زیادہ آبادی کا خطرہ

پاکستان ۱۹۴۷؁ عیسوی میں قائم ہوا اور اس کی آبادی ساڑھے ساتھ کروڑ تھی جس میں سے ساڑھے تین کروڑ مغربی حصے میں رہتی تھی۔ اب پاکستان کی کل آبادی ساڑھے تیرہ کروڑ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ۱۳۴ افراد نے ملک کا ایک مربع کلومیٹر گھیرا ہوا ہے۔ آبادی کی زیادہ شرحِ گنجانی خوفناک ہے۔ محدود وسائل کے باعث زیادہ آبادی کا نتیجہ پست معیارِ زندگی اور آلودہ ماحول کی شکل میں نکلا ہے۔ وسائلکو ترقی دینے اور زیادہ خوراک اُگانے کی ہماری تمام کوششیں تیز اور بلا روک ٹوک آبادی کے اضافہ کی نذر ہو جاتی ہیں۔ خوش اور خوشحال پاکستان کے خوابوں کی تعبیر میں زیادہ آبادی ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔
جب ہم اپنے ارد گرد نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۴۷؁ء میں جو قصبے تھے وہ اب بڑے بڑے شہر بن گئے ہیں اور گاؤں بڑے بڑے قصبے بن گئے ہیں۔ یہ شہر اور قصبے زرخیز زرعی زمین نگل چکے ہیں۔ مکانات اور رہائش کی فوری اور ناگزیر ضروریات کے باعث بہت سے جنگلات کاٹ دیئے گئے ہیں۔ ان پھیلتے ہوئے شہروں اور قصبات میں ان میں رہنے والے تمام لوگوں کے لئے مناسب سہولتوں کی کمی ہے۔ آب رسانی ناکافی ہے۔ گندے پانی کے نکاس کا انتظام ناقص ہے۔ ٹریفک بے قابو ہے۔ سکولوں اور ہسپتالوں میں بہت ہی ہجوم ہے۔ تفریح کے لئے چند باغات اور پارک ہیں۔
پسماندہ آبادیوں میں اضافے سے بہت سے مقامی مسائل سنگین صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ وسائل میں پسماندگی کے باعث آبادی کی ضروریات کے مطابق سکول میسر نہیں آ سکتے۔ ہسپتال میسر نہیں آ سکتے۔ روزگار کے مواقع سکڑنے لگتے ہیں۔ رہائش کے لئے گھروں کے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ سڑکوں کی کمی کے باعث ٹریفک کے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ شہروں میں گندی آبادیوں کی وجہ سے ثقافتی سطح میں گراوٹ آ جاتی ہے۔ جرائم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ سب عوامل اکٹھے ہو کر بلاؤں کے سیلاب کا روپ دھار لیتے ہیں جو سماج کے ہر پاکیزہ عمل کو اپنے ریلے میں بہا کر لے جاتا ہے۔
ہمارے ماحول کی آلودگی ہمارے لوگوں کی صحت بری طرح متأثر کر رہی ہے۔ ہمارے شہروں میں اور ان کے ارد گرد واقع ہمارے کارخانوں میں بے کار مادے کے نکاس کا مناسب انتظام نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو پانی ہم پیتے ہیں وہ آلودہ ہے اور جس ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں وہ زہریلی ہے۔ جنگلات کی بہت زیادہ کٹائی کا نتیجہ جنگلی حیات کی تباہی کی صورت میں نکلا ہے۔ جانوروں کی بہت سے نایاب انواع نیست و نابود ہو چکی ہیں۔
بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث بچوں کو تعلیم دلانے کی مناسب سہولتیں فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی بہت کم تعداد سکولوں میں جا رہی ہے۔ ہمارے ملک کے 73.8 فیصد لوگ ان پڑھ ہیں۔ شرحِ خواندگی بڑھانے کی تمام کوششیں بے اثر ہو رہی ہیں۔ یہی حال لوگوں کو صحت کی خدمات فراہم کرنے میں ہماری کوششوں کا ہے۔ مالی اور جسمانی ذرائع اتنے محدود ہیں کہ ہر شہری کو مؤثر طبی تحفظ مہیا نہیں کیا جا سکتا۔
ایک سائنسدان چارلس ڈارون نے انواعِ حیات کا ارتقائی نظریہ پیش کیا جس نے علمی دنیا میں تلاطم برپا کر دیا۔ ڈارون کو اپنے نظریۂ ارتقا میں ماہرِ معاشیات تھامس مالتھوس کے نظریات سے بھی مدد ملی۔ مالتھوس نے اپنی تحقیق "آبادی کے قوانین (An Essay on Principles of Populations)" میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسانی آبادی میں اضافہ، وسائلِ خوراک میں اضافے سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ مالتھوس کا نظریہ تھا کہ وسائلِ حیات میں اضافہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، … کے تسلسل سے ہوتا ہے جبکہ آبادی میں اضافہ ۱، ۲، ۴، ۸، ۱۶، … کے تسلسل سے ہوتا ہے۔ آبادی اور وسائل میں شرحِ اضافہ کی غیر متناسب دوڑ سے وسائل آبادی سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور وسائلِ حیات کے لئے جدل (competition) برپا ہو جاتا ہے۔ ڈارون اپنے نظریہ ارتقائے انسانی (Evolution Theory of Mankind) میں اسی اصول کو بنیاد بنا کر جہد البقا (struggle for Survival)، نیچرل سلیکشن (natural selection) اور خوب تر کی بقا (survival of the fittest) کے اصول وضع کر کے انواعِ حیات (Diversity of Life) میں ارتقا کا جواز پیش کیا۔ مالتھوس کا خیال تھا کہ اگر آبادی پر مصنوعی کنٹرول لاگو نہ کیا گیا تو وسائل کی قلت سے "آبادی کا بم" پھٹ کر ٹکراؤ کی بھیانک صورتیں پیدا کرتا رہے گا اور اس ٹکراؤ میں وسائل کا بے شمار زیاں ہو گا۔
چنانچہ اب ہم آبادی میں اضافے سے نظریہ مالتھوس اور نظریہ ڈارون کے مطابق خوف زدہ ہیں کہ وسائل اتنی تیزی سے نہیں بڑھتے جتنی تیزی سے آبادی بڑھتی ہے۔ لہٰذا جدید ہلاکت خیز ہتھیاروں سے مسلح تصادم، مناقشے اور جنگیں اس کرۂ ارض کو ہی نیست و نابود کر دیں گی۔ اس پسِ منظر میں اگر آبادی پر خود ساختہ کنٹرول نافذ نہ کیا گیا تو بقا کو مکمل فنا کا خطرہ لاحق ہے۔
چنانچہ ہمارے کارخانوں کی محدود پیداوار اور ہمارے زرعی کھیتوں کی پست پیداوار کے باعث ہم اس حیثیت میں نہیں ہیں کہ لاکھوں افراد کو ان کی ضروریات کے مطابق خوراک اور زندگی کی دیگر ضروریات مہیا کر سکیں۔ اشیائے خورد و نوش اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔
 
Top