ساہیوال: سی ٹی ڈی کا مشکوک آپریشن، دو خواتین سمیت 4 افراد ہلاک

جاسم محمد

محفلین
ساہیوال: سی ٹی ڈی کا مشکوک آپریشن، دو خواتین سمیت 4 افراد ہلاک، 3 دہشتگرد فرار
195992_7714554_updates.jpeg

سی ٹی ڈی کے مطابق ایک کار اور موٹرسائیکل کو روکنے کی کوشش کی گئی، جس پر کار میں سوار افراد نے پولیس ٹیم پر فائرنگ شروع کردی—۔جیو نیوز اسکرین گریب

ساہیوال: پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ساہیوال میں جی ٹی روڈ پر اڈا قادر کے قریب ایک مشکوک مقابلے کے دوران کار میں سوار 2 خواتین سمیت 4 افراد کے جاں بحق اور 3 دہشت گردوں کے فرار ہونے جبکہ 3 بچوں کو بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا ہے۔

مشکوک پولیس مقابلے کی خبر میڈیا پر نشر ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر واقعے کا نوٹس لے کر رپورٹ طلب کرلی۔

آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کو پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق 'سی ٹی ڈی نے حساس ادارے کی جانب سے ملنے والی موثر اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے'۔

ترجمان کے مطابق 'ہفتے کی دوپہر 12 بجے کے قریب ٹول پلازہ کے پاس سی ٹی ڈی ٹیم نے ایک کار اور موٹرسائیکل کو روکنے کی کوشش کی، جس پر کار میں سوار افراد نے پولیس ٹیم پر فائرنگ شروع کردی'۔

ترجمان کے مطابق 'سی ٹی ڈی نے اپنے تحفظ کے لیے جوابی فائرنگ کی، جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو دو خواتین سمیت 4 دہشت گرد ہلاک پائے گئے جبکہ 3 دہشت گرد موقع سے فرار ہوگئے'۔

سی ٹی ڈی ذرائع کے مطابق 'یہ کارروائی فیصل آباد میں 16 جنوری کو ہونے والے آپریشن کا تسلسل ہے اور سی ٹی ڈی کی ٹیم ریڈ بک میں شامل دہشت گردوں شاہد جبار اور عبدالرحمان کا تعاقب کر رہی تھی'۔

رپورٹ کے مطابق 'آج صبح معتبر ذرائع سے یہ اطلاع ملی کی وہ اسلحے اور دھماکا خیز مواد کے ساتھ ساہیوال کی جانب سفر کر رہے تھے، یہ دہشت گرد چیکنگ سے بچنے کے لیے خاندان کے ساتھ سفر کرتے تھے'۔

سی ٹی ڈی کے مطابق 'دہشت گردوں سے ہتھیار ڈالنے کو کہا گیا لیکن انہوں نے فائرنگ کردی، جس کے بعد دہشت گرد شاہد جبار، عبدالرحمان اور اس کا ایک ساتھی موٹرسائیکل پر سوار ہوگئے جبکہ سی ٹی ڈی ٹیم نے موقع سے خودکش جیکٹ، ہینڈ گرنیڈ اور رائفلز سمیت دیگر اسلحہ قبضے میں لے لیا'۔

ترجمان کے مطابق 'ہلاک ہونے والے ایک دہشت گرد کی شناخت ذیشان کے نام سے ہوئی، جو کالعدم تنظیم داعش کا مقامی سرغنہ تھا،جبکہ عدیل فیصل آباد آپریشن میں ہلاک ہوا تھا'۔

سی ٹی ڈی کے مطابق 'مارے گئے افراد پنجاب میں داعش کے سب سے خطرناک دہشت گردوں میں شامل تھے اور یہی دہشت گرد امریکی شہری وارن وائن اسٹائن اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے اغوا میں بھی ملوث تھے'۔

اس سے قبل ذرائع کے مطابق سی ٹی ڈی پولیس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ کار میں اغوا کار سوار تھے جبکہ 3 بچوں کو بھی بازیاب کرالیا گیا۔

'پولیس نے بچوں کو پیٹرول پمپ پر چھوڑ دیا'

عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کا نشانہ بنانے والی گاڑی لاہور کی جانب سے آرہی تھی، جسے ایلیٹ فورس کی گاڑی نے روکا اور فائرنگ کردی جبکہ گاڑی کے اندر سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔

عینی شاہدین کے مطابق مرنے والی خواتین کی عمریں 40 سال اور 13 برس کے لگ بھگ تھیں۔

195992_5134639_updates.jpeg

گاڑی میں موجود بچوں کو پولیس نے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا—۔جیو نیوز اسکرین گریب

عینی شاہدین نے مزید بتایا کہ گاڑی میں کپڑوں سے بھرے تین بیگ بھی موجود تھے، جنہیں پولیس اپنے ساتھ لے گئی۔

عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کے واقعے کے بعد پولیس نے کار میں سوار بچوں کو قریبی پیٹرول پمپ پر چھوڑ دیا، جہاں انہوں نے بتایا کہ ان کے والدین کو مار دیا گیا ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق تھوڑی دیر بعد ہی سی ٹی ڈی پولیس بچوں کو اپنے ساتھ موبائل میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر لے گئی، جن میں سے ایک بچہ فائرنگ سے معمولی زخمی ہوا، جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا۔

شادی میں شرکت کیلئے جارہے تھے، زخمی بچے کا بیان

دوسری جانب فائرنگ سے زخمی ہونے والے بچے عمر خلیل نے اسپتال میں میڈیا کو اپنے بیان میں بتایا کہ وہ گاڑی میں سوار ہو کر چچا کی شادی میں شرکت کے لیے بورے والا گاؤں جارہے تھے۔

بچے کے مطابق گاڑی میں اس کے اور اس کی 2 چھوٹی بہنوں کے علاوہ والد خلیل، والدہ غضنفر، بڑی بہن اریبہ اور والد کا دوست مولوی سوار تھے، جو واقعے میں جاں بحق ہوگئے۔

بچے نے بتایا کہ اس کے والد نے پولیس والوں سے کہا کہ پیسے لے لو، ہمیں معاف کردو لیکن انہوں نے فائرنگ کردی۔

عمر نے مزید بتایا کہ فائرنگ سے اس کے والدین، بہن اور والد کے دوست جاں بحق ہوگئے، جبکہ انہیں پولیس پہلے پیٹرول پمپ چھوڑ آئی اور پھر اسپتال منتقل کردیا۔

آئی جی پنجاب نے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی

اس سے قبل انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب امجد جاوید سلیمی نے واقعے کا نوٹس لے کر آر پی او ساہیوال سے فوری رپورٹ طلب کی تھی۔

ترجمان پنجاب پولیس نبیلہ غضنفر کے مطابق اگر مارےگئے افراد پُر امن شہری تھے تو فائرنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

دوسری جانب وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر واقعے میں کسی کی غفلت ثابت ہوئی تو اس کے خلاف ایکشن لیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان نیا ظالم پرانے ظلم پرانے تین دہشتگرد بچ گئے انھیں بھی مار ہی دیتے تو اچھا ہے
نئے پاکستان کی حکومت نے متعلقہ پولیس اہلکار گرفتار کر لئے ہیں اور تین دن بعد ان کو پھانسی لگ جائے گی۔ سارے گواہان، ورثا کی شہادتیں اور ویڈیو شواہد ان کے خلاف ہیں۔
 
نئے پاکستان کی حکومت نے متعلقہ پولیس اہلکار گرفتار کر لئے ہیں اور تین دن بعد ان کو پھانسی لگ جائے گی۔ سارے گواہان، ورثا کی شہادتیں اور ویڈیو شواہد ان کے خلاف ہیں۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلطی تو دور کی بات گناہ مانے کو تیار نہیں ۔
وہ اہلکار اندھے تھے ؟ پنجاپ حکومت کے ترجمان محترم فیاض الحسن چوہان صاحب فرماتے اگر یہ لوگ بے قصور ثابت ہوئے تو لواحقین کو پیسے دے دیئے جائیں گے ؟ مطلب آپ پہلے بندہ مارو گے بعد میں اس کے جرم کے اوپر تحقیقات ہوں گی ؟
کیوں نہ ان اہلکاروں کو بھی گولی مار دی جائے اور بعد میں تحقیقات کی جائیں ؟ اگر یہ بے قصور ہوئے ان کے گھر والوں کو مالی مدد کر دی جائے ؟
گاڑی میں بیٹھے ہوئے بچے انھیں نظر نہیں آ رہے تھے ؟
 

فرقان احمد

محفلین
جوازات نکل آتے ہیں تاہم ایسے سانحات کی تلافی لفاظی سے نہیں ہو سکتی۔ یوں لگا جیسے ہم سب مجرم ہیں۔ یہ ایک معاشرتی المیہ بھی ہے۔ بچ رہنے والے معصوم بچوں کے پاس ٹویٹر ہینڈل ہیں اور نہ ہی لفاظی کے نشتر، کوئی عہدہ ہے نہ اختیار، ان میں سے کوئی شہباز ہے، نہ بزدار۔۔۔! یہ ایک عام حادثہ نہیں؛ بہت بڑا سانحہ ہے۔۔۔! انسانیت کراہ رہی ہے اور اک ہم ہیں کہ جوازات کے نشتروں سے لیس، ہر معاملے سے برات کا اظہار کرنے میں مصروف ہیں ۔۔۔! نام نہاد جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ تک تو ابھی تک آئی نہیں ہے تاہم اس لڑی کا عنوان چیخ چیخ کر مرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔۔۔۔ افسوس، صد افسوس! ان معصوم بچوں کی آہ سے ڈریں اور یہ تصور کر کے دیکھیں کہ اگر یہ خاندان دہشت گرد نہ نکلا تو کیا ہو گا جس کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ مسٹر جاسم! آپ کو سوچنا چاہیے۔۔۔! عنوان میں مناسب تبدیلی کر دیجیے تو آپ کا احسان ہو گا۔ یہ سیاست بازی کا وقت نہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلطی تو دور کی بات گناہ مانے کو تیار نہیں ۔
وہ اہلکار اندھے تھے ؟ پنجاپ حکومت کے ترجمان محترم فیاض الحسن چوہان صاحب فرماتے اگر یہ لوگ بے قصور ثابت ہوئے تو لواحقین کو پیسے دے دیئے جائیں گے ؟ مطلب آپ پہلے بندہ مارو گے بعد میں اس کے جرم کے اوپر تحقیقات ہوں گی ؟
کیوں نہ ان اہلکاروں کو بھی گولی مار دی جائے اور بعد میں تحقیقات کی جائیں ؟ اگر یہ بے قصور ہوئے ان کے گھر والوں کو مالی مدد کر دی جائے ؟
گاڑی میں بیٹھے ہوئے بچے انھیں نظر نہیں آ رہے تھے ؟
یاد رہے کہ سی ٹی ڈی نے یہ کاروائی حساس ادارے کی انٹل پر کی ہے۔ حکومت کو کانوں کان آپریشن کی خبر نہیں تھی۔ حکومتی وزرا کے بیانات اسی کا تسلسل ہیں۔
بہرحال ساہیوال سانحہ کے بعد ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر متعلقہ اہلکار زیر حراست ہیں۔ ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہو چکی ہے۔ جے آئی ٹی بن چکی ہے جو دو روز کے اندر اندر سارے حقائق قوم کے سامنے رکھے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
جوازات نکل آتے ہیں تاہم ایسے سانحات کی تلافی لفاظی سے نہیں ہو سکتی۔ یوں لگا جیسے ہم سب مجرم ہیں۔ یہ ایک معاشرتی المیہ بھی ہے۔ بچ رہنے والے معصوم بچوں کے پاس ٹویٹر ہینڈل ہیں اور نہ ہی لفاظی کے نشتر، کوئی عہدہ ہے نہ اختیار، ان میں سے کوئی شہباز ہے، نہ بزدار۔۔۔! یہ ایک عام حادثہ نہیں؛ بہت بڑا سانحہ ہے۔۔۔! انسانیت کراہ رہی ہے اور اک ہم ہیں کہ جوازات کے نشتروں سے لیس، ہر معاملے سے برات کا اظہار کرنے میں مصروف ہیں ۔۔۔! نام نہاد جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ تک تو ابھی تک آئی نہیں ہے تاہم کس وثوق سے اس لڑی کا عنوان چیخ چیخ کر مرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔۔۔۔ افسوس، صد افسوس!
لڑی واقعہ کے فورا بعد بنائی گئی جب متعلقہ ڈپارٹمنٹ سانحہ کو دہشتگردی قرار دے رہا تھا۔ حقائق سامنے آنے پر اسے تبدیل کر دینا چاہیے۔ ویسے بھی خبر کی سورس جیو نیوز ہے جو خود اس وقت تک حقائق سے لا علم تھے۔
باقی حکومت اس سلسلہ میں جو کر سکتی ہے وہ کر رہی ہے۔ جیسا کہ آپ نے کہا یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں ہے۔ ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی ہوگی اور ورثا کو انصاف فراہم کیا جائے گا
 
یاد رہے کہ سی ٹی ڈی نے یہ کاروائی حساس ادارے کی انٹل پر کی ہے۔ حکومت کو کانوں کان آپریشن کی خبر نہیں تھی۔ حکومتی وزرا کے بیانات اسی کا تسلسل ہیں۔
بہرحال ساہیوال سانحہ کے بعد ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر متعلقہ اہلکار زیر حراست ہیں۔ ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہو چکی ہے۔ جے آئی ٹی بن چکی ہے جو دو روز کے اندر اندر سارے حقائق قوم کے سامنے رکھے گی۔
اگر آپ ملک کے اداروں کو کنٹرول نہیں کر سکتے تو آپ کے پاس حکومت کرنے کا کون سا جواز باقی رہ جاتا ہے ؟
آئی ایس آئی حکومت کے اندر آتی ہے ؟ یا حکومت آئی ایس آئی کے انڈر ؟
 
میں پھر کہتا ہوں اپنے گناہوں کو کم از کم تسلیم کر لینا چاہیے ۔
اگر کامیابی کو حکومت کے پلے میں کر دیا جاتا ہے تو ناکامی کو اداروں کے کھاتے میں ڈالا دیا جاتا ہے ساتھ ہی ساتھ ہم اپنے سیاسی پارٹی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کبھی کہتے ہیں کھاتا ہے تو لگتا بھی ہے کبھی کہتے ہیں حکومت کو وقت ہی کتنا ہوا ہے سبھی تو کل آئی ہے
مر تو بیچارا غریب عوام ہی رہے ہیں
 
کل سے عجیب طبیعت ہے۔
نہ ہی ایسا واقعہ پہلی دفعہ ہوا ہے، اور نہ ہی آئندہ ایسے واقعات رک سکیں گے۔ تشویش کا اظہار، کاروائی کا آغاز، کمیٹی کا قیام، وقت گزاری اور پھر کوئی نیا شوشہ۔
جب تک محافظوں کے بھیس میں قاتلوں کو پھانسیاں نہیں دی جائیں گی، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
خروٹ آباد ہو، راؤ انوار کے انکاؤنٹرز ہوں، حالیہ واقعہ ہو، یا ایسے اور انگنت واقعات۔ مسئلہ اختیار کے ناجائز استعمال اور صاحبِ اختیار کے قانون سے بالادست ہونے کا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
میں پھر کہتا ہوں اپنے گناہوں کو کم از کم تسلیم کر لینا چاہیے ۔
اگر کامیابی کو حکومت کے پلے میں کر دیا جاتا ہے تو ناکامی کو اداروں کے کھاتے میں ڈالا دیا جاتا ہے ساتھ ہی ساتھ ہم اپنے سیاسی پارٹی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کبھی کہتے ہیں کھاتا ہے تو لگتا بھی ہے کبھی کہتے ہیں حکومت کو وقت ہی کتنا ہوا ہے سبھی تو کل آئی ہے
مر تو بیچارا غریب عوام ہی رہے ہیں
انصافیوں کا لیگیوں سے موازنہ کرنا اس تکلیف دہ سانحہ پر سیاست کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ لیگی دور میں تو دن دہاڑے پورے میڈیا کے سامنے پنجاب پولیس 14 لوگوں کوچھلنی کر دیتی ہے۔ اور اس ریاستی جبر کے خلاف ایف آئی آر تک ٹھیک سے نہیں بنتی۔بلکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن گزر جانے کے کئی ماہ بعد طاہرالقادری کے دھرنے کے دوران آرمی چیف کی نگرانی میں دوبارہ درج ہوتی ہے۔
جبکہ سانحہ ساہیوال پرانصافیوں نے خود حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔ اور اپنے وزرا سے سختی سے مطالبہ بھی کہ واقعہ کے کرداروں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچائیں۔ اور جن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ان کو فوری انصاف فراہم کریں۔ وگرنہ اپنے ہی ووٹرز کی طرف سے سخت نتائج کے لئے تیار رہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب تک محافظوں کے بھیس میں قاتلوں کو پھانسیاں نہیں دی جائیں گی، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
میرے خیال میں محافظوں کی فوج میں سے چن چن کر کالی بھیڑوں کو نکالنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ یہ سب بھرتیاں سابقہ حکومتوں میں انتظامی کرپشن کی باقیات ہیں۔ جس کا خمیازہ نئی حکومت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگر تحریک انصاف حکومت اس سانحہ کو بنیاد بنا کر پنجاب پولیس کی از سر نو تشکیل کر دے تو یہ قوم پر بہت بڑا احسان ہوگا۔ پولیس اور صوبوں میں بھی ہے۔ البتہ جتنا گند اس پنجاب پولیس نے ڈالا ہوا ہے اس کا کوئی حساب ہی نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
بدقسمتی کی بات ہے کہ اس معاملے میں بھی پٹواریوں اور انصافیوں کا تقابل جاری ہے؛ ہر معاملے میں سیاست بازی مناسب نہیں۔ ہر دو گروہوں میں کچھ لوگ غیر جانب دار نکل آتے ہیں تاہم دونوں طرف کا ایک ہی معاملہ ہے۔ یہ بازو ہمارے آزمائے ہوئے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بدقسمتی کی بات ہے کہ اس معاملے میں بھی پٹواریوں اور انصافیوں کا تقابل جاری ہے
اس کی ضرورت ہرگزنہ پڑتی اگر حالیہ حکومت کو ماڈل ٹاؤن سانحہ کرنے والوں کی طرف سے "بھاشن" سننے کو نہ ملتے۔ سب کو معلوم ہے کہ ساہیوال سانحہ کے بعد فوری طورپر یہ اقدامات اٹھائے گئے ہیں:
  • ملزمان کی گرفتاری
  • ملزمان کے خلاف ورثا کی طرف سے ایف آئی آر کا اندراج جس میں دہشت گردی اور قتل کی دفعات شامل ہیں
  • سانحہ کی تفتیشی رپورٹ 72 گھنٹے میں پیش کرنے کیلئے جے آئی ٹی کا قیام جس میں تمام اداروں کو آن بورڈ لیا گیا
  • تفتیشی رپورٹ پیش ہوتے ہی حکومت کی طرف سے ذمہ داران کے خلاف فوری ایکشن اور انصاف کی فراہمی کا عندیہ
اگر ان سب اقداما ت پر بھی عوام "مطمئن" نہیں ہے۔ اور سابقہ حکومتوں سے موازنہ کئے جا رہی ہے تو اس کی گل خلاصی عدالت عظمیٰ سانحہ پر سوموٹو لے کر کر سکتی ہے۔
 
انصافیوں کا لیگیوں سے موازنہ کرنا اس تکلیف دہ سانحہ پر سیاست کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ لیگی دور میں تو دن دہاڑے پورے میڈیا کے سامنے پنجاب پولیس 14 لوگوں کوچھلنی کر دیتی ہے۔ اور اس ریاستی جبر کے خلاف ایف آئی آر تک ٹھیک سے نہیں بنتی۔بلکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن گزر جانے کے کئی ماہ بعد طاہرالقادری کے دھرنے کے دوران آرمی چیف کی نگرانی میں دوبارہ درج ہوتی ہے۔
جبکہ سانحہ ساہیوال پرانصافیوں نے خود حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔ اور اپنے وزرا سے سختی سے مطالبہ بھی کہ واقعہ کے کرداروں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچائیں۔ اور جن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ان کو فوری انصاف فراہم کریں۔ وگرنہ اپنے ہی ووٹرز کی طرف سے سخت نتائج کے لئے تیار رہیں۔
نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر ہو گئی مبارک ہو کے پنجاب حکومت کو پتہ ہی نہیں وہ اہلکار کون تھے ؟
وزیر قانون صاحب نے ذیشان کو پہلے کی دہشت گرد قرار دے دیا تو بھائی جے آئی ٹی چہ معنی ؟
گورنر پنجاب صاحب جو فرما رہے خود سن کے بتائے کے بے غیرتی ہے یہ بیان ؟


 
اس کی ضرورت ہرگزنہ پڑتی اگر حالیہ حکومت کو ماڈل ٹاؤن سانحہ کرنے والوں کی طرف سے "بھاشن" سننے کو نہ ملتے۔ سب کو معلوم ہے کہ ساہیوال سانحہ کے بعد فوری طورپر یہ اقدامات اٹھائے گئے ہیں:
  • ملزمان کی گرفتاری
  • ملزمان کے خلاف ورثا کی طرف سے ایف آئی آر کا اندراج جس میں دہشت گردی اور قتل کی دفعات شامل ہیں
  • سانحہ کی تفتیشی رپورٹ 72 گھنٹے میں پیش کرنے کیلئے جے آئی ٹی کا قیام جس میں تمام اداروں کو آن بورڈ لیا گیا
  • تفتیشی رپورٹ پیش ہوتے ہی حکومت کی طرف سے ذمہ داران کے خلاف فوری ایکشن اور انصاف کی فراہمی کا عندیہ
اگر ان سب اقداما ت پر بھی عوام "مطمئن" نہیں ہے۔ اور سابقہ حکومتوں سے موازنہ کئے جا رہی ہے تو اس کی گل خلاصی عدالت عظمیٰ سانحہ پر سوموٹو لے کر کر سکتی ہے۔
ایک کام کیجیے حکومت ہی چھوڑ کر گزشتہ حکومت کو دے دیجیئے بھائی اگر اپنی ہر بے غیرتی کو اسی طرح گزشتہ حکومت کے کھاتے میں ڈالنا ہے
 
آخری تدوین:
Top