جاسم محمد
محفلین
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی کوٹ لکھپت جیل واپسی، ’ یہ جانتے ہیں کہ مجھے کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے‘
تصویر کے کاپی رائٹPMLN
پاکستان کے تین دفعہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد محمد نواز شریف العزیزیہ سٹیل ملز کیس میں چھ ہفتے کی ضمانت ختم ہونے کے بعد دوبارہ کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار عمر ننگیانہ سے بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ کے سینٹرل ڈپٹی سیکریٹری عطااللہ تارڑ نے کہا کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف رات سوا بارہ بجے کوٹ لکھپت جیل پہنچے جہاں پہلے جیل حکام نے انھیں آنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ابھی وہ وزارت داخلہ کے احکامات کا انتظار کر رہے ہیں لیکن بعد میں انھوں نے نواز شریف کو جیل جانے کی اجازت دے دی۔
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
جیل پہنچنے سے کچھ دیر قبل ان کی صاحبزادی مریم نواز نے ٹوئٹر پر ویڈیو جاری کی جس میں نواز شریف نے گاڑی سے لیگی کارکنان کے جذبے کو سراہا اور ان کا ساتھ دینے پر شکریہ ادا کیا۔
تقریباً ڈیڑھ منٹ کی ویڈیو میں نواز شریف نے کہا کہ وہ اپنے کارکنان کے بہت مشکور ہیں اور دل کی گہرائیوں سے ان کا ساتھ دینے پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔
’میں یہ سمجھتا ہوں کہ انشااللہ ان کا یہ جذبہ اور ان کی دعائیں رنگ لائیں گی اور ظلم کی سیاہ رات ختم ہو کر رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے مجھے۔ یہ جانتے ہیں کہ مجھے کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے۔‘
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
رات آّٹھ بجے کے بعد نواز شریف اپنی رہائش گاہ جاتی امرا سے اپنی بیٹی مریم نواز اور بھتیجے حمزہ شہباز کے ہمراہ روانہ ہوئے اور جیل جانے کے سفر میں ان کے ساتھ لیگی کارکنان کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
اس موقع پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، تہمینہ دولتانہ، رانا تنویر، سابق گورنر سندھ محمد زبیر سمیت مسلم لیگ نون کے کئی رہنما موجود تھے جو جیل جانے والے قافلے میں سابق وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔
اس سفر کے دوران مریم نواز مسلسل ٹوئٹر کا استعمال کرتی رہیں اور اپنی ٹویٹس میں گاڑی کے اندر سے ویڈیو اور دیگر لیگی کارکنان کی تصاویر شائع کرتی رہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ نواز شریف کے حمایتیوں کی بڑی تعداد وہاں موجود ہے۔
اس کے علاوہ سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنی ٹویٹ میں پاکستانی میڈیا کے نگراں ادارے پیمرا پر الزام لگایا کہ انھوں نے نواز شریف کو جیل لے جانے والے قافلے کے مناظر ٹی وی پر دکھانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
واضح رہے کہ کوٹ لکھپت جیل کے حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کیونکہ نواز شریف مقررہ وقت پر جیل نہیں پہنچے تو ان کا لاک اپ بند کر دیا گیا ہے اور اگلے قدم کے لیے صوبائی وزارت داخلہ کے فیصلے کے انتظار ہے۔
جیل مینوئل کے مطابق نواز شریف کو مغرب تک کوٹ لکھپت جیل پہنچنا تھا۔
تصویر کے کاپی رائٹPMLN
کوٹ لکھپت جیل کے عملے نے جاتی امرا پہنچ کر سابق وزیراعظم نواز شریف کو خط دیا اور انہیں جیل قوانین سے آگاہ کیا البتہ نواز شریف نے جیل عملے کو گرفتاری نہیں دی اور کارکنوں کے قافلے کی صورت میں کوٹ لکھپت جیل کے لیے روانہ ہوگئے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ عدالت کےحکم میں صرف تاریخ لکھی ہوئی تھی اور اگروقت کاتعین ہوتاتوضرورعمل کرتے۔
یاد رہے کہ 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے سپریم کورٹ کی ہدایت پر دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فیلگ شپ ریفرنسز پر فیصلہ سنایا تھا۔
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
عدالت نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں بری جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ ایک ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر علیحدہ علیحدہ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
علاوہ ازیں نواز شریف کو عدالت نے 10 سال کے لیے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے سے بھی نااہل قرار دے دیا تھا،مذکورہ فیصلے کے بعد نواز شریف کو گرفتار کرکے پہلے اڈیالہ جیل اور پھر ان ہی کی درخواست پر انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔
مارچ میں نواز شریف کو چھ ہفتے کے لیے علاج کی غرض سے ضمانت دی گئی اور جب 30 اپریل کو انھوں نے اس ضمانت میں توسیع کی درخواست کی تو تین مئی کو سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے میں وہ اپیل رد کر دی گئی۔
- 4 گھنٹے پہلے

تصویر کے کاپی رائٹPMLN
پاکستان کے تین دفعہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد محمد نواز شریف العزیزیہ سٹیل ملز کیس میں چھ ہفتے کی ضمانت ختم ہونے کے بعد دوبارہ کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار عمر ننگیانہ سے بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ کے سینٹرل ڈپٹی سیکریٹری عطااللہ تارڑ نے کہا کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف رات سوا بارہ بجے کوٹ لکھپت جیل پہنچے جہاں پہلے جیل حکام نے انھیں آنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ابھی وہ وزارت داخلہ کے احکامات کا انتظار کر رہے ہیں لیکن بعد میں انھوں نے نواز شریف کو جیل جانے کی اجازت دے دی۔

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
جیل پہنچنے سے کچھ دیر قبل ان کی صاحبزادی مریم نواز نے ٹوئٹر پر ویڈیو جاری کی جس میں نواز شریف نے گاڑی سے لیگی کارکنان کے جذبے کو سراہا اور ان کا ساتھ دینے پر شکریہ ادا کیا۔
تقریباً ڈیڑھ منٹ کی ویڈیو میں نواز شریف نے کہا کہ وہ اپنے کارکنان کے بہت مشکور ہیں اور دل کی گہرائیوں سے ان کا ساتھ دینے پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔
’میں یہ سمجھتا ہوں کہ انشااللہ ان کا یہ جذبہ اور ان کی دعائیں رنگ لائیں گی اور ظلم کی سیاہ رات ختم ہو کر رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے مجھے۔ یہ جانتے ہیں کہ مجھے کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے۔‘

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
رات آّٹھ بجے کے بعد نواز شریف اپنی رہائش گاہ جاتی امرا سے اپنی بیٹی مریم نواز اور بھتیجے حمزہ شہباز کے ہمراہ روانہ ہوئے اور جیل جانے کے سفر میں ان کے ساتھ لیگی کارکنان کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
اس موقع پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، تہمینہ دولتانہ، رانا تنویر، سابق گورنر سندھ محمد زبیر سمیت مسلم لیگ نون کے کئی رہنما موجود تھے جو جیل جانے والے قافلے میں سابق وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔
اس سفر کے دوران مریم نواز مسلسل ٹوئٹر کا استعمال کرتی رہیں اور اپنی ٹویٹس میں گاڑی کے اندر سے ویڈیو اور دیگر لیگی کارکنان کی تصاویر شائع کرتی رہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ نواز شریف کے حمایتیوں کی بڑی تعداد وہاں موجود ہے۔
اس کے علاوہ سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنی ٹویٹ میں پاکستانی میڈیا کے نگراں ادارے پیمرا پر الزام لگایا کہ انھوں نے نواز شریف کو جیل لے جانے والے قافلے کے مناظر ٹی وی پر دکھانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
واضح رہے کہ کوٹ لکھپت جیل کے حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کیونکہ نواز شریف مقررہ وقت پر جیل نہیں پہنچے تو ان کا لاک اپ بند کر دیا گیا ہے اور اگلے قدم کے لیے صوبائی وزارت داخلہ کے فیصلے کے انتظار ہے۔
جیل مینوئل کے مطابق نواز شریف کو مغرب تک کوٹ لکھپت جیل پہنچنا تھا۔

تصویر کے کاپی رائٹPMLN
کوٹ لکھپت جیل کے عملے نے جاتی امرا پہنچ کر سابق وزیراعظم نواز شریف کو خط دیا اور انہیں جیل قوانین سے آگاہ کیا البتہ نواز شریف نے جیل عملے کو گرفتاری نہیں دی اور کارکنوں کے قافلے کی صورت میں کوٹ لکھپت جیل کے لیے روانہ ہوگئے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ عدالت کےحکم میں صرف تاریخ لکھی ہوئی تھی اور اگروقت کاتعین ہوتاتوضرورعمل کرتے۔
یاد رہے کہ 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے سپریم کورٹ کی ہدایت پر دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فیلگ شپ ریفرنسز پر فیصلہ سنایا تھا۔

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER
عدالت نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں بری جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ ایک ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر علیحدہ علیحدہ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
علاوہ ازیں نواز شریف کو عدالت نے 10 سال کے لیے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے سے بھی نااہل قرار دے دیا تھا،مذکورہ فیصلے کے بعد نواز شریف کو گرفتار کرکے پہلے اڈیالہ جیل اور پھر ان ہی کی درخواست پر انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔
مارچ میں نواز شریف کو چھ ہفتے کے لیے علاج کی غرض سے ضمانت دی گئی اور جب 30 اپریل کو انھوں نے اس ضمانت میں توسیع کی درخواست کی تو تین مئی کو سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے میں وہ اپیل رد کر دی گئی۔