سامنے منزل تھی اور پیچھے اس کی آواز

سامنے منزل تھی اور پیچھے اس کی آواز
رکتا تو سفر جاتا، چلتا تو بچھڑ جاتا

منزل کی بھی حسرت تھی اورا س سے محبت بھی
اے د ل یہ بتا، میں اس وقت کدھر جاتا

مدت کا سفر بھی تھا اور برسوں کی شناسائی بھی
رکتا تو بکھر جاتا،چلتا تو میں مر جاتا

لگی شدت سے پیاس تھی اور پانی میں زہر بھی تھا
پیتا تو میں مر جاتا، نہ پیتا تو بھی مر جاتا

میخانہ بھی اس کا تھا اور مے خوار بھی اس کے
پیتا تو ایماں جاتا، نہ پیتا تو صنم جاتا

سزا ایسی ملی مجھ کو، زخم ایسے لگے دل پہ
چھپاتا تو جگر جاتا، دکھاتا تو بکھر جاتا


شکیل احمد ترابی
 
Top