زمین کی بیضوی شکل

الف نظامی

لائبریرین
[arabic]والارض بعد ذلک دحٰها[/arabic] النزعت 79 ، آیت 30
اور پھر اس نے زمین کو بیضوی(شتر مرغ کے انڈے) کی شکل دی۔

اس آیت مبارکہ کی پرانی تشریحات میں اس کے معنی اس طرح ہیں "اس نے زمین کو پھیلا دیا" ۔ جبکہ istanbul faculty of theology کے H.B.Cantay اور ڈاکٹر علی اوزیک نے اپنی تفسیر میں اس کے وہ معنی دئیے ہیں جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں۔
تشریحات میں فرق لفظ [ARABIC]دحٰها[/ARABIC] کے معنی میں‌ اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ عربی زبان میں اس لفظ کے ماخذ یا اشتقاق شتر مرغ سے نسبت رکھنے والے معانی سے ملتے جلتے ہیں۔
آئیے ان کی چند مثالیں دیکھتے ہیں:

الادحیۃ : شتر مرغ کا گھونسلا ، یا ریت میں انڈے دینے کی جگہ یا کھڈا۔
الادحوۃ : شتر مرغ کے انڈے کی جگہ
تداحیا: ایک سوراخ میں پتھر ڈالنا

علم زبان کے ماہر etymologist شمس الدین نے لغت میں‌ مدحی کے معنی شتر مرغ کے انڈے کا سوراخ یا گڑھا بیان کیا ہے۔ جبکہ کے بیضاوی کے نزدیک بھی "دحا" کے معنی بیضوی کے ہی ہیں۔ یہ اس لفظ کے اصل معنی نہیں ہیں۔ پرانے وقتوں میں چونکہ "دحا" کے لئے انڈے کی شکل کا ہونا بے معنی سمجھا گیا ، اس لئے اس کو پھیلانے کے معنی دے دئیے گئے۔
"دحا" کے اصل معنی شتر مرغ کے انڈے کے ہیں۔ علم زبان کے اصولوں کے تحت تمام عربی لغات نے مدحی کو شتر مرغ کے انڈے کے گڑھے یا سوراخ کے برابر قرار دیا ہے۔ م کو الگ کرنے کے بعد کچھ لوگوں نے اسے شتر مرغ کا انڈا کہا ہے مگر "دحی" کو پھیلانے سے مماثلت دی گئی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظریات زمین کی شکل کے معاملہ میں انتہائی وضاحت کے حامل ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جنہوں نے اس آیت مبارکہ کی تشریح کے سلسلے میں "پھیلانے" کا مفہوم لیا ہے وہ بھی مکمل غلطی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ یہ ثانوی معنی ہیں اور قابل قبول ہیں۔ میری اپنی رائے بہر حال یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ کے معنی اس طرح ہیں "اور پھر ہم نے زمین کو شتر مرغ کے انڈے جیسی شکل دی" ۔ اب اس سے پلے کہ میں تفسیر بیان کروں میں ایک اور نکتے کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ کئی صدیوں قبل کے مشہور مفسروں جن میں بیضاوی ، رازی ، ابو السعود اور مدارک شامل ہیں ، نے اعلان کیا ہے کہ تخلیق کے وقت زمین پر کوئی جاندار چیز نہیں تھی اس لئے کہ وہ اس وقت آگ کی طرح تپتی ہوئی تھی۔ انہوں نے یہ اعلان اس وقت کیا جبکہ ان کے پاس موجودہ دور جیسی کسی قسم کی سائنسی معلومات نہیں تھیں۔ ان کے علم کی بنیاد صرف قرآنی سائنس ہی تھی۔ ان لوگوں کے ادراک اور قرآن فہمی کی تعریف نہ کرنا ناممکن ہے۔

اب ہم پھر اس علم کی طرف آتے ہیں جس کے تحت اس آیت کی تعبیر زمین کی بیضوی شکل کی نسبت سے متعلق ہے۔

(الف) تمام مخلوقات کے انڈوں میں سے شتر مرغ کا انڈا ہی ہے جو ایک کرے سے نزدیک ترین مشابہت رکھتا ہے۔

(ب) کرہ زمین کے شمالی اور جنوبی قطبین کا قطر diameter ، زمین کے خط استوا کی طرف سے قطر کی نسبت سے ، زمین کی جو شکل بناتا ہے وہ بیضوی ellipsoid ہے۔ خاص طور پر یہ زمینی صورت ، زیادہ صحیح طور پر کچھ بگڑی ہوئی ہے جیسے کہ ناشپاتی کی شکل ہوتی ہے ، اسے جیوائڈ Geoide کہتے ہیں۔ زمین کا استوائی ریڈیس 6373 کلومیٹر ہے جبکہ زمین کا قطبین کی طرف سے ریڈیس 6356 کلومیٹر ہے۔

(ج) یہ آیت مبارکہ واضح طور پر زمین کی شکل گولائی میں ظاہر کرتی ہے۔ مزید برآں اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی ابتدائی صورت میں زمین اس موجودہ شکل میں نہیں تھی۔ دراصل زمین کی سطح سخت solidification ہونے سے قبل زمین کی کوئی مخصوص شکل نہیں تھی۔ کائناتی طبیعات Astro-Physics کے مطابق زمین کی تخلیق کے دو نظریات ہیں ایک نظریے کے مطابق زمین پہلے سورج کا حصہ تھی جو ایک ٹکڑے کی طرح اچھل کر علیحدہ ہوگئی۔ جبکہ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ سورج اور زمین دونوں ہی ایک سحابیہ Nebula سے دھماکے سے علیحدہ ہوئے۔ دونوں نظریات یہ مانتے ہیں کہ شروع میں زمین کسی مخصوص شکل کے بغیر تھی جس نے بعد میں بیضوی گول شکل اختیار کرلی۔ چناچہ یہ آیت کھلے طور پر زمین کی شکل بیضوی یا تکنیکی زبان میں Ellipsoidal ظاہر کرتی ہے۔

زمین کی گولائی والی شکل اور پھر جیسا کہ میں نے موضوع نمبر 8 میں بیان کیا (زمین کی محوری حرکت) جنہیں قرآن نے متعدد آیات میں عیاں کیا ہے ، ان لوگوں کے لئے ایک مکمل اور خوبصورت جواب ہے جو اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں۔
اس آیت کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اسے سورۃ النٰزعٰت میں بیان کیا گیا جو تخلیق سے متعلق متعدد اسرار کو بیان کرتی ہے۔ مزید یہ کہ آیات نمبر 28 سے نمبر 30 تک زمین کی تخلیق کا خلاصہ دے دیا گیا ہے۔ آیت 31 یہ اعلان کرتی ہے کہ جب زمین نے بیضوی شکل اختیار کرلی تو بالترتیب پہلے اس پر پانی کا انتظام کیا گیا۔ پھر اس پر ابتدائی نباتات کو چارے کی صورت میں پیدا کیا گیا۔ جدید دور کے ارضی طبیعات کے علم کے نظریات اس ترتیب سے پوری طرح متفق ہیں۔ جب زمین نے اپنی بیضوی شکل اختیار کرلی تو پھر اس پر کرہ آب (قشر ارض کا آبی حصہ بشمول سمندر اور سارے پانی کے) وجود میں آگیا اور سمندوں کی تشکیل ہوئی۔ نباتاتی حیات بعد میں ظہور پذیر ہوئے۔
اگر اس آیت پر تحقیق اس مکمل ہم آہنگی کی بنیاد پر کی جائے تو اس کے مکمل اور معجزاتی علم اور دانائی کو با آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔

قرآنی آیات اور سائنسی حقائق
ڈاکٹر ہلوک نور باقی (ترکی)
مترجم: سید محمد فیروز شاہ
 
Top