سجا گیا ہے چراغوں سے شہر آب کوئی ٭ شاہین حیدر رضوی

غلاف چمن میں رکھا ہوا ہے خواب کوئی
سجا گیا ہے چراغوں سے شہر آب کوئی

غموں کی دھوپ میں سائے کی طرح ساتھ رہا
بنا گیا مجھے چھوکر در نایاب کوئی

مہک اٹھا تیری خوشبو سے میرا شہر مراد
میں پڑھ رہی تھی تمہاری کتاب کوئی

خزاں کی کوکھ سے پھوٹی مسرتوں کی کرن
لگا گیا کیاری میں پھر سے گلاب کوئی

سفر میں دوست ہی چہرہ بدل کر ملتے رہے
فریب دیتا رہا اوڑھ کے نقاب کوئی

یقین ہے اترے کا شب کے ڈھلتے ہی
خیال و فکر کے آنگن میں آفتاب کوئی

بلا کی تشنہ لبی اور سفر میں وحشت تھی
دعا یہی تھی کہ اترے نہ پھر عذاب کوئی

رہے گی جاری و ساری یہ مشق سخن
عطا کرے گا وہ شاہین کو خطاب کوئی

شاہین حیدر رضوی
 
غلاف چمن میں رکھا ہوا ہے خواب کوئی
سجا گیا ہے چراغوں سے شہر آب کوئی

غموں کی دھوپ میں سائے کی طرح ساتھ رہا
بنا گیا مجھے چھوکر در نایاب کوئی

مہک اٹھا تیری خوشبو سے میرا شہر مراد
میں پڑھ رہی تھی تمہاری کتاب کوئی

خزاں کی کوکھ سے پھوٹی مسرتوں کی کرن
لگا گیا کیاری میں پھر سے گلاب کوئی

سفر میں دوست ہی چہرہ بدل کر ملتے رہے
فریب دیتا رہا اوڑھ کے نقاب کوئی

یقین ہے اترے کا شب کے ڈھلتے ہی
خیال و فکر کے آنگن میں آفتاب کوئی

بلا کی تشنہ لبی اور سفر میں وحشت تھی
دعا یہی تھی کہ اترے نہ پھر عذاب کوئی

رہے گی جاری و ساری یہ مشق سخن
عطا کرے گا وہ شاہین کو خطاب کوئی

شاہین حیدر رضوی
کئی اشعار میں ٹائپو لگتا ہے۔ ایک بار پھر اصل متن کے ساتھ چیک کرلیجیے!
 
Top