بہزاد لکھنوی زبانِ عشق پر جب قصہء خاموش ہوتا ہے - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
زبانِ عشق پر جب قصہء خاموش ہوتا ہے
تو دُنیا کا ہر ایک ذرّہ سراپا گوش ہوتا ہے

میں جب رُوداد کہتا ہوں، وہ جب رُوداد سُنتے ہیں
نہ مجھ کو ہوش ہوتا ہے، نہ ان کو ہوش ہوتا ہے

ہماری سمت جب بھی وہ ادا سے مسکراتے ہیں
بپا دل میں ہمارے محشرِ خاموش ہوتا ہے

تری مستانہ نظروں میں عجب اعجاز ہے ساقی
نظر جس سے بھی لڑ جاتی ہے، وہ مدہوش ہوتا ہے

خُدا رکھے تمہیں، چھائے ہوئے ہو سب کی دُنیا پر
جسے تم ہوش دیتے ہو اُسی کو ہوش ہوتا ہے
ِ
قسم لبریز ساغر کی کہ بادل گھِر کے آتے ہیں
ہمیں جس دم خیالِ بادہء سرجوش ہوتا ہے

سُناتا ہوں میں دل کی داستاں جب شب میں تاروں کو
وفورِ کیف میں سارا جہاں خاموش ہوتا ہے

نقابِ رُخ اُلٹ دیتے ہیں جب وہ آکے محفل میں
خُدا شاہد ہے اس دَم دوجہاں بیہوش ہوتا ہے

یہ اکثر میں نے دیکھا ہے وہ چونک اُٹھے ہیں گھبرا کر
جونہی افسانہ کہتے کہتے دل خاموش ہوتا ہے

اسی مدہوش پر دونوں جہاں کی مستیاں صدقے
نگاہِ مست کے صدقے میں جو مدہوش ہوتا ہے

ہماری سمت وہ جب بھی ادا سے مسکراتے ہیں
بپا بہزاد دل میں محشرِ خاموش ہوتا ہے

 
Top