ستمبر16، اوزون کا عالمی دن

اوزون سورج کے گرد وہ تہہ ہے جو کہ سورج کی خطرناک الٹراوائلٹ بی شعاعوں کو نہ صرف زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے بلکہ زمین پر اس کے نقصان دہ اثرات کا خاتمہ کرتی ہے۔ اوزون اوکسیجن کے تین ایٹمز کے ساتھ ایک شفاف اور نظر نہ آنے والی گیس ہے جو قدرتی طور پر فضا میں موجود ہوتی ہے۔ اوزون کی نوے فیصد مقدار زمین کی سطح سے پندرہ تا پچپن کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پائی جاتی ہے۔ مگر 1970ء کی دھائی میں یہ انکشاف ہوا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کچھ مرکبات اوزون کی اس تہہ کو تباہ کررہے ہیں۔

یہ کیمیائی مرکبات کلوروفلور وکاربن(سی ایف سی) کہلاتے ہیں جو کہ سردخانہ اور ایروسول اسپرے میں استعمال ہوتے ہیں۔ اوزون تہہ میں شگاف کے باعث الٹراوائلٹ بی شعاعیں زمین پر پڑتی ہیں اورزمینی حیاتیات کو جلدی امراض میں مبتلا کر دیتی ہیں، اس کے علاوہ دیگر ماحولیاتی تبدیلیاں بھی اسی کے باعث ہو رہی ہیں۔ 1974ء میں امریکی ماہرین ماحولیات نے اوزون کی تہہ کے تحفظ سے متعلق آگاہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا اوزون کی تہہ کے خاتمے کی صورت میں نہ صرف دنیا بھر کا درجہ حرارت انتہائی حد تک بڑھ جائے گا بلکہ قطب جنوبی میں برف پگھلنے سے چند سالوں میں دنیا کے ساحلی شہر تباہ ہو جائیں گے۔

ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 19 دسمبر 1994ء سے ہر سال 16 ستمبر کو اوزون کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا جس کے بعد الٹروائلٹ بی شعاعوں کے مظہر صحت خطرات کے بارے میں شعور پیدا کرنے کیلئے دنیا بھر میں 16 ستمبر کو اوزون کی تہہ کے بچاو کا دن منایا جاتا ہے۔ اوزون کا دن منانے کا مقصد تمام مخلوقات کے صاف اور صحت مند مستقبل کیلئے شعور، ذمہ داری اور عملی کام کو آگے بڑھانا ہے۔

اوزون کی تہہ میں شگاف کی وجہ سے زمینی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صنعتی ترقی نے انسان کے لئےسہولیات میسرکی ہیں لیکن انسانی تباہی کا سامان بھی پیدا کیا ہے۔ اکثرصنعتی کارخانے زہریلی گیس(کاربن مونو آکسائیڈ) خارج کرتے ہیں۔یہ زہریلے اجزااوزون کی گیس اوکسیجن کے ساتھ مل کرکابن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اوزون کی تہہ میں ایک شگاف برف سے ڈھکے انٹارکٹیکا کے علاقے پر پیدا ہوچکا ہے اور برف کے تیزی سے پگھلاﺅ کے باعث سیلابوں کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اوزون کی حفاظت ماحول دوست گیسوں کے حامل برقی آلات اور مشینری کے استعمال سے ہی ممکن ہے۔ زمین کو بچانے کے لیئے ان تمام چیزوں کو بچانے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے اس کرہ ارض کی خوبصورتی قائم ہے۔ کیونکہ یہاں زندگی کی بقاءاسی قدرتی توازن سے مشروط ہے۔

اوزون کی تہہ کو بچانے کے لیے بین الاقوامی برادری نے اوزون کی تہہ کو ختم والے مواد پر پابندی لگانے کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے بعد دنیا بھر میں سی ایف سی گیسز کے اشیاءمیں استعمال کو ترک کر دیا گیا ہے۔ اس معاہدے کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اوزون تہہ بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق بیسویں صدی کے آخرتک خیال کیا جارہا تھا کہ اوزون کی یہ تہہ باریک ہوتی جارہی تھی جِس کی ایک وجہ ایروسول ایکس ریز اور ریفریجریٹرز سے خارج ہونے والی سی ایف سی گیسز ہے۔ اوزون کی تہہ بننے کا عمل کروڑوں سال سے جاری ہے مگر ہوا میں موجود نائٹروجن کے کچھ مرکبات اوزون کی مقدار کو ایک خاص حد سے زیادہ بڑھنے نہیں دیتے۔

کلوروفلور وکاربن یعنی سی ایف سی مرکبات کا استعمال عام طورپر انرجی سیور بلب، ڈیپ فریزرز، ریفریجریٹرز، کار، ایئر کنڈیشنر، فوم، ڈرائی کلیننگ، آگ بجھانے والے آلات، صفائی کے لئے استعمال ہونے والے کیمیکل اور فیومیگیشن میں ہوتاہے۔ اب ان تمام اشیاءمیں سی ایف سی مرکبات کے بجائے ہائی کلوروفلور وکاربن (ایچ سی ایف سی) مرکبات کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ اوزون کی تہہ کو مزید بہتر کرنے کے لئے ہائی ایچ سی ایف سی مرکبات کے استعمال کو ختم کرکے ہائی فلورو کاربن کے استعمال کا ارادہ رکھتی ہے جس سے اوزون تہہ کی صورتحال مزید بہتر ہو جائے گی۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے اوزون کی تہہ کو اگلے 30 سے 40 سال میں 1980ء والی سطح تک بحال کیا جاسکے گا۔

موسمیات کے عالمی ادارہ کیک سینئر سائنٹفک افسر گائپر بریتھن کا کہنا ہے کہ اوزون کی تہہ میں کمی اب زیادہ دیر تک برقرار رہے گی تاہم اس میں اوزون کی تہہ میں اضافہ کا بھی کوئی امکان نہیں ہے اور 2050ء تک اوزون کی تہہ میں کمی ہونے کا سلسلہ بند ہو جائے گا اور یہ تہہ اپنی اصل حالت میں بحال ہو جائے گی کیونکہ اس وقت تک فضا میں زیادہ ٹھنڈے اوراوزون کی تہہ کیلئے نقصان دہ مادے پیدا ہونا یا ان کے اخراج کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ اوزون کی باریک سطح انسان کی قوتِ مدافعت کے نظام ، جنگلی حیات اور زراعت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

اگرالٹراوائلٹ شعاعیں کو نیچے زمین پر پہنچنے سے نہ روکا گیا تو یہ جانداروں میں سرطان اور نباتات کی تباہی کا باعث بنیں گی۔ اگرنباتات کو قابل قدر نقصان پہنچ جائے تو ہوا میں کاربن ڈاکسائیڈ کی مقدار بڑھنے لگے گی اور گرین ہاوس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جائے گا۔ اوزون انسانی پھیپھڑوں کے لئے بھی سخت نقصان دہ ہوتی ہے لیکن انسان اس کی زد میں اس لئے نہیں آتا کیونکہ بلند ترین پہاڑ کوہ ہمالیہ کی اونچائی بھی نو کلو میٹر سے کم ہے جبکہ اوزون کی تہہ انےس کلو میٹر اوپر جا کر شروع ہوتی ہے۔

کیمیائی مادوں کے استعمال سے پیدا ہونے والیالٹرا وائلٹ شعاعیں فضا پر تنی اوزون کی تہہ کے کم ہو نے کے باعث بن رہی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق چلی میں بالائے ان شعاعوں کی سطح معمول سے زیادہ ہے جو گرمیوں میں اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ جنگلات کا بے دریغ کٹاو، سڑکوں پر دھواں دینے والی گاڑیوں اور ویگنوں کے استعمال میں اضافہ، کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کا مناسب بندوبست نہ ہونا اور ائیرکنڈیشن پلانٹس کے بے تحاشہ استعمال نے کرئہ ارض کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے۔

تحریر:سید محمد عابد

http://smabid.technologytimes.pk/?p=552

http://www.technologytimes.pk/2011/09/19/۶۱-دسمبر،-اوزون-کا-عالمی-دن/
 
Top