورت جو اس کی زینت آغوش بن چکی ہے ایسے ذلیل کام کرے۔ حماقت اپنی ہی تھی۔
اس نے انتہائی ضبط سے کام لے کر چند طلائی سکے اپنی جیب سے نکالے اور محل میں بیگم

صفحہ 24
بن کر رہنے والی دختر کفش روز کے سامنے زمین پر ڈال دئیے ۔ پھر کہا
" یہ جوتیاں صاف کرنے کی اجرت ہے۔ اور ہمیشہ کے لئے اس ریاست کی حدود سے باہر نکل جاؤ۔ تم امیرانہ زندگی بسر کرنے کی اہل نہیں ہو۔ تم کو اجازت ہے اپنے گاؤں میں ماں باپ کے پاس واپس جا سکتی ہو۔ شاہی خزانہ سے ہر ماہ تمہاری مالی امداد ہوتی رہے گی"
آسمان سے ٹوٹے ایک ستارے کی طرح جس کو یکایک نورو ضیا سے محروم کر دیا گیا ہو ، وہ حیران و ششدر ایک عجیب اضطراری کیفیت کے ماتحت کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔اور یہ سوچنے لگی کہ جو کچھ سنا وہ فریبِ سماعت تو نہیں ہے۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ جاہ و ثروت کی دنیا میں ایسا ہو سکتا ہے کہ صنفِ نازک کے جسم سے دو سال تک لطف اندوز ہونے کے بعد ہار کے باسی پھولوں کی طرح اسے بھی ٹھکرا دیا جائے یہ مانا کہ وہ اپنی نزاکت و رعنائی کے لحاظ سے پھول کی مانند ہے۔ اس کا حسن ماہ تاباں کی طرح سریع الزوال ہے۔ لیکن اس کے جذباتِ قلب؟؟؟
اس کا چہرہ شدتِ غیظ و غضب سے سرخ ہو گیا ، انتہائی غصے کے باعث اس کا تمام بدن کپکپانے لگا۔ تیوری کے بل بتا رہے تھے کہ وہ دنیا کو فنا کر دینے کی قوت اپنے اندر بیدار کر رہی ہے۔ وہ نواب کی طرف بڑھی کچھ ایسے انداز سے گویا اسے اٹھا کر زمین پر پٹک دے گی۔ اور اگر اس طرح بھی آتشِ انتقام سرد نہ ہوئی تو اسے ٹھکرا دے گی ، کچل دے گی، پامال کر دے گی۔ لیکن اچانک پیدا ہو جانے والے کسی خیال سے وہ جھجک کر رہ گئی۔ اور جس طرح تند و تیز آندھی کے خاتمہ پر اکثر مینہ برسنے لگتا ہے اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ آہ ! بیکس عورت کی مجبوریاں صرف قطرہ ء ہائے اشک کے سوگوار دامن میں پناہ لیتی ہیں۔

صفحہ 25
سنجوگ
سُر بالا مالن کی بیٹی جھونپڑوں میں پلی تھی۔ اس نے کبھی محلوں کا خواب بھی نہ دیکھا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ پھولوں کی سیج پر سونے میں کیا مزہ آتا ہے۔ وہ سمجھ ہی نہیں سکتی تھی کہ گلے میں پھولوں کے گجرے سے کس قسم کا لطف حاصل ہو سکتا ہے۔ حالانکہ دوسروں کی سیجوں کے لئے پھول توڑنا اور دوسروں کے گلے کے لئےگجرے تیار کرنا اس کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔ غنچہ و گل کی نگہت و صباحت میں اس نے اپنی زندگی کے سترہ سال گزار دئیے تھے۔ اور گزشتہ دس سال میں اس نے جتنے کنٹھے گوندھے غالباً ان کا شمار بھی مشکل تھا۔ یقیناً اس کے ہاتھوں توڑے ہوئے پھولوں کی تعداد رات کو آسمان پر چمکنے والے ستاروں کی تعداد سے بڑھ گئی ہو گی۔ لیکن اس نے اپنی ذات کے لئے ایک بھی ہار بنانے کی جرات نہ کی ، مرجھائے ہوئے پھولوں تک کو سونگھنا اس کے لئے حرام تھا۔ کیونکہ وہ کنواری تھی۔ ابھی اس کا بیاہ نہیں ہوا تھا۔ اس لئے سہاگ کی رات آنے سے قبل پرانے لوگوں کی بنائی ہوئی رسومات کے مطابق اپنے آپ کو تمام عمدہ چیزوں سے محروم رکھنا اس کا فرض تھا۔ تاہم وہ پھولوں کی خوشبو سے ناواقف نہیں تھی۔ کیونکہ روزانہ جب باغیچے میں اترتی تو ہوا کے خوشگوار جھونکوں میں
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 26
ملی ہوئی پھولوں کی مہک از خود ناک میں پہنچ کر مشامِ جان بن جاتی تھی۔ گویا وہ آسمانی ستاروں کی چمکدار گیندوں کو صرف دور سے دیکھتی تھی ان سے کھیلتی نہیں تھی۔
علی الصبح چمن میں جانا اس کا معمول تھا وہ رات بھر میں کھلے ہوئے ہر قسم کے تمام پھول توڑ لیتی۔ کچھ گجروں کے لئے، کچھ گلدستوں کے لئے، کچھ منتشر حالت میں فروخت کرنے کے لئے۔ چمن سے واپس آ کر وہ اپنے اور باپ کے لئے کھانا تیار کرتی کیونکہ ماں مر چکی تھی، اور داسی رکھنے کا مقدور نہیں تھا۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ سوئی تاگہ لے کر بیٹھ جاتی اور سہ پہر تک پھولوں کی ترتیب میں محو رہتی۔ شام ہوتے ہی اس سامانِ تزئین کو ٹوکری میں لگا کر وہ چوک چلی جاتی۔ اور شاید ہی کوئی دن ایسا منحوس ہوتا ہو گا کہ اس کا سب سامان فروخت نہ ہوتا۔ بھلا کس طرح ممکن تھا کہ وہ اپنے سریلے ترنم میں پھولوں کی آواز لگائے اور جانے والوں کی توجہ اس کی طرف مبذول نہ ہو۔ بعض لوگ تو صرف اس لئے پھول خرید لیا کرتے تھے کہ بیچنے والی ایک عورت ہے۔ اور وہ بھی نو شگفتہ غنچے کی طرح نوخیز ۔ نسائیت میں یوں ہی کیا کم جاذبئیت ہوتی ہے کہ عالم شباب سونے پر سہاگہ کا کام دیتا ہے۔ ان کیفیات میں ایک ہی بار جلوہ نمائی سے کچھ دیر کے لئے سنگین بت میں بھی ہم آغوشی کی آرزو پیدا ہو جاتی ہے اور وہ بھی چاہتا ہے کہ اپنے پجاری کے قدموں میں گر کر پاؤں چوم لوں۔
چوک سے واپس آ کر وہ پھر دوزخِ شکم کی آسودگی کے لئے کھانا تیار کرنے میں مشغول ہو جاتی۔ اکثر وہ سوچا کرتی کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ چکی کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھوما جائے۔ اور کبھی کوئی تبدیلی نہ ہو۔ وہ سونے کے لئے لیٹتی تو ٹوٹی ہوئی چارپائی پر عمدہ بستر بھی نہ ہوتا تھا۔ تاہم اسے جلد ہی نیند آ جاتی تھی۔ کیونکہ غیر ارادی طور پر پھولوں میں بسے ہوئے دامن اس کے دماغ کو معطّر

صفحہ 27
کر دیا کرتے تھے۔ غنچوں کی نگہت میں رہتے رہتے وہ خود ایک غنچہ بن گئی تھی۔ لیکن گُلچیں کے دستبُرد سے محفوظ۔
۔۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک روز شام کے وقت وہ معمول کے مطابق پھول بیچنے گئی، اس دن یا تو مانگ ہی زیادہ تھی یا خود اس کے اترے ہوئے چہرے کی بڑھی ہوئی رعنائیوں نے لوگوں کو گرویدہ کر لیا۔ بہرحال خلافِ توقع سب سامان بہت جلد فروخت ہو گیا۔ صرف ایک مختصر سا ہار باقی تھا۔ اس نے خیال کیا کہ ایک گاہک کی انتظار میں وقت گنوانا اچھا نہیں۔ آج کی اجرت بھی روز کی نسبت زیادہ ہو گئی ہے بہتر ہے کہ یہ بچا ہوا کنٹھا مندر میں جا کر دیوی کے گلے میں ڈال دوں۔ پوجا کئے ہوئے بہت دن ہو گئے ہیں۔ لہذٰا دیوی کے چرنوں میں خراج پیش کرنے کی نیت سے چوک کے شور و شوغا کو چھوڑ کر اس نے پُر سکوت مندر کی راہ لی۔
ابھی وہ راستہ ہی میں تھی کہ ایک شخص نے اسے ٹوکا۔ سربالا اسے جانتی تھی۔ وہ غیر تھا مگر اپنوں سے زیادہ۔ وہ اس سے محبت کرتی تھی۔ دونوں بچپن میں ساتھ کھیلے تھے۔ ایک ہی باغیچہ میں ایک ہی فضا میں۔منوہر ٹھیکیدار کا لڑکا تھا ، امیر تھا، اسے بھی سربالا سے محبت تھی۔ لیکن اس نے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔وہ اس بات کو اپنی شان کے خلاف سمجھتا تھا کہ ایک مالن کی لڑکی کو شریکِ حیات بنایا جائے۔ وہ رسم و رواج کے مطابق رشتہ جوڑے بغیر اسے اپنا بنا لینے کا آرزو مند تھا۔لیکن سُربالا اسے کیوں گوارا کرتی۔ وہ جانتی تھی کہ ایک دفعہ لغزش ہو جانے کے بعد زندگی ہمیشہ کے لئے لائقِ نفریں ہو جائے گی۔ کچھ عرصہ ہوا منوہر کی شادی ہو چکی تھی۔ سُربالا

صفحہ 28
کو اس حقیقت کا علم تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا۔ ایسی باتیں پوشیدہ نہیں رہ سکتیں۔ اس لئے اگر منوہر صرف ا پنی ذات کے لئے ہار کی فرمائش کرتا تو وہ کبھی دریغ نہ کرتا۔ بلکہ اگر پھول نہ ہوتے تو اسی وقت چمن میں گلچینی کے لئے جاتی۔ اور پھول کھلے ہوئے نہ ہوتے تو وہ اپنے قلب کی تپش سے، اپنے تنفس کے جھونکوں سے اپنے آنسوؤں کی طراوت سے اور سب سے زیادہ اپنے حسن کی گرمی سے ان کو قبل از وقت شگفتہ کر دیتی۔ یا آسمان پر چمکنے والے ستاروں کو نوچ لیتی۔ یا اپنی رگوں میں دوڑنے والے خون کو منجمد کرتی اور گلاب کی پتیوں کی شکل میں کاٹ کر تاگے میں پرو لیتی۔ وہ کبھی گوارا نہ کرتی کہ منوہر کا دل میلا ہو۔ اسے رنج پہنچے لیکن اب وہ جانتی تھی کہ وہ پھولوں کا ہار کس ہستی کے لئے طلب کر رہا ہے، آتشِ رقابت اس کے سینہ میں بھڑک اٹھی ، اس نے تہیہ کر لیا کہ پھولوں کو مسل کر پھینک دوں گی لیکن اس کو نہیں دوں گی۔ اس نے صاف انکار کر دیا۔ وجہ بھی معقول تھی اس نے کہا
" میں نیت کر چکی ہوں کہ یہ ہار دیوی کے گلے میں پہنچاؤں گی۔ اس لئے مجبور ہوں تمہیں نہیں دے سکتی۔ کسی اور جگہ سے لے لو"
منوہر نئے کہا "سُربالا تمہیں ہار دینا ہو گا ، میں بھی اپنی دیوی کے لئے ہی مانگ رہا ہوں۔ میری دیوی تمہاری دیوی سے زیادہ سندر ہے۔
ان الفاظ سے اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس نے زندگی میں پہلی بار منوہر کو نام لے کر مخاطب کیا۔ "منوہر اپنی دیوی کے گلے میں جوتیوں کا ہار پہنا دو، اس سے کہنا پھول بکنے بند ہو گئے ہیں۔ چمن میں خزاں آ گئی۔"یہ کہہ کر اس نے منوہر کا ہاتھ جھٹک دیا اور بظاہر مسکراتی ہوئی چل پڑی۔ لیکن چند

صفحہ 29
ہی قدم کے بعد اپنے دامن میں آنسو جذب کرنے کی خاطر رکنا پڑا۔
۔۔۔ 3۔۔۔۔
وہ مندر کے دروازے پر پہنچی۔ اندر داخل ہوئی۔ اور بادلِ نخواستہ ہار دیوی کے گلے میں ڈال دیا۔ اس نے پوری طرح پوجا کی رسم بھی ادا نہیں کی۔ اس کا دل تو آنسو بہانے کے لئے بیتاب تھا۔ وہ جلدی ہی باہر آ کر گھر چلی گئی۔
اس نے صبح کی بچی ہوئی باسی روٹی اپنے باپ کو کھلا دی ، خود کچھ نہ کھایا۔باپ کے پوچھنے پر بہانہ کر دیا کہ میری طبیعت خراب ہے، سر میں درد ہو رہا ہے ایک یہی عذر ایسا ہے جس کو سننے والے جلدی تسلیم کر لیتے ہیں۔ کیونکہ کسی قسم کا درد دکھائی نہیں دیتا۔
وہ سونے کے لئے چارپائی پر لیٹی تو برابر روتی رہی۔ کسی کروٹ چین نہیں آتا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے منوہر کی بے وفائی پر اس قدر آنسو بہائے۔اس کا دل بھرا چلا آتا تھا۔ وہ چپکے چپکے رو رہی تھی کہ کہیں باپ کو خبر نہ ہو جائے۔ کئی بار بے اختیاری کے عالم میں چیخ نکل جانے کے قریب تھی کہ اس نے ضبط سے کام لے کر اس کو روک لیا۔ لیکن متلاطم سمندر کی طغیانی کہیں لکڑی کا بند لگانے سے روکی جا سکتی ہے۔ ایک زبردست سیلابِ گریہ تھا جو اسے جھونپڑی سے بہا کر ایک ایسے ساحل پر لے جانا چاہتا تھا جہاں سہارا دینے کے لئے منوہر کا ہاتھ ہو۔ اس کے رُبابِ حیات میں ترنم ریزیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ زندگی کے تاروں میں لرزش تھی۔ کائنات کا ہر ذرہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ جب تک وہ نا شنیدہ نغمے جو اب تک بیرون ساز نہیں ہوئے فضا میں منتشر نہیں ہوں گے ، تجھے کامل سکون نصیب نہیں ہو سکتا۔ اس کے اضطراب میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بیقراریاں بڑھتی

صفحہ 30
گئیں۔ اس کو محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اندر ہی اندر دل کو مسوس رہا ہے۔
وہ پشیمان تھی کہ اس نے منوہر کو ہار کیوں نہ دے دیا۔ فرمائش کرنے والا تو وہی تھا۔ اس سے کیا غرض کہ وہ کس کے لئے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کبھی کسی گاہک سے نہیں پوچھا تھا کہ تم پھول کیوں خرید رہے ہو۔ وہ جانتی تھی کہ ان کا مصرف مختلف ہے۔ کوئی قبر پر چڑھاتا ہے تو کوئی مندر میں دیوی کے سامنے پیش کرتا ہے۔ کوئی دوا بنانے کے لئے آگ پر رکھتا ہے اور کوئی لطفِ خواب حاصل کرنے کے لئے سیج پر بچھاتا ہے۔ کاش آج اس کے دل میں پوجا کا خیال ہی پیدا نہ ہوا ہوتا۔ وہ منوہر کو بالکل اجنبی سمجھتی اور ہار اس کے ہاتھ فروخت کر دیتی۔ یا ان سب سے زیادہ یہ کہ باغیچہ میں کوئی پھول نہ کھلا ہوتا تو بہتر تھا۔ وہ گھر سے نہ نکلتی، باہر ہی نہ جاتی۔ منوہر اس سے نہ ملتا لیکن جو ہونا تھا سو ہو چکا۔
جوشِ اضطراب سے اس کے دل میں ایسے خیالات پیدا ہونے لگےجو انسان کو لامذہب اور بے دین کر دیتے ہیں۔ اس نے سوچا کہ پتھر کی بے جابن دیوی پر پھول چڑھانا بالکل حماقت ہے جبکہ اس میں احساس کا مادہ ہوتا ہی نہیں۔ اس کے چہرے پر ناک ہوتی ہے مگر سونگھنے کی قوت نہیں۔ لہذٰا چنبیلی کی
کلیاں ہوں یا دھتورے کے پھول اس کے لئے سب یکساں ہیں۔ اور پھر اس کو جاندار انسان سے زیادہ رتبہ کیوں دیا جائے۔ کسی تصویر کے نقوش۔۔۔ جو نتیجہ ہیں مصور کی رعنائی خیال کا۔ کبھی اپنے نقاش سے زیادہ فضیلت حاصل نہیں کر سکتے۔ لہذٰا مندر میں پوجا پاٹ سب لغو چیز ہے، انسان کو انسان ہی کی عبادت کرنی چاہئیے۔
اس نے ایک فلسفی کی طرح یہ بھی سوچا کہ اگر منوہر بے وفا ہے تو ہوا کرے، میں اس جیسی کیوں
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 31
بنوں۔ چاند سورج چھپنے کے بعد دوبارہ نکل آتے ہیں۔ ممکن ہے منوہر کا پھرا ہوا دل بھی کچھ عرصہ بعد میری طرف مائل ہو جائے۔ ہائے افسوس گلچینی کرتے زمانہ گزر گیا۔ میری آنکھوں نے خزاں کے بعد بہار دیکھی مگر اس سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔
۔۔۔۔۔ 4۔۔۔
اس کا اضطراب بڑھتا گیا حتٰی کہ اس نے محسوس کر لیا تھا کہ اگر اس احمقانہ غلطی کا رد عمل نہ کیا گیا تو زندگی یقیناً دوبھر ہو جائے گی۔ اور صبح پکڑنی مشکل ہو جائے گی۔ لہذٰا وہ چارپائی سے اٹھی لیکن اس طرح کہ کانوں کان کسی کو خبر نہ ہو۔ سانس روکے ہوئے، آہستہ قدم، دامن کو نہایت احتیاط سے اٹھا کر مبادا کسی چیز سے الجھ کر کھٹکا پیدا نہ کردے۔ وہ باہر آ گئی۔ چاند کی روشنی زمین پر چھٹکی ہوئی تھی پھر بھی ہو کا عالم تھا۔ کوچہ ء بازار میں بالکل سناٹا تھا، فضائے بسیط بالکل ساکت و خاموش ، کائنات کاہر ذرہ محوِ خواب تھا۔ بارہ بجے کا عمل۔ وہ تن تنہا ڈری ہوئی ، سہمی ہوئی، مندر کی جانب چل دی۔ اس نے خیال کیا کہ اگر اس سنسان میں کوئی بدمعاش ، خبیث انسان اس کو سرِ بازار دیکھ لے، بالکل بے باکانہ طور پر ادھی رات کے وقت جاتا ہوا اور دست درازی کر بیٹھے تو عزت بچانی مشکل ہو جائے گی۔ نیند کے ماتے اس کی چیخ پکار کو نہ سن سکیں گے۔ اس کے تمام جسم میں تھرتھری پیدا ہو گئی۔ شرم و حیا سے پسینہ آ گیا۔ رُک گئی، کچھ سوچا، پھر چل پڑی۔اُس نے تہیہ کر لیا کہ اگر آج کی رات اپنے ہاتھ کےتوڑے ہوئے پھول بلکہ وہی پھول جو مندر کی چار دیواری میں دیوی کے گلے میں ڈال دئیے ہیں۔ منوہر کی پُر شباب خلوت میں نہ پہنچا سکی تو ہمیشہ کے لئے گُلچینی ختم کر دوں گی۔
اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ قرب و جوار کی کسی چیز پر نظر نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ اُس نے

صفحہ 32
اپنے جسم کی تمام قوت ٹانگوں میں مجتمع کر دی اور ایسے تیز قدموں کے ساتھ جس کو دوڑنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، وہ گرتی پڑتی مندر کے دروازے تک پہنچ ہی گئی۔
۔۔۔۔5۔۔۔۔
کواڑ بند تھے لیکن اچھی طرح نہیں۔ کیونکہ اندر جلنے والے چراغ کی مدھم روشنی جھری میں سے ہو کر باہر آ رہی تھی، اور یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ کنڈی کھلی ہوئی ہے۔ اور کنڈی لگانے سے فائدہ بھی کیا تھا۔ وہ سومناتھ کا مندر تو تھا ہی نہیں، جس میں جواہرات کے بُت تھے۔ وہاں کی کل کائنات کی قیمتِ اصلی ان کو چُرا کر لے جانے والے کی مزدوری سے بھی زیادہ نہ ہوتی۔ ، ایسی صورت میں کس سلطانِ غزنی کا ڈر تھا کہ اس مذہبی متاعِ خاص کی رکھوالی کی جاتی، دروازے کے قریب نگہبان پجاری کی چارپائی تھی، مگر وہ بے خبر محوِ خواب تھا۔
سُربالا کا دل دھڑکنے لگا۔ اس نے سوچا اگر یہ مذہبی پیشوا بیدار ہو گیا تو اپنی بریت میں کس حیلے سے کام لوں۔وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ پوجا کا بہانہ نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ آدھی رات آ چکی تھی۔ اور اس وقت دیوتا اور دیویاں بھی سو جاتی ہیں۔ نذر کون قبول کرے۔ وہ سچ بات بھی بیہان نہیں کر سکتی تھی۔ کیونکہ وہ بوڑھا جس کے جذبات فنا ہو چکے تھے یہ تسلیم کرنے سے معذور تھا کہ جب محبت دل میں گھر کر لیتی ہے تو آنکھوں پر بھی پردہ پڑ جاتا ہے اور یسی صورت میں سوائے مسلکِ عشق کے مذہب و ملت کا کوئی آئین نظر میں نہیں جچتا ، ہزاروں دلیلیں اور سینکڑوں نظرئیے سُن لینے کے بعد بھی وہ یہ نہ مانتا کہ محبت کی خاطر مقدس معبد میں کسی قسم کی چوری جائز ہو سکتی ہے۔ تاہم سُر بالا نے پس و پیش میں زیادہ وقت نہیں گزارا اور دور اندیشی کی تمام احتیاطوں کو بالائے طاق رکھ کر دروازے

صفحہ 33
کو کھولنے کی غرض سے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ کواڑ پر رکھ دیا۔ اس کی آنکھوں تلے اندھیرا آ گیا۔ سر چکرا رہا تھا اور دماغ اسی کیفیت میں مبتلا تھا جو تیز جھولے سے گرنے کے بعد طاری ہو جاتی ہے۔ اس نے لبوں پر زبان پھر کر سانس کو سنبھالا اور دو چار بار پلکوں کو جلدی جلدی جھپکا جھپکا کر قوتِ بینائی میں وہ لوچ پیدا کر لیا جس سے انسان معمول سے زیادہ دیکھنے لگتا ہے۔ اس نے ہاتھ کے دباؤ میں اضافہ کیا اور اس کے ساتھ ہی جِھری میں بتدریج فصل پیدا ہونے لگا۔ اس کا دل چور تھا۔ وہ محسوس کر رہی تھی کہ میں ایک جرم کا ارتکاب کر رہی ہوں جو دنیا والوں کی نگاہ میں نا قابلِ معافی ہے۔ لیکن محبت کی خاطر جس کی دنیا میں ہر مجلس قانون ساز کے آئین بدل جاتے ہیں ، سب کچھ روا ہے۔
دروازہ کھل گیا۔ لیکن اس قدر آہستہ گویا وہ کُھلا ہی نہیں۔وہ اندر داخل ہو گئی۔ ایک غیر مرئی سایہ کی طرح۔ مدہم روشنی تھی، چاروں طرف اداسی چھائی ہوئی۔ کڑوے تیل کا دیا جل رہا تھا۔اور اس کی لو کے ارتعاش پیہم کے باعث پتھر کی مورت سے لے کر چھت میں آویزاں گجر تک ہر چیز کا سایہ سامنے کی دیواروں پر رقص کر رہا تھا۔ اس نے ان میں سے کسی چیز پر نگاہ نہیں ڈالی۔ اس وقت افسانوی رنگ سے زیادہ اس پر جذبات کا بھوت سوار تھا۔
اس نے ادھر اُدھر نگاہ ڈالی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ آگے بڑھی اور مورت کے بالکل قریب جا کر اس نے پُر سکوت لہجہ میں کہا
دیوی میں قربان، تو اپنے گلے کا ہار مجھے دے دے۔ میں یہ اپنے محبوب کو پیش کروں گی۔ اور ہاں اے پتھر کی بے جان مورت! اس نے مستفسرانہ لہجہ میں کہا" کیا کبھی تجھ کو بھی کسی سے محبت ہوئی ہے"

صفحہ 34
لیکن نہیں، میں بھولی تمہارے پاس تو وہ دل و دماغ ہی نہیں جن پر محبت کے نقوش ثبت ہو سکتے ہیں۔ تیرا جسم تو پتھر کا ہے ، سخت پتھر کا۔" گویا اس نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دے دیا۔
۔۔۔۔ 6۔۔۔۔
وہ سیڑھی چڑھ گئی اور اپنا دایاں ہاتھ مورت کی طرف بڑھا دیا۔ اس کی انگلیاں جو باوجود موسمِ گرما کے سخت سردچ ہو رہی تھیں، ہار کے پھولوں سے مَس ہوئیں۔ فوراً قوتِ برق کی سی ایک تیز لہر سر کی چوٹی سے پاؤں کی ایڑھی تک تمام جسم میں جسم کے ہر رونگٹے میں ایک ارتعاش پیدا کر گئی اور جس طرح ساحلِ دریا پر کھڑے ہو کر پانی کی روانی کو دیر تک دیکھتے رہنے سے چکر آنے لگتے ہیں، وہی کیفیت اس پر بھی طاری ہو گئی۔ اگر اس وقت وہ ہوشیاری سے کام لے کر مورت کے اگے بڑھا ہوا ہاتھ نہ پکڑ لیتی تو یقیناً توازن بگڑ جانے کے باعث نیچے گر پڑتی۔ اس وقت خدا جانے کیا حشر ہوتا، کیونکہ لازمی امر تھا کہ اس دھماکے سے نگہبان پجاری کی آنکھ کھل جاتی اور پھر سارا حال بھی منکشف ہو جاتا۔
اس نے سوچا کہ یہ ارادہ ترک کر کے واپس چلاے جانا چاہئیے۔ لیکن فوراً ہی خیال آیا کہ کہ تمام محنت اکارت جاتی ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے وہی بے چینہ ، وہی جان لیوا اضطراب بھلا وہ کب ساتھ چھوڑے گا۔ زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ لہٰذا اس نے اپنی ہمت بلند کی۔ استقلال سے کام لیا۔ اور اس طرح جیسے بلی چوہے پر جھپٹا مارتی ہے۔ اس نے دیوی کے گلے میں سے اپنا پیش کیا ہوا ہار اتار لیا۔
اب دوسری مہم مندر سے باہر جانے کی تھی۔ اس نے سوچا کہیں ایسا نہ ہو کہ آنکھوں کی

صفحہ 35
آخری سوئیاں نکالنے میں غفلت ہو جائے اور حصولِ مقاصد سے محروم رہ جاؤں۔ لیکن خود ہی عقائد کی غیر مدلّل قوت کو بروئے کار لا کر اس نے خیال کیا کہ جس پرمیشور نے یہاں تک پہنچنے میں کامیابی دی ہے وہی میری دلی آرزو کا پایہ ء تکمیل تک پہنچا دے گا۔ عقائد خواہ کتنے ہی ناقص اور غیر بنیادی کیوں نہ ہوں، وقت پر عزم کو راسخ کرنے میں کام آ ہی جاتے ہیں۔بھلا سوچنے کی بات ہے اگر کوئی شخص سُربالا سے سوال کرتا کہ کیا پرمیشور ہی چوریاں کراتا ہے تو اس کے پاس اپنی ناقص منطق کا کای جواب ہوتا۔
چنانچہ اند داخل ہوتے وقت اس نے جس احتیاط سے کام لیا تھا، اسی طرح آہستہ آہستہ دروازہ کھول کر دبے پاؤں باہر نکل گئی ۔ اور صبح ہونے کے بعد بھی پجاری کے فرشتوں کو علم نہ ہوا کہ رات کے وقت مندر میں چوری ہو گئی ہے۔ کیونکہ پھولوں کا معمولی ہار کچھ ایسی زیادہ وقعت نہیں رکھتا کہ اس کی غیر موجودگی کسی کی نظر میں کھٹکے۔
۔۔۔۔7۔۔۔۔
وہ ایک بار پھر ڈرتی سہمتی اسی راستہ سے واپس ہلٹی جس پر سے خوف و ہراس کے عالم میں گزری تھی۔ اس کا تمام جسم کانپ رہا تھا۔ بدن کے ایک ایک عضو میں کپکپی تھی۔ وہ اپنے جھونپڑے کے سامنے سے ہو کر منوہر کے مکان پر پہنچی کیونکہ وہ زیادہ دور نہیں تھا۔ ہر قدم پر ہیجان میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس نے دروازے کی جھری کے قریب آنکھ کی اور جھانک کر صحن میں دیکھا تو اس کے جوش میں کبھی نہ ساکن ہونے والے سیماب کی طرح ایک جانسوز تڑپ پیدا ہو گئی، شاید وہ محسوس کرنے لگی تھی کہ اب میں بھی جوان ہو گئی ہوں۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 36
اس نے دیکھا کہ منوہر اپنی شریک حیات کے گلے میں بانہیں ڈالے محوِ خواب ہے۔ اس نے ایک لمحہ کے لئے سوچا کہ اب کیا تدبیر کرنی چاہئیے۔ دستک دے کر انھیں بیدار کر دینا نہ صرف زبردست حماقت بلکہ ایک حد تک غیر موزوں امر بھی ہے۔ اور بغیر تکمیلِ مقصد کے واپس چلے جانا گویا ہلاکت آرزو اور پامالی ء تمنا کے مترادف تھا جس میں شکستگی جذبات کی تھوڑی سی تلخی بھی شامل ہو اور یہ کوئی شخص بھی گوارا نہیں کر سکتا۔ لہذٰا اس کے سوا کوئی تدبیر نہ تھی کہ باہر سے کھڑے ہو کر ہار کو صحن میں اس طرح پھینکے کہ وہ منوہر کے اوپر جا پڑے۔ لیکن خدشہ تھا کہ ااندازہ ٹھیک نہ ہو اور وہ کسی دوسری طرف جا گرے۔یا ممکن ہے کہ بالا خانے کی چھت پر جا پڑے۔ وہ سوچتی رہی ، سوچتی رہی یہاں تک کہ مرغانِ سحر کے چہچہے اسے سنائی دینے لگے۔صبح کی سفیدی نمودار ہونے والی تھی۔ وہ گھبرا گئی۔وہ گھبرا گئی، پریشان ہوئی۔ اپنے آپ کو برا بھلا کہنے لگی کہ تمام وقت سوچنے میں ہی گزار دیا۔ اب کیا کرنا چاہئیے۔ تھوڑی دیر میں لوگوں کی آمدورفت شروع ہو جائے گی۔
اس نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی اور ہاتھ بڑھا کر دیوار کے اوپر سے پھینک دیا ۔ اس کے گرنے کی آواز سنائی دی لیکن یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کہاں۔ وہ اب بالکل ٹہرنا نہیں چاہتی تھی۔ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگی۔ اس کو اس بات کی بھی فکر تھی کہ کہیں پتّا جی بیدار نہ ہو جائیں۔ اگر انھوں نے دیکھ لیا کہ سربالا کی چارپائی خالی ہے تو صد ہا قسم کے شکوک ان کے دل میں پیدا ہو جائیں گے۔ کبھی خیال کریں گے کہ لڑکی آوارہ ہو گئی ہے ، کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے ، کبھی سوچیں گے کہ شاید پریشانیوں سے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔ قریب کی ندی میں جا کر ڈوب مری۔ ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آئے گی کہ وہ محبت بھرے دل کے ساتھ بارگاہِ عشق میں اپنا پہلا خراج پیش کرنے گئی ہے۔

صفحہ 37
کیونکہ انسان جوں جوں بوڑھا ہوتا جاتا ہے اس کے حافظہ کی کمزوری رفتہ رفتہ سابقہ رنگینیوں کے نقوش کو لوحِ قلب سے مٹاتی جاتی ہے۔
وہ ہانپتی کانپتی اپنے جھونپڑے میں پہنچی اور اطمینان کا سانس لیا ، یہ دیکھ کر کہ ابھی بوڑھا باپ بیدار نہیں ہوا ہے۔ اس نے جلدی سے منہ دھویا ، آنکھیں صاف کیں تا کہ بے خوابی کے باعث ان کے اندر نمودار ہو جانے والے سُرخ ڈورے غمازی کرنے لگیں۔
اس کام سے فارغ ہو کر اس نے اپنی ٹوکری اٹھائی اور سیدھی چمن میں چلی گئی۔ نہیں معلوم کہ فریبِ نظر تھا کیا۔ آج کائنات کا ایک ایک ذرہ اسے درخشاں نظر آ رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا گویا گذشتہ رات ہی سے موسمِ بہار شروع ہوا ہے۔ اور اس سے قبل خزاں تھی۔ اس نے دیکھا کہ غنچے غیر معمولی طور پر زیادہ متبسّم ہیں، شاید اس کی کامرانی پہ ہنس ہنس کر مبارکباد دے رہے تھے۔ چھوٹی چھوٹی چڑیوں کے پروں میں قوس و قزح کا رنگ بھر گیا تھا۔ اور بازؤں میں بجلی کی سی قوت پیدا ہو گئی تھی۔ اس نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔ بادلوں سے ترتیب پانے والے پہاڑوں کی وادیوں میں فرشتے رقص کرتے اور گاتے دکھائی دئیے۔ وہ کبھی کبھی کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھتے جاتے تھے۔ اسے یقین ہو گیا کہ اس وقت میرا ہی وجود اس آسمانی مخلوق کے لئے موضوع رقص و موسیقی بنا ہوا ہے۔ لیکن آخر یہ تمام تغیّر نظامِ قدرت میں کس وجہ سے ہے اور کائینات کے ذرے کس کے دل کی دھڑکن اور کس کی ضرباتِ نبض کے ساتھ ہم آہنگ ہو جانے کے لئے بیتاب ہیں۔
قبل اس کے کہ اس کا ذہن ان سوالات کے جواب کی تحقیق کرے ، شرم کا پسینہ اس کے چہرے پر نمودار ہو گیا۔ لجاتے ہوئے اس نے اپنا دامن سنبھالا اور گلاب کی پتیوں کو چٹکی میں مسلتی رہ گئی۔ افسوس

صفحہ 38
ہے کہ اس فضائے نگہت و صباحت میں اس رنگِ رُخ کے اتار چڑھاؤ کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا، وہاں کوئی اتنا بھی نہیں تھا کہ اگر اس کی انگلی میں کانٹا چبھ جائےتو اس تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کر کے اظہارِ ہمدردی کرنے لگے۔
۔۔۔۔8۔۔۔
شام کے وقت حسبِ معمول وہ گجرے وغیرہ لے کر چوک گئی۔ لیکن آج شاید سُرمہ در گلو تھی ، اس کی آواز ہی نہ نکلتی تھی۔ اور اگر نکلتی بھی تو اس پرندہ کی طرح جو یکایک اسیرِ دام ہو جانے کے باعث چہچہانا بھول گیا ہو۔ اس نے گاہکوں کے ساتھ بے التفاتی برتی۔ وہ معمولی ہار کی قیمت اس قدر زیادہ بتاتی کہ لوگ بگڑ کر چلے جاتے۔ دو ایک منچلے نوجوانوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پھولوں کا مول کر رہی ہو یا اپنے حسن کا۔ اور اگر سُربالا اپنے خیالات میں محو نہ ہوتی تو یقیناً یہ نا شائستہ الفاظ اسے برہم کر دیتے۔
وقت گزرتا گیا اور اسے ایک پیسے کی بھی بونی نہ ہوئی۔ لیکن اس نے واپس جانے کا نام نہ لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی کی منتظر ہے، اور یہ تھی بھی حقیقت ، کیونکہ تھوڑی ہی دیر بعد منوہر آ پہنچا ۔ اسے دیکھ کر سُربالا نے ٹوکری زمین پر رکھ دی۔اور خود اس طرح علیٰحدہ کھڑی ہو گئی گویا نظر بچا کر بھاگ جانا چاہتی تھی۔ منوہر نے ایک گجرا اٹھاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورا کہ سُربالا کی نوکِ مژگاں پر جمے ہوئے آنسو جو نہیں معلوم کب تڑپ کر باہر نکل آئے تھے ، ضبط کی تاب نہ لا سکے۔ اس نے یہ سب کچھ دیکھا مگر ظاہر کیا گویا کچھ نہیں دیکھا۔اور بیشک اسی میں مصلحت تھی۔ کیونکہ اگر وہ معمولی طور پر اتنا ہی پوچھ لیتا کہ " سُربالا تم کیوں رونے لگیں۔ " تو نہیں کہا جا سکتا کہ خود اس کے جذبات کی بر انگیختی اس کے نظامِ ہستی میں کس قسم کی تبدیلی پیدا کر دیتی۔

صفحہ 39
منوہر نے گجرا ٹوکری میں رکھ دیا اور کسی قدر طنز کے ساتھ کہا
اونھ یہ تو کچھ بھی اچھا نہیں ہے ۔ رات ہم سو رہے تھے تو کسی آسمانی دیوی نے ہمارے اوپر ہار ڈال دیا۔ وہ اتنا عمدہ اور اتنا اچھا تھا کہ تعریف نہیں کی جا سکتی۔ سمجھیں سُر بالا؟ مجھے یقین ہے کہ آج بھی کوئی دیوی ہار پھینک جائے گی۔ لہٰذا میں تم سے کیوں خریدوں؟ ٹھیک ہے نا؟
سُربالا کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا، سوائے اس کے کہ اپنے آنسوؤں کی جھڑی میں ایک مصنوعی تبسّم کی جھلک پیدا کر دے۔
منوہر چلا گیا اور وہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ کر بھی کیا سکتی تھی۔ نسائیت مانع تھی ، اتنی ہمت نہ تھی کہ بھاگ کراس سے کہتی کہ" رات کو ہار پھینکنے والی دیوی میں ہی ہوں" چند منٹ تک وہ گُم سُم بنی کھڑی رہی اور اس کے بعد واپس لوٹ گئی۔حسبِ معمول باپ نے پوچھا کہ پھول کتنے بیچے ہیں۔ اس نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے فوراً کہہ دیا کہ سب بک گئے ہیں۔ کیونکہ وہ ان کو پہلے ہی سے باغیچہ میں ایک محفوظ جگہ چھپا آئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ باپ تو روپے پیسے سے کوئی سروکار نہیں رکھتا ۔ وہ خود ہی ہر قسم کے آمد و خرچ کی مختار تھی۔ اگر وہ آج یہ کہہ دیتی کہ آج چوک پر پھول کی ایک پتی بھی فروخت نہیں ہوئی تو بہت ممکن تھا کہ دوسرے دن وہ اسے جانے نہ دیتا، اس خیال سے کہ اب پھولوں کی مانگ کم ہو گئی ہے۔
۔۔۔۔9۔۔۔
رات کے خاموش لمحے گزرتے چلے جا رہے تھے مگر سُربالا کو کسی عنوان نیند نہ آتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خود اس ہی کی مرضی نہیں ہے کہ آنکھ لگے۔ وہ بیدار رہنا چاہتی تھی۔ وہ ایک مخصوص

صفحہ 40
وقت کی منتظر تھی۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ منوہر کے قول کے مطابق میں آج پھر ایک دیوی بن کر چین سے سونے والوں پر پھولوں کی بارش کروں گی۔ چنانچہ جب بارہ بجے کے گھنٹے کی بھیانک آواز نے رات کے طلسمِ سکوت کو توڑا تو وہ فوراً اپنی چارپائی سے کھڑی ہو گئی۔ باپ کے خراٹوں کی تیز آواز آسودگی ء خواب کا تسلی بخش ثبوت تھی۔ اور ظاہر تھا کہ بازاروں میں آمد ورفت کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہو گا۔

وہ سب سے پہلے باغیچہ میں گئی اور وہاں پوشیدہ ٹوکری میں سے چند گجرے نکال کر دامن میں چھپا لئے ، وہ کچھ دیر ٹھٹکی، ٹہری ، اور گہرا سانس لے کر ہر چیز پر مسرت کی نظر ڈالی ، پھر چل پڑی ۔ کچھ ایسے ڈگمگاتے ہوئے قدموں کے ساتھ گویا ایک مخصوص منزلِ مقصود اس کی نظر کے سامنے نہیں ہے۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس کی نبض تیز تھی۔
وہ چوروں کی طرح چھپتی چھپاتی اور گلیوں میں دکانوں کے سامنے لگے ہوئے تختوں کے نیچے سونے والے کتوں سے کتراتی ، منوہر کے مکان کے قریب پہنچ گئی۔ پہلے سوچا کہ ہاتھ بڑھا کر گجرے پھینک دوں، مگر فوراً خیال آیا کہ جھانک کر دیکھنا چاہئیے کہ منوہر کس شان سے سو رہا ہے۔ چنانچہ اس ارادے کے ساتھ وہ دو قدم اور آگے بڑھی، چاہتی تھی کہ جھری میں سے جھانکے کہ اچانک کواڑ کھل گئے۔ منوہر اُس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
وہ سر سے پاؤں تک کپکپا اٹھی ، روئیں روئیں میں تھرتھری تھی۔ دل کی دھڑکن میں اختلاج کی حد تک اضافہ ہو گیا۔ ہر شے اس کی نگاہ میں رقص کرتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ ، پاؤں شل ہو گئے۔ بھاگ بھی نہیں سکتی تھی۔ کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔نظریں زمین پر گڑی ہوئی تھیں اور ہاتھ آنچل سنبھالنے
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 41
میں مصروف تھے۔ چہرے پر ایک رنگ آتا تھا ایک جاتا تھا۔
آخر منوہر نے طلسمِ سکوت کو توڑا۔
سُربالا ، کیا تم میرے پاس آئی ہو؟ مجھ سے کوئی ضروری کام ہے؟ اور یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟
یہ کہہ کر اس نے ساری کے نیچے سے سُربالا کا وہ ہاتھ پکڑ لیا ، جس میں گجرے تھے۔ اور انھیں دیکھ کر اظہارِ تنفّر سے کہا
میں تو آج ایک پھول بھی نہ خریدوں گا، اگر خریدنے ہوتے تو چوک پر ہی لے لیتا۔ ہاں اگر تم بطور تحفہ پیش کرو تو میں قبول کر سکتا ہوں۔
سُربالا کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی، اور اگر منوہر نہ سنبھالتا تو یقیناً سب پھول زمین پر گر جاتے۔ لیکن وہ منہ سے کچھ نہ بولی۔ اس کی زبان بند ہو گئی تھی۔ اسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ پھر منوہر بولا" سُربالا اندر آ جاؤ۔دہلیز پر کھڑے رہنا مناسب نہیں ہے۔ میری بیوی میکے چلی گئی ہے، آج گھر میں کوئی نہیں ہے۔
پہلے تو وہ اندر جانے کے لئے تیار ہو گئی مگر یہ سن کر کہ گھر میں کوئی نہیں ہے، پھر ٹھٹک گئی۔ " گھر میں کوئی نہیں ہے" ایک تیز اکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ یہ جملہ اس کی زبان سے صدائے بازگشت کی طرح سے نکل گیا۔
آ بھی جاؤ، کیا حرج ہے۔ تمہاری موجودگی اس تنہائی کو دور کر دے گی۔ یہ کہہ کر اس نے سربالا کا ہاتھ پکڑا اور اندر لے گیا۔ وہ اس طرح چل رہی تھی گویا اس میں جان ہی نہیں ہے۔ بلکہ بجلی کی قوت لوہے کی مشین کو چلا رہی ہے۔صحن میں پلنگ بچا ہوا تھا لیکن چادر پر ایک بھی شکن نہیں تھی جس سے ظاہر تھا کہ اس وقت تک کوئی اس پر نہیں لیٹا۔ وہ چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔ مگر منوہر نے گھسیٹ کر اپنے قریب بٹھا لیا۔
"مجھے معاف کر دو سُربالا۔ میری غلطی تھی کہ میں نے تمہاری محبت کو ٹھکرا دیا۔ لیکن کل سے محسوس کر رہا ہوں کہ تمناؤں میں تجدید ہو رہی ہے۔اب تم میری ہو اور میں تمہارا ۔ لو میرے ہاتھ سے یہ کنٹھا پہن لو۔"
"نہیں نہیں، میں ہر گز نہیں پہنوں گی۔ یہ خلافِ دستور ہے۔ پھول صرفٖ سہاگنوں کے لئے ہوتے ہیں۔اور میری ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔ میں کس طرح پہن لوں۔ کیا تم نہیں جانتے؟"
"میں جانتا ہوں اور اچھی طرح جانتا ہوں لیکن غالباً تم نہیں جانتیں کہ آج کی رات تمہارے لئے سہاگ رات ہی ہے۔ اس لئے اپنے پریمی کے ہاتھ سے پھول پہننے میں تامّل نہ کرو۔"
۔۔۔۔10۔۔۔۔
منوہر نے پھونک مار کر چراغ گل کر دیا۔ اس کی رہی سہی مدہم روشنی بھی غائب ہو گیا۔ سُربالا کو پہلے تو یقین نہ آتا تھا لیکن نمودِ سحر سے قبل اسے بھی تسلیم کرنا پڑا کہ بے شک وہ رات اس کے لئے سہاگ کی پہلی رات تھی۔

صفحہ 43
خواب رنگیں
( مکتوب جو ایک خودکشی کرنے والے کی نعش کے ساتھ ملا)
محترمہ!
آپ کا خیال ہے کہ میں اس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرنے میں چرب زبانی سے کام لے رہا ہوں یا بالکل جھوٹ بول رہا ہوں۔۔ آپ یقین نہیں کر سکتیں کہ دنیا میں ایک ایسا شخص بھی ہے جو تمام عرصہ ء حیات میں کبھی مبتلائے محبت نہیں ہوا۔ تاہم میں ایک انسان ہونے کی حیثیت سے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے محبت نہیں کی۔؎اس کی وجہ؟ درحقیقت میں خود بھی نہیں جانتا۔میں نے کبھی اپنے دل کو اپنی عقل و دانش کے مقابلے میں تیز رفتاری کا موقع نہیں دیا اور نہ کبھی ایک عورت کی محبت میں اس جنون کی حد تک گرویدہ ہوا کہ اپنی خودی کو اس کے حلقہ ء دام میں محصور کر لوں۔ آپ کی صنف کے کسی فرد کو اتنی قدرت حاصل نہیں ہوئی کہ اس نے مجھ کو رلایا ہو یا مبتلائے رنج و آلام کیا ہو۔ نہ ان راتوں سے آشنا رہا جن کی بیداریوں میں اختر شماری کی جاتی ہے اور نہ اس نمود سحر سے واقف ہوں ، جسکی خوشگوار فضا

صفحہ 44
میں محرومِ لذتِ کام و دہن رہنا پڑتا ہے۔ امید و بیم میرے لئے الفاظ بے معنی ہیں۔
کیونکہ میں نے کبھی محبت نہیں کی۔
اکثر میں تعجب کرتا ہوں کہ آخر میرے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوا۔ اس کا تسلی بخش جواب صرف ایک ہو سکتا ہے۔ اور وہ یہ کہ میں عورت کی ذہنیت سمجھنے میں اتنا اچھا نقاد ہو گیا ہوں کہ کسی شخصیت سے اثر پذیر ہو کر مرعوب نہیں ہو سکتا۔ محترمہ میری اس صاف گوئی پر اظہارِ برہمی نہ کریں۔ ۔۔۔۔ آپ جانتی ہیں کہ ہر متنفس کی ایک مادی شخصیت ہوتی ہے اور دوسری روحانی۔ اور لازمی طور پر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی سے صادق اور پُر خلوص محبت کرنے کے لئے محبوب کی ذات میں ان دونوں شخصیت کا باہمی اجتماع اور ہم آہنگ ہونا اشد ضروری ہے۔لیکن فی زمانہ یہ حسن امتزاج شاذ و نادر ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کیونکہ بسا اوقات آپ دیکھیں گی کہ ایک عورت ظاہری اعتبار سے پیکر حسن و جمال اور مجسمہ ء شباب و رعنائی ہے لیکن بلحاظ فطرت و ذہنیت ایک قابلِ نفریں دختر اہرمن۔ اور کبھی یہ مشاہدہ میں آئے گا کہ ایک عورت اخلاق برگذیدہ و اوصاف حمیدہ کی تقدس مآب دیوی کہلائی جانے کے لائق ہے لیکن جسمانی موزونیّت کے لحاظ سے اس کی کوئی خوبی کسی کو اپنی طرف مائل کر لینے کے لئے مقناطیسی کشش نہیں رکھتی۔
محبت کرنے کے لئے مرد کو اندھا ہو جانا ضروری ہے اسے چاہئیے کہ صرف جذبہ الوہیّت کے ساتھ اندھا دھند محبت کے جال میں جا گرے اور محبوبہ کے نقائص و عیوب کی طرف سے آنکھوں پر پٹی باندھ لے۔۔ وہ اس کے ساتھ دورانِ گفتگو میں سنجیدہ موضوع کو زیرِ بحث نہ لائے۔ وہ اس کے نازک لبوں پر صرف مہرِ الفت ثبت کرے۔ اور اسے اپنا بنا لے، محبوبہ کی ہرزہ کاریاں اور خیالاتِ باطلہ اس کی

صفحہ 45
نظر میں ایسے معلوم ہوں گویا یہی شانِ حسن اور اقتصائے جمال ہیں۔ خیر ! میں اس کور چشمی کا طالب نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ انسان سے لے کر کائینات کے ذروں تک ہر شے کو حقائق کی روشنی میں دیکھوں نہ کہ اپنی آرزؤں اور تمناؤں کے مطابق۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حسین و جمیل لڑکیاں ہی خلافِ توقع بے مہر و وفا ثابت ہوتی ہیں۔ برخلاف اس کے سادہ لوح ہستیاں کبھی مایوس نہیں کرتیں کیونکہ ان سے کسی چیز کی توقع ہی نہیں کی جاتی۔
تاہم عرصہ دراز ہوا۔ مجھے یقین واثق ہو گیا تھا کہ میں گرفتارِ محبت ہوں۔صرف ایک ساعت کے لئے۔ محض ایک خوشگوار رات میں لیکن سب سے زیادہ فضا اور ماحول میری گرفتاری میں ممد ومعاون تھے۔ مجھے یقین ہے کہ واقعات کی تفصیل سن کر آپ بھی اس ضمن میں میری ہم خیال ہو جائیں گی۔ اچھا سنئیے۔
ایک روز شام کے وقت ایک حسین دوشیزہ سے میری ملاقات ہوئی۔ عالی حوصلگی اور جدّت طرازی اس ک فطرت میں داخل تھی۔ لہٰذا اس نے تجویز پیش کی کہ ہم دونوں تمام شب دریا کی پرسکون سطح پر ایک سفینہ کے آغوش میں بسر کریں۔ اگر مجھ سے پوچھا جاتا تو میں گھر کی شب بیداری کو ترجیح دیتا۔ مجھے یہ زیادہ مرغوب ہے۔ تاہم محض دلبستگی کے طور پر میں نے سفینہ میں بیٹھنے کی دعوت قبول کر لی۔
جون کا مہینہ، تقوٰی شکن سہانی رات، خوشگوار چھٹکی ہوئی چاندنی، باد صر صر کے لطیف جھونکے۔ ہم تقریباً دس بجے روانہ ہوئے ۔ میں کسی قدر کبیدہ خاطر تھا لیکن میری شریکِ سفر جوش مسرت میں جھوم رہی تھی۔ میں سنبھل کمر بیٹھ گیا ۔ چپّو اٹھا لئے اور روانگی عمل میں آ گئی۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 46
دل فریب نظارہ تھا، دریا میں کہیں کہیں خشکی کے ٹیلے ابھرے ہوئے معلوم ہوتے تھے، ان پر درختوں کی ہریاول اور ان میں قمری و عنادل کے روح پرور چہچہے، پانی کی روانی آہستہ آہستہ ہم کو بہاتی رہی۔ ساحل کے قریب مینڈک ٹرّا رہے تھے۔ جھاڑیوں میں ہوا مدہم سروں کا راگ گاتی معلوم ہوتی تھی۔ ہم دونوں سہانی پُر لطیف اور خوشگوار رعنائیوں کا اثر طاری ہوتا گیا۔میں نے محسوس کیا کہ صرف ایسے وقت میں زندہ رہنا حقیقی زندگی کے مترادف ہے۔ اور وہ بھی ایک نوخیز ۔ پُر شباب ، حسین و جمیل دوشیزہ کے پہلو میں۔
نقرئی چاندنی کی مستی و سرشاری اور اپنی ہم جلیس کے انتہائی قرب کے احساس سے میری رگوں میں تلاطم جذبات اور جوشش ترنگ کی سیمابی کیفیت پیدا ہو گئی۔
ہم کو اسی طرح بہتے جانا چاہئیے۔ اس نے کہا۔ "آؤ میرے پاس بیٹھ جاؤ، چپّو ہاتھ سے رکھ دو۔"
میں نے ارشاد کی تعمیل کی۔ اس وقت میں اس کے ہر حکم کو دائرہ ء عمل میں لانے کے لئے تیار تھا۔ اس نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔ مجھے کچھ اشعار سناؤ۔
میں نے حیل و حجت کرنی چاہی لیکن اس کے اصرار نے مجبور کر دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ ہر اس شے کو حاصل کرنے پر تُلی ہوئی تھی جس کے ذریعے ہیجانِ جذبات ممکن ہو۔ ۔۔۔ سہانی رات۔۔۔ نقرئی چاندنی۔۔۔پُرسکون سطح ء آب۔۔۔ فضائے شعر وسخن اور ایک جوان مرد اس کے پہلو میں۔ محض ستانے کی غرض سے میں نے غلط سروں میں گانا شروع کر دیا۔ اور اشعار بھی فارسی کے منتخب کئے۔

صفحہ 47
جن کا سمجھنا اس کے لئے قدر دشوار تھا لیکن مجھے سخت تعجب ہوا جب میری بے ہودگی پر سرزنش کرنے کی بجائے وہ فہیمانہ طور پر اپنے سر کو جنبش دیتی رہی۔ گویا خوب سمجھ کر داد دے رہی ہے۔ اور ساتھ ہی دبی زبان میں کہا
یہ الفاظ صداقت سے کس قدر لبریز ہیں۔
میں ورطہ ء استعجاب میں غرق تھا۔حقیقتاً اتنی سمجھدار عورتیں کہاں ہیں۔ ہمارا چھوٹا سفینہ پانی پر چھائے ہوئے درختوں کے سایہ میں سے گزر رہا تھا۔ میں نے اپنی ہمسفر جلیس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی آغوش میں لے لیا اور آہستہ آہستہ اپنے لبوں کو اس کی پیشانی تک پہنچانے کی کوشش کی لیکن فوری غصہ کے ساتھ اس نے جواب دیا
"بس مجھے تنہا چھوڑ دو، تم ہر ایک چیز میں بے لطفی پیدا کر رہے ہو۔"
میں نے کوشش کی کہ کسی طرح اس کو منا لوں لیکن اس نے علیٰحدہ ہونے کے لئے بہت جدوجہد کی اور پانی پر چھائے ہوئے درخت کی ایک شاخ کو اس قدر گھبراہٹ کے ساتھ پکڑا کہ مجھے گمان ہوا بس اب سفینہ الٹ جائے گا اور ہم دونوں پانی میں جا گریں گے۔ اس نے کہا۔
اگر تم پانی میں گر گئے تو یہ سزا تمہارے لئے مناسب ہو گی۔ مرد کس قدر اجڈ ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ چاہتے ہیں کہ شکستِ خواب کر کے دوسری ہستی کو بیدار کر دیا جائے۔ اور ہاں تم تو ابھی مجھ کو کچھ اشعار سنا رہے تھے۔
اس نے مجھے لاجواب کر دیا اور میں خاموش تھا،
پھر اس نے کہا ہمیں کچھ اور دور چلنا چاہئیے۔

صفحہ 48
میں نے خیال کرنا شروع کیا واقعات غیر موزوں سے ہوتے جا رہے ہیں۔ اور یہ فکر بھی دامن گیر ہوئی کہ تمام رات اسی طرح ضائع ہو گی، میری ہم جلیس نے مجھ سے کہا
"میں تم سے ایک وعدہ لینا چاہتی ہوں۔"
بہتر۔ میں نے جواب دیا۔ بشرطیکہ میں اسے پورا کر سکوں۔
"اچھا وعدہ کرو کہ تم بالکل خاموش اور نیک بنے رہو گے۔ اگر میں تم کو اجازت دوں۔۔۔۔"
"کیا؟"
"اگر میں تم کو اجازت دوں میرے قریب پہلو میں لیٹ جاؤ۔ سفینہ کے زیریں حصہ میں۔ اور میری طرح آسمان پر چمکنے والے ستاروں کا مشاہدہ کرتے رہو۔"
میں نے محسوس کیا کہ صورت حال مضحکہ خیز ہوتی جا رہی ہے لیکن پھر بھی جواب دیا۔
بہتر جو آپ کی مرضی ہو۔
تمہیں معلوم ہونا چاہئیے ، اس نے وضاحت کی۔ تم کو ہر گز اجازت نہیں ہو گی ۔۔۔ مجھے چھونے کی۔۔۔ مجھے پیار کرنے کی۔۔۔یا۔۔۔یا۔۔۔یا مجھے چھیڑنے کی۔ مجھے ستانے کی۔
میں وعدہ کرتا ہوں۔
اور اگر تم نے ذرا بھی حرکت کی تو میں سفینہ کو الٹ دوں گی۔
کس قدر واہیات بات تھی۔ ہم قریب لیٹے رہے۔ سفینہ کی خفیف جنبشوں کا ترنم اور وہ نغمہء حیات

صفحہ 49
جو ساحل کی طرف سے مدہم سروں میں سنائی دے رہا تھا۔ ہمارے لئے لوری بن کر رہ گیا۔ اور عین اس لمحہ۔۔۔ اپنی تمام زندگی میں پہلی مرتبہ۔۔۔ کسی سے محبت کرنے کی آرزو میرے دل میں پیدا ہو گئی۔ میں نے چاہا کہ اپنے وجود مطلق کے اسرار و رموز کو کسی پر منکشف کر دوں۔ اور بطور خراج اسے پیش کر دوں۔ ۔۔۔ اپنے تخیل کا پرتو۔۔۔ اپنے جسم کی موزونیت۔۔۔ اپنے قلب کی پر خلوص تپش۔۔ اپنی حیات کی سر مستیاں۔۔۔ اور ہر وہ چیز جو مجھ سے متعلق ہو۔
اچانک میری ہم جلیس نے خواب کی سی دنیا میں ایک ایسی آواز میں جو بہت دور سے آ رہی ہو ۔۔۔ مدہم سروں میں کہا
ہم کہاں ہیں؟ ہم کدہر جا رہے ہیں؟۔۔۔ معلوم ہوتا ہے ہم کرہ ارض کی کشش ثقل سے نکل چکے ہیں۔ سرحد ادراک سے بھی پرے ہیں۔ کتنا پُر لطف سماں ہے۔ آہ! کاش تم مجھ سے تھوڑی ہی سی محبت کرتے۔
میرے دل نے زور زور سے دھڑکنا شروع کر دیا۔ اور میں کوئی جواب نہ دے سکا، معلوم ہوتا تھا کہ مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے ، میں نے خیال کیا کہ ایسا ہو گیا ہے۔ پھر بھی میرے اندر کوئی رکیک جذبہ بیدار نہیں ہوا۔ میں نے صرف محسوس کیا کہ میں کامل سکون کی دنیا میں ہوں۔اسی مقام پر۔۔۔ اس حسینہ کے پہلو میں۔۔۔ اور بس یہ احساس ہی میرے لئے کافی تھا۔ اسی طرح ہم بہت دیر لیٹے رہے ۔۔۔ بہت دیر تک۔۔۔ جنبش کئے بغیر۔۔ ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ میں ہاتھ لے لیا۔ ۔۔ دلنواز طریقہ پر۔۔ خاموشی کے ساتھ۔۔ کوئی نا معلوم قوت ہم پر حاوی تھی۔ ۔۔ غیر محسوس طریقہ پر۔۔ ہمارے درمیان ایک رشتہ قائم ہو گیا۔

صفحہ 50
پُر اسرار۔ الوہیانہ۔۔ تعجب انگیز۔۔ آخر وہ کیا تھا۔۔شاید اسی کا نام محبت ہو۔
سکوتِ شب کا طلسم صبح کاذب کی نمود سے ٹوٹ گیا۔ تقریباً تین بجے کا عمل ہو گا سفینہ کسی شے سے ٹکرایا۔ وہ ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا۔ میں بحرِ تحٗیر میں غرق ہو گیا۔ آسمان کی تمام سطح سرخ گلابی اور عبیر الود ہونے لگی۔ بادل کے شگافوں میں سے نورِ سحر پھوٹنے لگا۔دریا کا پانی خونابہ بن گیا اور اس کے دونوں ساحل آتش گرفتہ معلوم ہونے لگے۔
میں اپنی ہم جلیس کی طرف جھک گیا تا کہ اس دلفریب منظر ِ نور و ضیا سے لطف اندوزی حاصل کرنے میں اسے بھی شریک کر لوں لیکن مجھ سے یہ نہ ہو سکا۔ بلکہ میں خود اس کے پرتوِ جمال کی آئینہ سامانی میں محو ہو کر رہ گیا۔ کیونکہ وہ بھی شفق کی طرح گل تمثال تھی۔ ۔۔۔ا س کے رخسار، اس کے لب، اس کا تبسم، اس کا لباس ۔۔۔ وہ پھولوں کی شہزادی معلوم ہوتی تھی۔ اور عین اس وقت میں اسے صبح کی دیوی سمجھنے لگا۔
وہ نزاکت کے ساتھ اٹھی اور اپنے لب مجھے پیش کر دئیے۔ میں اس کی طرف بڑھا ، پیش قدمی اور انبساط کے کیفِ ارتعاش میں ڈوبا ہوا، گویا میں ایک آستانہ ء قدوسی کا بوسہ لینے والا تھا۔ ایک ایسے خواب کا بوسہ لینے والا تھا جو پیکر نسائی میں تبدیل ہو گیا ہو۔ اس نے مجھ سے کہا۔
آہ میرے محبوب! تمہارے ریشمی بالوں میں ایک کیڑا الجھ رہا ہے۔
شاید اس کے تبسم کی یہی وجہ تھی۔ میں نے اپنے سر پر ایک ضرب سی محسوس کی اور ایسا معلوم ہوا گویا نمود سحر سے قبل ہی فضا کی تمام رعنائیاں دور ہو گئی ہیں۔ اور طلسم خواب کے ٹوٹتے ہی
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 51
میں اس دنیائے آب و گِل میں آ گیا ہوں۔ اور بس۔
یہ محض ابلہی اور طفل تسلی ہے جو چاہو سمجھو لیکن یہی وہ معمولی سی بات ہے جو انسان کو دل برداشتہ کر دیتی ہے اور سب سے زیادہ دلربا ہستی سے متنّفر۔
بہرحال اس دن سے آج تک میں نے کسی سے محبت نہیں کی۔

صفحہ 52
افسانہائے عشق!
قالب انسان ازل میں عشق کی خاطر بنا
اس نشیلی مے کے لائق بس یہی پیمانہ تھا
انسان کی تخلیق میں علاوہ ان عناصر اربعہ کے جن کا تجزیہ کیماوی طور پر کیا گیا ہے محبت کا عنصر بھی شامل ہے یہ دوسری بات ہے کہ کسی میں یہ جزو کم ہے اور کسی میں زیادہ۔ بعض میں نشو نما پانے سے قبل ہی فنا ہو جاتا ہے اور بعض میں نشو نما پا کر اس قدر زیادتی حاصل کرتا ہے کہ دوسرے عناصر بھی اس سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔ اس وقت انسان کو ایک ایسا درجہ ء امتیاز حاصل ہو جاتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس دنیائے آب و گل کو ٹھکرا کر ایک جدید نظامِ کائنات قائم کر دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت عرصہ ہوا عہدِ طفلی کاذکر ہے ایک رات میں نے دادا جان سے کہا
دادا ابا کوئی کہانی سناؤ۔
پہلے انھوں نے ٹال دینا چاہا مگر میرے اصرار پر کہنے لگے

صفحہ 53
اچھا سنو۔ کوہ قاف کی پریوں میں ایک پری تھی جس کا نام نیلم پری تھا۔ایک دن وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ سیر کو نکلی،دور ہوا میں اڑتے اڑتے اپنی پرستان کی حد سے باہر نکل گئی ۔ اچانک اس کی نظر نیچے زمین پر پڑی۔ اور ایک شاہزادہ کو دیکھا جو جنگل میں شکار کھیل رہا تھا۔ پری نے پہلی مرتبہ انسان کی شکل دیکھی تھی، وہ اسے دیکھتے ہی عاشق ہو گئی اور اپنی سہیلیوں سے کہا،
کسی طرح اس آدم زاد کو بے ہوش کر کے میرے محل میں لے چلو۔ چنانچہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں تک کہ نیند آنے سے قبل کہانی ختم ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند سال بعد میں مدرسے کے کمرے میں بیٹھا تھاکہ ایک ہم جماعت نے کھڑے ہو کر کتاب کھولی اور پڑھنا شروع کیا
حاتم نے منیر شامی کو بہت کچھ دلاسہ دے کر کہا کہ تمہارے جذباتِ محبت نے میرے دل پر بہت اثر کیا۔ خدا کرے تمہاری دلی مراد پوری ہو۔ میں انتہائی کوشش کروں گا کہ حسن بانو کے تمام سوالوں کا جواب دے کر تمہارے ساتھ اس کی شادی کرا دوں۔ میری واپسی تک۔۔۔۔۔"
حتٰی کہ وقت ختم ہو گیا مگر قصہ کی تکمیل نہ ہوئی۔ اس لئے باقی حصہ دوسرے دن کے لئے ملتوی کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدرسہ کی تعلیم کے بعد کالج کا زمانہ آیا۔ اب خیالات میں کسی قدر زیادہ پختگی اور مطالعہ میں وسعت پیدا ہو چلی تھی۔ بزمِ ادب کا سالانہ جلسہ ہوا۔ ناظم مجلس نے زبردستی میرا نام بھی مقررین کی فہرست میں شامل کر دیا۔ فلسفہء محبت پر اظہار خیال کرنے کی فرمائش ہوئی۔ میں نے شاعرانہ موشگافیوں سے

صفحہ 54
قطعاً خالی الذہن ہو کر نہایت محققانہ طریقہ پر ایسی موثر تقریر کی کہ سامعین عش عش کرنے لگے۔ میں نے فلاسفہ یونان کے خیالات زریں بھی پیش کئے۔ اور حکمائے عرب کے غیر فانی اقوال کا حوالہ بھی دیا تا کہ بیان میں زیادہ زور پیدا ہو جائے۔ لیکن جب میں اس نقطہ پر پہنچا کہ "محبت کیوں ہو جاتی ہے" تو میرے حواس گم ہو گئے۔ اس تنقیح کے جواب کو فلسفہ کی روشنی میں ۔۔۔۔ جس کے مہمل نظرئیےعملی زندگی سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔ ۔۔ پیش کرنا تضیع اوقات تھا اور اگر میں یہ کہہ دیتا کہ اس کا جواب صرف اس صورت میں ممکن ہے ، جب کہ قسام ازل کی طرف سے زبان کو بینائی یا آنکھوں کو گویائی ان قوتوں کے علاوہ نصیب ہو جائے جو پہلے سے ان کو ودیعت کی جا چکی ہیں۔تو لوگ شاید اسے بھی شاعری سمجھتے۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سہانی رات تھی، تھیٹر ہال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا تھا، تل دہرنے کی جگہ نہ تھی کہ یکایک موسیقی کی ایک دلنواز لَے کے ساتھ پردے اٹھے اور لیلیٰ مجنوں کا ڈرامہ شروع ہو گیا۔ ہندوستان کی ایک مایہ ناز ایکٹرس ہیروئن کا پارٹ کر رہی تھی۔ زمانہ ء مکتب سے آغاز محبت ، جذبات صادق کی بتدریج ترقی، اضطراب مسلسل کی دائمی سکون کوشی، والدین کی ضد، عزیز اقارب کے ظلم و ستم، رسم و رواج کی پابندیاں ، آرزوؤں کی پامالی ، خون کے آنسو، فراق کے صدمے، جنگل کی لامتناہی وسعتوں میں وحشی جانوروں کے ساتھ بودوباش اور آخرکار ناکامی ء عشق کا المناک انجام۔۔۔ غرض یہ کہ صبح کاذب کے نمودار ہونے سے قبل سب کچھ ہوا اور ہو کر رہ گیا۔

صفحہ 55
ایک روز بیٹھے بیٹھے جی میں آئی کہ لاؤ ہم بھی کوئی افسانہ لکھیں، سینکڑوں ناولوں کا مطالعہ کیا تھا، انگریزی رسائل میں بے شمار افسانے پڑھے تھے، کچھ خیال کہیں سے کیا کچھ کہیں سے، یہاں تک کہ ایک نیا پلاٹ تیار ہو گیا۔ "افسانہ ء محبت " اس کا عنوان قائم کیا ، حسن و جمال کی نیرنگیوں سے قطعی ناواقف ، عشق و محبت کے سحرِ حلال سے نا اشنائے محض ، لوگوں سے سنا تھا ، کتابوں میں پڑھا تھا کہ ایک کیفیت کا نام ہے اور دوسرا حشر جذبات کا، انہی سُنی سنائی ، پڑھی پڑھائی باتوں کا اوادہ اپنے الفاظ میں کر دیا، افسانہ مکمل ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ شاعر تلمیذ الرحمٰن ہوتا ہے اور شاعر ایک ودیعتِ خاص ہے جو ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتی، لیکن یہ سب کہنے کی باتیں ہیں، طبیعت موزوں ہونی چاہئیے، کچھ عرصہ اساتذہ کے کلام کا مطالعہ کیا اور پھر حسن و عشق ، گل و بلبل، آہ و فغاں، شمع و پروانہ، وصل و ہجر، شراب و ساقی، وغیرہ کو دیگر الفاظ کے امتزاج سے مختلف پیرایہ میں بیان کرنا شروع کر دیا، اب مجھ ہی کو دیکھ لیجئیے کہ دل کے معمولی جوش و ولولے کی بنا پر شاعر بن بیٹھے، خواہ جذبات کے ماتحت کسی حسینہ کی طرف دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا ہو مگر اس فن لطیف کے طفیل نت نئے معشوق زینت آغوش ہونے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مناظرِ قدرت کی نقاشی میری زندگی کا بہترین مشغلہ بن گئی تھی، ایک روز بارش کے اختتام پر جب کہ باد و باراں کا طوفان مضمحل ہو کر سکون و طمانیت میں تبدیل ہو چکا تھا۔ میں دریا کے کنارے
ٹہلنے چل دیا۔ خیال تھا کہ ضرور کوئی دلفریب منظر فردوسِ نگاہ بن جائے گا۔ اور موئے قلم کے وسیلہ سے
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 56
اس کو صفحہ ء قرطاس پر منتقل کر لوں گا۔ ابھی چند لمحے بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ فضا میں نغمے منتشر ہو کر ایک تموّج پید اکرنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ ایک حسینہ ہاتھ میں بربط لئے ساحل کے قریب بیٹھی گا رہی ہے۔ موسیقی کا یہ کمال کہ سننے والوں کی روح بھی ان لطیف ترانوں پر تصدق ہو جانے کے لئے ایک بار تڑپ اٹھے۔ وہ سامعہ نواز آواز سن کر اس روز زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے محسوس ہوا کہ ساز کے مہین تاروں کو بھی صنفِ نازک کے لحن عبودیت سے اکتساب ِ ترنم کا شرف حاصل ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ اپنے راگ کی مقناطیسی قوت سے پانی کی روانی کو مسخر کر کے منجمد کر دے۔ یا پھر یہ ہو کہ دریا کے عمق میں سونے والی جل پریاں خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر بشکل حباب آب رواں کی چادر سیماب پر ابھر آئیں اور اگر یہ بھی کافی نہ ہو تو کم از کم کششِ ثقل زمین کی طبقات سے نکل خود اس کے وجود محترم میں جذب ہو جائے تا کہ کائینات کا ہر ذرہ اس کو مرکز تصور کر کے فضا میں رقص کرتا ہوا ، اس کے فلک پیما قدموں میں آ گرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائی دورِ حیات کا بیشتر حصہ چچا زاد بہن جمیلہ کے ساتھ گزرا تھا مگر اس زمانہ میں نہ اس کے اعضاء کے اندر کچھ کشش و جاذبیت مستور تھی نہ میرے جسم میں ایک دوسری شے کی جانب کھچ نجانے کی صلاحیت، ہاں آٹھ سال کی طویل مدت کے بعد چچا پنشن لے کر کلکتہ واپس آئے تو اس کا رنگ ہی کچھ اور تھا۔ حسن کی صحیح کیفیات نہ آج تک شرمندہ ء الفاظ ہوئی ہین نہ ہو سکتی ہیں۔ اس لئے میں بھی یہ بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ اس کی وہ کون سی ادا تھی جس نے بیک نظر میرے دل کو موہ لیا۔ یہ سچ ہے کہ محبت کاتعلق نفس سے نہیں بلکہ صرف دل سےہے۔

صفحہ 57
مگر بیداری جذبات کے بغیر اس منزل میں گامزن ہو جانا غیر ممکن ہے۔
اس کی آنکھوں کی وحشت اور انداز جنوں سے ظاہر تھا کہ وہ کسی شے کی تلاش میں خود اپنی ہستی کو گم کر دینا چاہتی ہے۔ افق رُخ پر پھیل جانے والی شفق غمازی کر رہی تھی کہ اس کی رگوں میں دوڑنے والے خون کے اندر سیمابی کیفیت پیدا ہو چلی ہے۔ ہیجان تنفس سے سینہ کی سطح کا نشیب و فراز صاف بتا رہا تھا کہ اس کے مینائے شباب دوسری صنف کے ساتھ تبادلہ ء صہبا کے لئے بیتاب ہیں۔
پہلی ہی ملاقات میں اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ ایسی بیگانگی سے دیکھا گویا اس سے قبل آشنائی ہی نہیں تھی، مگر بیگانگی کی یہ ادا ہی ایک ایسی ادا ہے جو بسا اوقات ایک اسی شرح بسیط بن جاتی ہے اور تکلم خاموش سے وہ راز سنا دیا جاتا ہے جس کی سماعت صرف لبوں کے ذریعہ ممکن ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ سے میرا سب کچھ چھین کر لے گئی۔ مگر ایک ایسی شے دے گئی جو اس سے قبل میرے پاس نہیں تھی۔
غنیمت ہے کہ خود والد صاحب ہی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ میری شادی جمیلہ کے ساتھ ہو جائے تو بہتر ہے۔ چچا کے سامنے تجویز پیش کی گئی ، جو انھوں نے فوراً منظور کر لی۔ اور ہم دونوں نے عشق کے دیوتا کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ہماری داستانِ محبت کو ایک المیہ رومان میں تبدیل نہیں کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت زمانہ گزر گیا، پرسوں رات کا ذکر ہے کہ اظہر میرا پیارا پوتا میرے پاس آیا اور کہنے لگا
"دادا کوئی کہانی سناؤ۔"

صفحہ 58
مجھ میں ضعیفی کے سبب زیادہ دیر بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ اس لئے پہلے تو ٹال دینا چاہا مگر اس کے اصرار پر میں نے کہا
اچھا سنو! کوہ قاف کی پروں میں ایک پری تھی جس کا نام نیلم تھا ، ایک دن وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ سیر کو نکلی اور ہوا میں اڑتے اڑتے اپنے پرستان کی حد سے باہر نکل گئی۔ اچانک اس کی نظر نیچے زمین پر پڑی اور ایک شاہزادہ کو دیکھا جو جنگل میں شکار کھیل رہا تھا۔ پری نے پہلی مرتبہ انسان کی شکل دیکھی تھی۔ وہ اسے دیکھتے ہی عاشق ہو گئی اور اپنی سہیلیوں سے کہا
کسی طرح اس آدم زاد کو بیہوش کر کے میرے محل میں لے چلو، چنانچہ۔۔۔۔
یہاں تک کہ نیند آنے سے قبل کہانی ختم ہو گئی۔

صفحہ 59
غلط فہمی!
پندرہ سال کا طویل عرصہ ، قید با مشقت اور وہ بھی وطنِ مالوف سے کوسوں دور، ایک غیر مہذب جزیرہ میں جہاں غم خواری کے لئے نہ دوست احباب تھے ، نہ ہمدردی کے لئے عزیز و اقارب، پھر اس تمام دوران مین یہ حقیقت اس کے لئے سوہانِ روح بنی رہی کہ جس جرم کی پاداش میں اس کو جلا وطن کیا گیا وہ محض ایک الزام ہے۔ وہ بالکل بے قصور تھا۔ صرف واقعات نے ایسی صورت اختیار کی کہ عدالت اس کے خلاف فیصلہ کرنے کے لئے مجبور ہو گئی۔ قید و بند کی طویل مدت میں اس نے بارہا ارادہ کیا کہ خودکشی کرے۔ کیونکہ ایسی بد رنگ اور بے کیف زندگی سے مر جانا بہتر تھا، لیکن امید کی ایک ہلکی سی جھلک اس کو اپنے ارادوں سے باز رکھتی رہی۔ اسے یقین تھا کہ معّینہ وقت گزر جانے کے بعد وہ اپنے عزیز و اقارب میں جا ملے گا، مسلسل غمِ اندوہ نے اس کے خد و خال کو بالکل مضمحل کر دیا تھا۔ نا موافق آب و ہوا سے اس کی صحت بھی خراب ہو چکی تھی۔ بالوں کا سفید ہو جانا لازمی تھا۔ آنکھوں کی بصارت بھی کسی قدر کم ہو گئی تھی۔ دو چار دانت شکستہ ہو چکے تھے۔ کمزوری کا یہ عالم کہ قدم اٹھاتے ہوئے ٹانگیں لڑکھڑاتی تھیں۔

صفحہ 60
قید سے رہائی حاصل کرنے کے بعد وہ سیدھا اپنے وطن گیا۔ اسے گلی کوچے یاد تھے۔ اپنا مکان بھی یاد تھا۔ لیکن تلاش کرنے کی زحمت اٹھانی پڑی کیونکہ شہر کا نقشہ ہی بدل چکاتھا۔ بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔عمارتیں نئی شان کی تھیں۔بازاروں کی رونق بڑھ گئی تھی۔ کسی کسی گلی کا نام بھی تبدیل ہو چکا تھا۔ تاہم وہ دریافت کرتے کرتے منزلِ مقصود پر پہنچ گیا۔ سڑک پر کھڑے ہو کر اس نے اپنے مکان پر نگاہ ڈالی۔ دیواروں کی شکستگی اور دروازوں کی بوسیدگی میں اسے سینکڑوں افسانے پنہاں نظر ائے۔ اس نے زینہ کی سیڑھیوں کو دیکھا جس پر اپنے مضبوط قدم رکھ کر وہ ہزاروں بار اترا چڑھا تھا۔ لیکن آج اوپر جاتے ہوئے اس کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔اسے معلوم نہیں تھا کہ اب بھی اس کی شریکِ حیات اسی چار دیواری میں زندگی کے دن پورے کرتی ہے یا نہیں۔ وہ جھجک رہا تھا کہ کہیں غیر کا گھر نہ ہو۔
وہ کھڑا سوچتا رہا۔ آواز دے تو کس کو دے۔ وطن کو خیرباد کہتے وقت اس نے اپنی آرزوؤں کا ثمر صرف ایک شیر خوار لڑکی کی شکل میں چھوڑا تھا۔ چند راہگیروں سے کچھ دریافت بھی کیا مگر مطلب براری نہ ہو سکی۔ کسی نے ٹال دیا اور کسی نے غیر تسّلی بخش جواب دیا۔ مایوس ہو کر اسے کہیں اور چلے جانا چاہئیے تھا مگر ایک نا معلوم سی کشش اسے کھینچ رہی تھی۔ آکر وہ جرات کر کے زینہ زینہ چڑھ گیا۔ اس خیال سے کہ اگر جگہ غلط بھی ہوئی تو زیادہ سے زیادہ معافی مانگ لے گا۔ اس کی حالت قابلِ رحم تھی۔ کوئی سختی کے ساتھ اس سے باز پُرس نہ کرتا۔
اوپر کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔ وہ بے دھڑک اندر داخل ہو گیا۔ ایک تو مکروہ صورت اور پھر مداخلت بے جا۔ ہر شخص کو تھوڑی دیر کے واسطے خوفزدہ کر دینے کے لئے کافی ہے۔ اس نے دیکھا
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 61
ایک عورت سہم کر ایک مرد سے چمٹ گئی ہے۔ گھر میں تیسرا متنفس کوئی نہیں تھا۔ وہ زیادہ قریب پہنچ گیا اور خوب غور سے دیکھنے کے بعد پہچان لیا کہ عورت سوائے کملا کے کوئی نہیں۔ لیکن وہ حیران تھا کہ اس کے خدوخال میں فرق کیوں نہیں آیا۔ وہ اسی طرح شگفتہ و شاداب اور خرم و شاد تھی۔ عہدِ شباب کی رنگینیاں ابھی تک اس کے اعضاء سے نمایاں تھیں۔ برخلاف اس کے وہ خود بوڑھا ہو چکا تھا۔ اپنی بیوی کو ایک غیر شخص کے ساتھ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون اتر ایا۔ مگر انتقام لینے کی قوت اس کے اعضاء سے مفقود ہو چکی تھی۔ وہ خود لڑکھڑا کر گر پڑا۔
اس کی نگاہیں عورت پر جمی ہوئی تھیں اور وہ ایک فلسفی کی طرح گذشتہ واقعاتِ زندگی پر غور کرنے لگا۔وہ کملا کو الفت و محبت کی دیوی سمجھتا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ وہ تصنع سے کام لیتی تھی۔ عورت بہت زیادہ بے وفا ہوتی ہے۔ اور ہرجائی ہونا اس کی فطرت میں داخل ہے۔ بسا اوقات وہ اپنے جذبات کے سامنے مذہبی عقائد کی بھی قدرنہیں کرتی۔اسے تعجب ہو رہا تھا کہ ہندو دھرم کی پیرو ہوتے ہوئے اس نے کس طرح گوارا کر لیا کہ ایک شخص کی ہو جانے کے بعد پھر کسی دوسرے شخص کی ہو جائے۔
دل ہی دل میں اس کو برا بھلا کہتا رہا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اٹھ کر اس کے بال نوچ لے اور مارتے مارتے اس کا تمام جسم سوجا دے۔ وہ خود بھی پشیمان تھا کہ مسلسل پندہ برس مسموم فضا میں تکالیف برداشت کرنے کے بعد رہائی حاصل کی تو ایسی جگہ کیوں آیا جہاں اس کی روح کے لئے مزید سامانِ رنج و الم موجود تھا۔
اس پر بے ہوشی طاری ہونے لگی۔
عورت نے اپنے ساتھی سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا " یہ کوئی بدمعاش ہے یا نشہ کی

صفحہ 62
حالت میں ہے اسے باہر نکال دو۔"
مرد نے جواب دیا " نہیں کچھ بیمار معلوم ہوتا ہے ہمیں سخت دل نہیں بننا چاہئیے۔ " اور یہ کہہ کر وہ بڈھے کی طرف چلا تا کہ اسے ہوش میں لائے۔
کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں کھول دیں اور غصہ کے ساتھ اسے گھورتے ہوئے کہا " مجھے پہچان میں کون ہوں۔ بے وفا عورت تو اتنی جلدی بھول گئی ۔ دیکھ میں تیرا شوہر ہوں۔"
عورت نے حیرت و استعجاب میں کہا۔ شوہر؟ نہیں بالکل غلط۔ میں نہیں جانتی کہ تم کون ہو۔ میں نے اس سے پہلے تم کو کبھی نہیں دیکھا۔
بوڑھے کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا
اچھا تو بتا اگر تو کملا نہیں ہے تو کون ہے؟
"کملا، کملا۔ نہیں میں کملا نہیں ہوں۔ لیکن تم کون ہو جلدی بتاؤ۔ کیا تم قیدی تھے؟ پندرہ برس کے بعد آئے ہو؟"
ہاں۔ پندرہ برس بعد۔ آخر کار تم نے مجھے پہچان لیا۔ اب سے پندرہ برس پہلے یہ مکان میرا تھا۔ یہاں کی ہر چیز میری ملکیت تھی۔ میرا ہر حکم یہاں ایک اٹل قانون تھا۔میں یہاں کے در و دیوار سے مانوس ہوں۔ سامنے کے برامدہ میں مَیں ہر صبح گیتا پڑھتا تھا۔ اور تم قریب بیٹھ کر سنتی تھیں۔ اسی کمرے کے اندر میں نے اور تم نے پریم کا پہلا گیت گایا۔ اور آج تم مجھ سے ناواقفیت کا اظہار کر رہی ہو۔ میری ایک چھوٹی بچی تھی، بتاؤ کملا وہ کہاں ہے؟

صفحہ 63
اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ دوڑ کر بوڑھے سے لپٹ گئی
پتا جی! ۔۔ میرے پتا جی، وہ چھوٹی بچی میں خود ہوں۔
وہ کملا نہیں تھی۔ کملا اس کی ماں کا نام تھا جو مر چکی تھی۔ دونوں کے خد و خال میں بے حد مشابہت تھی۔ یکساں آنکھ، ناک، ہونٹ اور تمام چہرہ ایک دوسرے سے ملتا جلتا تھا۔ سرِ مو فرق نہیں تھا۔ رہا عمر کا سوال، سو بصارت کے ساتھ بوڑھے کی قوتِ امتیاز میں بھی کچھ فرق آ گیا تھا۔ کملا کو وہ شباب کے عالم میں چھوڑ گیا تھا۔ وہی صورت اس کی آنکھوں میں پھر رہی تھی۔ اس لئے اگر وہ ہر نوجوان خوبصورت عورت کو کملا کہہ اٹھتا تو کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس طویل عرصہ میں بیٹی نے ماں کی جگہ لے لی ہو گی۔
آخرکار بوڑھے نے اطمینان کے ساتھ تین سسکیاں لیتے ہوئے اپنی بیٹی کی آغوش میں جان دے دی۔ اس بیٹی کی آغوش میں جس کو چند لمحے پیشتر خود اپنی شریکِ حیات سمجھ رہا تھا۔ اور برہم تھا کہ وہ ایک غیر شخص کے ساتھ کیوں زندگی بسر کر رہی ہے۔ حالانکہ وہ غیر شخص نہیں، اس کا شوہر تھا۔

صفحہ 64
بازی گر
رالفو۔۔۔ مصری بازی گر۔۔ کا نام ہر شخص کی زبان پر تھا۔ تمام شہر میں اس کے کمالات کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ضعیف الاعتقاد لوگ تو اس کے بعض کرتبوں کو معجزات سے تعبیر کرنے لگے تھے۔ عقل میں نہ آنے والی باتیں ہمیشہ تحیر خیز ثابت ہوتی ہیں۔ اور یقیناً کمال اسی چیز کا نام ہے کہ ایک مرتبہ اصحاب عقل و دانش بھی اپنے دل سے یہ سوال کرنے کے لئے مجبور ہو جائیں
کہ" ایسا ہونا ممکن ہے؟ " بعض نقادوں کی رائے تھی کہ وہ علمِ تنویم کا ماہر ہے۔ اور محض اپنی قوتِ مقناطیسی سے کام لے کر ناظرین کے احساسات کو عارضی طور پر مسحور کر دیتا ہے۔اس طرح کہ ہر شخص کو وہی چیز نظر آتی ہے اور وہی آواز سنائی دیتی ہے جس کا تصور وہ خود اپنے ذہن میں کر لے۔ بہرحال حقیقت کچھ بھی ہو مگر یہ واقعہ ہے کہ گذشتہ ہفتہ کی رات میں اور کرشن بھی دم بخود رہ گئے۔
ہم دونوں دوست جب تماشہ گاہ میں داخل ہوئے تو اسٹیج کے سامنے رنگین پردہ آویزاں تھا۔ کیونکہ وقتِ معیّنہ میں ابھی چند منٹ باقی تھے۔ تمام نشستیں بھر چکی تھیں۔ اور کہیں تل رکھنے کو جگہ باقی نہ رہی تھی۔ پھر بھی شائقین کا سلسلہ کسی طرح ختم نہ ہوتا تھا۔ ٹھیک ساڑھے نو بجے

صفحہ 65
موسیقی کی ایک دلنواز لے کے ساتھ پردہ اٹھا ۔ بوڑھا رالفو اپنے مخصوص لباس میں نقرئی اور طلائی تمغے آویزاں کئے ہماری نظر کے سامنے تھا۔ مختصر الفاظ میں اس نے تمام ناظرین کی تشریف آوری کا بہت شکریہ ادا کیا اور اس رات کا لائحہ عمل بتا کر پسِ پردہ چلا گیا۔
دوسرا پردہ اٹھا اور اس کے کمالات کی نمائش شروع ہو گئی۔تمام کام وہ خود کرتا تھا۔ صرف دو خواتین معمولی معاونین کی حیثیت سے شریک عمل تھیں۔ ہر کھیل کے بعد ایک منٹ کے لئے پردہ گرتا اور پھر اٹھ جاتا۔پہلا شعبدہ ختم ہو جانے کے بعد ہم نے رائے قائم کی کہ شاید یہ اس کی بازی گری کا شاہکار ہے۔ مگر ہمیشہ دوسرے شعبدہ نے ہماری توقع کو بدل دیا۔
تمام فضا خاموش تھی اور ہر شخص پر ایک سکوت طاری تھا۔
تفصیل اگرچہ خالی از دلچسپی نہیں مگر دقت طلب ضرور ہے۔ تاہم آخری شعبدہ کو جو بلاشبہ شاہکار کا درجہ رکھتا ہے نظر انداز کر دینا نا ممکن ہے۔ اس شعبدہ کو " نقاب پوش نشانہ باز" کے نام سے موسوم کیا جائے تو بہتر ہے۔ اس قسم کے کھیل سینکڑوں مرتبہ مشاہدے میں آئے مگر اس قدر مہارت کے ساتھ کبھی دیکھنے نصیب نہیں ہوئے۔کرشن تو اس قدر متاثر ہوا کہ انتہائے استعجاب کے باعث دیر تک اس کی زبان کو جنبش نہ ہو سکی۔
پردہ اٹھنے پر ہم نے دیکھا کہ لکڑی کا ایک قدِ آدم تختہ سیدھا کھڑا ہے اور اس کے بالکل قریب ایک خاتون دونوں ہاتھوں کو افقی حالت میں پھیلائے کھڑی مسکرا رہی ہو۔ ایک دوسری خاتون نے اسٹیج پر آ کر رالفو کی آنکھوں پر موم جامہ کی پٹیاں اس کثرت سے لپیٹ دیں کہ دکھائی دینے کا کوئی امکان نہ رہا۔ پھر اس بازی گر نےکمر میں کسی ہوئی پیٹی میں سے چھریاں نکالیں اور تختہ کی طرف رُخ کئے بغیر
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 66
نشانے مارنے شروع کئے۔ ہر بار چھری ایک مخصوص جگہ لگتی اور نرم تختے میں پیوست ہو جاتی۔ حتٰی کہ اس خاتون کا سر ان کے درمیان محصور ہو گیا۔ اس تمام دوران میں اس نے ایک دفعہ بھی تختے کی طرف اپنے چہرے کا رُخ نہیں کیا۔ اور نہ ایک جگہ ساکن رہا بلکہ ادھر ادھر ٹہل کر چھریاں پھینکتا رہا۔ اس کے بعد ایک دوسری عورت نے آ کر ان موم بتیوں کو روشن کر دیا جو ایستادہ خاتون کے جسم سے بالکل قریب تختے کے چاروں طرف ترتیب سے لگی ہوئی تھیں۔ بازی گر نے پستول نکالا اور بدستور اپنی شان استغنا کے ساتھ کلائی کو نصف دائرے کی شکل میں گھماتے ہوئے فائر کرنے شروع کر دئیے۔ پستول کی ہر آواز کے ساتھ ایک بتی گُل ہو جاتی۔ یہاں تک کہ ایک بھی باقی نہ رہی۔
پردہ گر گیا۔
اختتام سے قبل رالفو نے دوبارہ منظرِ عام پر آ کر محض سر کی ایک خفیف جنبش سے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن کرشن نے کہا کہ تماشہ ایک بار پھر دیکھا جائے۔ اور ساتھ ہی مُصر ہوا کہ وقتِ معیّنہ سے ایک گھنٹہ قبل چل کر اس بوڑھے بازی گر سے ملاقات بھی کی جائے۔ میرا بھی دل للچایا کہ ایسے شخص سے ضرور گفتگو کرنی چاہئیے۔ لہٰذا ہم دونوں بہت پہلے تھیٹر پہنچ گئے کیانکہ رالفو اسی جگہ ایک کوٹھی میں مقیم تھا۔
ملازم کے ہاتھ کارڈ اندر بھیجے گئے جس کے جواب میں ہم کو اندر طلب کر لیا گیا۔ ہمارے داخل ہونے پر رالفو نے کرسی پر سے اٹھ کر استقبال کیا۔ اور کرسیاں پیش کیں۔

صفحہ 67
کرشن نے بیٹھتے ہوئے کہا
میں آپ کے کمالات کی خوبیوں کو شرمندہء الفاظ کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ گذشتہ رات ہم دونوں موجود تھے۔ اور آپ نے محسوس کر لیا ہو گا کہ ہال کی فضا کا سکوت اور حاضرین کا استعجاب کیا معنی رکھتا تھا۔ فن کی صحیح تعریف کرنا ارباب فن کا حصہ ہے۔ عام لوگ محض اظہارِ پسندیدگی کر سکتے ہیں۔ آپ کی شریک کار خاتون بھی ہر لحاظ سے تعریف کی مستحق ہے۔ ایک خطرناک ماحول میں کھڑے ہو کر مسکرانا بڑے دل و جگر کا کام ہے۔ کیونکہ بازی گر کو کتنی ہی مہارت ہو جائے مگر یہ امر قرین قیاس ہے کہ ہاتھ کی خفیف لغزش معمول کی زندگی کو ختم کر دے۔
رالفو خاموش تھا۔ اور اس کے چہرے سے حزن و ملال کے آثار ہویدا تھے۔ کرشن کی بات ختم ہونے پر اس نے کہا۔
آپ نے جس قدر تعریف و توصیف کی وہ جناب کا حسنِ ظن ہے۔میں اس کا مستحق نہیں ہوں۔ بہر حال اس عزت افزائی کا شکریہ۔ اب جبکہ آپ اظہارِ ہمدردی کر رہے ہیں تو میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے دل کی درد بھری داستان آپ کے گوش گذار کر دوں تا کہ ان آلام کو بوجھ کسی حد تک کم ہو جائے جو عرصہ ء دراز سے میری روح پر مسلط ہیں۔ زندگی میں پہلی بار میرا یہ راز آپ پر منکشف ہو گا لیکن بالکل رازدارانہ طریقے پر۔ آپ سے استدعا ہے کہ اسکو اپنے ہی تک محدود رکھیں۔ آپ کو اور شاید کسی کو بھی یہ علم نہیں ہے کہ وہ خاتون جو تختے کے قریب کھڑی ہوتی ہے خود میری شریک حیات ہے۔ اور میں یہ کھیل صرف اس کی جان لینے کی غرض سے کرتا ہوں لیکن آج تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ قصہ بہت طویل ہے۔ میں مختصراً عرض کروں گا۔ آج سے پانچ سال قبل میں ایک عظیم الشان سرکس کا مالک تھا،

صفحہ 68
سینکڑوں کھلاڑی ملازم تھے۔ ہم شہر در شہر ملک بہ ملک اپنے کمالات دکھا کر دولت جمع کرتے پھرتے تھے۔ پانچ سال ہوئے فرانس میں ہمارا قیام تھا۔ ایک روز حسب معمول کھیل سے فارغ ہو کر تبدیل لباس کی غرض سے کمرے میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا۔۔۔ اُف۔۔ کس زبان سے کن الفاظ میں کہوں۔ میں نے دیکھا کہ میری بیوی ایک غیر شخص کے ساتھ ہم آغوش ہے۔ چونکہ میں یہ چاہتا تھا کہ ان کو اس امر کی خبر نہ ہو کہ میں ان کی پوشیدہ سیاہ کاری سے واقف ہو گیا ہوں۔ اس لئے فوراً الٹے پاؤں باہر آ گیا ۔ مگر معلوم نہیں کہ کسی طرح میری بیوی کو اس کا علم ہو گیا، تاہم وہ خائف نہیں ہوئی۔ وہ ہمیشہ سے دلیر ہے۔ اور کسی بات کو مطلق اہمیت نہیں دیتی۔ میں نے اس روز سے آج تک اس کے سامنے اس موضوع پر گفتگو نہیں کی۔ اور نہ اپنے طرزِ عمل میں کسی قسم کی تبدیلی کی۔ البتہ ایک زبردست مگر خاموش انتقام کی تیاری شروع کر دی۔ میں نے اپنی بڑھی ہوئی شہرت کو خاک میں ملا دیا ۔ تمام کھلاڑیوں کو برطرف کر کے سرکس کے شیرازے کو بکھیر دیا۔ اب ہم صرف تین آدمی، میں ، میری بیوی اور ایک قابل اعتماد ملازمہ۔ تمام کھیل پیش کرتے تھے۔ اس سانحے سے قبل ایک جاپانی خاتون تختے کے سامنے کھڑے ہو کر اس خدمت کو انجام دیتی تھی۔ جو اب میری بیوی کے ذمہ ہے۔ میں اس روز سے کوشش کر رہا ہوں کہ اپنی بیوفا رفیقہ کو کھیل کے دوران میں تماش بین حضرات کی نگاہ کے سامنے منظرِ عوام پر ہلاک کر کے جذبہ ء انتقام کو سرد کر لوں۔ میں صد ہا ذرائع سے اس کی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہوں۔ مگر یہ مجھے منظور نہیں۔ صرف یہی طریقہ پسند ہے۔ تعجب ہے کہ مصمم ارادہ کر لینے کے باواجود آج تک مجھ سے یہ غلطی سرزد نہ ہو سکی۔ میں دانستہ طور پر اپنے ہاتھوں کو خلافِ اصول گھما کر چھری پھینکنے اور غیر معیّنہ اوقات میں پستول کی لبلبی دبانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر بے سود۔

صفحہ 69
کہنہ مشقی کے باعث میرے تمام اعضاء لوہے کی مشین کی طرح بے خطا کام کرتے ہیں۔ میری دیرینہ مہارت اس درجہ کمال تک پہنچ گئی ہے جب عامل سے لغزش ہونے کا امکان باقی نہیں رہتا۔ شاید آپ یقین نہ کریں گے کہ ایک دن جان بوجھ کر میں نے اپنا ہاتھ جلا لیا۔ محض اس خیال سے کہ شاید اس کی سوزش و تکلیف سے غلطی کرنے کا موقعہ مل جائے۔ ایک دن سخت بخار کی حالت میں مَیں نے اپنا کھیل جاری رکھا مگر افسوس ہے کہ میں اپنے ارادے میں ہنوز کامیاب نہ ہو سکا۔ غلطی کرنا اب میرے لئے قطعی نا ممکن ہو گیا ہے۔ میری ا س کمزوری کو میری بیوی خوب سمجھتی ہے اور دل ہی دل میں خوش ہوتی ہے کہ مجھے اپنے اعضاء پر قدرت حاصل نہیں۔ آپ نے بجا ارشاد فرمایا ہے کہ ایک خطرناک ماحول میں کھڑے ہو کر مسکرانا بڑے دل و جگر کا کام ہے۔ لیکن وہ صرف آپ کے نزدیک خطرناک ہے۔ میری بیوی اس کو بچوں کا کھیل تصور کرتی ہے۔ اس کا تبسم بھی مصنوعی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ کوئی شخص ایک ہی کیفیت کے ماتحت ایک لمحے سے زیادہ نہیں مسکرا سکتا، اس کے تبسم میں ایک طنز پنہاں ہے۔ جو میرے لئے سوہانِ روح ہے۔ میں غم و الم کی زندگی بسر کر کے خود اپنی ہستی کو تباہ و برباد کر رہا ہوں۔ درآنحالیکہ اس بے وفا کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ کیا آپ دونوں میں سے کوئی صاحب ایسی تدبیر بتا سکتے ہیں جس پر عمل کرنے سے میری مہارت کو ترقی معکوس حاصل ہو سکے۔ میرا فن انحطاط کے تمام مدارج طے کر کے ایسے نقطے پر آ جائے ، جہاں سوائے لغزش کے کچھ نہیں ہوتا۔
خدا آپ پر رحم کرے۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ بہتر ہے کہ آپ اس ارادے ہی کو اپنے دل سے ترک کر دیں۔ اتنی طویل مدت میں تو آتش انتقام ویسے بھی سرد پڑ جانی چاہئیے تھی۔

صفحہ 70
بے شک، اس نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔ یہ ایک نظریہ ہے کہ اسے سرد پڑ جانا چاہئیے تھا لیکن عملی دنیا میں اگر ایسا نہ ہو تب؟؟؟
میرے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔
کرشن نے کچھ دیر سکوت کے بعد کہا۔
اچھا۔ آپ اپنی شریک حیات سے چند لمحے ملاقات کرنے کا موقع دیجئیے، ممکن ہے اس کو دیکھ کر ہم کوئی مفید مطلب مشورہ دے سکیں۔
رالفو نے کچھ ایسے انداز سے آمادگی ظاہر کی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ خود اس چیز کا آرزومند تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں ایک دروازے کے قریب بلا کر کہا۔
دیکھئیے! اسٹیج کے عقبی حصہ میں اس وقت بھی وہ اسی انداز سے کھڑی ہے۔ اس کا معمول ہے کہ کھیل شروع ہونے سے قبل وہ اپنے مخصوص طرزِ عمل کی مشق دہرا لیتی ہے۔ تا کہ کھڑے ہونے میں خود اس سے غلطی نہ ہو جائے۔
پھر اس نے اپنی بیوی سے مخاطب ہوکر کہا
زنوبیہ دو شریف آدمی تم سے نیاز حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ چند لمحے کے لئے یہاں آ جاؤ۔ اس کا رخ ہماری طرف تھا۔ وہ اسی بے پناہ شان استغنا کے ساتھ اپنے نقرئی بازوؤں کو افقی حالت میں پھیلائے مسکراتی رہی۔ اور ایک قدم بھی آگے نہ بڑھایا۔
یکایک میرا دوست ایک قدم آگے بڑھا اور پھر فوراً ہی پیچھے ہٹ کر پُر غضب نگاہوں سے بازی گر کو گھورتے ہوئے کہنے لگا۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 71
تم مکار ہو۔ تم نے ایک گھنٹے تک اپنے فرضی افسانے سے ہمیں دھوکے میں رکھا۔ دیکھو تمہاری بیوی کے دائیں پاؤں پر ایک چھوٹا سا سانپ چڑھ رہا ہے۔ اور اسے خبر نہیں۔ علاوہ ازیں کھڑکیوں سے آنے والی ہوا کے باعث دروازوں کے پردے، چھت گیری کا کاغذ اور گلدستہ کی پتیاں وغیرہ جنبش میں ہیں۔ مگر تمہاری بیوی کا ملبوس حرکت نہیں کرتا۔ یقیناً وہ کوئی زندہ عورت نہیں ہے۔ بلکہ مجسمہ ء غیر زی حیات ہے۔
رالفو کے چہرے کا حزن و ملال فوراًمسرت و انبساط میں تبدیل ہو گیا ا، اس نے کہا
آخرکار آپ حقیقت کی تہہ کو پہنچ گئے۔ اچھا! آج رات آپ دونوں اسٹیج کے ایک پوشیدہ مقام پر بیٹھ کر ہمارےکمالات دیکھیں ۔آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہر چیز میں حقیقت کا شائبہ کس قدر کم ہے۔ اور جس چیز کو آپ کمال فن سمجھتے ہیں وہ فریبِ نظر کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن آپ یہ راز کسی پر ظاہر نہ کریں ورنہ ہماری شہرت خاک میں مل جائے گی۔ میری بیوی کے متعلق آپ نے جو کچھ سنا ہے وہ محض افسانہ ہے جو میرے دماغ نے عین اسی وقت تخلیق کیا تھا ۔ میں آپ کو مغالطہ میں مبتلا کر کے ُ کے استعجاب کو بڑھانا چاہتا تھا تا کہ آج رات جب آپ دوبارہ تماشہ دیکھیں تو ایک دوسری نوع کے اثرات آپ پر طاری ہو جائیں۔

صفحہ 72
سکون کی جستجو
گلفام کی بابت سب کو یقین ہو چلا تھا کہ اب اس کی زندگی کے دن پورے ہو گئے ہیں اور اس دنیا میں وہ صف چند دن کا مہمان ہے۔ اصطبل میں تھانے کے سامنے لیٹے لیٹے اس کو کامل ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ مالک بھی اس کی خراب حالت کو دیکھتے دیکھتے تنگ آ گیاتھا۔ کئی بار اس نے ارادہ کیا کہ گولی کا نشانہ بنا کر اس کو ختم کرد ے مگر دیرینہ رفاقت کا احساس اسے ہر مرتبہ باز رکھتا تھا۔ وہ روز اس خیال سے خاموش ہو جاتا کہ آج نہیں تو کل ضرور مر جائے گا۔ مرتے ہوئے کو مارنے سے کیا فائدہ؟
اس کی چاروں ٹانگیں بیکار ہو چکی تھیں، رانوں تک کا گوشت سڑ چکا تھا،جب ان میں کیڑے کلبلاتے تو درد کی شدت سے وہ بھیانک آواز میں ہنہنانے لگتا۔ اکثر رات کے وقت اس کے کراہنے کی آواز سے سوتے ہوئے لوگوں کی نیند خراب ہو جاتی۔ مالک جھنجھلا کر پستول لے کے اٹھتا مگر طویلہ تک جا کر رہ جاتا۔ اسے اندر جاتے ہوئے بھی کراہت معلوم ہوتی تھی۔وہاں کی تمام فضا زخموں کی عُفُونت سے نا قابل برداشت ہو گئی تھی۔ وہ صرف جھانک کر دیکھتا اور واپس لوٹ آتا۔دل ہی

صفحہ 73
دل میں وہ رائے قائم کرتا کہ کل صبح تک ضرور مر جائے گا۔
گھر کے پلے ہوئے شکاری کتے اس کے پاس آتے، زخموں کو سونگھتے اور ان پر پیشاب کر کے غریب بے زبان جانور کو تکلیف پہنچا جاتے۔کبھی کبھی بکرے کے سینگ بھی اس پر عملِ جراحی کی مشق کرتے مگر وہ انتقام لینے سے قاصر رہتا۔رات کے وقت چوہے نکل کر اس کے کان کاٹتے ، گردن پر چڑھتے۔ مگر اس میں اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ دم ہلا کر انھیں بھگا دیتا۔وہ خاموش لیٹا ہوا اپنی زندگی کی گھڑیاں پوری کرتا رہتا۔ مہترانی بھی اس جگہ کو صاف کرتے وقت ناک بھوں چڑھاتی، وہ کوستی کہ یہ کمبخت مر کیوں نہیں جاتا کہ پاپ کٹے ۔ وہ لید اٹھانے سے پہلے ایک لات اس کی پیٹھ پر جڑ دیتی۔ دوسرے گھوڑوں سے بچی ہوئی گھاس اسے کھانے کے لئے ملتی تھی۔ اور وہ بھی بہت قلیل مقدار میں۔ وہ اسے بھی نہ کھا سکتا تھا۔ طویل بیماری سے اس کی بھوک پیاس بند ہو گئی تھی۔
اس کے لئے تمام دنیا ایک اصطبل تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ ایک ہی حالت میں لیٹے لیٹے جب اعضاء تھک جاتے اور بدن میں شدید درد ہونے لگتا تو وہ کوشش کر کے زیادہ سے زیادہ کروٹ بدل لیتا تا کہ عارضی طورپر کچھ سکون حاصل ہو جائےاور بس، قرب و جوار کے شریر بچے دور کھڑے ہو کر اسے پتھر اور مٹی کے ڈھیلے مارتے۔ بعض بے رحم لڑکے پچکاریوں میں سرد پانی بھر بھر کر اس کی طرف پھینکت جس سے اس کے زخموں میں مرچیں سی لگنے لگتیں۔ وہ درد بھری آواز سے ہنہناتا اور خاموش ہو جاتا۔بچے خوش ہو کر تالیاں بجاتے اور ہنستے ہوئے چلے جاتے۔ اس کی بے بسی کی حالت پر کسی کو رحم نہ آتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم سرما کی ایک رات تھی، نصف سے زیادہ حصہ گزر چکا تھا۔ اس کے زخموں کی تکلیف حد سے


صفحہ 74
زیادہ بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ ااس کے دل میں مصائب و آلام کے خلاف جہاد کرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ اپنی تمام پس ماندہ قوتوں کو جمع کر کے اس نے آخری کوشش کی اور کھڑے ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ کھڑا ہو گیا مگر اس کی ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔جسم کا ایک ایک حصہ بید کی کانپ رہا تھا۔ اس کا بھاری جسم ان نحیف ٹانگوں کے لئے ایک بارِ گراں تھا مگر پوری ہمت سے کام لے کر اس نے بمشکل توازن کا قائم رکھا۔
سب سے پہلے اس کی نظر ناند پر پڑی جس میں کئی دن کی سوکھی ہوئی گھاس کا تھوڑا سا ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ اس کے سینہ پر سانپ سا لوٹ گیا۔ جب اس نے خیال کیا کہ مالک اب اس کی خوراک کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ اس کے سامنے وہ منظر آ گیا جب گھوڑ دوڑ کے میدان میں پہلی بار وہ اول نمبر آیا تھا۔ واپسی کے وقت ایک عروسِ نو کی طرح اس کی گردن پھولوں کے گجروں سے لدی ہوئی تھی۔ اس روز خود مالک نے اپنے ہاتھوں سے اس کی مالش کی تھی۔ اور کئی روز تک صبح و شام بالٹی بھر کر دودھ جلیبیاں اسے کھلائی گئی تھیں۔ اس نے تھوڑی دیر کے لئے خیال کیا کہ انسان بہت قدر شناس اور خود غرض ہے۔ وہ پھولوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد انھیں مسل کر پھینک دیتا ہے۔ مگر جلد ہی اس نے اپنی رائے تبدیل کر لی کہ شاید اس مخلوق کا دستور یہی ہو کہ ہر چیز کو برت لینے کے بعد نظر سے گرا دیا جائے۔
پھر ا سکی نگاہ لکڑی کے کھونٹے پر پڑی۔ جس کے ساتھ کبھی آہنی زنجیروں کے ذریعے اس کو باندھا جاتا تھا۔ مگر اب وہاں سن کی معمولی رسی بھی نہیں تھی کیونکہ کسی شخص کو یہ گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ گلفام میں چپکے سے بھاگ جانے کی ہمت ہے۔ اپنی اس بے بسی کی حالت پر اس کے آنسو نکل پڑے۔

صفحہ 75
اتنے ہی میں ایک چوہے نے بل سے سر نکال کر اپنے تیز دانت دکھائے گویا وہ اسے کاٹ کھانے کی دھمکی دے رہا ہو۔ گلفام نے چاہا کہ سُم کی ایک ضرب سے اس چھوٹے سے جانور کی ہڈی پسلی ایک کر دے۔ مگر فوراً رک گیا کہ مبادا اس کشمش میں جسمانی توازن بگڑ جائے اور اسی جگہ گر پڑے جہاں کئی دن سے بے یار و مدد گار پڑا تھا۔اس نے آخری بار اس چاردیواری پر حسرت کی نگاہ ڈالی جس کے اندر زندگی کا بیشتر حصہ گزرا تھا۔ اور لرزتے ہوئے پاؤں کو جنبش دے کر چلنے لگا۔ اس کے دونوں کولھے نجاست میں لتھڑے ہوئے تھے۔ اور جگہ جگہ جسم پر مٹی جم کر خشک ہو گئی تھی۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
طویلہ سے نکل کر وہ سائیس کی کوٹھری کے قریب سے گزرا جو دروازے بند کئے دنیا و مافیہا سے بے خبر گہری نیند سو رہا تھا۔ وہ رُک کر ہنہنایا گویاا پنے ان داتا کو آخری بار الوداع کہہ رہا ہے۔ اسے یقین تھا کہ اب میں زندہ واپس نہیں آؤں گا۔
اس نے آسمان کی طرف آنکھیں اٹھا کر دیکھا۔ چاند اپنے پورے شباب پر تھا۔ ستارے جگمگا رہے تھے۔ موسم سرما میں چلنے والی کے جھونکے اعضاء کو مفلوج کر دینے کی حد تک سرد تھے۔ یقیناً اس کا جسم ٹھٹھر کر رہ جاتا اگر زندہ رہنے کی آخری کشمکش کے جوش نے اس کے اندر حرارت نہ پیدا کر دی ہوتی۔ چاندنی رات میں اس سنسان مقام پر کھڑے ہو کر اس نے تصور کی آنکھ سے اپنے عہد شباب کو دیکھا۔ ایک دن وہ جوان تھا اور چست و چالاک۔ اس کی رگوں میں تازہ خون دوڑتا تھا۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 76
اس کے جسم میں مسرت کی لہر دوڑ گئی مگر سریع الزوال۔ چار ہی قدم چلنے سے اس کا سانس پھولنا شروع ہو گیا تھا۔ وہ باغیچہ میں سے گزرا۔ جہاں اس کے مالک نے مختلف الالوان پھولوں کے پودے لگا رکھے تھے۔ اس نے چاہا کہ اپنے سُموں سے سب کو روند کر فنا کر دے اور اس طرح اپنے جوشِ انتقام کو سرد کر لے۔
مگر کیا فائدہ؟
اس سوال کے پیدا ہوتے ہی اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باغیچہ کے ایک کونے میں مالی کی کٹیا تھی۔ وہ رک گیا اور پھونس کی دیوار کے قریب اپنی آنکھ لگا کر ایک روزن سے جھانکا۔ بوڑھا بے خبر سو رہا تھا۔ اس نے ارادہ کیاکہ اسے بیدار کر کے کہے۔
اے پندرہ روپے کے ملازم! اب تو مجھے ہری گھاس نہیں دیتا۔ مالک سے تیری شکایت کروں گا۔
مگر خود اسی کے قلب سے ایک درد بھری صدا نکلی۔
اے بے وقوف خود تیرا مالک تیری فکر نہیں کرتا۔ اسے تیری پرواہ نہیں۔ وہ تو چاہتا ہے کہ تو کل کا مرتا آج ہی مر جائے۔ وہ تیری فریاد کو کن کانوں سے سُنے گا؟
چند قدم چلنے کے بعد باغیچہ کی حد ختم ہو گئی۔ خاردار تاروں کی باڑھ لگی ہوئی تھی۔ وہ رُک گیا۔ تار زیادہ اونچے نہیں تھے۔ مشکل سے ڈیڑھ فٹ ہوں گے، کھیل کے میدان میں وہ چار چار فٹ

صفحہ 77
بلند جنگلے پر سے بآسانی چھلانگ مارتا جاتا تھا۔ مگر اب ٹانگوں میں سکت باقی نہیں رہی تھی۔ چھلانگ مارنا تو درکنا رستہ چلنا بھی دوبھر تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر جسم کمزور کیوں ہو جاتا ہے؟ بدن کی طاقت کہاں چلی جاتی ہے؟ مگر یہ ایک مشکل مسئلہ تھا جس کو سمجھنے کے لئے اس کی عقل حیوانی قاصر تھی۔
اس نے مناسب نہ سمجھا کہ ایک ہی جگہ زیادہ دیر تک کھڑا رہے۔ اس خیال سے کہ کہیں جسم کی تھوڑی بہت گرمی زائل ہو کر سردی کا احساس نہ پید اکر دے۔ وہ پھر چل پڑا۔ حالانکہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی کمزور ٹانگیں اسے کہاں لئے جا رہی ہیں۔ کوئی منزلِ مقصود اس کی نظر کے سامنے نہیں تھی۔ وہ کاروان سے الگ ہو کر بھٹکنے والے مسافر کی طرح تھا جس کا ہر قدم لا علمی میں کبھی منزل کی طرف اٹھ جاتا ہے اور کبھی منزل سے دور۔
وہ جنگلے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا کہ شاید کہیں یہ سلسلہ ختم ہو جائے۔ یا ایسا مقام آ جائے جس کو عبور کرلینا اس کے امکان میں ہو۔ وہ چلا جا رہا تھا اور بے خبر تھا کہ کائناتِ عالم کا ہر ذرہ اس کے تاثراتِ قلب کا دقیق مطالعہ کر کے اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو جانا چاہتا ہے۔ اس نے محسوس کیا کہ ہر شے کا غیر مرئی دل جذباتِ ہمدردی سے مغلوب ہو کر اس کے لئے دھڑک رہا ہے۔
اتفاقاً ایک جگہ تار ٹوٹ جانے سے باڑھ میں ایسی جگہ بن گئی تھی جہاں سے گزر کر باغیچہ سے نکل جانا اس کے لئے آسان تھا۔وہ خوش ہوا کہ اب آزادی کی فضا میں پہنچ کر سانس لوں گا مگر عین اس وقت بنگلہ کی طرف سے کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ وہ سہم کر کھڑا ہو گیا۔افشائے راز کے خوف سے اس کا تمام جسم لرزنے لگا۔ اس نے زمین کی طرف دیکھا جس کی سطح پر پڑنے والا سایہ بھی کانپ رہا تھا۔پھر اس کی نگاہ آسمان کی طرف اٹھی۔ چاند پوری طرح روشنی پھیلا رہا

صفحہ 78
تھا۔ اس نے آرزو کی کہ کاش آج کے دن یہ قندیلِ فلک گُل ہو جاتی تو بہتر تھا۔ مگر کسی کی آرزو کے مطابق نوامیسِ قدرت میں تغیر نہیں ہوتا۔ اس کے قوانین اٹل ہیں۔ اسے یقین ہو گیا کہ کتے کی آواز سے تمام چوکیدار بیدار ہو جائیں گے اور سمجھیں گے کہ کوئی چور بنگلہ کی حدود میں گھس آیا ہے۔ بیشک وہ چور بھی تھا۔ کم از کم اس کا دل چور تھا۔
اس نے اپنے ضمیر کی آواز صاف طور پر سنی۔ وہ چوروں کی طرح دبے پاؤں اپنے مالک کے گھر سے فرار ہو رہا تھا۔ لازمی بات تھی کہ چاند کی روشنی میں چوکیدار اس کو باڑھ کے قریب کھڑا دیکھ لیں گے اور پکڑ کر واپس لے جائیں گے۔ تیز دوڑ جانے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔ اس نے گذشتہ واقعات پر غور کر کے سوچا کہ کیا دوبارہ اسی مسموم فضا میں زندگی بسر کرنی پڑے گی۔ جہاں رہتے رہتے اس کی طبیعت اکتا چکی ہے۔۔۔۔ پھر وہی زندگی۔۔۔ جس سے مر جانا بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے بنگلے کی طرف دیکھا، کوئی چیز سایہ کی طرح تھرک رہی تھی۔ایک چوکیدار بیدار ہو چکا تھا۔ اس نے اچھی طرح پہچان لیا۔ یکایک روشنی نمودار ہوئی۔ اور اس کی شعاع سب طرف چکر لگا کے اس کے جسم پر پڑنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ انتہائے یاس میں اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن جب خلافِ توقع چند لمحے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوئی تو اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔ روشنی مفقود ہو چکی تھی۔ اور صرف ایک کتا اس کے قریب کھڑا دُم ہلا رہا تھا۔وہ سمجھ گیا کہ چوکیدار نے ارادتاً اس کی طرف سے لاپرواہی اختیار کر لی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح یہ بلا دور ہو جائے۔ زخموں کی افراط کے باعث گُلفام کی کھال بھی اس لائق نہیں تھی کہ اس سے

صفحہ 79
فائدہ حاصل کیا جائے۔ پھر اسے کون پکڑتا۔اس خطرناک مستقبل سے بچ جانا ہی اس کے لئے باعثِ مسرت بن سکتا تھا۔ مگر اس امر کا احساس کہ اب اس کی ہستی کو ایک بے کار شے تصور کر ے نظر سے گرا دکیا گیا ہے اس کے لئے سوہانِ روح بن گیا۔
اب اس کی ٹانگوں میں کوئی تکلیف باقی نہیں رہی۔ اس کے زخموں کی چپک بھی بند ہو گئی۔ اصطبل کی مسموم فضا کا خیال بھی اس کے ذہن سے اتر گیا۔ مگر اس کی روح کو ایک ایسی اذیت پہنچنے لگی جو دنیا کے تمام مصائب و آلام سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ اس کے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ کوئی آئے اور دوبارہ اسے لے جا کر اسی گندی اور مسموم فضا میں ہمیشہ کے لئے قید کر دے۔ یہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ دنیا کی کوئی ہستی اس کو حقارت کی نظر سے دیکھے۔ وہ کھڑا دیکھتا رہا کہ اب کوئی آتا ہے۔ اب کوئی آتا ہے۔ مگر نہیں کسی کو آنا تھا نہ آیا۔ اس کی امیدیں پامال ہو گئیں۔ فضا میں کسی قسم کا سایہ حرکت پذیر نہ ہوا۔وہ خود اپنی ٹانگوں سے چل کر واپس جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کی خودداری مانع تھی۔ ترک کئے ہوئے راستے پر خود اپنی ہی مرضی سے گامزن ہو کر ہار مان لینا اس کی شان کے خلاف تھا۔ اس کے پندار میں وہ ایک ایسا اعتراف جرم تھا جس کا عملی پہلو بذاتِ خود ایک زبردست جُرم ہے۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنی ہستی کو اور زیادہ گناہ آلود کرے۔ اس لئے بادلِ نخواستہ وہ آگے بڑھ جانے کے لئے مڑا۔ مگر عین اس وقت اس کی نگاہ کتّے پر پڑی۔ حالانکہ وہ کافی دیر سے اس کے قریب کھڑا دم ہلا رہا تھا۔ وہ پھر ٹھٹک گیا۔ اس نے پہچان لیا، وہ موتی تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے دوست رہ چکے تھے۔ مگر اس وقت اس کا دماغ۔۔۔ ۔۔۔ جس کا توازن حوادث

صفحہ 80
زندگی سے بگڑ چکا تھا۔ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ دیرینہ دوست مصیبت کے وقت بھی کام آتا ہے یا نہیں۔ ایسی صورت میں کہ خود اس کے قویٰ اس کے احکام سے انحراف کرنے لگے تھے۔ یہ کس طرح توقع کی جا سکتی تھی کہ ایک غیر جنس ہستی اس کا ساتھ دے گی۔ اس نے سوچا
کاش میرا وجود ازلی تخلیق کی ساعتوں کا رہین منت نہ بنتا۔ میری ماں مجھ کو جننے سے قبل مر جاتی۔
اس نے اپنی گردن جھکا کر تھوتھنی موتی کے قریب کی۔ گویا وہ اس کے کان میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر نطق سے محروم ہونے کے باعث کچھ نہ کہہ سکا۔اور اس مجبوری کے عالم میں اس کے تمام جذبات "معنی بے لفظ" بن کر رہ گئے۔ موتی جھکا اور گلفام کے سُموں کو چاٹنے لگا۔ اس بے زبان کے پاس بھی اظہار ہمدردی کے لئے اس سے زیادہ بہتر ذریعہ نہیں تھا۔محبت بھرے دل کی سچی باتیں زبان سے ادا نہیں کی جا سکتیں۔ اور شرمندہءالفاظ بنے بغیر حسّاس قلب کے کانوں سےسن لینی ممکن ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا مطلب سمجھ گئے۔ موتی نے راہبری کی اور مظلوم و بیکس گلفام اس کے ساتھ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کی سفیدی نمودار ہونے سے قبل وہ بمشکل ایک فرلانگ گئے ہوں گے کہ گلفام کے لئے آگے قدم اٹھانا دوبھر ہو گیا۔ اس کا سانس بہت تیزی سے چل رہا تھا۔ تمام جسم میں تھرتھری پیدا ہو گئی تھی۔ ٹانگوں پر کافی دیر زیادہ زور پڑنے کے باعث زخموں کے اندر سے خون رسنا شروع ہو گیا تھا اور اس طرح اس کی رگوں میں سے نکلے ہوئے عزیز خون نے زمین پر ایسے نقوش پیدا کر
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 81
دئیے کہ اگر کوئی تعاقب کرنا چاہے تو آسانی سے سراغ ملتا جائے۔ اس نے حسرت سے اپنی ٹانگوں کو دیکھا۔ ان ٹانگوں کو جن کی طاقت اس کو گھوڑ دوڑ کے میدان میں کامیاب بنا دیتی تھی۔ مگر آج جسمِ زار کو بھی گھسیٹنے سے معذور تھیں۔ اپنی عظمت رفتہ کا خیال کر کے وہ رونکھا سا ہو گیا۔ اس کی کمر سینکڑوں زخموں سے داغدار تھی۔ اور جگہ جگہ نجاست لتھڑی ہوئی تھی۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل اس پر نمدے کس کر سواری لینا انسان کے لئے باعثِ فخر تھا۔
اس نے دو روز سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پیا تھا۔ اس لئے حلق میں کانٹے سے پڑھنے لگے۔ کچھ نہ کھانے کی وجہ سے نقاہت بڑھ رہی تھی۔زخموں کی تکلیف سے جسم نڈھال تھا۔ زندہ رہنے کی تمنا میں مزید کشمکش کرنا اس کی طاقت سے باہر ہو گیا۔اس کی ٹانگیں لڑکھڑائیں ، آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ وہ گر پڑا ، لڑکھڑا کر گر پڑا۔ زمین بالکل پتھریلی تھی۔ چھوٹے چھوٹے سنگریزے اس کے زخموں میں گھس گئے۔ وہ تکلیف سے بلبلا اٹھا۔ مگر کوئی نہیں تھا جو ایک چُمکاری دے کر اس کے درد میں کمی کرنے کی کوشش کرتا۔ اس نے دو چار لاتیں ماریں کہ شاید اس طرح بچاؤ کی کوئی صورت نکل آئے مگر الٹا اثر ہوا۔ قریب کی خاردار جھاڑیاں اس کے زخموں پر نشتر زنی کرنے لگیں۔اور پسلیوں سے لگا ہوا پیٹ لوہار کی دھونکنی کی طرح زور زور سے چلنے لگا۔اس کا سانس اکھڑ گیا۔ دونوں نتھنے خون آلود جھاگ سے بھر گئے۔ اس کا ہنہنانا بھی ایک بھیانک شور میں تبدیل ہو رہا تھا۔ اس کے کراہنے کی آواز سن کر کس کے دل میں درد پیدا ہوتا، جب کہ وہاں کوئی متنفس موجود نہ تھا۔ اس کی تمام گریہ زاری صدا الصحرا تھی۔ اس کی آہ و بکا کو صرف ان طیور نے سنا جو قریب کے ایک پرانے درخت پر اپنے اپنے گھونسلوں میں چھپے بیٹھے تھے۔ مگر اس کے آنے ہی سے قبل اس کی بے جا اور غیر متوقع مداخلت کو حقارت

صفحہ 82
کی نظر سے دیکھتے ہوئے اڑ چکے تھے۔اب صرف اسی مرنے والے کی جانکنی کی آہیں خاموش فضا کے طلسم سکوت کو توڑ رہی تھیں۔ یا کبھی کبھی موتی کے بھونکنے کی آواز سنائی دے جاتی تھی جو انتہائی بیچینی کے ساتھ اپنے قریب الموت رفیق کے جسم زار پر تھوتھنی رگڑ رگڑ کر اظہارِ ہمدردی کر رہا تھا۔
وہ بار بار اس کی ایال اپنے منہ میں پکڑ پکڑ کر گھسیٹتا۔ اس کے سُموں پر پنجے مارتا۔ مگر مرنے والا گلفام نہیں سمجھ سکا کہ اس کا دوست اسے کہاں چلنے کے لئے آمادہ کر رہا ہے۔ اگر موتی میں سمجھ ہوتی اور اس کی پتلی ٹانگیں اس بارِ گراں کی حامل بننے کی اہل ہو سکتیں تو وہ یقیناً گلفام کو اپنی کمر پر لاد کر ایک ایسی فضا میں لے جاتا جہاں کوئی اس کے زخموں کو مندمل کر دیتا ۔ وہ اس کو انسانوں کی دنیا سے نکال کر معصوم فرشتوں کی نگری میں پہنچا دیتا ۔ جس جگہ ہر دھڑکنے والے دل میں سچی اور بے لوث محبت کا دریا لہریں مارتا ہے۔ جس مقام پر سانس لینے والا ہر متنفس پژمردہ پھولوں کی بھی اتنی ہی قدر کرتا ہے جتنی ان کی حالتِ شگفتگی میں۔
سورج کافی طلوع ہو چکا تھا۔ کساان جھونپڑوں سے نکل نکل کر کھیتوں کی طرف جانا شروع ہو گئے۔مویشیوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی صدا سنائی دینے لگی۔ کسی دور کے کھیت سے درانتی کی آواز بھی سنائی دی۔ شاید چنے کی فصل تیار ہو گئی تھی۔ گلفام زمین پر سُم رگڑنے لگا۔ اس نے زور سے لاتیں چلائیں۔ ہنہنانے کی ناکام کوشش کی۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی دیہاتی کہ توجہ اپنی طرف مبذول کر لے۔ یہ لوگ بہت نیک اور ہمدرد ہوتے ہیں۔ مگر اس کی فریاد کسی کے کان تک نہ پہنچی۔ موتی بھی اپنے دوست کا منشا سمجھ کر چلانے لگا اور اتنے زور سے بھونکا کہ قرب و جوار کے دوسرے کتے بھی اس کے ہم آہنگ ہو گئے۔ کتوں کی فطرت ہے کہ اپنے ہم جنس کی آواز سن کر خواہ مخواہ

صفحہ 83
چلانے لگتے ہیں۔ گویا انھیں بھی اس کے ساتھ ہمدردی ہے۔مگر کتوں کی زبان کو بھی کسان نہ سمجھ سکے۔ کھیت پک چکے تھے اس لئے وہ اپنے کام میں پورے انہماک کے ساتھ غعق تھے۔
گلفام اپنے خیالات میں محو ہو گیا۔
ایک خواب بیداری کے عالم میں کوٹھی کا منظر اس کی نگاہ کے سامنے تھا۔تخیل کی آنکھ سے اس نے دیکھا کہ مالک اور گھر کے دوسرے لوگ بیدار ہو گئے ہیں۔ ملازم اپنے فرائض کی انجام دہی میں کمر بستہ ہیں۔ سائیس سے گلفام کی حالت دریافت کی جا رہی ہے۔وہ اطلاع دیتا ہے کہ رات کے سکوت میں وہ کہیں بھاگ گیا۔ مالک "خس کم جہاں پاک" کہہ کر قہقہہ لگاتا ہے اور سائیس کو ہدایت کرتا ہے کہ بہت جلد مہترانی کو بلا کر اصطبل صاف کرا دے اور اس میں گندھک روشن کر دے تا کہ عفونت کم ہو جائے۔ اس میں سفیدی کرانے کا بھی حکم دیا جاتا ہے۔ تا کہ اس میں آئیندہ بندھنے والے گھوڑوں پر برا اثر نہ پڑے۔
گلفام چونک پڑا، اس کے زخمی سینے سے ایک آہ سرد نکلی۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے آسمان کی طرف آنکھیں اٹھائیں اور بادلوں کی چادروں میں موت کے فرشتے کو تلاش کرنے لگا۔ وہ زندگی سے تنگ آ گیا تھا۔ اسے مر جانے کی آرزو تھی۔
موتی بھاگ کر قریب کے ٹیلے پر چڑھ گیا اور وہاں کھڑے ہو کر خوب چلایا۔ مگر بے سود۔ اس بستی کے تمام لوگ کم از کم اس دن کے لئے بہرے ہو گئے تھے۔ اس کی فریاد کو نہ سن سکے۔ وہ جلدی سے واپس آ گیا۔ اس خیال سے کہ تنہائی کے نا خوشگوار لمحات میں مرنے والے دوست کو کوئی غیر معمولی صدمہ نہ پہنچ جائے۔ اس نے دیکھا کہ گلفام کے چہرے پر مکھیاں بھنکنے لگی تھیں۔ س کی زبان جبڑے کے باہر لٹک رہی تھی۔ آنکھیں کھلی ہوئی مگر بے نور تھیں۔ مکھیاں زخموں پر بیٹھتیں تو بدن میں تھرتھری پیدا نہ

صفحہ 84
ہوتی تھی۔ اب اس کا جسم بالکل بے حس ہو چکا تھا۔
اس کی روح کبھی کی نکل چکی تھی۔ مگر موتی کو یقین نہ آیا کہ گلفام مر گیا ہے۔ وہ سمجھا کہ انتہائی کمزوری کے باعث غنودگی طاری ہو گئی ہے۔ اس لئے وہ خود بھی خاموش ہو کر زمین پر پنجے ٹکا کر بیٹھ گیا۔اور ایک فلسفی کی طرح زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے لگا۔
کائناتِ عالم کی تخلیق سے خدا کا منشائے حقیقی کیا ہے؟ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ کس وجہ سے دیا گیا؟ دیگر حیوانات نطق سے کیوں محروم رکھے گئے؟ مسرت و انبساط کے ساتھ مصائب و آلام کو وابستہ کر کے زندگی کو تباہ کر دینا کس مصلحت کی بنا پر ہے؟ ایسی ہستیوں کو موت جلد کیوں نہیں آ جاتی جو خود اپنی زندگی سے بیزار ہوں؟
یہ اور اسی قسم کے سینکڑوں سوالات تھے جو یکے بعد دیگرے موتی کے دل میں پیدا ہوئے۔ مگر اس کی عقلِ نا رسا کسی ایک رمز کی بھی عقدہ کشائی نہ کر سکی۔ حتیٰ کہ غروب آفتاب ہونے کے قریب ہو گیا اور موتی کی توقع کے مطابق گلفام کو ہوش نہ آیا۔
وہ ابدی نیند سو رہا تھا۔

صفحہ 85
مقدّس معصّیت
اسے کس قدر فخر تھا اپنے زہد و اتقاء پر۔ کتنا ناز کرتا تھا اپنی تقدیس و طہارت پر۔ سمجھتا تھا کہ دنیا سے منہ موڑ کر جنگل میں آ جانے سے اس نے نفس پر فتح حاصل کر لی ہے۔ وہ خوش تھا کہ دنیا کی معصّیت سے بچ نکلا ہوں۔ اس کا خیال تھا کہ میں نے سرابِ زندگی کو بے نقاب کر کے ان حقیقتوں کو معلوم کر لیا ہے جو خوب و زشت میں امتیاز پیدا کرتی ہیں۔ اسے یقین تھاکہ اب میں نسوانی فطرت کی کی سحرکاریوں ، حسن و جمال کی فتنہ سامانیوں، عشق و محبت کی کرشمہ سازیوں اور ان سب سے زیادہ شباب کے بوجھ سے دبے ہوئے ایک پیکرِ مخمور کی تقویٰ شکن انگڑائیوں کی دسترس سے کوسوں دور ایک ایسی معصوم فضا میں پہنچ گیا ہوں جہاں سے الوہئیت رقص کرتی ہے تقدس کی لَے پر، جہاں مخلوقِ سماوی کے نغمے بیدار ہوتے ہیں تاروں کی جھلملاتی آغوش میں۔
وہ راہب تھا ایک تارک الدنیا راہب
نمودِ سحر سے وہ چڑیوں کے دلفریب چہچہوں ، آب رواں کی رقیق راگنیوں اور بادِ صبا کے نرم جھونکوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اس برگذیدہ ہستی کی حمد و ثنا میں محو ہو جاتا جس نے۔۔۔۔ خود اس کے اعتقاد کے مطابق۔۔۔ اسے صرف اسی مقصد کے لئے تخلیق کیا تھا۔ وہ گھنٹوں سجدہ ء شکر
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 86
میں پڑا رہتا۔ مالا جپتے جپتے دھوپ ڈھل جاتی اور رات کی تاریکیاں حسب معمول کائینات کے ذروں پر پھیل جاتیں۔ خودرو درختوں کے بد ذائقہ پھل اور بہتے ہوئے درا کا کثیف پانی ہی اس کے کام و دہن کی لذت کے لئے کافی تھا۔
ایک روز حسبِ معمول وہ ساحل کے قریب بیٹھا عبادت میں مشغول تھا کہ اسے لہروں کے شگافوں میں ایک زرنگار سفینہ نمودار ہوتا دکھائی دیا۔ وہ اس کی طرف بڑھ جا رہا تھا۔ اس کی نظریں جم گئیں۔ اور جم کر اس مرکز پر قائم ہو گئیں جو نسوانی رعنائیوں کا حامل تھا۔ دریا کی ہر موج کے ساتھ سفینہ قریب آتا گیا۔ یہاں تک کہ ساحل کے پاس آ کر ٹہر گیا۔
اس کے اعضاء پر لباس یا تو تھا ہی نہیں اور اگر تھا تو محض برائے نام۔ اس قدر باریک اور ایسے رنگ کا جو اعضاء کی لحمیت سے وصل ہو کر جلد میں مدغم ہو جاتا ہے اور اسی کا ایک جزو معلوم ہونے لگتا ہے۔
سفینہ کے ٹہر جانے پر اس نے ایک رباب اٹھا لیا۔ نازک انگلیوں میں جنبش ہوئی۔اور فضا میں تاروں کی جھنکار سےایک مترنم تموّج کا تلاطم برپا ہونے لگا۔ پھر لبوں کی شگفتگی سے ان نغموں کو سنا دیا جو اس وقت تک رباب کے تاروں سے بھی بیدار نہ ہو سکے تھے۔ راگ کے زیر و بم کے ساتھ شباب و رعنائی کے حامل سینہ ء عریاں میں بھی ایسا نشیب و فراز پیدا ہوتا گویا وہ خود ایک زندہ ساز ہے جو آرزومند ہے صرف ایک مضراب کا۔ گاتے گاتے اسی پر ایک محویت طاری ہونے لگی۔ اور در حقیقت اس وقت موسیقی کا یہی اعجاز ہونا چاہئیے تھا کہ خود مغنیہ وجد میں آ جاتی۔
راہب نے سب کچھ سنا اور سنتے سنتے اپنے جسم میں وہ تھرتھری محسوس ہونے لگی

صفحہ 87
جو خون میں سرعت رفتار پیدا ہو جانے کے بعد نمایاں ہوتی ہے۔
اسے یقین ہو چلے کہ اگر ماحول بدستور رہا تو آج عمر دراز کا تمام زہد و اتقا اس حسینہ کے قدموں میں ڈال دینا پڑے گا۔ اس لئے پوری احتیاط کے ساتھ وہ اس طرح پنبہ بگوش ہو گیا کہ بیرونی صدا تو درکنار اس کے قلب کی ہر دھڑکن بھی اس کی سماعت پر اثر انداز نہ ہو سکی۔ لیکن اس کی آنکھیں۔۔۔ وہ غیر ارادی طور ہر اسی مرکز پر جمی رہیں ۔
نغموں کو دوبارہ آسودہ ء خواب کر کے وہ ساحل پر اس طرح اتر آئی گویا برق کی ایک لہر ہو جس کا اضطراب متشکل ہو گیا ہے۔ وہ رقص کے انداز میں کمر کے اندر بل ڈال کر اس طرح کھڑی ہو گئی گویا کالی ناگنوں کو لہرانے کی تعلیم دے رہی ہے۔ پھر ہاتھوں کو شانوں کے متوازی کر کے ساعدِ سیمیں میں خفیف حرکت شروع کر دی اور اس کے ساتھ ہی بائیں ٹانگ میں تھوڑا سا خم ڈال کر پاؤں کی انگلیوں سے کسی ناشنیدہ نغمے کے سروں پر تال دینے لگی۔ اس طرح کہ کائینات کے ذروں سے ہم آہنگ ہو کر بدن کا ہر رونگٹا گنگنانے لگا۔ بکھرے ہوئے بال اور منتشر ہو گئے۔ ابھرے ہوئے مینائے شباب کو کچھ اور سرفرازی نصیب ہوئی۔ آنکھیں تھرکنے لگیں۔ بھویں مٹکنے لگیں۔ اور بحیثیت مجموعی اس کے تمام جسم پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو طوفانی سمندر میں موجوں کے ہچکولوں پہ ڈگمگاتی ہوئی کشتی پر ہوتی ہے۔ پھر وہ رقصِ طاؤس کے انداز میں پشت کی جانب جھکی اور اتنا جھکی کہ سر زمین سے آ لگا۔
اس وقت اس کے جسم کا وہ مخصوص حصہ مکمل عریانی کے عالم میں راہب کی آنکھوں کے سامنے تھا جس کے معکوس ساغروں میں خون بھی شراب معلوم ہونے لگتا ہے۔
راہب کو اندیشہ ہوا کہ مبادا تابَ ضبط نہ رہے اس لئے اس نے منہ موڑ کر آنکھیں بھی بند کر لیں۔

صفحہ 88
لیکن دل و دماغ کی آنکھیں کھلی تھیں۔کیونکہ پیشانی پر پڑنے والے بلوں اور اندازِ نشست سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ منتظر ہے۔ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ اب عورت کے پاس وہ کون سا حربہ باقی ہے جس کے ذریعے اس کی اہرمنی قوتیں بروئے کار آ سکتی ہیں۔
کچھ دیر سکوت طاری رہا۔
حسینہ کشتی کے قریب جا کر کھڑی ہوگئی۔ راہب نے ڈرتے ڈرتے آہستہ آہستہ آنکھیں اس طرح کھولنی شروع کیں گویا نسیمِ صبح کے لطیف جھونکوں اور قطرہ ہائے شبنم کی صباحت سے دو غنچے بتدریج شگفتہ ہو رہے ہیں۔
یہ دیکھ کر وہ کشتی میں بیٹھ کر چلے جانے کا ارادہ کر رہی ہے۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہوا کہ شیطانی وسوسوں سے نجات مل گئی۔ لیکن عین اس وقت جب کہ وہ سُکّان کو پکڑ کر اندر بیٹھ جانے کی آمادگی ظاہر کر رہی تھی، اس نے ارادتاً اپنا توازن بگاڑ دیا۔ اور پانی میں جا پڑی۔ اپنے ہاتھوں کی بے قاعدہ جنبشوں اور ہر ابھار کے ساتھ ہلکی چیخ سے اس نے راہب کو محسوس کرا دیا کہ وہ تیرنا نہیں جانتی۔
راہب نے کچھ دیر اس کو بغور دیکھا لیکن پھر یقین ہو گیا کہ ایک انسانی ہستی خطرہ میں ہے۔ اس لئے فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور بے تحاشہ دریا میں کود پڑا۔ چند لمحے بعد حسینؔہ بے ہوشی کے عالم میں اس کی آغوش میں تھی اور وہ اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر کہ اس کے آنسو بھی بہہ رہے ہیں، اس کا دل ہل گیا۔
اُف! حسین آنکھیں اور اشک آلود۔
جوشِ ہمدردی میں اس نے حسینہ کو اپنے سینے سے چمٹا لیا۔ خاکستری لبوں سے اس کے

صفحہ 89
پپوٹوں پر گرم بوسے ثبت کر کے آنسوؤں کو خشک کر دینا چاہا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں اور اپنی اس کامیابی پر مسکرانے لگی۔
اپنی جان کو مصیبت میں پھنسا کر اور اشکوں کے تقاطر سے فریب دے کر دوسروں کی ہمدردی حاصل کر لینا صنفِ نازک کا وہ آخری اور کامیاب حربہ ہے جس کے مقابلے میں تیر و تفنگ کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔
نمودِ سحر سے قبل اس خوابِ بیداری کا طلسم ٹوٹ چکا تھا۔ مناظرِ قدرت کی کیفیات بدستور تھیں۔ لیکن خلافِ معمول دیکھا گیا کہ راہب جنگل کے گوشہ ء اعتکاف کو چھوڑ کر شہر کے ہنگاموں کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت اس پر روشن ہو چکی تھی کہ صنفِ نازک سے منہ موڑ کر تارک الدنیا ہو جانا ایک ایسا تقدس ہے جو اپنی مذموم نوعیت کے لحاظ سے ایک زبردست معصیت ہے۔

صفحہ 90
جھوٹ
(1)
جس طرح زرگر کو پیتل کے زیور پر ملمع کرنے کے لئے خالص سونا بھی درکار ہوتا ہے اسی طرح ایک دروغ گو کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جھوٹ کو نبھانے کے لئے انتہائی صداقت سے کام لے۔ اگر یہ صورت نہ ہو تو جھوٹ میں کوئی ندرت پیدا نہیں ہوتی۔ قوتِ بیان کا اعجازِ کمال یہ ہونا چاہئیے کہ جھوٹی بات کو بھی سننے والے سچ اور صداقت سے لبریز تسلیم کر لیں۔ خواہ یہ اثر ہنگامی ہو اور بعد مین زبردست جھوٹ یعنی سراب کی طرح اصل حقیقت منکشف ہی کیوں نہ ہو جائے۔ عام طور پر اس فن لطیف کو مذموم سمجھا جاتا ہے اور دروغ گوئی کے لئے نہ صرف مذہب و ملّت کی طرف سے سزا مقرر ہے بلکہ سوسائٹی بھی اسے مطعون کرتی ہے حالانکہ روزمرہ کی زندگی میں اور زندگی کے ہر شغل میں ہم اس کا ارتکاب کرتے ہیں اور محسوس نہیں کرتے کہ غیر ارادی طور پر ہم ایک جرم کے مرتکب ہو گئے۔
اسلاف کو اور ان کے کارناموں کو بہتر بتانا اور مقابلتاً اپنے اپ کو ھقیر و کم مایہ سمجھنا کیا درحقیقت اعماقِ قلب سے نکلی ہوئی ایک آواز ہوتی ہے یا محض لبوں کی جنبش ان کو الفاظ کو ادا کرتی ہے؟ کسی کی جھوٹی بات سن کر اخلاقاً اعتراض نہ کرنا بلکہ سکوت سے کام لینا کیا ایک خاموش جھوٹ نہیں ہے؟ اور کیا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صفحہ 91
صداقت اسی کا نام ہے کہ مرگِ دشمن کی خبر سن کر محض اس لئے اظہارِ افسوس کیا جائے کہ اب وہ مر گیا ہے یا بادشاہِ وقت کی قصیدہ خوانی کی جائے صرف اس خوف سے کہ اس کا عتاب نہ نازل ہونے لگے۔
ایران کے دورِ قیام کا ذکر ہے کہ مجھے اہلِ تشیعہ کی ایک مجلس میں شریک ہونے کا موقع ملاا ور وہاں شامل ہونے سے قبل مجھے بتایا گیا کہ سوز خوانی کے وقت خوب رونا چاہئیے۔ اگر گریہ و زاری ممکن نہ ہو تو کم از کم رونی صورت بنا لینی چاہئیے۔ اگر آنسو نہ نکل سکیں تو منہ پر رومال رکھ کر ایسی آواز نکالی جائے جو آہ و بقا کے وقت ممکن ہے۔ مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی اور زندگی میں پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ مذہب یا بالفاظ دیگر مفتیانِ مذہب ہمیں جھوٹ بولنا بھی سکھاتے ہیں۔ اور جب بہ نظر غائر مطالعہ کیا تو مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ ہر مذہب کی سینکڑوں باتیں مجموعہ ء کذب و بطل ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ اگر کسی بے سروپا قصّے کو ایسے رنگ میں پیش کیا جائے جس سے قارئین کی توجہ کسی مذہبی واقعہ کی طرف مبذول ہو جائے تو بلاشبہ وہ بے بنیاد قصہ بیک جنبشِ قلم صداقت سے لبریز ایک حقیقت بن جائے گا۔
اس خیال کے پیدا ہوتے ہی مجھے ایک فرانسیسی افسانہ یاد آ گیا جو پیرس کے ایک ظریف اخبار میں شائع ہوا تھا۔ میں نے قند مکرّر کے طور پر دوبارہ اس کا مطالعہ کیا۔

(2)
موسم بہار کی ایک خوشگوار شام تھی اور ہمارا جہاز سمندر کی پُرسکون لہروں پر آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ میں اپنی شریکِ حیات کے ساتھ عرشہءجہاز پر کھڑا اس بحرِ ناپید کا نظارہ کر رہا تھا۔ مسرت و شادمانی سے ہمارے چہرے نو شگفتہ پھول کی طرح پُر رونق تھے۔ خاص طور پر

صفحہ 92
مجھے یہ خوشی تھی کہ ایک طویل سفر کے بعد اپنے وطن مالوف کی طرف مراجعت عمل میں آرہی تھی۔ میرا تخیل ہوا کے تیز جھونکوں سے زیادہ سریع الرفتار تھا مگر افسوس ان لمحاتِ مسرت کے عین دوران میں اچانک روزاؔ کے سینہ میں درد اٹھا۔ اس قدر خوفناک درد کہ جہاز کے کپتان سے لے کر معمولی ملاح تک سب پریشان ہو گئے۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا لیکن مطلق سمجھ میں نہ آیا کہ درد کا سبب کیا ہے۔ تکلیف بڑھتی گئی اور میری یہ کیفیت تھی کہ اس کی ہر آہ کے ساتھ سینہ پر ایک کاری ضرب لگتی اور میں دل مسوس کر رہ جاتا لیکن اس سے کیا ہو سکتا تھا۔ روزاؔ کے درد میں کمی نہ ہوئی۔ میں زار وقطار رونے لگا مگر قدرت کی ظالم دیوی کا بالکل ترس نہ آیا۔
نصف شب کے قریب اس کا اضطراب سکون پذیر ہوا لیکن تندرستی کی صورت میں نہیں بلکہ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ قلب کی حرکت بند ہو گئی ہے اور اس کا جسدِ خاکی ایک محروم روح نعش کے سوا کچھ نہیں ہے، مجھ پر گویا بجلی گر پڑی۔ میرے لئے دنیا اندھیری تھی۔ وطن سے کوسوں دور پانی کی موجوں پر بہتے ہوئے جہاز میں عرصہ ء دراز کی شریکِ حیات کا یکا یک مر جانا جس قدر اندوہناک ہو سکتا ہے، اس کے اظہار کی ضرورت نہیں۔
جہاز کے آئین کی رُو سے کپتان نے حکم دیا کہ بہت جلد متوفّیہ کی تجہیز و تدفین کر دی جائے تا کہ اصول کے مطابق نعش سمندر میں پھینک دی جائے۔ زیادہ عرصہ اس کو جہاز میں رکھنا خلافِ قاعدہ ہے، ہر چند میں نے استدعا کی کہ بندر گاہ پہنچنے تک کی مہلت دے دی جائے تا کہ میں اپنی شریکِ حیات کو زمین میں دفن کر کے ایک یادگار قائم کر سکوں۔ لیکن کپتان نے میری بات نہ مانی اور اسی پر مصر رہا کہ نعش پانی میں ڈال دی جائے۔

صفحہ 93
مجبوراً بادلِ نخواستہ میں نے نعش کو اس کے بہترین لباس میں لپیٹ کر ایک اونی کمبل میں باندھ دیا۔ دستور کے مطابق کچھ وزنی پتھر بھی ساتھ رکھ دئیے تا کہ نعش جلدی ڈوب جائے لیکن جب لوگ اسے پانی میں ڈالنے لگے تو ضبط و تحمّل کی باگ میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی، اور میں نے تہیہ کر لیا کہ اس کے بعد زندہ رہنا فضول ہے۔ موت کو سبب یکساں نہ سہی ۔ تاہم مٹی دونوں کی ایک ہی طرح ٹھکانے لگ جائے تو بہتر ہے۔ اس لئے فوراً چھلانگ مار کر نعش ہی کے ساتھ میں خود بھی پانی کی موجوں پر جا گرا۔وزن زیادہ ہونے کے باعث وہ بڑی سرعت سے تہہ میں بیٹھتے جا رہی تھی۔ اس لئے میں نے زبردست تعاقب سے کام لیا اور اسے پکڑنے کی کوشش برابر جاری رکھی۔ اچانک میرا سر کسی شے سے ٹکرایا اور میں نے محسوس کیا کہ کسی محدعد جگہ میں گر گیا ہوں بلکہ مقید ہوں کیونکہ اب میں پانی کی موجوں کی بجائے ایک ایسے مقام پر تھا جہاں معمولی نمی تھی۔ ورنہ زیادہ تر نشیب و فراز کی سی بنجر زمین معلوم ہوتی تھی، سخت اندھیرا تھا کوئی چیز نظر نہ آتی تھی، سانس بھی کسی قدر گُھٹ رہا تھا۔ کچھ دیر میں نے ہمت سے کام لیا اور ادھر اُدھر ہاتھ بڑھا کر ٹٹولنا شروع کیا یہ معلوم کرنے کے لئے کہ وہ جگہ کس قسم کی ہے کہ اچانک میں نے اسی کمبل کو محسوس کیا جس میں روزاؔ کی نعش لپیٹی گئی تھی۔ مجھے ایک گونہ اطمینان ہو گیا کہ خیر اس کے قریب ہوں۔ انجام جو ہو سو ہو۔
میں اس کے پاس بیٹھ کر خود اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا کہ یکایک روشنی کی ایک شعاع ایک سمت سے نمودار ہوئی اور اس کے ساتھ ہی کچھ شور سنائی دیا۔ اس وقت بچشمِ خود میں نے دیکھا کہ ایک بڑی مچھلی کے پیٹ میں ہوں۔ اس وقت مجھے آسمانی جھلک بھی نظر آئی۔

صفحہ 94
جس سے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ مچھلی سانس لینے کے لئے سطح پر آئی ہے۔ کچھ دیر بعد پھر اندھیرا ہو گیا۔ وہی اندھیرا اور میں افسردہ و غمگین اپنی شریک حیات کی نعش سے لپٹ کر رونے لگا۔
مجھے محسوس ہوا کہ اس کے مردہ جسم میں خفیف سی حرکت ہو رہی ہے۔ پہلے گمان ہوا کہ یہ اپنے واہمہ کا کرشمہ ہے۔ لیکن جب وہ جنبش بڑھتی گئی تو مجھے یقین ہونے لگا کہ روزاؔ مری نہیں تھی۔ بلکہ صرف سکتہ ہو گیا تھا۔ اور اب دوبارا ہوش میں آ رہی ہے۔ میرا یقین واثق ہو گیا۔ جب ایک نحیف آواز " میں کہاں ہوں" مجھے سنائی دی۔ میں نے کہا " روزاّ تم میرے قریب ہو ، ڈرو مت۔"
اس سے قبل مر جانا چاہتا تھا لیکن اب زندہ رہنے کی تمنا پیدا ہونے لگی۔لیکن کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ سوچتے سوچتے خیال آیا کہ میری جیب میں ایک چاقو ہے، اس سے کام لینا چاہئیے۔ فوراً اسے نکالا اور سب سے پہلے اس رسی کو کاٹا جس نے روزاؔ کو جھٹک رکھا تھا۔ وہ بالکل آزاد ہو گئی اور زندہ بھی۔ میں جے جوشِ محبت میں اس کو سینہ سے لگا لیا اور اس کے لبوں کو جن میں دورانِ خون کے شروع ہو جانے سے حرارت پیدا ہو چلی تھی۔ بیتابی کے ساتھ اسے چومنے لگا ۔ تاہم میں نے اس کو یہ نہیں بتایا کہ ہم ایک خطرناک قید خانہ میں بند ہیں۔
معمولی چاقو سے مچھلی کے جسم کو چیر کر باہر نکل آنا غیر ممکن سی بات تھی۔ کیونکہ ظاہر تھا کہ اس کا گوشت نہایت فربہ اور کھال دبیز ہو گی۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ اس کے دل کو زخمی کر کے اسے ہلاک کیا جائے اور پھر باہر نکلنے کی تدبیر کی جائے۔ لیکن دل کہاں اور کس جگہ ہے؟ یہ معلوم کرنا مشکل تھا۔ کیونکر اس قدر وسیع اور تاریک جگہ میں یہ پتہ نہ لگ سکا کہ بایاں پہلو کون سا ہے۔ لہٰذا میں نے محض اندازہ سے کام لے کر تلوار کے سے ہاتھ چلانے شروع کر دئیے اس خیال سے کہ کوئی نہ کوئی ضرب

صفحہ 95
تو کاری لگ ہی جائے گی۔ میرا کوئی وار خالی نہیں گیا۔مگر پھر بھی بے سود۔ میرے قویٰ مضمحل ہو گئے۔ پسینے کے باعث برا حال تھا۔ علاوہ ازیں اس محدود فضا میں ایک قسم کا تعفن بھی پیدا ہو چلا تھا۔ جس سے دم گھٹنے لگا۔ لیکن زندہ رہنے کی تمنا کسی تکلیف سے پامال نہیں ہو سکتی تھی۔ انسان آخری سانس تک جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ میری کوششیں کامیاب رہیں اور مچھلی کچھ تڑپنے کے بعد بالکل مردہ ہو گئی۔
اس کے بعد کیا ہوا ، کچھ علم نہیں۔ البتہ جب ہوش آیا تو میں ساحل پر تھا۔ کیونکہ ماہی گیروں نے ایک بڑی مردہ مچھلی کو سطح پر تیرتے ہوئے دیکھا تو اسے خشکی پر کھینچ لائے اور چربی وغیرہ نکالنے کے لئے جب پیٹ چاک کیا تو ہم برآمد ہو گئے۔ روزاؔ بھی زندہ سلامت رہی۔
(3)
افسانے کو دوبارہ پڑھ لینے کے بعد میں نے غور کیا کہ طرزِ بیان اگرچہ دلکش ہے مگر صداقت کا فقدان صاف ظاہر تھا۔ کوئی شخص یقین نہ کرتا کہ واقعہ ہو سکتا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ ایک معمولی سی ترمیم سے اس مردہ ڈھانچ میں جان پڑ سکتی ہے۔ لہذٰا اس کا ترجمہ فارسی میں کرنے کے بعد اختتام سے قبل ان الفاظ کا اضافہ کر دیا۔
مچھلی کے پیٹ میں رہ کر دوبارہ زندہ نکل آنے کے باعث لوگ مجھ کو" یونس ثانی "کہنے لگے۔
نتیجہ ظاہر ہے کہ اس آخری جملے کا مطالعہ کر کے قارئین کو حضرت یونسؑ کا قصہ یاد آ جاتا اور وہ اس فرضی افسانے کو حقیقت سمجھنے لگتے۔ کیونکہ ان کے ذہن پر اچھی طرح مرقسم تھا کہ حضرت یونسؑ تین یوم تک مچھلی کے پیٹ میں رہے اور پھر زندہ نکل آئے۔ اس طرح اور صدہا جھوٹے واقعات کو ہم صداقت کے رنگ میں پیش کر سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top