زبان اور بچت کی عادت

نایاب

لائبریرین
زبان اور بچت کی عادت
ٹم باؤلر
بی بی سی نیوز
کیا زبان کی گرامر بولنے والوں کے رویوں پر اثرانداز ہوتی ہے؟
کیا کوئی زبان معاشی فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتی ہے، اور کیا انگریزی بولنے والے چینی زبان بولنے والوں کے مقابلے پر بڑھاپے کے لیے کم بچت کرتے ہیں؟
یہ ایک متنازع نظریہ ہے، جسے امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے نفسیاتی معاشیات داں کیتھ چین کی دریافتوں کی مدد سے تقویت ملی ہے۔
پروفیسر چین کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم جو زبان بولتے ہیں اس کی گرامر ہماری مالی حالت اور صحت پر اثرانداز ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سادہ لفظوں میں انگریزی بولنے والے چینی، یوروبا یا ملائی زبان بولنے والوں کے مقابلے پر ممکنہ طور پر بڑھاپے کے لیے کم بچت کرتے ہیں، زیادہ سگریٹ پیتے ہیں اور کم ورزش کرتے ہیں۔
پروفیسر چین دنیا کی زبانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں، جس کی بنیاد یہ ہے کہ وہ وقت کے تصور سے کس طرح پیش آتی ہیں۔
وہ زبانیں جن کے اندر مستقبل کے وقت کے مضبوط حوالے پائے جاتے ہیں (ان زبانوں کو مضبوط ایف ٹی آر کہا جاتا ہے)، ان کے بولنے والے مستقبل کے لیے ایک الگ صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر کمزور ایف ٹی آر زبانوں میں مستقبل کے لیے کوئی صیغہ استعمال نہیں کرتیں۔
اس بات کو ایک مثال کی مدد سے سمجھیں: اگر کوئی کہے کہ اسے شام کو ایک میٹنگ میں جانا ہے، تو اسے کہنا پڑے گا، ’میں میٹنگ میں جاؤں گا،‘ وہ یہ نہیں کہہ سکتا، ’میں میٹنگ میں جاتا ہوں۔‘
اس کے مقابلے پر چینی زبان میں مستقبل کے لیے مخصوص الفاط حذف بھی کر دیے جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس لیے چینی زبان میں کہا جا سکتا ہے، ’میں میٹنگ میں جاتا ہوں،‘ اور سننے والا سیاق و سباق سے سمجھ لے گا کہ اس سے کیا مراد ہے۔
پروفیسر چین کہتے ہیں کہ خود یورپی زبانوں میں بھی مستقبل کو برتنے کے سلسلے میں اختلافات موجود ہیں۔
انگریزی میں کہا جاتا ہے، ’کل بارش ہو گی،‘ جب کہ جرمن میں کہتے ہیں، ’کل بارش ہوتی ہے۔‘
پروفیسر چین کا خیال ہے کہ وہ زبانیں بولنے والے ممکنہ طور پر زیادہ بچت کرتے ہیں جن میں مستقبل کو حال کی طرح برتا جاتا ہے، جب کہ جن زبانوں میں مستقبل کے لیے الگ صیغہ استعمال کیا جاتا ہے، ان کے بولنے والوں میں بچت کا رجحان کم ہوتا ہے۔
پروفیسر چین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا،’بچت کا عمل اس بات پر منحصر ہے کہ آپ مستقبل کو کس طرح برتتے ہیں۔ اگر آپ کی زبان حال اور مستقبل کو الگ کر دیتی ہے تو اس سے آپ کے حال اور مستقبل کے درمیان بھی فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے بچت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘
اس کے مقابلے پر زبانیں مستقبل و حال میں فرق نہیں کرتیں، ان کے بولنے والے اپنی مستقبل والی شخصیت کو حال ہی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
انھوں نے اپنے تحقیقاتی مقالے میں لکھا ہے کہ مستقبل کے صیغے سے عاری زبانوں کے بولنے والے مستقبل کے صیغے والی زبانیں بولنے والوں کے نسبت ممکنہ طور پر:
ریٹائرمنٹ کے وقت 39 فیصد زیادہ بچت کرتے ہیں
سال بھر میں 31 فیصد زیادہ بچت کرتے ہیں
سگریٹ پینے کا 24 فیصد کم امکان ہوتا ہے
جسمانی ورزش کرنے کا رجحان 29 فیصد زیادہ ہوتا ہے
موٹاپے کا امکان 13 فیصد کم ہوتا ہے
دور کی کوڑی؟
پروفیسر چین کی تحقیقات کو معاشیات دانوں اور ماہرینِ لسانیات دونوں نے ہدفِ تنقید بنایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کے رویوں میں فرق کے پیچھے ثقافتی، سماجی یا معاشی وجوہات ہوتی ہیں۔
پروفیسر چین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں: ’جب میں نے یہ تحقیق شروع کی تو مجھے خود یہ باتیں دور از کار معلوم ہوتی تھیں۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی تحقیق میں دوسرے تمام عوامل کا خیال رکھا تھا۔
اس تحقیق میں نو کثیر اللسان ممالک کو شامل کیا گیا تھا: بیلجیئم، برکینا فاسو، ایتھیوپا، ایسٹونیا، ڈی آر کانگو، نائجیریا، ملیشیا، سنگاپور اور سوئٹزرلینڈ۔
پروفیسر چین کہتے ہیں،’ایسے خاندان ہیں جو ایک دوسرے کے پڑوس میں رہتے ہیں، ان کا تعلیمی درجہ، آمدنی، حتیٰ کہ مذہب بھی ایک جیسے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مستقبل کا فرق روا نہ رکھنے والی زبانیں بولنے والے کہیں زیادہ بچت کرتے ہیں۔‘
مثال کے طور پر نائجیریا میں ہوسا زبان میں مستقبل کے لیے کئی صیغے ہیں، لیکن یوروبا میں کوئی صیغہ نہیں ہے۔
’آپ دیکھیں گے کہ ہوسا اور یوروبا بولنے والوں کے بچت کرنے کے رویوں میں نمایاں فرق ہے۔‘
تاہم برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی کے مورٹن لو کہتے ہیں کہ لوگوں کی بچت کے رویے کا زبان سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔
پروفیسر لو کہتے ہیں، ’میری اپنی تحقیق یہ کہتی ہے کہ بچت کا تعلق سود کی شرح سے ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ایک ہی زبان بولنے والے افراد کے بچت کرنے کی عادات میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔
تاہم پروفیسر چین کا اصرار ہے کہ ان کی تحقیق کی بنیادیں مضبوط ہیں، اور ان کے نتائج کی کوئی اور توجیہہ پیش نہیں کی جا سکتی۔
نوٹ: ہمارے خطے کی اکثر زبانیں مضبوط ایف ٹی آر کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان میں اردو، ہندی، پنجابی، پشتو اور سندھی وغیرہ شامل ہیں۔ اس لیے پروفیسر چین کے نظریات ان زبانوں کے بولنے والوں پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔
 
Top