زندہ کتابیں سلسلہ نمبر 132 : وشواناتھ طاؤس کے فلمی و ادبی مضامین

راشد اشرف

محفلین
زندہ کتابیں سلسلہ نمبر 132
وشواناتھ طاؤس کے فلمی و ادبی مضامین
(تقسیم سے قبل اور کچھ بعد کے)
ناشر: اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی
----
سرورق:
----
بھارت میں فلم کے موضوع پر انگریزی زبان میں بے شمار کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔یہ سلسلہ ہر دور میں جاری رہا ہے۔ مگر اردو زبان میں مستند کتابوں کی تعداد انگریزی زبان میں شائع ہوئی کتب کے مقابلے میں بہرحال خاصی کم ہے ۔اس کمی کو انیس امروہوی اور جاوید حمید کی کتابوں نے کچھ حد تک پورا کیا ہے۔مگر ہر دو حضرات کی کتابوں میں مضامین کی شکل میں جو کچھ بھی ہے اس کا ایک بڑا ذریعہ انٹرنیٹ ہے یا پرانے انگریزی رسائل ۔ بھوپال ہی کے جناب رشید انجم کی فلم کے موضوع پر چند مستند کتابیں ہیں جن میں 900 صفحات کی ایک ضخیم کتاب ”ادب سے فلم تک“ کو اٹلانٹس پبلی کیشنز نے زندہ کتابیں میں حال ہی میں شائع کیا ہے۔ صحافی و ادیب خالد عابدی صاحب کا تعلق بھی بھوپال سے ہے جن کی فلم کے موضوع پر تین کتب ایک جلد میں ”زندہ کتابیں“ کے تحت شائع ہوئی ہیں ۔ انہوں نے اپنی کتاب ”مضامین ِ فلم“ کا انتساب وشوا ناتھ طاﺅس کے نام کیا ہے۔ مسودہ دیکھتے وقت راقم کو یہ خیال آیا کہ وشواناتھ طاؤس صاحب کے مضامین کو بھی تلاش کرکے کتابی شکل میں پیش کیا جائے۔ طاؤس صاحب بھی فلم کے موضوع پر نہایت عمدگی سے لکھتے تھے۔تحریر میں چاشنی تھی۔ اردو ایسی کہ گویا وہ لکھے اور پڑھا کرے کوئی۔ان کے تحریر کردہ ادبی مضامین بھی خاصے کی چیز ہوا کرتے تھے۔ وہ تقسیم سے قبل لاہور میں تھے اور وہ نامور ادبی شخصیات کی محفل میں حاضری دیا کرتے تھے۔ اُس زمانے کے ادبی منظر نامے سے متعلق یادیں ان کے حافظے میں آخری وقت تک محفوظ رہی تھیں۔ وہ اردو زبان کے سچے عاشق تھے۔
مگر افسوس کہ وشواناتھ صاحب کی کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آسکی ۔حال ہی میں مجھے نارنگ ساقی صاحب نے بتایا کہ طاؤس صاحب کی شدید خواہش تھی کہ ان کے مضامین کتابی شکل میں یک جا کیے جائیں۔
راقم کو طاؤس صاحب چند بے حد دلچسپ مضامین الہ آباد کے ”خبرنامہ شب خون“ میں پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کا یہ جریدہ اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا اور جلد ہی اس کی اشاعت موقوف ہوگئی ۔
خبرنامہ شب خون کے لیے تمام مضامین ، طاؤس صاحب نے پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کی حوصلہ افزائی کے سبب تحریر کیے تھے۔ وشوا ناتھ طاﺅس اُن دنوں مایوسی کا شکار تھے ۔ اپریل تا جولائی 2014 ء کے خبرنامہ شب خون میں طاؤس صاحب لکھتے ہیں:
” قلم و قرطاس کی دنیا میں احقر کی اتنی قیمت نہیں ہے جتنی جناب فضل حسنین نے لگا دی ہے۔ اتنا ضرو رہے کہ متکلم فلموں کے ابتدائی سالوں اور بیسویں صدی کی صحافت کے ایک ایک مخصوص دور (جسے مولانا ظفر علی خاں کا عہد کہا جاتا ہے) کے ضمن میں میرے پاس معلومات کا بحر ِ ذخار اب بھی موجود ہے جن کا راو ی اب کوئی نہیں رہا۔ پرانے اخبارات کو دیمک چاٹ چکی ہے۔ ان کا مکمل ریکارڈ کہیں بھی دستیاب نہیں ہے۔میرے پاس جو چند بوسیدہ تراشے ہیں ان کی روشنائی اڑ چکی ہے ، نظر ڈالیں تو چاک ہونے لگتے ہیں۔ بیشتر یارانِ کہن ملک عدم کو سدھار چکے ہیں۔ جو رفیق و ہم سفر باقی ہیں انہوں نے گوشہ عافیت یا قعرِ گمنامی میں پناہ لے رکھی ہے۔خود میں شمشان کنارے بیٹھا ہوں۔ نہ جانے کب ساونت چتا کی راکھ بن جاؤں۔اب میں خزاں زدہ زرد پتے یا ایک آوارہ قہقہے کی مانند ہوں ۔کسی بھی وقت تیز و تند ہواوؤں میں تحلیل ہوسکتا ہوں۔جسم کمزور ہوچکا ہے۔سماعت اور بصارت پر ضعف طاری ہے لیکن حافظہ قوی ہے۔جب تک یادداشت باقی ہے، لکھتا رہوں گا۔“

سو ،وشواناتھ صاحب کے تحریر کردہ مضامین کی بازیافت کا آغاز کیا گیا۔ انڈیا میں بھی چند مخلص احباب کی مدد حاصل کی گئی جن کے نام کتاب کے ابتدا میں درج کیے گئے ہیں۔ اردو کے موقر رسالے ”اردو ادب“ سے بھی خاصا کچھ ملا۔مگر ایک بڑی تعداد میں مضامین دہلی کے معاصر ہماری زبان سے خاصی محنت کے بعد جمع کیے گئے۔ مذکورہ پرچے کے کئی مطلوبہ شمارے ڈاکٹر اطہر فاروقی صاحب نے دہلی سے عنایت کیے۔ بقول شاعر دیکھئے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا۔
بحر کی تہ سے وہ کچھ اچھلا کہ کیا ہی کہیے۔
اس کتاب میں 80 قیمتی مضامین شامل ہیں۔
کتاب کے تیسرے حصے بعنوان ”چند اضافی مضامین“ میں وہ قیمتی مضامین ہیں جو دلی سے مجھے کےایل نارنگ ساقی صاحب نے بھیجے تھے۔ مذکورہ مضامین ساقی صاحب کے پرچے ”رہنمائے تعلیم جدید، دہلی “ میں شائع ہوئے تھے۔
اس کتاب میں شامل پہلے دو حصوں میں طاؤس صاحب کی تمام تحریروں کو سنین کے اعتبار سے رکھا گیا ہے۔ آغاز 2009 ء سے ہوتا ہے جبکہ آخری تحریر 2018 ء کی ہے۔تمام مضامین کے آخر میں ان کے ماخذات درج کردیے گئے ہیں۔ حواشی بھی ’حسب ِمقدور ‘تحریر کیے گئے ہیں۔ تیسرے حصے میں پانچ اضافی مضامین شامل ہیں۔
٭
اس کھوج کے دوران وشواناتھ صاحب کی نجی زندگی کے بارے میں خاصی تکلیف دہ باتوں کا بھی علم ہوا۔ مگر بوجوہ ان کو یہاں لکھنے سے گریز ہی کروں گا۔وشواناتھ طاؤس کی تاریخ پیدائش 10 جون 1932ء تھی ۔وہ 6 جون 2019 ءکو دلی سے متصل علاقے نوائیڈا میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے تھے۔ اس قدر خموشی سے کہ ان کے دیہانت کی خبر کا کسی کو علم ہی نہ ہوسکا۔ چار روز بعد یہ خبر نارنگ ساقی کے ذریعے چند اخبارات تک پہنچی تھی۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق:
”وشواناتھ طاؤس فاضلکا، پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والدوہاں کے ایک معروف تاجر تھے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے فاضلکا میں ہی حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1960ء وہ چنڈی گڑھ آگئے جہاں 1985ء تک مقیم رہے۔ اس کے بعد کچھ برس دہلی کے پیتم پورہ میں رہے اور پھر 1991ء میں نوئیڈا میں اپنے چھوٹے بیٹے راجیو آہوجہ کے ساتھ مستقل رہائش پذیر ہوگئے اور آخر وقت تک یہیں رہے۔ان کے پس ماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ انتقال کے وقت ان کی عمر تقریباً 87 برس تھی۔
اردو کے بزرگ قلم کار کی حیثیت سے یوں تو طاؤس صاحب کی کئی حیثیتیں ہیں مگر بمبئی کی فلم انڈسٹری سے ان کا شغف بے مثال تھا۔ وہ برسوں بمبئی کی فلمی دنیا سے وابستہ رہے تھے۔ اپنے زمانہ قیامِ بمبئی میں وہ پابندی سے ڈائری لکھتے تھے۔ بعد کے زمانے میں یہ ڈائریاں ان کے بمبئی کی فلمی دنیا پر لکھے گئے مضامین کے لیے اولین ماخذ بن گئیں۔“
 
Top