سانحہAPS، سانحہ سیالکوٹ اور مذہبی انتہا پسندی

ایس ایم شاہ

محفلین
سانحہAPS، سانحہ سیالکوٹ اور مذہبی انتہا پسندی
تحریر: ایس ایم شاہ
اسلام امن، رواداری، بھائی چارے اور برداشت کا مذہب ہے۔ جس میں کسی ایک معمولی خراش تک کے لئے بھی دیت معین ہے۔ کسی کو جان سے مارنا تو بہت دور کی بات۔ قرآن مجید کسی بھی انسان کی بے جا جان لینے کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔

وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جاکر "اسلامو فوبیا" کے خلاف جامع خطاب کرتے ہیں۔ واپس آکر پاکستانی مسلمانوں کے خون سے آلودہ تحریک طالبان سے مذاکرات اور انہیں عام معافی کا اعلان کرتے ہیں۔ دس کے لگ بھگ بے گناہ پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے کے انعام میں فوری تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی اور دیگر کارکنوں کو آزاد اور تحریک لبیک کے نام کو کالعدم تنظیموں کی لسٹ سے نکال دیتے ہیں۔ جس طرح شام اور عراق میں دہشت گرد گروہ داعش نعرہ تکبیر کے ساتھ ہزاروں مسلمانوں کے گلے کاٹتے رہے اسی طرح تحریک لبیک والے نعرہ رسالت کے ساتھ بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔

اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت، مملکت خداد داد پاکستان میں تسلسل سے ایسے سانحات رونما ہونے کے باعث ناصرف ہم پاکستانی مسلمان دنیا بھر میں بدنام ہو رہے ہیں بلکہ ایسے سانحات پوری دنیا کے مسلمانوں کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات کے بیان کے مطابق ہمارے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کی بنیادی وجہ 1980 سے 1990 کے درمیان میں ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں یعنی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مذہبی شدت پسند لوگوں کو بطور ٹیچر، لیکچرار اور پروفیسر کے سرکاری پوسٹوں پر تقرر کرنا ہے۔ جس کے باعث آج بھی ملک میں بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔

اس دورانیے میں نہ فقط تعلیمی اداروں میں شدت پسند افراد نے رسوخ حاصل کئے بلکہ امریکہ اور سعودی عرب کے ڈکٹیشن پر ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے باقاعدہ جہادی دستے تشکیل دے کر ان کا برین واش کرکے انہیں افغانستان جہاد کے لئے بھیجا۔ جب امریکہ نے افغانستان میں روس کو شکست سے دوچار کیا تو ان جہادی دستوں کا افغانستان میں کوئی مصرف باقی نہیں رہا۔ پھر یہ جنگجو ٹولہ پاکستان واپس آیا اور ملک کے اندر خون خرابہ شروع کر دیا۔ جس کا سلسلہ ابھی تک نہ تھم سکا۔ اب تک لگ بھگ اسی ہزار پاک فوج اور بے گناہ پاکستانی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلا جا چکا ہے۔ جس کا اجر و ثواب گیارہ سال تک جابرانہ اس مملکت خداداد پر حکومت کرنے والا ڈکٹیٹر ضیاء الحق ہمیشہ کے لئے سمیٹتا رہے گا۔ آج بھی ہمارے اداروں میں چھپے ضیاء الحق کی باقیات ملک کو کمزور کرنے میں مصروف عمل ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا فقط پاکستان میں ہی مسلمان بستے ہیں؟ جہاں پر کبھی صحابہ کے نام کو پلے کارڈ بناکر بے گناہ مسلمانوں کا گلا کاٹا جاتا ہے، اپنے ہی کلمہ گو مسلمانوں کی تکفیر کی جاتی ہے، گلدستہ اذاں سے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف اعلان جنگ کیا جاتا ہے، مسجدوں میں گھس کر اللہ تعالی کی تسبیح و تحلیل و تقدیس میں مصروف مسلمانوں کو کافر قرار دے کر شہید کیا جاتا ہے، اپنے بھال بچوں کی کفالت کی خاطر رزق حلال کمانے کے لئے کاروبار میں مصروف افراد کی دکانوں میں گھس کر ان کے سینوں کو چھلنی کیا جاتا ہے، نعرہ تکبیر کے ساتھ پاک فوج کے جوانوں کے سروں سے کھیلا جاتا ہے اور ان کے بدن کو سڑکوں اور چوراہوں پر گھسیٹا جاتا ہے۔

ہم نے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کے ذریعے فقط بعض شدت پسندوں کے سروں کو کاٹنے پر اکتفا کیا لیکن ان کی جڑوں کو ختم کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ جب تک ان کی جڑیں نہیں کاٹیں گے اس وقت تک آئے روز قتل و غارت کا یہ بازار گرم رہے گا۔

16دسمبر2014. کو سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور میں سینکڑوں معصوم بچےخاک و خون میں غلطاں ہوئے اور سینکڑوں والدین سے ان کے بڑھاپے کے سہارے چھینے گئے۔ سات سال کا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی آج تک ان معصوم بچوں کے والدین اپنی امیدوں کو خاک میں ملانے والے قاتلوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس اہم قومی سانحے کے بعد 2015 میں 20 نکات پر مشتمل جامع نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا اور اسی وقت تو اس پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے ذرا پھرتی بھی نظر آئی۔ بعد ازاں اس پلان کے مکینیزم کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی۔ درنتیجہ یہ سب کچھ قصہ پارینہ بن کر رہ گیا۔

دہشت گردی کی روک تھام کے لئے ہمیں سنجیدہ ہوکے دیکھنا ہوگا کہ آخر یہ Narrow Mind ٹولہ کیسے وجود میں آیا؟ کون ان کی سرپرستی کر رہا ہے؟ انہیں مالی معاونت کون فراہم کر رہا ہے؟ کہیں ہمارے سرکاری اور دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں ایسے مواد تو شامل نہیں جو Religious Extermism کا سبب قرار پا رہے ہیں؟ کہیں ہمارے ممبر و محراب سے ایسی تعلیمات کی پرچار تو نہیں ہو رہی جس سے مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت کا رجحان بڑھ رہا ہے؟ کہیں ملکی دفاع کا اہم فریضہ نبھانے والے پاک فوج اور ایجنسیز کے دستوں میں ایسے مسلکی شدت پسند اور تکفیری عناصر گھسے ہوئے تو نہیں جو اپنا فرائض منصبی نبھانے کے بجائے ملک کی جڑوں کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں؟

ہمارا ملکی نصاب جس کے ذریعے سے کل کو پوری نسل نے پروان چڑھنا ہے اور اسی ڈگر پر انھوں نے چلنا ہے، کہیں بیرونی امداد سے شہ پاکر ان کے اشاروں پر عمل کرکے نئی نسل کے مستقبل کے ساتھ سودا تو نہیں ہو رہا؟ جس کے تحت مملکت خداداد پاکستان میں "یکساں نصاب تعلیم" کے خوبصورت نعروں کے ساتھ اہل بیت اطہار علیہم السلام جیسی پاک ہستیوں کے مقدس اسماء اور ان کی پاکیزہ سیرت و کردار کو محو کرکے، بالخصوص واقعہ کربلا کا تذکرہ ختم کرکے، بنوامیہ کے ڈکٹیٹر ظالم حکمرانوں کو مسلم ہیرو بناکر پیش کرکے، اس درود ابراہیمی میں تحریف کرکے جو 1400 سالوں سے رائج ہے اور 57اسلامی ممالک کے 1.5ارب مسلمان اپنی پنجگانہ فرض نمازوں میں اسی درود کو پڑھا کرتے ہیں، یکساں نصاب تعلیم میں بغیر کسی قرآنی یا روائی دلیل کے درود ابراہیمی میں تحریف کرکے اہل بیت اطہار کے اسمائے گرامی کے ساتھ درود و سلام میں جبری اصحاب کو بھی ایڈ کرکے(حقیقت یہ ہے کہ "لایقاس بآل محمد احد" آل محمد کے ساتھ کسی کا بھی موازنہ جائز نہیں) کہیں پھر سے صحابہ کے نام پر ایک شدت پسند اور انتہا پسند گروہ وجود میں لانے کی دانستہ کوشش تو نہیں ہو رہی ہے؟

ان تمام بحرانوں سے ملک کو اس وقت نکالا جاسکتا ہے کہ جب تمام ادارے باہمی ہم آہنگی کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی کے تحت آگے بڑھے، تمام اداروں کے سربراہان اپنی ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے ملکی مفاد کو فرنٹ لائن پر کر رکھے، نیشنل ایکشن پلان کے مندرجات پر بہتر انداز سے عمل درآمد کے لئے ماہرین کی مدد سے ایک مکمل میکینیزم ترتیب دیکر اس پر من و عن عملدرآمد کو ہر صورت ممکن بنائے، دہشتگردوں، ان کے سہولت کاروں، مذہبی جذبات کو بھڑکا کے Religious Affiliation کے لئے راہ ہموار کرنے والوں اور ملکی سالمیت کو داؤ پر لگانے والے دیگر عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔

ملک میں ایک ایسا جامع نصاب تعلیم متعارف کرایا جائے کہ جس کے ذریعے تنگ نظری کی بجائے وسعت نظری پروان چڑھے، جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے عقل و منطق کو فروغ ملے، نفرت کی آگ بھڑکانے کے بجائے باہمی الفت و محبت کی فضا ہموار ہو، شدت پسندی کو پروموٹ کرنے کے بجائے تحمل مزاجی کی روایت کو عام کرے، تکفیری عناصر کو سپورٹ کرنے کے بجائے "امت واحدہ" کی تشکیل کے لئے لائحہ عمل مرتب ہو، انفرادیت کو ترجیح دینے کے بجائے اجتماعی سوچ ایجاد ہو اور اپنی "انا" کی تسکین کی خاطر کوشاں رہنے کے بجائے اخلاق فاضلہ سے آراستہ پیراستہ مدینہ فاضلہ کی تشکیل کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لانے والے افراد پیدا ہوں۔ غرض نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد اور ایک جامع نظام تعلیم اور نصاب تعلیم مرتب کرکے اسے عملی جامہ پہنانے سے ہی سانحہ APS اور سانحہ سیالکوٹ جیسے سانحات کا تدارک ممکن ہے اور مسلکی انتہا پسندی کا خاتمہ اس وقت ہوگا کہ جب مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں اپنے جذبات کی پیروی کرنے کے بجائے اسلامی اصولوں پر حقیقی معنوں میں کاربند رہیں۔
 
Top