ساری دنیا کو ویران کر جائیں گے ۔۔۔

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ساری دنیا کو ویران کر جائیں گے، ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا
جینے والے یہ سب لوگ مر جائیں گے، ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا

خوبصورت بھی ہیں، خوب سیرت بھی ہیں، اہلِ دنیا میں اہلِ بصیرت بھی ہیں
سب کے سب اِس جہاں سے گزر جائیں گے، ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا

لے کے آنکھوں میں ہم کتنا پیار آئے تھے، دیکھنے زندگی کی بہار آئے تھے
اشکبار آئے تھے، چشمِ تر جائیں گے، ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا

اتنے پیارے زمیں آسماں چھوڑ کر، دل پہ یادوں کے اَن مٹ نشاں چھوڑ کر
یہ جہاں چھوڑ کر ہم سفر جائیں گے،ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا

کتنی ظلمت ہے شاہد جہاں دیکھئے، ہم نے سوچا تھا ہم روشنی لائیں گے
کچھ نہ کر پائیں گے ہم جدھر جائیں گے، ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا

برائے اصلاح ۔۔۔
محترم الف عین صاحب
اور
محترم محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔
 
ساری دنیا کو ویران کر جائیں گے، ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا
جینے والے یہ سب لوگ مر جائیں گے، ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا

یہ شعر حقیقت نگاری کے باوجود کوئی بڑا اور مضبوط تاثر نہیں دے پا رہا۔ اس کی وجہ غالباً دوسرے مصرعے کے نصفِ اول میں کہیں ہے۔
 
خوبصورت بھی ہیں، خوب سیرت بھی ہیں، اہلِ دنیا میں اہلِ بصیرت بھی ہیں
سب کے سب اِس جہاں سے گزر جائیں گے، ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا

موت سب سے بڑی حقیقت ہے۔ موت کا ذکر کرتے ہوئے، یہاں ردیف کو کھونا پڑ رہا ہے۔
 
لے کے آنکھوں میں ہم کتنا پیار آئے تھے، دیکھنے زندگی کی بہار آئے تھے
اشکبار آئے تھے، چشمِ تر جائیں گے، ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا

اس میں دو مسئلے ہیں۔
جب آپ آنکھوں میں پیار لے کر آئے تھے اور زندگی کی بہاریں پیش نظر تھیں؛ تو یہ اشکبار آنے کی توجیہ نہیں بنتی۔
زندگی کی رائیگانی پر آب دیدہ ہونا، بالکل بجا، تاہم لفظی سطح پر اس کو ’’با چشمِ تر‘‘ ہونا چاہئے تھا۔
 
اتنے پیارے زمیں آسماں چھوڑ کر، دل پہ یادوں کے اَن مٹ نشاں چھوڑ کر
یہ جہاں چھوڑ کر ہم سفر جائیں گے،ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا

تاثر یہ بن رہا ہے جیسے ہم سفروں کو مرنے اور نہ مرنے کا اختیار حاصل رہا ہو؟ اور وہ اتنے پیارے زمین آسمان چھوڑ کر چلے گئے جس کی توقع نہیں تھی؟ میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا، خود ہی دیکھ لیجئے گا۔
 
کتنی ظلمت ہے شاہد جہاں دیکھئے، ہم نے سوچا تھا ہم روشنی لائیں گے
کچھ نہ کر پائیں گے ہم جدھر جائیں گے، ایسا ہوگا کبھی ہم نے سوچا نہ تھا

پہلے مصرعے میں قافیہ پیمائی کی کوشش نہ کرتے تو بہتر تھا۔ لائیں گے پائیں گے جائیں گے اگر خوبی سے نبھ جاتے تو واقعی بہت عمدہ اور مضبوط شعر بن سکتا تھا۔ مگر ایسا ہو نہیں پایا کہ طویل ردیف اور بہت زیادہ قافیہ پیمائی آڑے آ گئی۔
 
رویف کے بارے میں ایک بہت اہم بات جان لیجئے کہ لمبی ردیف کو نباہنا شاید اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا جتنا شعر کے باقی ماندہ متن کو مؤثر بنانا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ لمبی ردیف آ ہی طویل بحر میں سکتی ہے۔ اور بات وہی بن جاتی ہے کہ چھوٹی بحر میں لفظوں کی کمی آڑے آتی ہے تو طویل بحروں میں لفظ پورے کرنے میں بسا اوقات ہماری قوتِ اظہار متاثر ہو جاتی ہے۔ اور شعر کی چاشنی جاتی رہتی ہے۔ جب کہ چھوٹی بحر میں مضمون خوبی سے بیان ہو جائے تو زیادہ لطف دیتا ہے، اور ایسا حسنِ اختصار کی بدولت ہوتا ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
رویف کے بارے میں ایک بہت اہم بات جان لیجئے کہ لمبی ردیف کو نباہنا شاید اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا جتنا شعر کے باقی ماندہ متن کو مؤثر بنانا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ لمبی ردیف آ ہی طویل بحر میں سکتی ہے۔ اور بات وہی بن جاتی ہے کہ چھوٹی بحر میں لفظوں کی کمی آڑے آتی ہے تو طویل بحروں میں لفظ پورے کرنے میں بسا اوقات ہماری قوتِ اظہار متاثر ہو جاتی ہے۔ اور شعر کی چاشنی جاتی رہتی ہے۔ جب کہ چھوٹی بحر میں مضمون خوبی سے بیان ہو جائے تو زیادہ لطف دیتا ہے، اور ایسا حسنِ اختصار کی بدولت ہوتا ہے۔
بہت شکریہ ۔۔۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے ۔۔۔
 
غزل کے مصرعوں کے ’’اندر‘‘ ہم قافیہ الفاظ لانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کے مقام اپنے طور پر طے کر لیجئے اور پھر کوشش کیجئے کہ ساری غزل میں ایسا ہی ہو۔
وہ جو پیار تھا سو بھلا دیا، دہ جو زخم تھا سو مٹا دیا
وہ درد تھا سو لٹا دیا، پہ کسک سی ایک بچی رہی

کبھی آہ بن کے ہوا ہوئی، کبھی نالہ بن کے ادا ہوئی
کسے کیا خبر کہ وہ کیا ہوئی، وہ جو بے کلی تھی دبی رہی

وہ مثالِ تختۂِ کاہ تھا، کئی تتلیوں کی پناہ تھا
وہ حریفِ حلقۂِ ماہ تھا، مرے دل پہ اس کی شہی رہی​
۔۔۔۔
 
Top