ناصر علی مرزا
معطل
دنیا بھر کا میڈیا جن تین بڑی کمپنیوں میں تقسیم ہے ان میں ایک کمپنی روپرٹ مرڈوک (Rupert Murdoch) کی نیوز کارپوریشن ہے۔ اس شخص نے اپنے زیر سایہ کام کرنے والے افراد کو جو پالیسی گائڈ لائن دی ہے اس کے چار نکات ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ دنیا بھر میں موسیقی کو الیکٹرانک اور ہیجان انگیز کر دو۔ اس لیے کہ دھیمے سروں اور روایتی سازوں سے مرتب کی جانے والی موسیقی سکون بخشتی ہے، انسان کو ایک ایسے کیف میں لے جاتی ہے جہاں وہ زندگی کا خوبصورت پہلو دیکھتا اور اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ جب کہ الیکٹرانک اور تیز سروں کی موسیقی ہیجان پیدا کرتی ہے اور آدمی کے اندر چھپے غصے، انتقام، جوش اور سفلی جذبات کو بھڑ کاتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ دنیا میں کہیں پر بھی کوئی تحریک چلے، گروہ آپس میں لڑیں، جنگ چھڑ جائے، فساد برپا ہو، ان کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک سازشی تھیوری کے عنصر کو نمایاں کیا جائے۔ جسے عرف عام میں (Conspiracy) کہتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اگر کہیں عوام کی خواہشات سے کوئی تحریک جنم لیتی اور کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو لوگوں کے اندر یہ اعتماد کبھی بھی پیدا نہیں ہوتا کہ انھوں نے حالات کا رخ خود بدل دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جہاں کہیں بھی فساد برپا ہوتا ہے، تو لوگ اس کو ختم کرنے کے لیے اس لیے کوشاں نہیں ہوتے کہ وہ ہمت ہار چکے ہوئے ہیں۔ انھیں سازشی عناصر کی ریشہ دوانیوں کا درس اسقدر پڑھا یا جاتا ہے کہ وہ یقین کر لیتے ہیں کہ اس میں لڑنے والوں کا تو کوئی قصور ہیں نہیں، یہ تو امریکا، برطانیہ یا ایجنسیاں پوری منصوبہ بندی سے لڑوا رہی ہیں۔
تیسری گائڈ لائن یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں اگر کوئی ایسی قیادت ابھرے جسے لوگ پسند کرنے لگیں، اسے قبولیت کی سند حاصل ہو جائے تو اس کے کر دار کو مشکوک کر دو۔ اسے کبھی کسی بیرونی طاقت کا ایجنٹ قرار دو یا کسی لابی کا پروردہ۔ اس کی اخلاقیات کے بارے میں معمولی سی بات بھی ملے تو اچھا لو۔ اگر کوئی گروہ ایسا ہو جو عوام میں پذیرائی حاصل کر رہا ہو تو اس کے بارے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل و غارت کے افسانوں کو شہرت دو۔ جب کہ چوتھی بات یہ کہ خواہ فیشن ہو یا فلم و ڈرامہ، بڑے بڑے لوگوں کی کہانیاں ہوں یا سوشل لائف کے قصے ان سب میں جنس کو نمایاں کرو۔ جنسی بھوک اور ہیجان ایسی چیز ہے جو سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی سوچ کی جانب راغب نہیں ہونے دیتی۔
یہ چاروں اصول آپ کو دنیا کے اکثر میڈیا ہاؤسز میں پیش کیے جانے والے پروگراموں میں نظر آئیں گے۔ آج کے چوبیس گھنٹے چلنے والے الیکٹرانک اور اخبارات کے کالم نگاروں نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات اتاری ہی نہیں بلکہ دماغوں میں ٹھونس دی ہے کہ اس ملک میں جتنی بھی تحریکیں چلتی ہیں، جتنے فساد ہوتے ہیں، جو بھی قتل و غارت ہے وہ اوّل تو عالمی سازش کا حصہ ہیں یا پھر مقامی ادارے ان میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ قصہ صرف میرے ملک کا نہیں دنیا میں جہاں کہیں بھی میڈیا کی گرفت میں آئے ہوئے انسان جاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کے ہاں کسی رہنما کے روپ میں امید انگڑائی لینے لگتی ہے تو عظیم دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کی فوج ظفر موج ایسے شاندار طریقے سے کہانی کے اسکرپٹ بیان کرتی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ گلی میں ناراض ہو کر ٹائر جلانے والا شخص بھی براہِ راست امریکی سی آئی اے سے ہدایات لے رہا تھا۔
اوریا مقبول جان
دوسری بات یہ کہ دنیا میں کہیں پر بھی کوئی تحریک چلے، گروہ آپس میں لڑیں، جنگ چھڑ جائے، فساد برپا ہو، ان کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک سازشی تھیوری کے عنصر کو نمایاں کیا جائے۔ جسے عرف عام میں (Conspiracy) کہتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اگر کہیں عوام کی خواہشات سے کوئی تحریک جنم لیتی اور کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو لوگوں کے اندر یہ اعتماد کبھی بھی پیدا نہیں ہوتا کہ انھوں نے حالات کا رخ خود بدل دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جہاں کہیں بھی فساد برپا ہوتا ہے، تو لوگ اس کو ختم کرنے کے لیے اس لیے کوشاں نہیں ہوتے کہ وہ ہمت ہار چکے ہوئے ہیں۔ انھیں سازشی عناصر کی ریشہ دوانیوں کا درس اسقدر پڑھا یا جاتا ہے کہ وہ یقین کر لیتے ہیں کہ اس میں لڑنے والوں کا تو کوئی قصور ہیں نہیں، یہ تو امریکا، برطانیہ یا ایجنسیاں پوری منصوبہ بندی سے لڑوا رہی ہیں۔
تیسری گائڈ لائن یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں اگر کوئی ایسی قیادت ابھرے جسے لوگ پسند کرنے لگیں، اسے قبولیت کی سند حاصل ہو جائے تو اس کے کر دار کو مشکوک کر دو۔ اسے کبھی کسی بیرونی طاقت کا ایجنٹ قرار دو یا کسی لابی کا پروردہ۔ اس کی اخلاقیات کے بارے میں معمولی سی بات بھی ملے تو اچھا لو۔ اگر کوئی گروہ ایسا ہو جو عوام میں پذیرائی حاصل کر رہا ہو تو اس کے بارے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل و غارت کے افسانوں کو شہرت دو۔ جب کہ چوتھی بات یہ کہ خواہ فیشن ہو یا فلم و ڈرامہ، بڑے بڑے لوگوں کی کہانیاں ہوں یا سوشل لائف کے قصے ان سب میں جنس کو نمایاں کرو۔ جنسی بھوک اور ہیجان ایسی چیز ہے جو سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی سوچ کی جانب راغب نہیں ہونے دیتی۔
یہ چاروں اصول آپ کو دنیا کے اکثر میڈیا ہاؤسز میں پیش کیے جانے والے پروگراموں میں نظر آئیں گے۔ آج کے چوبیس گھنٹے چلنے والے الیکٹرانک اور اخبارات کے کالم نگاروں نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات اتاری ہی نہیں بلکہ دماغوں میں ٹھونس دی ہے کہ اس ملک میں جتنی بھی تحریکیں چلتی ہیں، جتنے فساد ہوتے ہیں، جو بھی قتل و غارت ہے وہ اوّل تو عالمی سازش کا حصہ ہیں یا پھر مقامی ادارے ان میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ قصہ صرف میرے ملک کا نہیں دنیا میں جہاں کہیں بھی میڈیا کی گرفت میں آئے ہوئے انسان جاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کے ہاں کسی رہنما کے روپ میں امید انگڑائی لینے لگتی ہے تو عظیم دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کی فوج ظفر موج ایسے شاندار طریقے سے کہانی کے اسکرپٹ بیان کرتی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ گلی میں ناراض ہو کر ٹائر جلانے والا شخص بھی براہِ راست امریکی سی آئی اے سے ہدایات لے رہا تھا۔
اوریا مقبول جان