سابق وزرائے اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی 17 ماہ بعد ضمانت

جاسم محمد

محفلین
سابق وزرائے اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی 17 ماہ بعد ضمانت
فواد حسن فواد 17 جنوری 2019 کو مدت ملازمت پوری ہونے پر نیب کی حراست میں ہی ریٹائر ہوچکے ہیں۔
ارشد چوہدری نامہ نگار، لاہور @ArshdChaudhary
منگل 21 جنوری 2020 17:00

65786-1146652708.jpg



نیب نے ملک کے بااثر عہدوں پر فرائض انجام دینے والے افسر فواد حسن فواد کو 17 ماہ قبل آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں گرفتار کیا تھا۔(فائل تصویر: وکی پیڈیا)

لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کو ایک ایک کروڑ روپے کے دو ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

نیب نے ملک کے بااثر عہدوں پر فرائض انجام دینے والے افسر فواد حسن فواد کو 17 ماہ قبل آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں گرفتار کیا تھا۔

جسٹس طارق عباسی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فواد حسن فواد کی درخواست ضمانت پر سماعت مکمل ہونے کے بعد ان کی ضمانت منظور کی۔

عدالتی حکم سننے کے بعد کمرہ عدالت میں موجود فواد حسن فواد کے بچے آبدیدہ ہو گئے۔

اس سے قبل ملزم کے وکیل امجد پرویز نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ جن اثاثوں کا نیب نے فواد حسن فواد کے خلاف کیس بنایا، وہ ان کی بیوی اور بچوں کے نام پر ہیں، لیکن پھر بھی انہیں نامزد کرکے گرفتار کیا گیا۔

امجد پرویز کا مزید کہنا تھا: ’ریفرنس آنے سے قبل فواد حسن فواد پر موٹر وے سٹی ہاؤسنگ سکیم اور پانچ ارب کے پلازے کی ملکیت کا الزام لگایا گیا تھا، تاہم جب ریفرنس دائر کیا گیا تو اس کی قیمت کا اندازہ ایک ارب روپے لگایا گیا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بے گناہ ہیں۔‘

اس موقع پر جسٹس طارق عباسی نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ملزم کے کون سے اثاثے ان کے نام پر ہیں؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ یہی تو ہمارا کیس ہے کہ ملزم کے نام پر کوئی اثاثے نہیں بلکہ اثاثے کمپنی کے نام پر ہیں، جس کے ڈائریکٹرز میں ان کی اہلیہ رباب حسن اور بیٹے شامل ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے مزید بتایا کہ راولپنڈی میں ایس ایس آر ایل کے نام سے رجسٹر یہ کمپنی امریکہ میں پاکستانی سفیر جہانگیر صدیقی کے ساتھ بھی کام کرتی تھی۔ ان کی دوسری کمپنی فہمیدہ یعقوب کے نام سے رجسٹر ہے، اس میں بھی رباب حسن اور وقار حسن ڈائریکٹرز تھے۔

جسٹسں طارق عباسی نے استفسار کیا کہ ’جن کے نام سب کچھ ہے انہیں گرفتار کیوں نہ کیا؟جبکہ جس کے نام کچھ بھی نہیں اسے گرفتار کیا ہوا ہے؟‘

جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’جس کمپنی کے نام سب کچھ ہے اس کے اکاؤنٹس میں کچھ بھی نہیں۔‘

عدالت نے استفسار کیا کہ تو پھر یہ کیسے پتہ چلا کہ یہ فواد حسن فواد کے اکاؤنٹس ہیں؟

جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’یہ تو ملزم پارٹی بتائے گی۔‘

عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیوں بتائیں گے؟ نیب پراسیکیوٹر کس مرض کی دوا ہیں؟ آپ کو تیاری کے ساتھ آنا چاہیے تھا اور اگر آپ تیار نہیں تھے تو وقت مانگ لیتے۔‘

اس کے ساتھ ہی عدالت نے سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے فواد حسن فواد کی ضمانت کا حکم جاری کردیا۔

فواد حسن فواد کا انتظامی کردار اور ریٹائرمنٹ

فواد حسن فواد گزشتہ کئی سال سے پنجاب اور وفاق میں اہم سرکاری عہدوں پر تعینات رہے۔

پہلے وہ پنجاب میں سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کے دور میں سیکرٹری محکمہ صحت، سیکرٹری عملدرآمد و دیگر عہدوں پر رہے، اس کے بعد 2013 میں مسلم لیگ ن کی وفاق میں حکومت بننے کے بعد انہوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے ساتھ بطور پرنسپل سیکرٹری ذمہ داریاں انجام دیں۔

انہیں ن لیگی قیادت کا با اعتماد افسر سمجھا جاتا تھا اور اہم انتظامی امور میں ان کی مشاورت شامل ہوتی تھی۔ انہیں ڈیفیکٹو پی ایم بھی کہا جاتا تھا۔

مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہونے کے بعد انہیں ڈائریکٹر جنرل سول سروسز اکیڈمی آف پاکستان کے عہدے پر تعینات کردیا گیا اور جولائی 2018 میں نیب نے انہیں آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے کیس میں گرفتار کرلیا۔

وہ 17 جنوری 2019 کو مدت ملازمت پوری ہونے پر نیب کی حراست میں ہی ریٹائر ہوچکے ہیں۔

یاد رہے کہ نیب نے ان کے خلاف آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کیس بھی دائر کر رکھا ہے، جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے ایک نجی کمپنی آشیانہ اقبال (سرکاری ہاؤسنگ کالونی) کی تعمیر کا کنٹریکٹ منسوخ کروایا، جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔

اسی گرفتاری کے دوران نیب نے ان پر آمدن سے زائد اثاثوں کا مقدمہ بھی بنا دیا۔ فروری 2019 میں لاہور ہائی کورٹ نے آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مقدمے میں ان کی ضمانت منظور کرلی تھی لیکن دوسرا کیس ہونے کی وجہ سے انہیں رہائی نہیں مل سکی تھی، لیکن اب ضمانت کے بعد ان کی رہائی ممکن ہوسکے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹسں طارق عباسی نے استفسار کیا کہ ’جن کے نام سب کچھ ہے انہیں گرفتار کیوں نہ کیا؟جبکہ جس کے نام کچھ بھی نہیں اسے گرفتار کیا ہوا ہے؟‘

جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’جس کمپنی کے نام سب کچھ ہے اس کے اکاؤنٹس میں کچھ بھی نہیں۔‘

عدالت نے استفسار کیا کہ تو پھر یہ کیسے پتہ چلا کہ یہ فواد حسن فواد کے اکاؤنٹس ہیں؟

جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’یہ تو ملزم پارٹی بتائے گی۔‘

عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیوں بتائیں گے؟ نیب پراسیکیوٹر کس مرض کی دوا ہیں؟ آپ کو تیاری کے ساتھ آنا چاہیے تھا اور اگر آپ تیار نہیں تھے تو وقت مانگ لیتے۔‘
نیب کی 20 سالہ کاکردگی: پکڑ دھکڑ، ملزم جیل کے اندر۔ عدالت ثبوت مانگے تو وہ ملزم بتائے گا۔ نتیجہ: سب کے سب ضمانتوں پر رہا۔
 
Top