اخبار وال سٹریٹ جرنل نے اپنے ایک تازہ مضمون میں صدر آصف علی زرداری کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ وہ منتخب ہوتے وقت کی ایک طویل آمریت کے بعد ملک کی بکھرے ہوئے دھارے کو یکجا کرنے کے عزم کے ساتھ آئے تھے لیکن اب وہ نفاق کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔
اخبار کے تجزیے کے مطابق زرداری اپنے دوست دشمن دونوں کی تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ بےنظیر بھٹو مرحومہ کے کئی قریبی ساتھی جو حکومت میں بھی شامل ہیں ناراض ہیں اور ان سے براہ راست رابطہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اخبار نے کئی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ انہوں نے سینئر وزرا کے خلاف اجلاسوں میں نازیبا زبان تک استعمال کی ہے۔
شریف برادران کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے نے ملک کو ایک مرتبہ پھر سیاسی بحران کی جانب دھکیل دیا ہے۔ کئی سرکاری اہلکاروں اور مغربی سفارت کاروں کے مطابق زرداری کے طرز حکمرانی سے پیدا ہونے والے مسائل حکومت کو کمزور کرنے کے علاوہ مختلف چیلنجوں سے نمٹنے میں آڑے آ رہے ہیں۔
عدالتی فیصلے سے کراچی میں سٹاک مارکیٹ میں گراوٹ آئی۔ امریکہ کو نواز شریف کی جانب سے زرداری کے خلاف احتجاجی مہم چلانے سے تشویش لاحق ہوسکتی ہے۔ نئی اوبامہ انتظامیہ کی ترجیح القاعدہ اور طالبان سے نمٹنا ہے ناکہ پاکستان کے اندر سیاسی عدم استحکام سے۔
گذشتہ برس سمتبر میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے صدر زرداری کے گرد چند مشیروں، خاندان کے افراد اور ان لوگوں کا ٹولہ ہے جن سے ان کا تعلق دوران قید بنا اور جن میں سے کئی غیرمنتخب ہیں۔
ایسے میں سرکاری اہلکار ابہام کا شکار ہیں کہ دراصل چارج کس کے پاس ہے۔ ان میں ان کے سابق ڈاکٹر عاصم حسین بھی شامل ہیں جو کراچی میں ایک ہسپتال چلانے کے علاوہ پیٹرولیم پر حکومت کے مشیر کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ حالانکہ ان کا اس شعبے میں کوئی تجربہ نہیں۔
اخبار کے مطابق تریپن سالہ آصف زرداری نے انٹرویو کی ایک درخواست مسترد کر دی تھی تاہم ان کے ترجمان فرحت اللہ بابر کے مطابق صدر حکومت میں بہترین لوگوں کو لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان کی جانب سے کسی کے خلاف نازیبا زبان کے استعمال کیے جانے کے الزام سے بھی انکار کیا۔
صدر کے متنازع فیصلوں میں سے ایک سوات میں طالبان کے نفاذ شریعت کے مطالبے کے سامنے سرخم تسلیم کرنا ہے۔ اس معاہدے نے امریکہ کو بھی حیران کر دیا جسے خدشہ ہے کہ طالبان اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
صدر زرداری اپنی اہلیہ کے قتل کے بعد اچانک پاکستان کے طاقتور ترین سیاستدان کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ ماضی میں وہ پولو کے لیے اپنے شوق اور بدعنوانی کی وجہ سے معروف تھے۔ تازہ سروے کے مطابق ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور یہ اب سابق صدر پرویز مشرف کے برابر ہوگئی ہے۔
اپنے ہی چنے ہوئے وزیر اعظم کے ساتھ بھی سرکاری اہلکاروں کے مطابق صدر کے تعلقات حالیہ دنوں میں کشیدہ ہوگئے ہیں۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے قریبی رفقا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم صدر کی جانب سے اپنے اختیارات میں کمی لانے میں تاخیر سے نالاں ہیں۔
اخبار کے تجزیے کے مطابق زرداری اپنے دوست دشمن دونوں کی تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ بےنظیر بھٹو مرحومہ کے کئی قریبی ساتھی جو حکومت میں بھی شامل ہیں ناراض ہیں اور ان سے براہ راست رابطہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اخبار نے کئی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ انہوں نے سینئر وزرا کے خلاف اجلاسوں میں نازیبا زبان تک استعمال کی ہے۔
شریف برادران کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے نے ملک کو ایک مرتبہ پھر سیاسی بحران کی جانب دھکیل دیا ہے۔ کئی سرکاری اہلکاروں اور مغربی سفارت کاروں کے مطابق زرداری کے طرز حکمرانی سے پیدا ہونے والے مسائل حکومت کو کمزور کرنے کے علاوہ مختلف چیلنجوں سے نمٹنے میں آڑے آ رہے ہیں۔
عدالتی فیصلے سے کراچی میں سٹاک مارکیٹ میں گراوٹ آئی۔ امریکہ کو نواز شریف کی جانب سے زرداری کے خلاف احتجاجی مہم چلانے سے تشویش لاحق ہوسکتی ہے۔ نئی اوبامہ انتظامیہ کی ترجیح القاعدہ اور طالبان سے نمٹنا ہے ناکہ پاکستان کے اندر سیاسی عدم استحکام سے۔
گذشتہ برس سمتبر میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے صدر زرداری کے گرد چند مشیروں، خاندان کے افراد اور ان لوگوں کا ٹولہ ہے جن سے ان کا تعلق دوران قید بنا اور جن میں سے کئی غیرمنتخب ہیں۔
ایسے میں سرکاری اہلکار ابہام کا شکار ہیں کہ دراصل چارج کس کے پاس ہے۔ ان میں ان کے سابق ڈاکٹر عاصم حسین بھی شامل ہیں جو کراچی میں ایک ہسپتال چلانے کے علاوہ پیٹرولیم پر حکومت کے مشیر کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ حالانکہ ان کا اس شعبے میں کوئی تجربہ نہیں۔
اخبار کے مطابق تریپن سالہ آصف زرداری نے انٹرویو کی ایک درخواست مسترد کر دی تھی تاہم ان کے ترجمان فرحت اللہ بابر کے مطابق صدر حکومت میں بہترین لوگوں کو لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان کی جانب سے کسی کے خلاف نازیبا زبان کے استعمال کیے جانے کے الزام سے بھی انکار کیا۔
صدر کے متنازع فیصلوں میں سے ایک سوات میں طالبان کے نفاذ شریعت کے مطالبے کے سامنے سرخم تسلیم کرنا ہے۔ اس معاہدے نے امریکہ کو بھی حیران کر دیا جسے خدشہ ہے کہ طالبان اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
صدر زرداری اپنی اہلیہ کے قتل کے بعد اچانک پاکستان کے طاقتور ترین سیاستدان کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ ماضی میں وہ پولو کے لیے اپنے شوق اور بدعنوانی کی وجہ سے معروف تھے۔ تازہ سروے کے مطابق ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور یہ اب سابق صدر پرویز مشرف کے برابر ہوگئی ہے۔
اپنے ہی چنے ہوئے وزیر اعظم کے ساتھ بھی سرکاری اہلکاروں کے مطابق صدر کے تعلقات حالیہ دنوں میں کشیدہ ہوگئے ہیں۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے قریبی رفقا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم صدر کی جانب سے اپنے اختیارات میں کمی لانے میں تاخیر سے نالاں ہیں۔