زندہ ہیں مسٹر دہلوی

یوسف-2

محفلین
mr+dehalvi-1.jpg


mr+dehalvi-2.jpg


mr+dehalvi-3.jpg


mr+dehalvi-4.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
زندہ ہیں مسٹر دہلوی​
مسٹر دہلوی اظہار بیان میں الجھاؤ اور مصلحت کے قائل نہ تھے کیونکہ مصلحت پسندوں کا ضمیر تو کیا مافی الضمیر بھی نہیں ہوتا۔ آج تو لوگ سچ بھی اس طرح اٹک اٹک کر بولتے ہیں گویا جھوٹ بول رہے ہوں۔​
ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی جمعیت الفلاح میں منعقدہ مسٹر دہلوی کی تیسری برسی کے موقع پر اپنے مخصوص انداز تحریر میں، بحیثیت مہمان خصوصی تقریر فرما رہے تھے اور میری نگاہوں کے سامنے ۳۱ جولائی ۱۹۸۸ء کی وہ شام تھی جب فلاح مجلس ادب کے تحت اسی جگہ مسٹر دہلوی کے ساتھ ایک شام منائی گئی تھی۔ موتمر عالم اسلامی کے جناب ایس ایس جعفری کی صدارت میں منعقدہ اس تقریب میں پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر عنایت علی خان اور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے مسٹر دہلوی کے فن و شخصیت پر مقالے پڑھے۔ جبکہ مجلس کے سیکرٹری کی حیثیت سے اس خاکسار نے بھی اظہار خیال کیا۔ مسٹر دہلوی کی زندگی میں ان کے ساتھ منائی جانے والی یہ آخری شام تھی۔ ۱۱ اکتوبر ۱۹۸۸ء کو جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی یاد میں پہلے تعزیتی جلسہ کے اہتمام کا اعزاز بھی فلاح مجلس ادب نے ہی حاصل کیا۔​
مسٹر دہلوی کے ساتھ منائی جانے والی اس آخری شام کے صرف ایک ہفتہ بعد ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو اس خاکسار کے لئے ابھی تک پشیمانی کا سبب بنا ہوا ہے۔ ہوا یوں کہ ایک مقامی روزنامہ میں مسٹر دیلوی کا ایک تفصیلی مضمون "موسمی معاشیات دان" کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ مسٹر دہلوی ایک مزاح گو شاعر و ادیب کے علاوہ ایک معاشیات دان بھی تھے۔ اس سلسلہ میں ان کی ایک ضخیم کتاب "مکالمات سقراط" بھی شائع ہو چکی ہے۔ مرحوم کی وفات پر اس خاکسار نے یہ چار مصرعے کہے تھے جن میں مسٹر دہلوی کی چاروں کتابوں کے نام موجود ہیں۔​
گر "عطر فتنہ"، "سوئے ادب" کی بات تھی​
تو "مکالمات سقرا" کیونکر "سپرد قلم" ہوئے​
گلشن شعر و ادب میں، زندہ ہیں مسٹر دہلوی​
ہاں! مشتاق احمد چاندنا رخصت ہوئے​
 

شمشاد

لائبریرین
مسٹر دہلوی کا چار ہزار الفاظ کا یہ تفصیلی مضمون جس صبح اخبار میں شائع ہوا اس روز میں دفتر جانے کی بجائے اس مضمون کا جواب لکھنے بیٹھ گیا اور ایک ہی نشست میں "موسمی ماہرین معاشیات اور مسٹر دہلوی" کے عنوان سے تقریباً ڈھائی ہزار الفاظ تحریر کئے۔ یہ مضمون اسی ہفتہ شائع ہوا۔ اس مضمون میں خاکسار نے مسٹر دہلوی کے متذکرہ بالا مضمون کے بقول شخصے، دھجیاں بکھیر دیں۔ مضمون میں پیش کردہ جملہ خیالات کی رد میں نہ صرف ذاتی دلائل دیئے بلکہ سند کے طور پر ممتاز علماء کی تحریروں سے اقتباسات بھی پیش کئے۔ میرا یہ مضمون پڑھ کر متعدد اصحاب علم نے خاکسار کے اس جرات اظہار کی تعریف کی۔ مجھے سو فیصد یقین تھا کہ میری اس گستاخی پر مسٹر دہلوی اپنے شدید رد عمل کا اظہار کریں گے۔ مگر میرے دل کی یہ "خواہش" دل ہی دل میں رہ گئی۔ اس واقعہ کے بعد بھی دو ایک بار ان سے شرف ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا مگر انہوں نے اس بات کا تذکرہ تک نہ کیا۔​
مگر جب میرے اس مضمون کی اشاعت کے ٹھیک دو سال بعد جب مسٹر دہلوی کے انتقال کی خبر ملی تو میری حالت عجیب ہو گئی۔ دل نے کہا مسٹر دہلوی جیسے زندہ دل شخص کا دل دکھا کر تم ہی نے ان کے دل کو مزید دھڑکنے سے رکنے پر مجبور کیا ہے۔ تمہارے اس مضمون کو پڑھ کر مسٹر دہلوی کا نہ جانے کیا حال ہوا ہو۔ اپنے ہم رتبہ اور بڑے بڑوں کے سامنے بے دھڑک بولنے والے کے سامنے جب تم جیسا ڈیڑھ بالشتیا آن کھڑا ہو تو انہوں نے خلاف معمول "جواب جاہلاں باشد خموشی" پر عمل کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ مگر ان کا نازک دل یہ صدمہ برداشت نہ کر پایا اور انہوں نے دنیا کو خیر باد کہنے میں عافیت محسوس کی۔ آج وہ یقیناً جنت الفردوس میں عافیت سے ہیں۔۔۔ ایک تم ہو ۔۔۔ ایک وہ تھے۔​
تلسی کھڑے بجار میں، مانگے سب کی کھیر​
نہ کاہو سے دوستی، نہ کاہو سے بیر​
مشتاق احمد یوسفی بتا رہے تھے کہ کوئی بیس برس قبل بارہ، گیارہ بہتر (۱۲/۱۱/۱۹۷۲)کو مسٹر دہلوی کے "عطر فتنہ" کی تقریب رونمائی میری ہی صدارت میں منعقد ہوئی تھی اور آج ان کی تیسری برسی پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود مجھے تقریر کرنی پڑ رہی ہے۔​
پروفیسر اقبال عظیم نے اپنی صدارتی تقریر میں یہ انکشاف کیا کہ مسٹر دہلوی کو سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے دیدار سے نوازا تھا۔ مگر مسٹر دہلوی نے اس کا اظہار کبھی نہیں کیا بس ایک بار میرے سامنے ان کے منہ سے یہ بات نکل گئی۔ اقبال عظیم کہہ رہے تھے مسٹر دہلوی نہ صف اول کے شاعر تھے نہ صف اول کے نثر نگار مگر انہیں ہر محفل میں وضاحت اور جرات کے ساتھ گفتگو کرنے کا فن آتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ مصلحت اور مصالحت کے بغیر لکھا۔ ان کی تحریریں اور تقریریں ایک خاص مقصد کے لئے ہوتی تھیں۔ وہ ایک کھرے آدمی تھے جس میں صرف اس حد تک کھوٹ تھا کو بقول ان کے کھرے سونے کو زیور میں تبدیل کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اقبال عظیم گواہی دے رہے تھے :"جو شخص نمازی پرہیز گار ہو، رزق حلال کماتا ہو، جھوٹ نہ بولتا ہو، اعلیٰ اسناد نہ ہونے کے باوجود ادبی خدمت کو ضروری سمجھتا ہو، وہ یقیناً ایک اچھا شخص ہی ہو سکتا ہے۔"​
مجھے یقین ہے کہ اگر فردوس بریں میں "مسٹر" کے حضور اظہار پشیمانی کے لئے میرا یہ مضمون پیش کیا جائے تو وہ اس "ذود پشیماں" پر غالب کے کسی شعر کی پھبتی کسنے کے بجائے زندگی سے بھرپور ایک قہقہہ لگاتے ہوئے اقبال عظیم کا یہ شعر پڑھنا پسند کریں گے۔​
آشنا ہوتے ہوئے بھی، آشنا کوئی نہیں​
جانتے ہیں سب مجھے، پہچانتا کوئی نہیں​
**************************​
 
Top