زر نگار

الف عین

لائبریرین
محمد شریفؔ انصاری اشرفی

جب سے تمھیں دیکھا ہے بس ایک ہی نعرہ ہے
یہ جاں بھی تمھاری ہے یہ دل بھی تمھارا ہے
اک تیری محبت پر دیتی ہے سزا دنیا
یہ جرم اگر ہے تو یہ جرم گوارا ہے
یوں ہی نہیں عالم میں ہم لوگ ہوئے رسوا
’’کچھ اپنوں کیسازش ہے کچھ ان کا اشارا ہے ‘‘
روداد سنائیں کیا ہم اپنی تباہی کی
اب اپنے وطن میں ہی دشوار گزارا ہے
ایمان بچانا بھی اس دور میں ہے مشکل
ہر سمت زمانے میں تقلید نصاریٰ ہے
تاریک فضائیں ہیں ہر سمت جہالت کی
اک تیرے سوا یارب اب کون ہمارا ہے
کہتا ہے شریفؔ احقر لوگوں سے یہی اکثر
اب ذکرِ خدا میرے جینے کا سہارا ہے
 

الف عین

لائبریرین
عابد حسین عابدؔ

تہذیب کے گلشن کو کیا خوب سنوارا ہے
جس سمت نظرڈالو پر کیف نظارہ ہے
شب ہونے کو آئی ہے پھر دور چلا ساقی
بے تابی کے عالم میں دن رات گزارا ہے
یکتا ئے ز مانہ ہے ہر ایک ادا اسکی
اس شوخ نے کتنوں کوبے مو ت ہی مارا ہے
بادل میں نہ چھپ جائے کیوں چاند بھی شرماکر
پھر شام ڈھلے اس نے زلفوں کو سنوارا ہے
ٹوٹی ہوئی شاخوں میں تاراجئی گلشن میں
’’کچھ اپنوں کی شازش ہے کچھ انکا اشارہ ہے ‘‘
ہم نے بھی چمن اپنا سینچا ہے لہو دیکر
حق جتنا تمہارا ہے اتنا ہی ہمارا ہے
اک تیری محبت میں اے منتظرِ عالم
جینا بھی گوارہ ہے مرنا بھی گوارہ ہے
کس طرح سہوں عابدؔ غم انکی جدائی کا
احساس ہے مردہ سا بے کیف نظارہ ہے

////

غموں کی دھوپ سے خود کو بچانے آئے ہیں
ہم آج جشن مسرّت منانے آئے ہیں
حیات و کشمکشِ روزگار میں ہم تو
کتابِ ز یست کا عنواں بتانے آئے ہیں
جلاکے خانۂ دل میں چراغ الفت کے
ہم اپنے عشق کے جلوے دکھانے آئے ہیں
نظام گلشنِ ہستی سنوارنے کیلئے
’’کلی کلی کو تبسم سکھانے آئے ہیں ‘‘
سہانی رات کی تنہائیوں کا حال نہ پوچھ
خیال و خواب میں منظر سہانے آئے ہیں
ادائے چشم تغافل کا دیکھیئے عالم
نظر کا تیر وہ دل پر چلانے آئے ہیں
جنھیں سمجھتے تھے ہم اپنا مونس و ہمدم
ہماری راہ میں کانٹے بچھانے آئے ہیں
جو ہم کو زخم ہی دیتے رہے ہیں برسوں سے
وہ آج زخم پہ مرہم لگانے آئے ہیں
مٹادو نفرتین دل سے ملو گلے سے گلے
نفاق و رنجشِ باہم مٹانے آئے ہیں
قدم قدم پہ ہوئے جن کے نام کے چرچے
وہ اپنے نام کا جادو جگانے آئے ہیں
ہمیں نہ دیکھو حقار ت سے اسطرح عابدؔ
تمہارے واسطے ہم سر کٹانے آئے ہیں

/////

دل فرطِ مسرت سے مرا جھوم اٹھا ہے
اب عالم تنہائی کا ہمراز ملا ہے
تہذیب و تمدن کی بہاروں کو جلاہے
شوریدہ زمیں پربھی جہاں پھول کھلا ہے
ہم کو یہ سبق روزِ ازل سے ہی ملا ہے
اک ذاتِ خدا باقی ہر اک چیز فنا ہے
دل ہے کہ ہر اک لمحہ مرا ٹوٹ رہا ہے
تھا ناز بہت جس پہ وہی آج خفا ہے
انگشت نمائی مرے کردار پہ کرکے
دشمن مرا ہر گام پشیمان ہوا ہے
نادان یہاں آتے ہی بن جاتے ہیں دانا
اس محفل خوش رنگ کی تہذیب جدا ہے
دل میں بھی ہے موجود رگِ جاں سے بھی نزدیک
جس سمت نظر ڈالئے وہ جلوہ نما ہے
اک جرمِ محبت کو بھی بخشا نہ جہاں نے
رسوا سر بازار مجھے خوب کیا ہے
افشا ں نہ کبھی ہوتا مرا راز محبت
اک تیرے تبسم کا ہی افسانہ بنا ہے
اﷲ بچائے نظرِ بد سے ہمیشہ
ہاتھوں پہ ترے رنگ حنا خوب چڑھا ہے
ساحل پہ کھڑارہ کے بھی پانی سے رہا دور
ہے کون لبِ دریا جو پیاسا ہی مرا ہے
کیا رکھا ہے بیکار کی باتوں میں اے عابدؔ
’’کہہ دو یہ ہوا کچھ نہیں دو دن کی ہوا ہے‘‘
 

الف عین

لائبریرین
وحیدؔ شیخ

رسم ایسی بھی یہاں ایک بنا دی جائے
جو صحیح بات کہے اس کو سزا دی جائے
سارے ہنگاموں کے ملزم ہمیں ٹہرا ہی چکے
کوئی تہمت ہو بچی، وہ بھی لگا دی جائے
جو ہے قاتل، وہی منصف، وہی حاکم ہے یہاں
کون سنتا ہے یہاں ، کس کو صدادی جائے
ظلمتیں پھیل چکیں چاروں طرف نفرت کی
شمع اک پیار کی ایسے میں جلادی جائے
زندگی ایک سزا ہے تو چلو آج وحیدؔ
کیوں نہ دشمن کو بھی جینے کی دعا دی جائے


////

رسم ایسی بھی یہاں ایک بنا دی جائے
جو صحیح بات کہے اس کو سزا دی جائے
سارے ہنگاموں کے ملزم ہمیں ٹہرا ہی چکے
کوئی تہمت ہو بچی، وہ بھی لگا دی جائے
جو ہے قاتلہ، وہی منصف، وہی حاکم ہے یہاں
کون سنتا ہے یہاں ، کس کو صدادی جائے
ظلمتیں پھیل چکیں چاروں طرف نفرت کی
شمع اک پیار کی ایسے میں جلادی جائے
زندگی ایک سزا ہے تو چلو آج وحیدؔ
کیوں نہ دشمن کو بھی جینے کی دعا دی جائے

////

آج شہروں کی یہی پہچان ہے
اک مسلسل دوڑ میں انسان ہے
کھو گئے ہیں سارے رشتے بھیڑ میں
اپنے گم ہونے کا بھی امکان ہے
وہ پڑوسی کی رکھے گا کیا خبر
اپنے گھر میں آپ جوانجان ہے
بس مشینوں کی ہے مانند ہر نفس
چل رہی ہے سانس، پر بے جان ہے
دیکھ کر رک جائے یہ ہوتا ہے کم
بات کر لے گر کوئی، احسان ہے
چلیئے واپس گاؤں کو اپنے وحیدؔ
پھر ملیں لوگوں سے یہ ارمان ہے



/////


عزمِ محکم ڈٹ گیا، جھوٹی انا کے سامنے
اک دیا جلتا رہا پاگل ہوا کے سامنے
امتحان ظرف تھا مقصود رند مست کا
’’ہم نے ساغر رکھ دیا کالی گھٹا کے سامنے ‘‘
مبتلائے زیست ہوں یہ بھی کوئی کم تو نہیں
اور سزا ہو گی کوئی کیا اس سزا کے سامنے
حق فرزندی و طاعت کی ہوئی یہ انتہا
جان اپنی پیش کی اس کی رضا کے سامنے
چل پڑے لمبے سفر پر چھوڑکر سب کچھ وحیدؔ
زور کس کا ہے چلا دستِ قضا کے سامنے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احباب کو شاید یاد ہوگا کہ یہاں بھی شیخ عبد الوحید رجسٹر ہوئے تھے مجھ سے ایک نشست میں اردو محفل کا نام سن کر۔ یہ وہی صاحب ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
مشتاق احسنؔ

پناہ مانگنے خانہ خراب آئے گا
میری زمین پر وہ آفتاب آئے گا
نوشتہ میرے مقدر کا ڈھونڈتے پھرتے
کہیں نہ جائے گا ،میری جناب آئے گا
مجھے سنبھال کے رکھنا کہ قیمتی شئے ہوں
میں ٹوٹ جاؤں تو اک انقلاب آئے گا
یہ عین حق ہے کہ اک روز وہ مرے حق میں
جو میرا دوست ہے بن کر عذاب آئے گا
ابھی تو رات ہے چھیڑو نہ پھول بننے دو
کلی پہ دن چڑھے کافی شباب آئے گا
انھیں منانے کی کوشش نہ کیجئے احسنؔ
وہ منہ پھلائے ہیں الٹا جواب آئے گا

/////

میں تو صدا لگا چکا اُس کے دیار میں
اب دیکھنا ہے کتنا اثر ہے پُکار میں
ہر ہر قدم سنبھال کے رکھّا، بہ احتیاط
اُلجھا کبھی نہ گردشِ لیل و نہار میں
جتنا کہ صبح و شام کی رنگت میں ہے تضاد
اُتنا ہے فرق آپ کے قول و قرار میں
ہر دم اسے پرکھنے کی کوشش نہ کیجئے
انساں سمجھ میں آتا ہے بس ایک بار میں
دورِ خزاں تو چین سے آکر گزر گیا
یہ کیسی آگ لگ گئی فصلِ بہار میں
ہے بات گھر کی گھر میں رہے تب تو ٹھیک ہے
اچھّا نہیں ہے عام کریں اس کو چار میں
احسن ؔکسی کے وعدے پہ مت کیجئے یقین
کتنے ہی خواب ٹوٹ چکے انتظار میں

////

تم عمل کیے جاؤ تم کو کس نے روکا ہے
ہم تو خواب دیکھیں گے یہ ہمارا حصّہ ہے
آشیاں کو جلتے تو ہر نظر نے دیکھا ہے
کتنے جل چُکے ارماں کیا کسی نے سونچا ہے
حسرتیں زمانے کی پال کر کروگے کیا
وہ ہی فصل کاٹوگے بیج جس کا بویا ہے
اُس سے غیر اچھّے ہیں ہنس کے مل تو لیتے ہیں
بھائی نے مجھے اکثر گھور کر ہی دیکھا ہے
نہ زبان شیریں ہے نہ بیان سنجیدہ
مقتدی پریشاں ہیں یہ امام کیسا ہے
رات دن کے سجدے ہیں مسجددوں میں جھگڑے ہیں
بے اثر دعاؤں کا حشر یہ ہی ہوتا ہے
باغباں کی محنت ہوں اور خدا کی رحمت ہوں
خار دار شاخوں پر تب گلاب کھِلتا ہے
دوسروں کی عینک سے خود کو دیکھیے احسنؔ
آپ اپنی نظروں سے تو سبز سبز دکھتا ہے


////


غیر میں اپنوں میں کچھ پہچان کر
ہر کسی کو گھر میں نہ مہمان کر
کون کس کے کام آتا ہے یہاں
اپنی مشکل خود میاں آسان کر
یاد کرنا موت کو تو ٹھیک ہے
جیتے جی مرنے کا نہ ارمان کر
بازوؤں میں زور جب ہوتا نہیں
کیوں نکل پڑتے ہو سینہ تان کر
جھوٹ کہہ کر اُس نے بازی مارلی
ہم ہوئے بدنام غلطی مان کر
اس کو خالص گھر خدا کا رہنے دے
جنگ کا مسجد کو نہ میدان کر
جن کو کرنا ہے کریں وہ شوق سے
دیکھ احسنؔ تو نہ جھوٹی شان کر


////


پڑھ کے دو چار کیا کتاب آئے
اُن کے حصّے میں دس خطاب آئے
میرے لب پر سوال کیا آیا
جو جواب آئے لا جواب آئے
اک تصوّر میں کٹ گئیں راتیں
نیند آئی نہ کوئی خواب آئے
اُن کو محشر میں مل گئی راحت
کر کے اپنا جو احتساب آئے
آپ نظریں جھکاکے چلیے جناب
اُن کے چہرے پہ کیوں نقاب آئے
قبر سے کہہ رہا تھا اک منکر
ہائے پرچے بڑے خراب آئے
ہم نے احسن ؔ روش نہیں بدلی
لاکھ دنیا میں انقلاب آئے

////

فتنوں کو دبا دیتے ہیں شہرت نہیں کرتے
ہم سنتے ہیں سب ، رائی کو پربت نہیں کرتے
کیا لوگ تھے کل رات کیا کرتے تھے سجدے
ہم لوگ تو دن میں بھی عبادت نہیں کرتے
پردہ کیے لوگوں پہ تو مٹ جاتے ہیں ہم لوگ
ماں باپ جو زندہ ہیں تو خدمت نہیں کرتے
اے کاش کہ مل جائے اسے رشد و ہدایت
ہم اس لیے کافر پہ بھی لعنت نہیں کرتے
اپنوں نے کیا ظلم تو خود اپنے اکابر
چُپ رہتے ہیں ظالم کی مذمّت نہیں کرتے
جو کام ہے جس وقت کا کرتے ہیں وہی ہم
بیمار کو بستر پہ نصیحت نہیں کرتے
لٹ جاتے ہیں مٹ جاتے ہیں پر اپنے وطن سے
ہم لوگ وفادار ہیں ہجرت نہیں کرتے
خاموشی کو ترجیح دیا کرتے ہیں احسنؔ
ہم سچّے ہیں اس بات پہ حجّت نہیں کرتے


////


دل میں حق بات جب اترتی ہے
تب کہیں عاقبت سنورتی ہے
عزم جن کے جواں نہیں ہوتے
ان کی دنیا کہاں سنورتی ہے
فقر و فاقہ میں گاؤں کی بیٹی
شہر جانے کی بات کرتی ہے
کیوں برہنہ بدن ہیں یہ بچے
تم سے ممتا سوال کرتی ہے
ہوتے ہوتے گناہ ہوتے ہیں
مرتے مرتے نگاہ مرتی ہے
زندگی میری ہر نفس احسنؔ
دوستوں کے کرم سے ڈرتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
ڈاکٹر عمران علی خان عمرانؔ


پتہ نہیں کہ وہ مرہم لگانے آئے ہیں
یا میرے زخم پہ نشتر چلانے آئے ہیں
ہمارے بانکپن کی کچھ تو داد دے قاتل
کس اطمنان سے ہم سر کٹانے آئے ہیں
مزاجِ بزم کا آخر لحاظ رکھنا تھا
سو دل کو مار کے ہم مسکرانے آئے ہیں
الٰہی چارہ گروں کا تو پھر بھرم رکھنا
نئی دوا ہے اِدھر آزمانے آئے ہیں
بس ایک وقتِ ملاقات ہم نے مانگا تھا
ہزار اُن کے لبوں پر بہانے آئے ہیں
ہمیں پتہ ہے کہ عمرانؔ کہہ نہیں سکتے
بڑے وثوق سے لیکن سُنانے آئے ہیں


////

ہم دار پہ بھی ترک حقیقت نہیں کرتے
ناکر دہ گناہوں پہ ندامت نہیں کرتے
خاموش رہیں ، ظُلم سہیں ، مسکرائیں بھی
ہم ایسی حماقت کی حمایت نہیں کرتے
کر جانِ وفا مشقِ ستم اور زیادہ
ہم چاہنے والے ہیں شکایت نہیں کرتے
پوچھے گا بھلا کون بُرے وقت میں انہیں
جواپنے پڑوسی کی عیادت نہیں کرتے
اس ڈر سے کہ شکوے پہ وہ روٹھے نہ مستقل
’’ہم اپنے مقدّر کی شکایت نہیں کرتے ‘‘
کرتے ہیں اُسے یاد اکیلے میں ہی اکثر
ہم صرف دکھاوے کی عبادت نہیں کرتے
اکثر وہی رہ جاتے ہی ناکام و نامراد
جو لوگ سرابوں کو حقیقت نہیں کرتے
کچھ تو خیال کیجے روایت کا بھی عمرانؔ
اشعار میں یوں شدّتِ جدّت نہیں کرتے
 

الف عین

لائبریرین
ضمیرؔ ناگپوری

رابطہ ٹوٹا ہوا ہے نامہ بر کوئی نہیں
اب انھیں میری، مجھے انکی خبر کوئی نہیں
گریۂ غم سے تو تھرّا اٹھتا ہے چرخِ کہن
میرے اشکوں کا مگر ان پر اثر کوئی نہیں
اک خلا سا کار زارِ عشق میں ہے میرے بعد
ہے کوئی جو معرکہ یہ کرلے سر کوئی نہیں
اس نے مجھ سے پھیرلیں نظریں زمانہ پھر گیا
اب ادھر ساری خدائی ہے ادھر کوئی نہیں
ہے اجل کے سامنے بے بس یہاں ہر آدمی
جو ہرا دے موت کو ایسا بشر کوئی نہیں
کاروانِ شوق کی اﷲ نگہبانی کرے
رات اندھیری لوٹ کا ڈر، راہبر کوئی نہیں
اے ضمیرؔ آخر بناؤں کس کو اپنا رازدار
دوست کہنے کو بہت ہیں معتبر کوئی نہیں

/////

سامانِ تعیّش کڑی محنت کا صلہ ہے
محنت کے بنا کب کوئی دھنوان بنا ہے
نکلا ہوں مصیبت سے تو احساس ہوا ہے
مشکل میں جو کام آئی ہے وہ ماں کی دعا ہے
جو اپنی خطا پر کرے اظہارِ ندامت
سچ پوچھئے دنیا میں وہی شخص بڑا ہے
چلتا تھا کبھی جسکے اشاروں پہ زمانہ
وہ آج زمانے کی نگاہوں سے گرا ہے
خنجر پہ لہو اور نہ دامن پہ کوئی داغ
قاتل نے تو لگتا ہے کرامات کیا ہے
ممکن ہے کے دنیا اسے صدّام ہی کہدے
جو اپنے وطن کے لئے سولی پہ چڑھا ہے
حالات جسے جو بھی بنادے سو بنادے
فطرت سے تو انسان بھلا ہے نہ برا ہے
کیوں سمجھوں ضمیرؔ اپنے کو دینا میں اکیلا
کہتے ہیں نہیں جسکا کوئی اسکا خدا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ڈاکٹر وکرم چودھری ساگرؔ

چھت کی بوسیدگی دیکھے کہ وہ بادل دیکھے
اپنی تقدیر کا مفلس تو فقط بل دیکھے
وہ بھی بچے ہیں للک ان میں یقینا ہو گی
ہائے قسمت نہ کبھی اطلس و مخمل دیکھے
فن دیا اپنا، انگوٹھا بھی دیا شاہوں کو
ہم نے اس دنیا میں کچھ ایسے بھی پاگل دیکھے
گھر کے باہر نہ پیا مانگ کے پانی جس نے
اس کے ہاتھوں میں بھلا کیا کوئی بوتل دیکھے
پھیر لی آنکھ توجہ سے نہ دیکھا اس کو
پاؤں تقدیر نے جس شخص کے بوجھل دیکھے
ہم نے دنیا کے ہر اک گوشے میں پایا تجھ کو
گردشِ وقت ستم تیرے مسلسل دیکھے
آج بھی ایسے جیالے ہیں زمیں پر ساگرؔ
دیکھا بازار کبھی اور نہ ہی ہوٹل دیکھے


////

حسین پھولوں کے موسم سہانے آئے ہیں
’’کلی کلی کو تبسّم سکھانے آئے ہیں ‘‘
رکھے ہیں خار گلوں کی قبا بچانے کو
یہ معتبر ہیں گلوں کو بچانے آئے ہیں
بھری بہار میں پھولوں کے چہرے اترے ہیں
چمن میں جیسے فراثی پرانے آئے ہیں
ہمیں پتہ ہے وہ نا آشنا ئے منزل ہیں
جو ہم کو راستہ سیدھا بتانے آئے ہیں
عجیب لوگ ہیں یہ کنبھکرن کی بستی میں
بغیر باجے کے کس کو جگانے آئے ہیں
گلے میں مالا ہے منکوں کی، شنکھ ہاتھوں میں
پیام امن کا سادھو سنانے آئے ہیں
جلا کے بستیاں نیتا ہمارے اے ساگرؔ
اجاڑ گاؤں میں آنسو بہانے آئے ہیں

////

ٹھہرے گا جانے کیسے زمانے کی دھارمیں
’’وہ کم نظر جو آنکھ نہ کھولے غبار میں ‘‘
آنکھوں میں تاب ہے نہ زباں میں ہے چاشنی
جلوہ کہاں سے آئے نظر کے حصار میں
پٹتا ہے جب کسی سے تو بکتا ہے اول فول
انسان بڑ بڑا تا ہے اکثر بخار میں
نا آشنا بھی انگلی نچاتے ہیں بیچ میں
خاصا دباؤ ہوتا ہے قینچی کی دھار میں
ارتھی پہ میری پھول دکھانے کو رکھ دئے
خوشبو ذرا نہ آئی کبھی جن کے پیار میں
رکھّو نہ ان سے دیش کی سیوا کی تم امید
زہریلے ہیں یہ زہر بھرا ہے وچار میں
رکھتے ہیں ناگ پال کے اب آستیں میں لوگ
دن ان کا گھر میں کٹتا ہے اور رات بار میں
قدرت نے جس میں رکھ دی ہے سچائیوں کی آب
ساگرؔ وہ جگمگائے گا گردو غبار میں




/////

یہ گھاؤ میرے دل پہ جو تحفے میں ملا ہے
تظروں کا نشانہ ہے محبت کی سزا ہے
محفوظ سفینہ لبِ ساحل جو کھڑا ہے
ناکام تلاطم کی نظر تول رہا ہے
دھوکے ہی ملے مجھ کو محبت میں ہمیشہ
وشواس میرا دل کی طرح ٹوٹ چکا ہے
کب جانے مجھے پھونک دے یہ سر پھری آندھی
میں بھی تو اک چراغ ہوں یہ مجھ کو پتہ ہے
بچوں کے لگی پیٹ میں جب آگ تو ساگرؔ
مزدور لہو بیچنے بازار چلا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ڈاکٹر محمد اسد اﷲ

دعویٰ یہ نہیں ہے کہ عداوت نہیں کرتے
سچّائی تو یہ ہے کہ سیاست نہیں کرتے
میں نے بھی مکھوٹوں کو ہلا ڈالا ہے جڑ سے
اب لوگ یہاں مجھ کو ملامت نہیں کرتے
ہے شہر کے لوگوں سے اسے ایک شکایت
تعظیم تو کرتے ہیں محبت نہیں کرتے
مدّت ہوئی خوشیاں یہ پتہ بھول گئیں ہیں
اس گھر کی طرف آپ بھی زحمت نہیں کرتے
الفاظ کی حُرمت کا ہمیں پاس بہت ہے
’’ہم اپنے مقدّر کی شکایت نہیں کرتے ‘‘
 

الف عین

لائبریرین
مظفّر علی مظفّرؔ ناگپوری

آپ حق سے مکر گئے شاید
مصلحت پر اتر گئے شاید
بات والے کہیں نہیں ملتے
بات پر اپنی مر گئے شاید
آپ اور ہم سے التفات کی بات
ہم بگڑ کر سنور گئے شاید
وہ کبھی ہم سے دور کیا ہوتے
ہم ہی حد سے گزر گئے شاید
جو وفادار سر بکف تھے بہت
آج سر لانے گھر گئے شاید
وہ کنارا تو کوئی دور نہ تھا
لو گ طوفاں سے ڈر گئے شاید
اب زباں پر نہیں کوئی تلخی
’’زخم سب دل کے بھر گئے شاید
اے مظفّرؔ زمانہ دشمن ہے
ہم زیادہ ابھر گئے شاید
 

الف عین

لائبریرین
اشتیاق کاملؔ

بزرگوں کی انا سے کوئی سمجھوتا نہ کر لینا
کبھی پگڑی کے بدلے تاج کا سودا نہ کر لینا
غریبی میں سبب رسوائی کا پیدا نہ کر لینا
کسی کم ظرف دولتمند سے رشتا نہ کر لینا
مقابل آندھیوں کے تجھ کومثلِ سبزہ رہنا ہے
تو خود کو شاخ کاسوکھا ہوا پتا نہ کر لینا
سمندر کی طرح رہنا ہمیشہ ظرف میں اپنے
تم اپنے آپ کو برسات کا نالا نہ کر لینا
حقیقت آشنا ہوں اسلئے لگتا ہوں دیوانہ
کہیں اس سے مری حالت کا اندازا نہ کر لینا
تو خوش رہنا نئے رشتوں کے گلشن میں مرے ہمدم
مری یادوں سے دل کو درد کا صحرا نہ کر لینا
مقام برتری پانے کا یہ آسان نسخہ ہے
تم اپنے نفس کو رکھنا غلام، آقا نہ کر لینا
جہاں کو ئی نہیں رہتا وہاں آسیب بستے ہیں
مجھے دل سے ہٹا کر اس میں سناٹا نہ کر لینا
ہر اک پر شک تجھے اپنوں سے اک دن دور کر دیگا
غلط فہمی سے اپنے آپ کو تنہا نہ کر لینا
اے میرے ہمسفر تجھ سے بچھڑ کر جی نہ پاؤنگا
الگ مجھ سے کبھی تو راستہ اپنا نہ کر لینا
تمھیں احسان کا بدلہ نہیں دیگی کبھی دنیا
کسی کے واسطے برباد گھر اپنا نہ کر لینا
اگر خواہش ہے دو عالم میں تجھ کو سرخروئی کی
رہِ حق سے الگ اپنا کبھی رستا نہ کر لینا

زمانہ آج ہے جیسے کو تیسا، اسلئے کاملؔ
کبھی پتھر کے آگے خود کو تم شیشا نہ کر لینا

////

انکے خط کااگر جواب آئے
شاخِ امید پر گلاب آئے
دل کی دنیا میں انقلاب آئے
پھر کوئی موج اضطراب آئے
اف یہ تہذیب نو کی عریانی
بے حجابی کو بھی حجاب آئے
چاند کو آئینہ دکھانا ہے
اس سے کہدو کہ بے نقاب آئے
فکر وآزار، رنجش و آلام
میرے حصّے میں بے حساب آئے
دید کی ضد فضول ہے موسٰی
اس کے جلوے کی کس کو تاب آئے
منکرِ ربِّ نوح ہے دنیا
یہ زمیں پھر نہ زیرِ آب آئے
امتحانِ وفا تھا سخت مگر
ہم وہاں سے بھی کامیاب آئے
کور دیدہ کو کیا غرض اس سے
چاند نکلے کہ آفتاب آئے
خیریت تو ہے آج اچانک کیوں
یاد ہم خانماں خراب آئے
جس سے پھوٹے خلوص کی کرنیں
کسی دن ایسا آفتاب آئے
حاصلِ جنگ بس تباہی تھی
کیسے کہہ دیں کہ کامیاب آ ئے

پھر یزیدوں کا راج ہے کاملؔ
کاش پھر کوئی انقلاب آئے
 

الف عین

لائبریرین
جمیلؔ آرٹسٹ


خدا کے در پہ سر اپنا جھکانے آئے ہیں
ہم اپنے اشکوں کو گوہر بنانے آئے ہیں
مری انا کی وہ قیمت لگانے آئے ہیں
جو مفلسی میں مجھے آزمانے آئے ہیں
بجائے پرسشِ غم، دل دکھانے آئے ہیں
ہمارے حال پہ وہ مسکرانے آئے ہیں
وہ جیتے جی تو نہ آئے مری عیادت کو
میں مر گیا تو جنازہ اٹھانے آئے ہیں
ہماری ذات کے شیشے میں جو سنور تے رہے
ہمیں کو آج وہ شیشہ دکھانے آئے ہیں
کراہ، چیخ، تڑپ، درد، اشک، آہ، الم
مرے نصیب میں کیا کیا خزانے آئے ہیں
رُکی نہ آنکھوں سے برسات آنسوؤں کی جمیلؔ
کبھی جو یاد پرانے زمانے آئے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
اصغر علی اصغرؔ

راہ چلتے ہوئے جب پاؤں میں چھالے دیکھے
ہم نے پوشیدہ اندھیروں میں اجالے دیکھے
عیش و عشرت میں گذرتی تھی کبھی جن کی حیات
ان کے محلوں میں لگے مکڑی کے جالے دیکھے
زہر نفرت کا فضاؤں میں وہ پھیلاتے ہیں
جس نے مسجد نہیں دیکھی نہ شوالے دیکھے
جن کی باتوں سے کبھی پھول جھڑا کرتے تھے
ان زبانوں پہ لگے ظلم کے تالے دیکھے
جن کتابوں سے عیاں ہونے لگی سچائی
ان کتابوں کو بھی شعلوں کے حوالے دیکھے
تابِ نظارہ کہاں اتنی نگاہوں میں مری
چاند سے چہرے پہ جو زلف کے حالے دیکھے
بات ہی بات میں دل جیت لیا ہے میرا
ان کی گفتار کے انداز نرالے دیکھے
پیار کرنا کوئی آسان نہیں ہے صاحب!
آپ کے جیسے کئی چاہنے والے دیکھے
ناؤ کا غذ کی ہمیشہ نہیں چلتی اصغرؔ
ہم نے ساحل پہ کئی ڈوبنے والے دیکھے

////

کتنی کشش ہے آج بھی رشتوں کے تار میں
کٹتی ہے صبح شام میری انتظار میں
ہر ہر قدم سنبھال کے رکھنے کے باوجود
ہم نے فریب کھائے بہت تیرے پیار میں
ساقی تیری نگاہ سے پینے کے باوجود
باقی ہے اب بھی ہوش تیرے بادہ خوار میں
لمحے خوشی کے ہوتے ہیں کیا ان سے پوچھئے
وہ لوگ جو اسیر ہیں غم کے حصار میں
وہ مسکرا کے کہنے لگے لے کے میرا دل
وہ جیت میں کہاں ہے مزہ ہے جو ہار میں
یہ اور بات مجھ سے وہ برہم ہیں آج کل
اب بھی مگر خلوص و محبت ہے یار میں
جب سے کرم نواز ہے ان کی نگاہِ ناز
برکت بہت ہے تب سے میرے روز گار میں
پھیکا ہے تیرے آگے حسیں چاندنی کا نور
تجھ سا کوئی حسین نہیں ہے ہزار میں
اک دل ہے ، خواہشاتِ زمانہ ہے ،بے شمار
اصغرؔ نہیں ہے کچھ بھی میرے اختیار میں


/////

آج بدلا ہوا اندازِ خود آرائی ہے
حسنِ رنگیں کا ہر اک شخص تمنّائی ہے
دیکھ لیتا ہے جو تجھ کو وہ سنبھلتا ہی نہیں
اک قیامت، ارے ظالم تیری انگڑائی ہے
کل جو کرتے تھے بہت مجھ سے وفا کی باتیں
آج غیروں سے بہت ان کی شناسائی ہے
عزم سچّا ہے تو گر جائے گی کٹ کر اک دن
وقت نے پاؤں میں زنجیر جو پہنائی ہے
آج کے دور میں بے مول ہے انساں کا لہو
ہر طرف ظلم کا بازار ہے رسوائی ہے
مجھ کو ہوتا ہے گماں کالی گھٹا کا اصغرؔ
اس نے جب زلف کبھی چہرے پہ بکھرائی ہے

////

وہاں نہ پہنچے تخیّل جہاں سے گزری ہے
حقیقتِ غمِ ہستی وہاں سے گزری ہے
فضائیں آج معطّر ہیں رہگزاروں کی
مہک کسی کے وفا کی یہاں سے گزری ہے
شکستہ حال ہے ، کیا ان سے پوچھئے صاحب
بلائے مفلسی جن کے مکاں سے گزری ہے
جلا نہ دے وہ مرے صبر و ضبط کا دامن
جو برقِ عشق مرے درمیاں سے گزری ہے
شعورِ بندگی حاصل ہے جن کو قسمت سے
حیات ان کی ہی امن و اماں سے گزری ہے
الہٰی اب تو کرم اپنا مجھ پہ فرمادے
جبینِ شوق ترے آستاں سے گزری ہے
زمانے والے میرا امتحاں نہ لیں اصغرؔ
یہ چشمِ شوق کئی امتحاں سے گزری ہے
 

الف عین

لائبریرین
حاجی خلیل احمد حیرتؔ

آج کے دور میں چپ ر ہنا بھی رسوائی ہے
ہم زباں کھولیں تو کہتے ہیں کے بلوائی ہے
جب کبھی گردشِ دوراں نے چلایا جادو
کام اس وقت مرے ماں کی دعا آئی
آپ کے تلخ ارادوں سے یہ ہوتا ہے گماں
آپ نے مجھکو مٹانے کی قسم کھائی ہے
کیوں نکل سکتے نہیں دورِ خرافات سے ہم
رسمِ بیہودہ نے کیا بیڑیاں پہنائی ہے
رب کے ہوتے ہوئے کیوں غیر کے در پر جاؤں
جبکہ وہ بھی تو مرے رب کا ہی شیدائی ہے
چھوڑ کر چل دیئے سب راہِ سفر میں افسوس
کل بھی تنہائی تھی اور آج بھی تنہائی ہے
لوگ اچھوں کو بھی کہتے نہیں اچھا حیرتؔ
اس لئے آج برے لوگوں کی بن آئی ہے


/////

اﷲ کی رحمت سے وہ سر شار ہوا ہے
سن کر جو اذاں صبح کی بستر سے اٹھا ہے
میں کیسے یہ کہدوں کے وہ انسان برا ہے
وہ جب بھی ملا مجھ کو محبت سے ملا ہے
آئے جو پریشانی تو حالات پہ کر غور
بے وجہ نہیں تجھ پہ مسلط یہ بلا ہے
آوارہ ہواؤں کی طرح اڑتا رہا جو
کاسہ لئے ہاتھوں میں سر راہ کھڑا ہے
قاتل کو قتل کرتے ہوئے جس نے تھا دیکھا
پوچھے ہے تعجب سے وہی ماجرا کیا ہے
مت بیچ ضمیر اپنا تو دولت کی ہوس میں
ہر خاک کے پتلے کو خدا دیکھ رہا ہے
انصاف بھی خیرات میں منصف نہیں دیتا
قانون بھی دولت کا پرستار رہا ہے
کرتے سلام لوگ ہیں چہروں کو دیکھ کر
اب شہر میں اپنے یہ چلی کیسی ہوا ہے
جس راستے پہ میں تھا چلا اتفاق سے
وہ راستہ جاکر ترے کوچے سے ملا ہے
حسرت بھری نظروں سے مجھے دیکھ نہ حیرتؔ
جو بھی ہے ملا مجھ کو مقدر سے ملا ہے

////

میرا کوئی دشمن ہی جب نہیں زمانے میں
آگ لگ گئی کیسے میرے آشیانے میں
انگلیاں اٹھاتے ہیں لوگ کس لئے مجھ پر
ذکر جب نہیں میرا آپ کے فسانے میں
یہ اگر حقیقت ہے میں تمھارا مجرم تھا
قید کر لیا ہوتا دل کے قید خانے میں
تجھ کو ناز ہے عابداپنے چند سجدوں پر
عمر بیت جاتی ہے عاقبت بنانے میں
مجھ سے روٹھنے والے کچھ خبر بھی ہے تجھکو
کتنے رنج جھیلے ہیں تجھکو بھول جانے میں
ایسی پھر کوئی عاشق کھائے نہ کبھی دل پر
ہم نے جیسی کھائی ہے چوٹ دل لگانے میں
بات وہ گئی باہر کل جو گھر میں تھی حیرتؔ
کیا ملا تمھیں آخر مجھ کو آزمانے میں



////

جس نے بھی ترے آگے دامن کو پسارا ہے
قدرت نے تری اس کی سیرت کو نکھارا ہے
اڑتی ہے پتنگ اسکی بے ڈور فضاؤں میں
جو رب کی اطاعت میں ہر لمحہ گزارا ہے
جاتے ہوئے میکش نے واعظ سے کہا ہنس کر
نیت کی خرابی میں پوشیدہ خسارا ہے
فرقت میں تڑپتا ہے بسمل کی طرح ہر دم
ہونٹوں پہ فقط اس کے بس نام تمھارا ہے
بتلائیں تمھیں کیسے دل چیر کے ہم اپنا
جو حال تمہارا ہے وہ حال ہمارا ہے
ماں باپ سے جب اپنے اولاد کرے نفرت
آثارِ قیامت کا سمجھو یہ اشارا ہے
کانٹوں سے گھرے گل کو ہنستے ہوئے دیکھا تو
یہ اہلِ چمن بولے کیا خوب نظارا ہے
ناسور نہ بن جائے باتیں تری بے پر کی
تو دے جو محبت سے ہر زخم گوارا ہے
تعریف کروں اس کی جتنی بھی ہے کم حیرتؔ
گیسو کو ترے جس نے فرصت سے سنوارا ہے
 

الف عین

لائبریرین
عکسؔ لکھنوی

گرداب میں کشتی ہے اور دور کنارا ہے
اب ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا ہے
ہم نے بھی ہرے نازک پودوں کی طرح اکثر
ہر دور مصیبت کا ہنس ہنس کے گزارا ہے
دل چونک سا جاتا ہے اپنی بھی صدا سنکر
یادوں کے جھروکوں سے تونے بھی پکارا ہے
کچھ اور سمجھتے ہو تم جس کو دلِ مضطر
نظروں سے مری دیکھو وہ بھور کا تارا ہے
پھولوں کی طرح کانٹے مرجھایا نہیں کرتے
یہ سوچ کے گھر ہم نے کا نٹوں سے سنوارا ہے
بربادی کو کافی ہے اک وقت کی ٹھوکر ہی
سامانِ بقاء کیا ہے سب جھوٹا پسارا ہے
افسانۂ دل اپنا اوروں کو سنائیں کیا
جب تو ہی نہیں واقف، کیا حال ہمارا ہے
کم ظرف بشر دریا قطرے کو بنائیگا؟
احسان رذیلوں کا ہر گز نہ گوارا ہے
جو آج ہواؤں کے ہونٹوں پہ ہے نام اپنا
’’کچھ اپنوں کی سازش ہے کچھ انکا اشارا ہے ‘‘
جینے کی تمنّا میں ہر بار مرے ہیں عکسؔ
ائے زیست ترا ہم نے ہر قرض اتارا ہے






////

غیر کے در پہ تری آج پذیرائی ہے
’’اب ترا دور سے دیدار بھی رسوائی ہے ‘‘
آج بھی تیرے خیالوں سے بہل جاؤں گا
دل کو بہلانے تری یاد چلی آئی ہے
رات کی رانی بھلا کیوں نہ ہوپانی پانی
ساتھ میرے جو مہکتی ہوئی تنہائی ہے
عشق ہر حال میں رکھتا ہے برابر آباد
اگر اس اور کنواں ہے تو ادھر کھائی ہے
بال کی کھال اتارا نہ کریں ائے صاحب!
ورنہ دریاؤں میں گہرائی ہی گہرائی ہے
میں شرافت کا چلن چھوڑ دوں منظور نہیں
تیری مانند ہی میں نے بھی قسم کھائی ہے
ایک ہی جھٹکے میں سب ٹوٹ گئے بندِ قباء
سر پھری تیز ہوا سی تیری انگڑائی ہے
دلِ حسّاس کبھی مر نہیں سکتا ائے عکسؔ!
میرا دل آج بھی دیوانہ ہے سودائی ہے
 

الف عین

لائبریرین
سراج الحسنؔ

ساقی ہے گلہ تجھ سے تو اتنا ہی گلہ ہے
مئے خانے سے تیرے کوئی تشنہ ہی چلا ہے
یہ بات حقیقت ہے بزرگوں نے کہا ہے
کر سب سے بھلائی کہ بھلائی میں بھلا ہے
شاید یہ میری ماں کی دعاؤں کا صلہ ہے
لوگوں کو بھرم ہے مرا بھنڈار بھرا ہے
ظاہر نہ سہی نہ سہی درپردہ ہی لیکن
ہر شخص ترے نقشِ قدم چوم رہا ہے
انسان کے اعمال سے شرمائیں درندے
جس سمت نظر ڈالئے دہشت کی فضا ہے
پابندئی اظہار حسنؔ ہے تو ہمیں پر
اغیار کو ہر ظلم و تشدّد بھی روا ہے

////

دردو غم خود سہہ کے لوگوں کو ہنسایا کیجئے
زندگی جیتے ہیں کیسے یہ بتایا کیجئے
اک سے بڑھ کر ایک قابل آج بھی اپنوں میں ہیں
ایسے ہی لوگوں کو بس آگے بڑھایا کیجئے
جام سے مجھ کو پلانے کی ضرورت ہی نہیں
آپ اپنی مست آنکھوں سے پلایا کیجئے
دیکھ کر زخموں کو میرے آپ کیوں رونے لگے
یوں نہ میرے واسطے آنسو بہایا کیجئے
عاشقی میں آہ بھی کرنا یہاں جائز نہیں
آنسوؤں سے آگ نہ دل کی بجھایا کیجئے
آپ کی گلیوں میں پھرتا ہے گریباں چاک حسنؔ
اپنے عاشق کو کبھی گھر پر بلایا کیجئے
 

الف عین

لائبریرین
محمد سعید حضرتؔ ناگپوری

مذہب کے اور دھرم کے دھندے میں ففٹی ففٹی
ہر اک کما رہا ہے چندے میں ففٹی ففٹی
صدقہ ہو یا ہو عطیہ سب کچھ ہمیں چلے گا
مرغا ہو یا کہ مرغی انڈے میں ففٹی ففٹی
وہ بھیک دے رہے ہیں سب کو دکھا دکھا کر
ظاہر میں پوری پوری پردے میں ففٹی ففٹی
بس گر گئی ندی میں الٹی بہاؤ گنگا
زندے کو لاکھ روپئے مردے میں ففٹی ففٹی
حضرتؔ بتادو نمبر کیا ہے کہ میں لگاؤں
دے دونگا آئے گا تو سٹّے میں ففٹی ففٹی
 

الف عین

لائبریرین
کیفِ تغزّل طرفہ قریشیؔ

مذاقِ عشق کو ہم نے وسیع المدّعا پایا
تقدّس کی نظر پائی، دلِ عرش آشنا پایا
تمہارے ناوکِ غم نے بدل دی دل کی فطرت ہی
؂محبّت نے دکھائی ہیں یہی دو صورتیں ہم کو
ہُوا تھا روشنی میں جسکی رسوا قیس بیچارہ
لُٹی دُنیا، گئی عقبٰی، خوشی آئی، نہ غم ٹھہرا
ہمیں دونوں ہی سے بیگانہ رکھا وحشتِ دل نے
کیا خلوت نشیں مجھکو مرے عجز محّبت نے
نیازِ عشق میں ہے آج نازِ بندگی کیسا
جلا دے کر مرے دل کو ازل کی روشنی بخشی
بُتوں کی دوستی نے ہم کو عرفانِ خودی بخشا
ترے جلوے کی حیرت زائیوں نے کھولدی آنکھیں
نہ دی غم نے کبھی طرفہؔ کو مہلت مسکرانے کی
بہ فیضانِ محبّت درد کو پہلو کشا پایا
تمہاری دین کے صدقے طلب سے بھی سوا پایا
خلش میں بھی ملی لذّت، تڑپ میں بھی مزا پایا؂
کسی کو مدّعی دیکھا کسی کو مدّعا پایا
وہی اک داغِ دل ہم نے بعنوانِ وفا پایا
بتا تو اے دلِ برباد سب کھو کر بھی کیا پایا
نہ مسند ہو سکی حاصل، نہ ہم نے بوریا پایا
زمانے بھر کو جب اپنا حریف مدّعا پایا
بتا تو اے جبینِ شوق کس کا نقشِ پا پایا
ترے غم کو خدا رکھّے بڑے ہی کام کا پایا
خودی نے انتہا پر جب نظر ڈالی خدا پایا؂
مجھے جس وقت آیا ہوش خود کو آئینا پایا
ہمیشہ ہم نے اس کو آنسوؤں سے کھیلتا پایا

یہ غزل صدر مسلم لائبریری کے جشن طلائی سال ۱۹۷۵ء کے موقع پر شائع کیے گئے مجلہ ’’زرنگار‘‘ میں شائع ہوئی تھی، جو قارئین کے لیے ایک بار پھر پیش ہے
 
Top