زرد صحافت کیسے خبروں کی آڑ میں اپنا ایجنڈا قارئین پر مسلط کرتے ہیں۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
اگر میں کہوں کہ بی بی سی۔ وائس آف امریکہ ۔ دیگر میڈیا ادارے خبروں کی آڑ میں اپنا خفیہ ایجنڈا پروان چڑھاتے ہیں اور اپنے اہداف کے حصول میں الفاظ کے ہیر پھیر سے قارئین کے ردعمل ، اور اس کے معاشرے پر اثرات پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ الفاظ کا چناؤ، خبر کے بین السطور میں اپنا ایجنڈا بغیر نشاندہی کے ایسے ڈالنا کہ پڑھنے والا اسے خبر کا حصہ سمجھتے ہوئے اپنی رائے بنائے ایک عام اور ایسی حرکت ہے جو ہر میڈیا ادارہ اور صحافی کرتا ہے۔ اس دھاگے میں ہم ان خبروں میں موجود زہریلا مواد دکھائیں گے اور ان کے ہونے نہ ہونے یا تبدیل ہونے سے خبر پر کیا فرق پڑتا ہے وہ بھی دکھائیں گے ۔

امید ہے ساتھی اس دھاگے سے مستفید ہو کر زرد صحافت کو پہچاننے اور خبر اور پراپیگنڈا میں فرق کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں گے۔
مثال
پہلے صفحے پر ایک تصویر کے ساتھ سرخی لگی ہے

اوپر ایک تصویر لگی ہے
سرخی د ی جا رہی ہے : ایک اور لاپتہ بلوچ کی لاش برامد۔ غلام یسین بگٹی کون تھے
جبکہ دیکھا جائے تو سرخی بنتی تھی : چمن سے ملنے والی لاش ۔ غلام یٰسین بگٹی کون تھے ؟ لیکن یہاں پہلے اسے لاپتہ ڈیکلیئر کیا گیا اور بین السطور میں یہ بتایا گیا کہ بہت سے دوسرے لاپتہ بلوچوں کی طرح ۔ پھر بلوچ ہونا اس کا قصور دکھایا گیا اور الفاظ کے مابین ہی اسے قتل کرنے کا غیر اعلانیہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے تاکہ وہ تنظیمیں یا ادارے جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کر رہے ہیں اسے اپنے مقصد کے لئے استعمال کر سکیں۔ یہ صرف سرخی کی بات ہے۔
111.jpg
اس کے بعد جب اس لنک پر کلک کرتے ہیں تو یہ سرخی غائب ہو جاتی ہے اور ایک ہیڈنگ نظر آتی ہے جو بتا رہی ہے کہ مذکورہ شخص چھے سال پہلے لاپتہ ہو گیا تھا اب اس کی تشدد زدہ لاش چمن کے قریب سے برآمد ہوئی ہے ۔ اسی صفحے پر بائیں جانب لنک میں وہی پہلے صفحے والی سرخی کا بیان ہو رہا ہے ۔ جو کہ جانب دارانہ اور پراپیگنڈا ٹیکنیک پر مبنی ہے۔ سرخی پراپیگنڈا، ہیڈنگ پراپیگنڈا اب آتے ہیں خبر کی تمہید پر جو سب سے پہلے ایک منظر نامہ پیش کر رہی ہے کہ مرحوم کے اہل خانہ کے خیالات کیا ہیں ۔ اب ان خیالات کا بیانیہ دیکھیں کہ جیسے اس شخص کو حکومت پاکستان نے لاپتہ کیا تھا۔ اور اب تشدد کر کے قتل کرنے کے بعد لاش چمن بارڈر پر ڈال دی۔


112.jpg


ہم سب یہ جانتے ہیں کہ بلوچ جبری گم شدگیوں کی آڑ میں بہت سے نوجوان جو حکومت پاکستان کی پالیسیوں ، یا پھر مقامی قوم پرستوں کے پراپیگنڈا کا شکار ہوکر ، یا پھر بے روزگاری کا شکار ہو کر ہتھیار اٹھا کر یا ہتھیار اٹھانے کے لئے گھروں سے نکل جاتے ہیں۔ براستہ افغانستان/ایران ، ہندوستان جا پہنچتے ہیں اور باقاعدہ برین واشنگ اور تربیت لے کر واپس آتے ہیں۔ اس کے بعد یہی گم شدہ لوگ دہشت گردی میں ملوث ہو کر بے گناہوں کے قتل کے علاوہ ملک کے نظام و عوام دونوں کو تکلیف دینے میں مصروف عمل ہو جاتے ہیں۔ یقیناً ان کے بہت سے مسائل حقیقی بھی ہیں لیکن بہت سے مسائل ایسے ہیں جو صرف بنا کر انہیں بتائے جاتے ہیں اور بیانیہ کے زور پر سادہ یا ناراض ذہن ان کے راستے پر لگ جاتے ہیں ۔ یہ جرائد و اخبارات اپنی خبروں میں غیر جانبداری کا اصول کبھی نہیں اپناتے کیونکہ ان کا کام خبر دینا ہے تو کسی کی حمایت یا کسی کے خلاف بولنا کیا ضروری ہے خبر دینے کے لئے ؟ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ درست کیا ہے اور غلط کیا ؟ یہ حقائق کو اپنی رائے سے تبدیل کرنے کا حق انہیں کس نے دیا۔
اسی خبر کا آغاز انتہائی جذباتی کرتے ہوئے یہ خبر جو اب پراپیگنڈا کی صورت اختیار کر چکی ہے یہی بی بی سی آخر میں چند لائنوں میں پاکستان کا موقف پیش کرتا ہے تاکہ یہ کہہ سکے کہ جی ہم نے تو دونوں موقف دے دیئے ۔ یہی ہماری غیر جانبداری اور سچائی کا ثبوت ہے اور اچھی صحافت کی مثال ہے​
 
Top