"سانحہ بنگال" میں سب کے لیے سبق!

arifkarim

معطل
"سانحہ بنگال" میں سب کے لیے سبق

Hardik-Pandya-1-650x433.jpg

بنگلہ دیش کی گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے کارکردگی بہت نمایاں ہے، خاص طور پر محدود طرز کی کرکٹ میں کہ جس میں وہ عالمی کپ 2015ء کو کوارٹر فائنل تک پہنچا، پھر پاکستان، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں کو ایک روزہ سیریز میں شکست دی اور حال ہی میں ایشیا کپ کے فائنل تک پہنچا۔ اس کارکردگی کی بنیاد پر توقع کی جا رہی تھی کہ بنگلہ دیش ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء میں نئی نویلی توقعات پر پورا اترے گا۔ کوالیفائنگ مرحلے میں تو جیسی جامع کارکردگی بنگال کے "شیروں" نے دکھائی، اس نے کئی "بڑوں" کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ لیکن بدقسمتی سے بنگلہ دیش "گروپ آف ڈیتھ" میں مارا گیا۔
پاکستان کے خلاف کہ جہاں جیت کی توقع سب سے زیادہ تھی، اسے بری طرح شکست ہوئی۔ حوصلے ٹوٹے اور آسٹریلیا کے خلاف فیصلہ کن ضرب نہ لگا سکا لیکن اصل "دل شکن" ہار تو وہ ہے جو ابھی ہولی سے ایک دن قبل بھارت کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ بنگلور کے ایم چناسوامی اسٹیڈیم میں بنگلہ دیش 147 رنز کے معمولی ہدف کے تعاقب میں بہترین مقام پر تھا۔ پہلی گیند پر چوکے سے لے کر اسے اوور میں کیچ چھوٹنے کی وجہ سے ملنے والی نئی زندگی تک، یہاں تک کہ آخری اوور کی شروعات ہونے پر بھی حالات بنگلہ دیش کے حق میں تھے۔ جب مشفق الرحیم نے دوسری اور تیسری گیند پر ہردیک پانڈيا کو دو کرارے چوکے رسید کیے تو گویا فیصلہ کن ضرب لگ گئی۔ لیکن حقیقت یہی تھی کہ بنگلہ دیش اب بھی ہدف سے 2 رنز دور تھا اور اس حقیقت کا مشفق، محمود اللہ اور کروڑوں بنگلہ دیشیوں سمیت بھارت کی شکست کے خواہاں کروڑوں دیگر کرکٹ شائقین کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ ان کے خیال میں تین گیندوں پر 2 رنز کا مطلب ہے لازمی کامیابی۔ مشفق نے دوسرا چوکا لگانے کے بعد جشن منانا بھی شروع کردیا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا، جہاں بنگلہ دیش مقابلے پر اپنی گرفت کھو بیٹھا۔ مشفق جذبات کی رو میں بہہ گئے۔ اگلی گیند پر "فاتحانہ چھکا" لگا کر تاریخی کامیابی سمیٹنے کی کوشش ناکام ہوئی اور مشفق آؤٹ ہوگئے۔ یہی نہیں بلکہ آخری دو گیندوں پر درکار دو رنز کے لیے محمود اللہ جیسا ٹھنڈے دماغ کا بلے باز بھی "جذبات" پر قابو نہ رکھ سکا اور رویندر جدیجا کے کیچ نے بازی پلٹ دی۔ صرف دو گیندیں بھارت کو مقابلے میں واپس لے ائیں۔ آخری گیند پر درکار دو رنز تو کجا برابری کے لیے ضرورت ایک رن بھی نہ دوڑا جا سکا اور بھارت صرف ایک رن سے جیت گیا اور بنگلہ دیش زخم چاٹتا رہ گیا۔
اس فتح/شکست میں سب کے لیے ایک سبق ہے۔ قبل از وقت ہمت ہار دینا یا کامیابی کا جشن منانا دونوں یکساں طور خطرناک ہیں۔ بنگلہ دیش نے نہ صرف اپنے لیے ایک سنہری موقع گنوایا اور سیمی فائنل کی دوڑ سے اخراج کا سامان کیا، بلکہ بھارت کو بھی نئی زندگی عطا کی ہے جو نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد ویسے ہی بے حال تھا اور پاکستان کے مقابلے میں کامیابی ہی اس کا واحد قابل ذکر کارنامہ تھی۔
Mushfiqur-Rahim.jpg

ربط
 

arifkarim

معطل
میری سمجھ سے باہر ہے کہ جب بنگلہ دیش کو جیت کیلئے صرف دو رنز درکار تھے اور تین بالیں موجود تھیں تو ایسے میں باؤنڈری پر شاٹ لگانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ یہی نہیں بلکہ اسکے کیچ آؤٹ ہو جانے کے بعد دوسری بال پر یہی غلطی دوبارہ دہرائی گئی۔ حالانکہ شاٹ لگانے کی بجائے پہلے اسکور کو برابر کیا جاتا اور پھر آخری دو بالوں میں شاٹ لگانے کا شوق پورا کر لیتا تو تب بھی کامیابی حتمی تھی۔ کیونکہ شاٹ باؤنڈری تک نہ جانے کی صورت میں بھی سنگل رن لیکر میچ جیتا جا سکتا تھا۔ میرے خیال میں یہاں بنگالیوں نے بہت برے کھیل کا مظاہرہ کیا۔
 

یاز

محفلین
عارف بھائی! کرکٹ صرف جسمانی صلاحیت یا طاقت و مضبوطی کا کھیل نہیں ہے، بلکہ یہ دماغ کا کھیل بھی ہے۔ جو کھلاڑی ذہنی طور پہ مضبوط ہوں گے، انہی کے اہم میچز اور مشکل مواقع پہ اچھا کھیل پیش کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
اس کی مثال یوں سمجھئے کہ اگر ایک بیٹسمین کسی بہترین باؤلنگ لائن اپ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں چالیس پچاس بالز کھیل جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ اس میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے۔ لیکن کیا فرق ہے جس کی وجہ سے کچھ کھلاڑی پچیس تیس رنز کر کے آؤٹ ہو جاتے ہیں، جبکہ کچھ سنچری کے بعد بھی مشکل سے آؤٹ ہوتے ہیں اور ان کو آؤٹ کرنے کے لئے اچھی خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔ وہ فرق ہے ذہنی مضبوطی کا۔
بنگلہ دیش ٹیم کا ہر کھلاڑی باصلاحیت ہے، لیکن اس کے باوجود ابھی تک وہ عموماََ میچز ہارتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ کھلاڑیوں کی ذہنی مضبوطی اس مقام تک نہیں ہے کہ وہ بڑی ٹیموں کا مقابلہ کر پائیں۔
 
Top