زندگی کے زاویے اور ہم

نوید ناظم

محفلین
یہ بھی زندگی ہی کا رنگ ہے کہ رنگ رنگ کی زندگی ہے۔ زندگی کے زاویے اتنے زیادہ ہیں کہ انسان اگر سوچنے بیٹھے تو سوچتا چلا جائے۔ بات سے بات نکلتی رہتی ہے اور ہمیں بولنے کا جواز ملتا رہتا ہے۔ اگر صرف ایک سوچ، ایک خیال اور ایک زاویہ نظر ہوتا تو زندگی جامد ہو کے رہ جاتی۔ بات سچ یا جھوٹ کی نہیں ہو رہی بات مختلف زاویوں کی ہو رہی ہے۔ خدائے واحد اپنی احدیت کا اعلان کرواتا ہے مگر وہ کائنات میں ورائٹی بھی پیدا کرتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں کو پسند کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو رزق بھی دیتا ہے اور بعض اوقات دوستوں سے زیادہ رزق اپنے دشمنوں کو دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے اُس کے نزدیک دین اسلام ہے مگر پھر بھی اسلام سے زیادہ لوگ دوسرے مذہب میں ہیں، سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ ورائٹی سے حقانیت کو کوئی فرق پڑتا ہے نہ یہ حق کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بلکہ یہ کانٹوں کی طرح گلاب کے ساتھ ہے تا کہ گلشن کا حسن برقرار بھی رہے اور بڑھتا بھی جائے۔ زندگی زندہ اس لیے ہے کہ اس کے کئی زاویے ہیں، ورنہ یہ مردے کی طرح ایک چت بے جان لیٹی رہے۔

دانش مندی یہ ہے کہ انسان اپنے نقطہ نظر کے ساتھ دوسرے پہلوؤں کو بھی سمجھنا شروع کر دے، ظاہر ہے کہ زندگی اپنے عقیدے اور نظریے کے تحت بسر کی جاتی ہے مگر دوسرے عقیدوں اور نظریات کو سمجھنے کی ذمہ داری دانش کا اہم تقاضا ہے۔ یہ تقاضا اصل میں تضاد سے چھٹکارا ہے۔ انسان جاننے لگتا ہے کہ شیر کا بکری کو کھا جانا ظلم نہیں بلکہ فطرت ہے کہ بکری ہی شیر کا رزق ہے، کیوں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بس ہے۔ قدرت کے کاموں کو سمجھا تو جا سکتا ہے مگر اُس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ اعتراض انسان کو ایمان سے محروم کر دیتا ہے۔ ابلیس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا، اُس کا اعتراض یہ تھا کہ آدم مٹی سے پیدا ہوئے اور وہ آگ سے، اعترض کی وجہ سے آگ سے پیدا ہونے والا آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ تخلیق کو سمجھنا اصل میں خالق کے ذکر کی ایک صورت ہے۔ تخلیق پر غور خالق کی عبادت ہے۔

آج کے دور کا انسان یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس کے نظریے کے علاوہ کوئی نظریہ ہو سکتا ہے، اِس کی بات کو رد کرنے والا ردی سے زیادہ حثیت نہیں رکھتا ۔ ہم انسان کو انسان کے طور پر تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ہمارے لیے ہر بات حق اور باطل کی جنگ ہے اور حق صرف وہ ہے جو ہمارے نزدیک حق ہے۔ دوسرے کا علم، عقیدہ اور زاویہِ نظر ہمارے لیے ناقابلِ اعتبار تو ہے ہی مگر ناقابلِ برداشت بھی ہے۔ ہم دنیا کو محشر کا میدان بنانا چاہتے ہیں کہ سزا اور جزا کے فیصلے کر دیے جائیں، مگر اللہ کہتا ہے کہ وہ اپنے نہ ماننے والوں کو بھی کھانے کو دے گا اور یہ بھی کہ ذرا ابھی انتظار کرتے ہیں، بلکہ اُس نے اپنے ساتھ مل کر انتظار کرنے کی دعوت دی ہے۔

ہمیں زندگی کے زاویوں کو ذرا غور سے دیکھنا چاہیے تا کہ ظاہر سے باطن کا سفر آسان ہو سکے۔ ایک لفظ کا ایک مطلب اور کئی مفہوم ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی کو مخلص ہونے کا کہا جائے تو اخلاص کا معنیٰ ہی اتنی وسعت رکھتا ہے کہ ساری زندگی اسی دائرے میں گھومتے ہوئے کٹ جائے اور ہمارا تو ہر لمحہ الفاظ سے لبریز ہے مگر ہمارے لیے ہر بات کا صرف ایک مطلب ہے، ہر معنیٰ ایک مفہوم سے آگے نہیں بڑھتا اور یوں خیال جامد ہو کے رہ جاتا ہے۔ خیال کا جامد ہو جانا شعور کی موت ہے اور شعور سے محروم زندگی اصل میں موت کا دوسرا نام ہے۔
 
Top