زیر مطالعہ کتب سے اقتباس

حماد

محفلین
شاہ حمورابی نے شہر بابل کو تہذیب و تمدن، صنائع بدائع،فنون لطیفہ اور تجارت کا سب سے بڑا مرکز بنا دیا۔ حمورابی کا سب سے بڑا کارنامہ اسکا ضابطہء قوانین ہے جو دراصل شاہ اورنگر سمیری کے اسی نوع کے ضابطے پر مبنی تھا۔ اس کا اصل اصول ہے "دانت کے بدلے دانت، آنکھ کے بدلے آنکھ" البتہ حمورابی کی تعزیرات سمیریوں سے زیادہ سخت ہیں۔ مثلاً سمیری قانون اجازت دیتا ہے کہ زانیہ کا خاوند دوسری شادی کرلے اور زانیہ دوسری بیوی کی کنیز بن کر رہے۔
حمورابی نے اسکیلئے موت کی سزا رکھی ہے، جس کا طریقہ یہ تھا کہ زانیہ کو دریائے فرات کی منجدھار میں پھینک دیتے تھے۔ وہ بچ نکلتی تو بے گناہ سمجھی جاتی تھی۔ زنا بالجبر، اغواء، قزاقی، چوری، محرمات سے زنا، بھگوڑے غلاموں کو پناہ دینے اور میدان جنگ میں بزدلی دکھانے کی سزا موت تھی۔ وہ طبیب جس کے علاج سے کسی شخص کی آنکھ ضائع ہو جاتی، مجرم سمجھا جاتا تھا اور اسکے ہاتھ کی انگلیاں کاٹ دی جاتی تھیں۔ ڈاکو کو موت کی سزا دی جاتی تھی۔ اگر ڈاکو پکڑے نہ جاسکتے تو جس شخص کا مال لوٹا جاتا وہ دیوتا کے سامنے اپنے سامان مسروقہ کی فہرست بنا کر رکھ دیتا اور شہر یا علاقے کے حاکم کو اس نقصان کی تلافی کرنا پڑتی تھی۔ مقدمہ بازوں کی حوصلہ افزائ نہیں کرتے تھے۔
ضابطہء حمورابی کا پہلا قانون ہے " اگر کوئ شخص کسی پر جرم کے ارتکاب کا الزام لگائے لیکن اسے ثابت نہ کرسکے تو الزام لگانے والے کو جان سے مار دیا جائے گا۔" اس ضابطے میں دو سو پچاسی قوانین ہیں، جنہیں ذاتی املاک، تجارت، کاروبار، خاندان، محنت کشی وغیرہ عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ ان قوانین کی رو سے فرد کی جگہ ریاست کو انتقام کا حق دیا گیا ہے۔
قانون کی تاریخ میں یہ ایک انقلاب آفریں اقدام تھا۔ بحثیت مجموعی اسے عہد قدیم کا جامع ترین ضابطہء قوانین سمجھا جا سکتا ہے۔
آغاز تمدن سے ہی سلاطین اور روساء غلاموں اور زیردستوں پر تشددکرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے رہے ہیں۔ حمورابی کی روشن خیالی اور بیدار مغزی اس کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔
مغربی علماء کے خیال میں یہودیوں کی شریعت کے احکام عشرہ اسی ضابطے سے ماخوذ ہیں۔
(اقتباس از روایات تمدن قدیم، علی عباس جلالپوری)
 

حماد

محفلین
ایک روز کا ذکر ہے کہ مرزا رجب علی بیگ سرور مصنف "فسانہءعجائب" لکھنؤ سے آئے۔ مرزا نوشہ سے ملے۔ اثنائے گفتگو میں پوچھا کہ مرزا صاحب! اردو زبان کس کتاب کی عمدہ ہے۔ کہا چار درویش کی۔ میاں رجب علی بولے اور "فسانہءعجائب" کی کیسی ہے؟ مرزا بے ساختہ کہہ اٹھے، اجی لاحول ولا قوۃ، اس میں لطف زبان کہاں۔ ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔ اس وقت تک مرزا نوشہ کو خبر نہ تھی کہ یہی میاں سرور ہیں۔ جب چلے گئے تو حال معلوم ہوا۔ بہت افسوس کیا اور کہا کہ ظالمو پہلے سے کیوں نہ کہا۔
دوسرے دن مرزا نوشہ ہمارے پاس آئے، یہ قصہ سنایا اور کہا کہ حضرت! یہ امر مجھ سے نادانستگی میں ہو گیا ہے۔ آئیے آج اس کے مکان پر چلیں اور کل کی مکافات کر آئیں۔ ہم انکے ہمراہ ہو لئے اور میاں سرور کی فرودگاہ پر پہنچے۔ مزاج پرسی کے بعد مرزا صاحب نے عبارت آرائ کا ذکر چھیڑا اور ہماری طرف مخاطب ہو کر بولے کہ جناب مولوی صاحب! رات میں نے "فسانہءعجائب" کو بغور دیکھا تو اسکی خوبی عبارت اور رنگینی کا کیا بیان کروں۔ نہایت فصیح و بلیغ عبارت ہے۔ میرے قیاس میں ایسی عمدہ نثر نہ پہلے ہوئ نہ آگے ہوگی، اور کیونکر ہو اسکا مصنف اپنا جواب نہیں رکھتا۔ غرض اس قسم کی بہت سی باتیں بنائیں۔ اپنی خاکساری اور انکی تعریف کر کے میاں سرور کو نہایت مسرور کیا۔ دوسرے دن انکی دعوت کی اور ہم کو بھی بلایا۔ اس وقت بھی میاں سرور کی بہت تعریف کی۔ مرزا صاحب کا مذہب یہ تھا کہ دل آزاری بہت بڑا گناہ ہے۔
مباش در پے آزار ہر چہ خواہی کن
کہ در طریقت ما غیر ازیں گنا ہے نیست
(اقتباس از حیات غالب، شیخ محمد اکرام، ادارہ ثقافت اسلامیہ)
 
پرنس از نکولو میکیاولی سے اقتباس۔

باب ۱​
حکومت کی اقسام اور وہ طریقے جن سے وہ معرضِ وجود میں آتی ہیں​
چاہے تاریخ پر نظر دوڑائیے ! اور چاہے آج کی دنیا پر، جب کبھی آپ انسان پر انسان کو حکومت کرتے ہوئے دیکھیں گے تو یہ حکومت یا تو جمہوری طرز کی حکومت ہوگی یا بادشاہت۔ بادشاہی حکومتیں موروثی ہوتی ہیں جو باپ دادا سے ورثے میں چلی آتی ہیں، یا نئی ہوتی ہیں۔ پھر نئی بادشاہت کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو نئے سرے سے قائم ہوجیسے فرانسس الفورزا کی حکومت میلان پر۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی مملکت مغلوب ہوکر کسی پرانی مملکت کا جزو بن جائے جس طرح نیپلس کی ریاست ہسپانیہ کا جزو بن گئی۔ ایسے علاقے نئی مملکت میں شامل ہونے سے پہلے یاتو کسی بادشاہ کے ماتحت رہے ہوں گے یا آزاد۔ انہیں زیر کرنے کے لیےکبھی بادشاہ خود اپنی قوت استعمال کرتا ہے اور کبھی دوسروں کی۔ پھر اس کام میں بھی کبھی تقدیر اس کا ساتھ دیتی ہے اور کبھی اس کی اپنی کوشش کو اس میں دخل ہوتا ہے۔​
اقتباس پرنس از نکولو میکیاولی ترجمہ بادشاہ از جناب محمود حسین​
 
پرنس از نکولو میکیاولی سے اقتباس۔​
باب ۳​
غیر خالص حکومتیں​
دقتیں پیش آتی ہیں حال کی حاصل کی ہوئی حکومتوں میں، خصوصاً جب یہ حکومتیں بالکل نئی نہ ہوں بلکہ غاصب کے علاقے میں شامل کرلی گئی ہوں ۔ اس طرح کی حکومت کو غیر خالص حکومت کہا جاتا ہے۔ ایسی بادشاہتوں میں گڑبڑ اور انقلابوں کا سبب وہ قدرتی پیچیدگیاں اور مشکلات ہوتی ہیں جو نئی فتوحات کے لوازمات میں سے ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ رعایا اپنے بادشاہ کا اپنی بہتری کی امید میں ساتھ چھوڑتی ہے۔ یہی امید اسے بغاوت پر آمادہ کرتی ہے۔ مگر عموماً اس کا اندازہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ اور تجربے سے اسے پتہ چلتا ہے کہ بہتری کجا حالت اور بدتر ہوگئی۔بدتر حالت کا بھی ایک عام اور قدرتی سبب ہے۔ نئے بادشاہ کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اپنی گوج کو حال میں فتح کیے ہوئے علاقوں میں اتارے، ان پر محصول لگائے اور اسی قسم کی ہزار باتیں ہیں جنھیں نئی فتح کے لوازم میں سے سمجھنا چاہیے۔ جن جن کو نئے بادشاہ کے آنے سے دقتیں پیش آتی ہیں یا کسی قسم کا نقصان ہوتا ہے وہ بادشاہ کے جانی دشمن ہوجاتے ہیں۔ رہے وہ جو نئے بادشاہ کے آنے کا سبب ہوئے سو ان کی دوستی قائم نہیں رہتی۔ نہ تو ان کی توقعات ہی پوری کی جاکستی ہیں اور نہ ان پر ان کے احسان کا لحاظ رکھتے ہوئے سختی ہی کی جاسکتی ہے۔ پس نیا علاقہ فتح کرنے کے لیے غاصب کا قوی ہونا اور اس کے پاس بڑی فوج کا ہونا کافی نہیں۔ اس علاقے کے باشندوں کی خوشنودی بھی بہت ضروری ہے۔​
اقتباس پرنس از نکولو میکیاولی ترجمہ بادشاہ از جناب محمود حسین​
 

حماد

محفلین
"مذاہب عالم کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائ دور میں ہر مذہب کے پیروؤں میں لطف و کرم ، رواداری اور وسعت مشربی کے اوصاف پائے جاتے ہیں، جن سے متاثر ہو کر لوگ جوق در جوق اس مذہب کو قبول کر لیتے ہیں۔ یہ اس مذہب کا دور عروج ہوتا ہے لیکن چند نسلوں کے بعد جب خارجی ماحول کے تقاضوں سے چشم پوشی کر لی جاتی ہے تو سیاسی اور اخلاقی تنزل کا شکار ہو جاتے ہیں اور رواداری کی بجائے تعصب بے جا نمود پزیر ہوتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب فرقہ آرائ کا آغاز ہوتا ہے اور اصل مذہب متعدد فرقوں میں منقسم ہو جاتا ہےکہ اس کی ابتدائ شکل و صورت بھی نہیں پہچانی جاتی۔ یہ فرقے آپس میں نزاع و پیکار کا بازار گرم کرتے ہیں۔ اس وقت ہر کم سواد شخص جو عقائد فقہ میں معمولی سا بھی درک رکھتا ہے اپنے خیالات دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرنے لگتا ہے اور مذہب کے اصول کو توڑ مروڑ کر حسب منشا تاویلیں کرتا ہے۔ اس داخلیت کے زیر اثر بعض عافیت پسند طبائع تصوف کی طرف مائل ہو جاتی ہیں اور استغراق اور زاویہ نشینی میں اس قدر غلو کرتی ہیں کہ معاشرے سے انکا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔"
(مقالات جلالپوری از علی عباس جلالپوری)
 

حماد

محفلین
صبح چھ بجے کے بعد جب ہماری کوٹھڑیوں کے تالے کھلے تو ہم ایک دوسرے سے یوں ملے گویا صدیوں کے بچھڑے ہوئے مل رہے ہیں۔ تیرہ گھنٹے کال کوٹھڑیوں میں گزارنے کے بعد صبح کو باہر نکلتے وقت چہل قدمی کرنے کا خیال سب سے پہلے ظہیر کاشمیری کے دل میں پیدا ہوا۔ چنانچہ وہ احاطے کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کے اوپر کے حصے کو آگے کی طرف جھکا کر تیز تیز قدموں سے چلنے لگا۔ اسکے جسم کااوپر کا حصہ چھجے کیطرح سامنے کی طرف جھکا ہوا تھا۔ دیوار کے آخری سرے پر پہنچ کر وہ اس تیزی سے واپس مڑتا گویا کوئ چیز بھول آیا ہو۔ ہم سب لوگ تھوڑی دیر تک ٹہلتے رہے، اسکے بعد کمبل بچھا کر بیٹھ گئے۔ اتنے میں نمبر دار نے کوئ آدھ سیر بھنے ہوئے چنے ہمارے سامنے لا کر رکھ دیئے اور ہم نے ناشتہ شروع کر دیا۔

"چھ مہینے تک یہ ناشتہ کرتے رہنے کے بعد ہم لوگ رہا ہونے سے پہلے ہی ہنہنانا شروع کر دیں گے" ندیم نے کہا۔

ظہیر کاشمیری رات بھر جاگنے، پیٹ میں درد رہنے اور بدہضمی کی شکایت کرنے میں مصروف تھا۔ چنے آنے سے پہلے وہ کہ رہا تھا آدھی رات کے وقت اسے یوں محسوس ہونے لگا تھا گویا کوئ اسکا سر علیحدہ کر کے لے جا رہا ہے اور آدھی رات کے بعد اسکا دل ڈوبنا شروع ہو گیا تھا۔ مگر چنے ملنے پر اس نے کوئ بات کئے بغیر منہ چلانا شروع کر دیا۔ اس دوران اس نے صرف اتنا کہا "چنے تو بڑے لذیذ ہیں"

"مگر دوستو! چائے کے بغیر انتقال ہو جائے گا" یہ احمد ندیم قاسمی کی آواز تھی۔

چائے کی یاد سے اس سہانی صبح کو سب کے چہروں پر اداسی چھا گئ۔ سگریٹ ابھی تک موجود تھے مگر سگریٹ کے ساتھ صبح کو حاضری پر چائے کی غیر حاضری سب کو کھل رہی تھی۔ ہم نے جیل کے آفیسروں کو کئ دفعہ کہلا بھیجا کہ چائے کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ چائے آج کی زندگی میں ضرورت بن چکی ہے۔ مگر 1857ء کے بنے ہوئے قوانین کے مطابق سی کلاس کے قیدیوں کو چائے کی ضرورت نہیں ہوتی اور ہم سب سی کلاس کے نظربند تھے اسلئے پوری قوم سگریٹ کے کش لگا کر حسرت بھری نظروں سے بیت الخلاء کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اتنی دیر میں ایک نمبردار چائے کی گڑوی لیکر دروازے پر نمودار ہوا اور پورے زور سے بولا " چلو بھئی بی کلاسیو چائے لو اپنی چائے"

چائے افضل اور شوکت منٹو کی تھی مگر ہم سب اپنے اپنے پیالے لے کر گڑوی کے گرد بیٹھ گئے اور للچائ ہوئ نظروں سے گڑوی کی طرف دیکھتے رہے۔ افضل نے سب کے پیالوں میں دو دو گھونٹ چائے کے ڈال دیئے۔۔۔۔۔ ابھی پیالہ میرے ہونٹوں تک پہنچا ہی تھا کہ ندیم نے اپنے پیالے کو دادا منصور کے پیالے میں الٹتے ہوئے کہا " دادا کو اس ضعیفی میں چائے کی ہم سے زیادہ ضرورت ہے۔۔۔۔ اور پھر وہ عادی بھی تو بہت تھے"

چائے کے دو گھونٹوں کی کوئ حقیقت نہیں ہوتی مگر بے کسی اور بیچارگی کے اس وقت میں اس چھوٹی سی قربانی نے منصور کے چہرے پر ایسا رنگ بھر دیا کہ خوشی اسکی آنکھوں سے چھلکنے لگی۔ اس نے کوئ بات نہیں کی مگر اسکی نگاہیں کہ رہی تھیں کہ ندیم نے اسکو چائے کے نہیں آب حیات کے گھونٹ پلا دیئے ہیں۔ کتنی معمولی بات تھی۔ عام زندگی میں شاید ہم ایسی حرکت کبھی نہ کر سکیں لیکن اس ایک لمحہ میں منصور کے بیمار مردہ چہرے پر خون کی جھلک نمایاں ہو گئ۔ سب نے اپنے اپنے پیالوں سے تھوڑی تھوڑی چائے منصور کے پیالے میں الٹ دی اور سب اس چھوٹی سی قربانی پر مسرور اور مطمئن نظر آتے تھے۔ ایسے موقعے زندگی میں اکثر آتے ہیں جب ہم دوستوں کی خوشیوں پر اپنی خوشی قربان کر کے مغموم نہیں بلکہ مسرور ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایسی ہی خوشی تھی۔

(کال کوٹھڑی از حمید اختر)
 

حماد

محفلین
"جذبہء مذہبیت کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ ہر اہل مذہب اپنے آپ کو راستی پر سمجھتا ہے اور دوسروں کو گمراہ خیال کرتا ہے جس سے تعصب، منافرت اور مذہبی جنون کو تقویت ملتی ہے۔ بعض اوقات ایک ہی مذہب کے مختلف فرقے معمولی اختلافات کی بناء پر ایک دوسرے کو مردود اور شقی ازلی قرار دیکر ان کا گلا کاٹنے پر مستعد ہو جاتے ہیں۔ تاریخ عالم کے اوراق شاہد ہیں کہ تعصب بے جا اور مذہبی جنون کی تسکین کیلئے بے گناہوں کا خون بہایا گیا۔ طالع آزما صدیوں سے اپنے سیاسی مفادات کی پرورش کیلئے مذہب کے نام پر اپنے مخالفوں کو بے دردی سے کچلتے رہے ہیں اور مطمئن ضمیر کے ساتھ تلوار کے گھاٹ اتارتے رہے ہیں۔ اس نوع کی سنگ دلی اور شقاوت کا جواز یہ کہہ کر پیش کیا جاتاہے کہ ہم تو مذہب کی خدمت اور اسکے فروغ کیلئے یہ اقدامات کر رہے ہیں۔ حکام کے اس ظلم و ستم میں پروہت، پادری، برہمن اور ملاّ اپنے سرپرستوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں اور انکے مخالفین کو کفرو زندقہ کے فتوؤں سے تیر باراں کرتے رہے ہیں۔ غالباً اسی لئے ول ڈیورنٹ نے لکھا ہے کہ "مذہب کے زوال کے بعد لوگوں میں رواداری کا جذبہ پیدا ہوا تھا"۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بنی اسرائیل کے صفحہء تاریخ پر نمودار ہونے سے پہلے مذہبی جنون کا کہیں نشان نہ تھا۔ سمیر ، بابل، مصر، یونان، رومہ کے باشندے دوسری اقوام کے دیوتاؤں اور معبودوں کا احترام کرتے تھے اور بسا اوقات انہیں اپنی دیومالا میں شامل بھی کر لیتے تھے"

(اقتباس " کائنات اور انسان" از علی عباس جلالپوری)
 

حماد

محفلین
اکبر الہ آبادی نے نئ تعلیم کا اسقدر خاکہ اڑایا ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاں تک انکا بس چلتا ہوگا، وہ لوگوں کو نئ تعلیم سے باز رکھتے ہونگے یا نئ تعلیم دلاتے وقت اپنے خاص نقطہءنظر کا خیال رکھتے ہونگے۔ درحقیقت ایسا نہیں ہوا۔ اکبر کے تین لڑکے تھے۔ ایک اوائل عمری میں ہی دماغی امراض میں مبتلا رہے۔ دوسرے کم سنی میں وفات پا گئے۔ تیسرے سید عشرت حسین ہیں۔ انکی تعلیم کیلئے اکبر نے ہندوستان کی ہی نئ یونیورسٹیوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہیں انگلستان بھیجا اور کیمبرج میں تعلیم دلائ، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جن مشرقی روائتوں پر اکبر خاس طور پر زور دیتے تھے بدقسمتی سے عشرت نے ان پر بہت توجہ نہ دی۔
--------------------------------------------
صرف یہی نہیں بلکہ اگر اکبر الہ آبادی کے اپنے حالات زندگی اور عملی کارناموں پر نظر ڈالیں تو خیال آتا ہے کہ ان کی اپنی زندگی میں بڑی اصلاح کی ضرورت تھی۔ دنیا کے سامنے تو وہ مذہب کے محافظ و ترجمان اور نئ نسل کی اخلاقی اور روحانی کمزوریوں کے نوحہ خواں تھے لیکن جب وہ چہرے سے تلقین مذہب کی نقاب اتارتے اور خیالات و ارشادات کی دنیا سے واقعات کی دنیا میں آتے تو آپ انکے مشاغل شباب کو جانے دیجئے یا انکی پہلی بیوی اور اپنے دو بچوں سے ان کا ایسا ظالمانہ اور درشت سلوک پاتے ہیں، جن کے مرتکب عام دنیا دار شاید ہی ہوتے ہوں۔
-----------------------------------------
جو لوگ احیائے مذہب اور اصلاح اخلاق کا دم بھرتے ہیں ان کی عملی زندگی سے باخبر ہونے کی اور بھی ضرورت ہے۔ یہ علم نفسیات کا مسلمہ اصول ہے کہ بسا اوقات انسان اپنی زندگی کی عملی کوتاہیوں کی خواہشات کو آب و تاب اور بلند مقاصد کی چمک دمک سے پورا کرنا چاہتا ہے۔ اس میں دانستہ ریاکاری کو دخل نہیں ہوتا۔ لیکن انسان کا تحت الشعور، اس کی زندگی کے اسقام و عیوب کی تلافی ، انہیں دور کر کے نہیں بلکہ روحانی سربلندی کے ناقابل حصول خواب دکھا کر پورا کرتا ہے۔ یعنی بقول غالب
؎ ہر چہ از سرمایہ کاست در ہوس افزودہ ایم
اور
؎ نشاط خاطر مفلس ز کیمیا طلبی است
----------------------------------------------------
اقتباسات "موج کوثر" از شیخ محمد اکرام
 

حماد

محفلین
"کہتے ہیں کہ سقراط کی ماں پیشہ ور دایہ تھی اور اس کا باپ سنگ تراش تھا۔ سقراط بھی آفرینش افکاری میں تمام عمر اپنی ماں اور باپ کے ہی انداز میں کام کرتا رہا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ صداقت نفسِ انسانی میں اسی طرح پنہاں ہے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، یا ہر قسم کا ناتراشیدہ بت سنگ کے اندر مضمر ہے۔ دایہ بچے کی آخر مددگار نہیں، وہ فقط اسے باطن سے ظاہر میں آنے میں مدد دیتی ہے۔ اسی طرح سنگ تراش اپنی ہتھوڑی اور چھینی سے پتھر میں سے اس صورت کو معرض وجود میں لے آتا ہے جو اسکے اندر مضمر تھی۔ صداقتیں باہر سے کسی شخص کے دل و دماغ میں نہیں ڈالی جاتیں۔ تعلیم و تربیت کا کام ان کو بطون سے ظاہر میں لانا ہے"
(سقراط ۔ تالیف کورا میسن، ترجمہ آنسہ صبیحہ حسن، مکتبہ اردو لاہور)
 

حماد

محفلین
"مورخوں نے ان مسائل کی جانب بھی اشارہ کیا ہے جو لوگوں کے تبدیلئ مذہب یا مسلمان ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائ فتوحات کے نتیجے میں جب ایران کے لوگ مسلمان ہوئے تو ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ عرب معاشرے میں خود کو کس طرح اور کیونکر ضم کریں۔ عربوں نے انہیں موالی کے خطاب سے پکارا، جس کی وجہ سے ان میں سخت ردعمل پیدا ہوا، کیونکہ مسلمان ہونے کے بعد وہ توقع کرتے تھے کہ ان کے ساتھ مساوی برتاؤ ہو گا۔ اس رجحان کے خلاف موالیوں میں نیشنل ازم کی تحریک چلی جو کہ "شعوبیہ" نام سے مشہور ہوئ۔ معاشرے میں مساوی مقام اور حقوق کیلئے انہوں نے ہر اس تحریک کا ساتھ دیا جو اس وقت کے موجودہ نظام اور حکومت کے خلاف تھیں۔ بالآخر امیہ خاندان کے خلاف عباسی انقلاب آیا تو اس وقت عرب اور غیر عرب دونوں کو معاشرے میں مساوی مقام ملا۔ لیکن عربوں اور ایرانیوں کے درمیان جو کلچر کی کش مکش تھی، جس میں سیاسی عناصر بھی تھے وہ اندر ہی اندر جاری رہی۔ خاص بات یہ کہ 7 سے 13 صدیوں تک شمالی افریقہ کے مفتوحہ ملکوں میں عرب کلچر اور عربی زبان غالب آگئ۔ لیکن ایرانیوں نے عربی زبان کے خلاف مزاحمت کی۔ جب فردوسی نے "شاہ نامہ" لکھا تو یہ ایرانی نیشنل ازم کیلئے بائبل بن گیا۔ مولانا رومی کی مثنوی کو ایرانیوں نے "قرآن در زبان پہلوی" کہا اس اسطرح انہوں نے عربی تسلط کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ چونکہ ہندوستان میں ترک حملہ آور ایرانی کلچر کے ماحول سے آئے اور اپنے ساتھ فارسی لیکر آئے، اسلئے یہاں عربی کے بجائے ایرانی کلچر کا غلبہ رہا۔"
(تاریخ کی آواز از ڈاکٹر مبارک علی)
 

حسان خان

لائبریرین
چونکہ ہندوستان میں ترک حملہ آور ایرانی کلچر کے ماحول سے آئے اور اپنے ساتھ فارسی لیکر آئے، اسلئے یہاں عربی کے بجائے ایرانی کلچر کا غلبہ رہا۔"

اس حقیقت کو پڑھ کر ایک اقتباس مجھے بھی یاد آ رہا ہے جو اردو اور ترک-ایرانی ثقافت کے باہمی تعلق پر ہے، لیکن وہ انگریزی میں ہے۔ قیصرانی بھائی، کیا میں اس دھاگے میں پوسٹ کر سکتا ہوں؟ یا کوئی الگ دھاگا بناؤں؟
 

قیصرانی

لائبریرین
بالکل۔ اسی دھاگے پر لکھ سکتے ہیں۔ تاہم اگر آپ کسی خاص کتاب، مصنف یا زبان کی کتب کا مستقل سلسلہ کھولنا چاہ رہے ہیں تو بے شک الگ دھاگہ کھول لیں
 

حسان خان

لائبریرین
""It is a significant fact that Urdu shows no originality. It is slavishly imitative, unispiringly artificial and extremely non-national. Nothing in Urdu has been considered fit for literary representation which was not borne out by the example of some recognised Persian poet. The adoption of Persian script was merely another aspect ot that uningenuity and non-nationalism of the Urdu writers.

Our remark regarding the non-national character of Urdu literature needs a further elucidation. Urdu literature is not only Persian in form and conception, it is also Persian in feeling, in tone, in imagery and even in local colouring. It takes pride in the golden deeds of Rustam, Sohrab, Hatim, Sikander, Jamshed and Naushirwan, never in the heroes of the Ramayana or Mahabharata. It rejoices in the love-stories of Leila and Majnu, Shirin and Farhad and Yusuf and Zulaikha and never cares to look to the romances of Indian soil as those of Hir and Ranjha, Lorak and Chanda or Dhola and Maru. It describes the beauties of the Tigris and the Euphrates among rivers (not the Ganga or the Jamuna), of Koh Kaf and Koh Toor among mountains (not the Vindhyas or the Himalayas), of nargis and sosan among flowers (not champa and chambeli), and of qumri and bulbul among birds (not koyal or mayna). It revels in describing the beauties of mornings in Iran and evenings in Baghdad. The whole atmosphere of Urdu poetry is Iranian, not Indian. The manners, customs, rites, superstitions and ideals are all foreign. In this respect Urdu stands in great contrast against Hindi, and therein lies the greatest difference between Urdu literature and Hindi literature." [Persian Influence on Hindi, Dr. Hardev Bahri, page 11]
 

حماد

محفلین
"اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اس ذہنی پسماندگی کی ابتدا اس وقت سے ملتی ہے کہ جب اٹھارویں صدی میں مسلمانوں کی تین بڑی سلطنتیں، مغل، عثمانی ترک اور صفوی زوال پزیر ہونا شروع ہوگئیں تھیں، اور اسکے ساتھ ہی اکثر مسلم ممالک یورپی طاقتوں کے اقتدار میں آکر انکی نوآبادیات بن گئے تھے۔ شکست، محرومی اور مایوسی نے ان کے لئے کوئ راستہ نہیں چھوڑا تھا کہ جو انہیں اس ذلت سے نجات دلاتا، اس مرحلے پر انہیں ان سلطنتوں کا عظیم ماضی یاد آیا کہ جب دنیا ان کے سامنے سرنگوں تھی۔ ان کا خیال تھا کہ فوجی قوت و طاقت اور فاتح ہی انہیں سیاسی غلامی سے نجات دلا کر اگلی شان و شوکت کو کو واپس لائیں گے۔ یہی وہ زمانہ ہے کہ فاتحین کو تاریخ کے اندھیروں سے نکال کر ، انہیں ہیروز کا درجہ دے دیا گیا۔"
(تاریخ کی آواز از ڈاکٹر مبارک علی)
 

حماد

محفلین
" اس ذہنیت کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ہر وہ فرد جو طاقت و جبر سے اقتدار پر قابض ہوتا ہے، وہ ملک کو ایک مفتوحہ علاقہ سمجھتا ہے اور یہاں لوٹ مار، قتل و غارتگری کو ماضی کی روایات کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے اسے جائز قرار دیتا ہے۔ اب فرق صرف یہ ہے کہ ماضی میں فاتحین اور حملہ آور لوٹ کی دولت کو دمشق، بغداد اور غزنی لے جاتے تھے، اب یہ دولت امریکہ اور یورپ کے بنکوں میں لے جا کر محفوظ کردی جاتی ہے۔ اب ہم ان جدید ہیروز کو کہ جو ملک کے ذرائع اور دولت کو لوٹنے اور باہر کے ملکوں میں منتقل کرنے میں مصروف ہیں، کس طرح برا کہ سکتے ہیں، کیونکہ دیکھا جائے تو یہی سب کچھ ماضی کے ہیروز اور فاتحین نے کیا تھا۔ اگر ہم فاتحین اور حملہ آوروں کو اس طرح سے عظیم بناتے رہیں گے تو ہمیں جدید حملہ آوروں اور فاتحین کی لوٹ مار کو بھی برداشت کرنا ہوگا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا کہ جب تک ہمارا تاریخی شعور ان حملہ آوروں اور فاتحین کو رد کر کے انہیں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کر دے گا۔"
(تاریخ کی آواز از ڈاکٹر مبارک علی)
 

حماد

محفلین
"ہندو مسلم فساد کے دنوں میں ہم لوگ جب باہر کسی کام سے نکلتے تھے تو اپنے ساتھ دو ٹوپیاں رکھتے تھے۔ ایک ہندو کیپ ، دوسری رومی ٹوپی۔ جب مسلمانوں کے محلے سے گزرتے تو رومی ٹوپی پہن لیتے تھے اور جب ہندووں کے محلے میں جاتے تھے تو ہندو کیپ لگا لیتے تھے۔۔۔۔۔ اس فساد میں ہم لوگوں نے گاندھی کیپ خریدی۔ یہ ہم جیب میں رکھ لیتے تھے، جہاں کہیں ضرورت محسوس ہوتی تھی جھٹ سے پہن لیتے تھے ۔۔۔ پہلے مذہب سینوں میں ہوتا تھا اب ٹوپیوں میں ہوتا ہے۔ سیاست بھی اب ٹوپیوں میں چلی آئ ہے۔۔۔۔۔ زندہ باد ٹوپیاں"
سعادت حسن منٹو (منٹو کے مضامین)
 

حماد

محفلین
"لکھنا ایک عادت ہے، چھٹ جائے تو دوبارہ اسے اختیار کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ ای۔ایم۔فوسٹرکہ انگریزی ادب میں انکا بہت بلند مقام ہے، ایک دن فرمانے لگے کہ میں روز کچھ نہ کچھ لکھتا ہوں، اگر ایک دو دن بھی قلم نہ چلاؤں تو ؟؟ "خامے کا ذکر کیا کہ سیاہی رواں نہیں" والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ صاحب آپ کو لکھنے کیلئے ہر روز موضوع کہاں سے مل جاتا ہے، اور اگر موضوع مل بھی جائے تو اس کے مختلف پہلوؤں پر سوچنے اور حسب ضرورت مواد مہیا کرنے میں تو آپ کو مشکل پڑتی ہو گی۔ فرمایا یہ ضرور ہے کہ بکھرے ہوئے خیالات کو یکجا کرنا آسان نہیں اور بارہا خیالات ایسے کھنڈ جاتے ہیں کہ اکھٹے نہیں ہوتے۔ میں نے کہا تو پھر آپ لکھتے کیونکر ہیں؟ کہا جب کوئ مضمون نہ سوجھے، یا خیالات کی شیرازہ بندی نہ کر پاؤں، تو کسی اچھے مصنف کی کتاب کے کچھ صفحے نقل کرنے بیٹھ جاتا ہوں تاکہ قلم چلتا رہے۔
ایک مقولہ ہے کہ
"گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس"
خوش نویس کے معنی اگر خوشخط کے نہ ہوں بلکہ صاحب تحریر کے ہوں، تو بات وہی بنتی ہے جو ای۔ایم۔فوسٹر نے کہی تھی۔"

(سرگزشت از سید ذوالفقار علی بخاری)
 

جواد عالم

محفلین
مشتاق احمد یوسفی کی کتاب چراغ تلے سے اقتباس

مولانا ابوالکلام آزاد اپنا سن پیدائش اس طرح بتاتے ہیں:
"یہ غریب الدیار عہد نا آشنائےعصر بیگانہ خویش نمک پرودہ ریش خرابہ حسرت کہ موسوم بہ احمد مد عو بابی الکلام 1888ءمطابق ذوالجحہ 1305 ھ میں ہستی عدم سے اس عدم ہستی میں وارد ہوا اور تہمت حیات سے مہتم۔
اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی (اسی طرح نو طرز مرصع کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے:
"جب ماہتاب عمر میرے کا بدرجہ چہار دو سالگی کے پہنچا روز روشن ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شب یلدہ سے ہوا یعنی پیمانہ عمر و زندگانی مادر و پدر بزرگوار حظوظ نفسانی سے لبریز ہو کے اسی سال دست قضا سے دہلا۔
کہنا صرف یہ چاہتے تھے کہ جب میں چودہ برس کا ہوا تو ماں باپ فوت ہو گئے۔ لیکن پیرایہ ایسا گنجلک اختیار کیا کہ والدین کے ساتھ مطلب بھی فوت ہو گیا)۔

کیا بات ہے مشتاق احمد یوسفی کی :)
 
Top