زبانِ اردو اور غلط العوام / غلط العام کی بیجا بحثیں

حیدرآبادی

محفلین
ایک زبان انتہائی عروج پر پہنچنے کے بعد جب دوسری زبانوں سے متأثر ہونا شروع ہوتی ہے تو اس کا دروبست بگڑ جاتا ہے اور اس میں اعلیٰ پایہ کی تخلیقات کا دروازہ بند ہوجاتا ہے.
حوالہ : ابن خلدون (مقدمہ تاریخ العبر)۔

دیگر زبانوں سے الفاظ مستعار لینے میں کوئی حرج نہیں لیکن دیگر زبانوں کا اثر قبول کرنا کسی زبان کے لئے مہلک ہوسکتا ہے، خصوصا جبکہ متعلقہ دونوں زبا نوں کے درمیان کوئی ثقافتی اور مذہبی آہنگ بھی نہ ہو. اردو پر زوال 1857 کے بعد آنا شروع ہوا جب اس میں بے محابا انگریزی الفاظ کے استعمال کو ترقی اور تجدد کی دلیل بنایا گیا، حالانکہ وہ عمل فرنگیوں کے مقابلہ میں شدید احساس کمتری کا نتیجہ تھا جس میں بڑے خلوص اور معصومیت سے اردو وا لے مبتلا ہوئے تھے. اس احساس کمتری کے ایک شدیدمخالف اکبر الہ آبادی تھے جو باتوں باتوں میں اس کی کھجی اڑایا کرتے تھے اور دوسرے اقبال تھے جنہوں نے قوم کو اس ذلت احساس سے نکالنے والی شاعری کی.اکبر اور اقبال سے پہلے کے دور میں زبان کو آسان اور ’’سائنسی‘‘ بنانے کے نام پر بسا اوقات بلا ضرورت بھی انگریزی الفاظ کا استعمال شروع کیا گیا تھا. یہ درست ہے کہ تقریر یا بیان یا خطاب کی جگہ بعض لوگوں کی تحریروں میں سپیچ بلکہ اس کی جمع سپیچیز جیسے چند الفاظ کااستعمال کرنے سے اردومیں نکارت اور غرابت تو ضرور پیدا ہوئی مگر اس لاحاصل کوشش کا کوئی دیر پا اثر نہ ہوا اور نہ ایسے نامانوس الفاظ اردو میں قبول عام حاصل کرسکے. فرق اس وقت پڑا جب احساس کمتری کے اس لسانی عمل کی دوسری بلکہ تیسری نسل نے اردو کی فکری اور ثقافتی اساس پر ضربیں لگانی شروع کیں، جس کے نتیجہ میں اردو اپنے لسانی، مذہبی اور ثقافتی سرمایہ سے اجنبی ہوگئی. تو کیا حیرت جو اردو میں اعلی پایہ کی تخلیقات کا دروازہ بند ہے.
آج جو لوگ لسانی قاعدوں کے خلاف بولے اور لکھے جانے والے الفاظ کے غلط العوام اور غلط العام کی بحثیں اٹھاتے ہیں وہ اردو کےاس انحطاط کے اصل اسباب سے ناواقف ہیں یا انہیں جاننے سے دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ بعض اوقات انہی باتوں اور لوگوں کی تائید میں سرگرمی دکھاتے ہیں جنہوں نے اردو ا کوس حال کو پہنچایا ہے. ان لاحاصل بحثوں کے باوجود انحطاط کا عمل بظاہر رکتا دکھائی نہیں دیتا.
اس لسانی حقیقت کو بابائے تاریخ و عمرانیات نے سات سو سال پہلے ایک چھوٹے سے جملہ میں بتادیا تھا، جسے جاننے کی فرصت ہمیں کبھی نہ ہوئی. یہ یاد رہے جب سجلماسہ کے قلعہ السلامہ کے کتب خانہ میں بیٹھ کر ابن خلدون یہ فقرہ لکھ رہا تھا اس وقت اردو پیدا بھی نہیں ہوئی تھی.
بشکریہ : محمد طارق غازی۔ کنیڈا۔
 

دوست

محفلین
اردو والوں کو فارسی، عربی اور اس سے ماخوذ الفاظ اس لیے ثقافتی ورثہ لگتے ہیں کہ یہ زبانیں اس وقت سرکار کی زبانیں تھیں۔ اور اس وقت ثقیل قسم کی فارسی و عربی اصطلاحات استعمال کرنا فیشن میں تھا۔ آج وہی فیشن انگریزی کے ساتھ ہے۔ انگریزی کے الفاظ کو اردو میں استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اس کے اپنے عام فہم الفاظ متروک ہوتے جارہے ہیں۔
ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ زبان کا بدلنا اس کا مقدر ہے۔ زبان میں ہر کچھ عرصے پر ذخیرہ الفاظ یا تو بدل جاتا ہے یا اس کے معانی بدل جاتے ہیں۔ چناچہ اگر اردو میں انگریزی الفاظ آرہے ہیں تو وہ اردو کے مزاج کے مطابق ڈھل بھی رہے ہیں۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ زبان صرف ذخیرہ الفاظ کا نام نہیں بلکہ گرامر، صوتیات، جملہ بندی وغیرہ بھی زبان کا ہی حصہ ہیں۔ ذخیرہ الفاظ کی تبدیلی ذرا جلدی پتا لگ جاتی ہے ورنہ اردو میں تو "الفاظوں" وغیرہ جیسی چیزیں بھی عرصے سے موجود ہیں۔
 

زیف سید

محفلین
بات یہ ہے دوستو کہ “کلام الملوک ملوک الکلام“ یعنی جو بادشاہ کی زبان، وہ زبانوں کی بادشاہ۔ جب عربوں کا راج تھا تو یورپ تک کی زبانوں نے عربی سے فخر کے ساتھ الفاظ قبول کیے۔ جب فارسی والوں کا طوطی بولتا تھا تو ہندوستان بھر کی زبانیں دوڑ دوڑ کر فارسی اپناتی تھیں۔ اب انگریزی کا سکہ چلتا ہے، تو یار لوگ گفتگو میں انگریزی الفاظ استعمال کرنے میں اپنی شان سمجھتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی، معاشی اور فکری عمل ہے، جو تمام دنیا میں بہ یک وقت ہو رہا ہے۔ اس پر کوئی بند نہیں باندھ سکتا۔ جب تک انگریزی بولنے والے ملکوں کا غلبہ رہے گا، تب تک انگریزی زبان کا غلبہ بھی رہے گا۔ مضامین کا انبار لگانے، سیمینار کروانے وغیرہ سے کچھ نہیں ہو گا۔

اگر اردو کا بول بالا چاہتے ہیں تو اقوامِ عالم میں اپنی قوم کا مقام پیدا کیجیئے۔ اردو خود بخود سرفراز ہو جائے گی۔

زیف
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
یہ بات تو درست ہے کہ جس قوم یا ملک کاغلبہ ہوتا ہے اس قوم یا ملک کی زبان بھی مغلوب ممالک یا اقوام کی زبانوں پر غیر محسوس طریقے سے اثرانداز ہوتی ہے لیکن اس حقیقت کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اصول وہ واحد اصول نہیں ہے جس کی بنیاد پر ہم فیصلہ صادر کر دیں۔۔۔
ہمیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ اردو زبان پر عربی زبان کا اتنا اثر نہیں ہے جتنا فارسی زبان کا۔۔۔ اور عربی کے جو الفاظ اردو میں استعمال ہوتے ہیں وہ بھی زیادہ تر مفرس شکل میں ہیں۔۔۔ یعنی فارسی ہی وہ وسیلہ ہے جس سے ہو کر عربی نے اردو زبان پر اثرات مرتب کیے ہیں۔۔۔۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ زبانوں کے خاندان بھی ہوا کرتے ہیں اور اس زاویے سے بھی صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے۔۔۔
اردو اور فارسی آریائی زبانیں ہیں جب کہ عربی ہو یا انگریزی۔۔۔۔یہ آریائی زبانیں نہیں ہیں۔۔۔ عربی بھی سامی النسل لوگوں کی زبان رہی ہے۔۔۔
اسی لیے یہاں لوگ فارسی زبان پر عبور بھی پا لیتے تھے اور اس زبان میں شاعری بھی کرتے تھے لیکن عربی شاعر یہاں کتنے گزرے ہیں۔۔۔!
اس لیے کہا جا سکتاہے کہ ہمیں اپنا ناتا بہرحال دانستہ طور پر بھی فارسی سے برقرار رکھنا چاہیے۔۔۔اور اگر نہ بھی رکھا گیا تب بھی یہ بات یاد رکھی جائے کہ انگریزی زبان کے الفاظ تو ضرور اردو میں در آئیں گے لیکن وہ اردو زبان پر اس طور اثرانداز نہیں ہو سکیں گے جس طور فارسی زبان کے الفاظ اردو کا حصہ بن گئے تھے اور فارسی زبان نے اردو زبان کے دامن کو وسیع کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
 

زیف سید

محفلین
ہمیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ اردو زبان پر عربی زبان کا اتنا اثر نہیں ہے جتنا فارسی زبان کا۔۔۔ اور عربی کے جو الفاظ اردو میں استعمال ہوتے ہیں وہ بھی زیادہ تر مفرس شکل میں ہیں۔۔۔ یعنی فارسی ہی وہ وسیلہ ہے جس سے ہو کر عربی نے اردو زبان پر اثرات مرتب کیے ہیں۔۔۔۔

جناب شہزاد صاحب: آپ کی بات بالکل بجا ہے کہ اردو زبان پر عربی کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو کا کبھی عربی بولنے والوں سے براہِ راست رابطہ ہی نہیں رہا۔ محمد بن قاسم اور ان کے چند ساتھیوں نے کچھ عرصہ سندھ پر حکومت ضرور کی (اسی لیے آپ کو سندھی زبان میں عربی کے بہت سے الفاظ مل جائیں گے)، لیکن یہ لوگ کبھی اردو بولنے والوں علاقوں میں آئے ہی نہیں۔ اردو کا عربی سے تمام تر واسطہ فارسی کے وسیلے سے ہوا ہے۔

اسی وجہ سے اور باتوں کو تو چھوڑیے، خالصتا مذہبی الفاظ بھی ہم نے فارسی سے لیے ہیں نہ کہ عربی سے۔ اس کی سب سے بڑی مثال بنیادی اسلامی اعمال نماز اور روزہ ہیں، جو کہ عربی کے نہیں بلکہ فارسی کے الفاظ ہیں ۔۔۔ شاید ہی اردو میں کوئی کہتا ہو کہ میں نے صلواۃ پڑھی یا میں نے صوم رکھا۔


کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ زبانوں کے خاندان بھی ہوا کرتے ہیں اور اس زاویے سے بھی صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے۔۔۔اردو اور فارسی آریائی زبانیں ہیں جب کہ عربی ہو یا انگریزی۔۔۔۔یہ آریائی زبانیں نہیں ہیں۔۔۔ عربی بھی سامی النسل لوگوں کی زبان رہی ہے۔۔۔


آپ کی یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ صرف ایک خاندان ہی کی زبانیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہو سکتی ہیں؟ اگر آپ واقعی یہی کہہ رہے ہیں تو معذرت کے ساتھ اختلاف کروں گا۔ اس کی مثال دیکھیئے کہ جب عربوں نے ایران فتح کیا تو صرف ایک صدی کے اندر اندر فارسی کے اندر عربی الفاظ کی بھرمار ہو گئی۔ حالاں کہ عربی سامی اور فارسی آریائی زبان ہے اور دونوں کے خاندان ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

آداب عرض ہے

زیف سید
 
جناب شہزاد صاحب: آپ کی بات بالکل بجا ہے کہ اردو زبان پر عربی کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو کا کبھی عربی بولنے والوں سے براہِ راست رابطہ ہی نہیں رہا۔ محمد بن قاسم اور ان کے چند ساتھیوں نے کچھ عرصہ سندھ پر حکومت ضرور کی (اسی لیے آپ کو سندھی زبان میں عربی کے بہت سے الفاظ مل جائیں گے)، لیکن یہ لوگ کبھی اردو بولنے والوں علاقوں میں آئے ہی نہیں۔ اردو کا عربی سے تمام تر واسطہ فارسی کے وسیلے سے ہوا ہے۔

اسی وجہ سے اور باتوں کو تو چھوڑیے، خالصتا مذہبی الفاظ بھی ہم نے فارسی سے لیے ہیں نہ کہ عربی سے۔ اس کی سب سے بڑی مثال بنیادی اسلامی اعمال نماز اور روزہ ہیں، جو کہ عربی کے نہیں بلکہ فارسی کے الفاظ ہیں ۔۔۔ شاید ہی اردو میں کوئی کہتا ہو کہ میں نے صلواۃ پڑھی یا میں نے صوم رکھا۔


کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ زبانوں کے خاندان بھی ہوا کرتے ہیں اور اس زاویے سے بھی صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے۔۔۔ اردو اور فارسی آریائی زبانیں ہیں جب کہ عربی ہو یا انگریزی۔۔۔ ۔یہ آریائی زبانیں نہیں ہیں۔۔۔ عربی بھی سامی النسل لوگوں کی زبان رہی ہے۔۔۔

آپ کی یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ صرف ایک خاندان ہی کی زبانیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہو سکتی ہیں؟ اگر آپ واقعی یہی کہہ رہے ہیں تو معذرت کے ساتھ اختلاف کروں گا۔ اس کی مثال دیکھیئے کہ جب عربوں نے ایران فتح کیا تو صرف ایک صدی کے اندر اندر فارسی کے اندر عربی الفاظ کی بھرمار ہو گئی۔ حالاں کہ عربی سامی اور فارسی آریائی زبان ہے اور دونوں کے خاندان ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

آداب عرض ہے

زیف سید
حضور، جہاں تک میں آپ لوگوں کی گفتگو سمجھ پایا ہوں، آپ چند اہم نکات کو نہایت بری طرح نظر انداز کر رہے ہیں۔
زبان کا کسی دوسری زبان سے متاثر ہونا دو واضح اسالیب پر ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ اثر پزیر زبان ذخیرہءِ الفاظ، محاورات، اور اسلوبِ کلام وغیرہ میں اثر قبول کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اثر انداز زبان اثر پزیر زبان کی گرامر اور صوتیات میں تبدیلی پیدا کرے۔ مقدم الذکر نسبتاً سطحی ہے اور لسانیاتی اعتبار سے بالعموم کوئی غیر معمولی اہمیت نہیں رکھتی۔ جہاں بھی دو متغائر لسانی گروہوں کو کسی قسم کا تعامل درپیش ہوتا ہے یہ صورت در آتی ہے۔ جبکہ موخر الذکر صورت میں اثرات نہایت گہرے اور دیر پا ہوتے ہیں۔ گرامر اور صوتیات کی تبدیلی صرف ان زبانوں کا معاملہ ہوتا ہے جو اپنی بلوغت کو پہنچنے سے قبل ہی دیگر ترقی یافتہ زبانوں سے متعامل ہو جائیں۔
اردو کی گرامر اور صوتیات سنسکرت، فارسی، پنجابی وغیرہ سے قریبی تعلق رکھتی ہے۔ یہ تمام السنہ باہم دگر متعلق ہیں اور آریائی خاندان سے ہیں۔ اردو لسانیات کا ایک سطحی جائزہ بھی اس حقیقت کے انکشاف کے لیے کافی ہے کہ سامی زبانیں اس کی بنیادی ساخت پر ہرگز اثر انداز نہیں ہو سکیں۔ زیف سید صاحب کا یہ خیال کہ فارسی عربی سے متاثر ہوئی، ہمارے مقدمات میں صرف اول الذکر صورت میں معنیٰ رکھتا ہے۔ ورنہ عربی نے اپنے طویل تعلق میں بھی ہرگز فارسی گرامر اور صوتیات وغیرہ کو کسی قابلِ ذکر طریق پر متاثر نہیں کیا۔
رہ گئی بات اردو اور انگریزی کی، تو صاحب اردو اس دور سے گزر چکی جب اس کی بنیادی ساخت طے پا رہی تھی۔ اب اس میں کوئی گہرا اثر تو انگریزی نہیں پیدا کر سکتی مگر الفاظ اور طرزِ کلام وغیرہ متاثر ہوئے ہیں۔ اور ان حالات میں گو کہ زبان کو ایک گہرا دھچکا لگا ہے، مگر یہ صورت عبوری ہے۔ زبانیں صدیوں میں صورت پزیر ہوتی ہیں۔ اور اردو جیسی وسیع المشرب اور متواضع زبانوں کو تو شاید اور بھی زیادہ وقت لگنا چاہیے کیونکہ یہ خارجی اثرات سے اس قدر اغماض نہیں کر سکتیں جتنا دوسری زبانیں کرتی ہیں۔
آج کو اردو کا اصل المیہ وہی ہے جو دانتے سے قبل اطالیہ کی زبان کا تھا۔ ادب اور اشرافیہ کا ابلاغی واسطہ لاطینی تھی اور عوام کا اطالوی۔ مگر دانتے نے اطالوی کو اس قاعدے سے برتا کہ لاطینی کا زوال آمادہ اقتدار بالکل ختم ہو گیا۔ معاصر اردو ادب کی زبان عوام کی زبان سے متغائر ہے اور اشرافیہ اور تعلیم یافتہ طبقے کی ان دونوں سے۔ میں آج تک فیصلہ نہیں کر پایا کہ عوام زیادہ سوقیانہ ہیں یا ادب زیادہ پر تکلف ہے یا نئے پڑھے لکھے انگریزی گو زیادہ علم دوست ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اردو بھی دانتے جیسے کسی بطلِ جلیل کی منتظر ہے جو نہ صرف اردو میں ابلاغ کو ہم جنس اور زور آور کرے بلکہ اس کی موجودہ بیماری کے پس منظر میں موجود ثقافتی بدآہنگیوں کا بھی مداوا کرے!
 

دوست

محفلین
انگریزی کا موازنہ زوال پذیر لاطینی سے نہ کریں۔ یہاں معاملہ الٹ ہے۔ دباؤ اوپر سے نیچے کی جانب ہے۔ انگریزی سے اردو اور اردو سے علاقائی زبانوں کی جانب۔ یعنی اردو کی جگہ انگریزی لے رہی ہے۔ اور علاقائی زبانوں کی جگہ اردو لے رہی ہے۔
 
انگریزی کا موازنہ زوال پذیر لاطینی سے نہ کریں۔ یہاں معاملہ الٹ ہے۔ دباؤ اوپر سے نیچے کی جانب ہے۔ انگریزی سے اردو اور اردو سے علاقائی زبانوں کی جانب۔ یعنی اردو کی جگہ انگریزی لے رہی ہے۔ اور علاقائی زبانوں کی جگہ اردو لے رہی ہے۔
قبلہ، آپ نے جلد بازی کی۔ میں نے کچھ ایسا عرض نہیں کیا۔ میں تو صرف اس دم بدم متغیر صورتِ حال کی جانب اشارہ کرنا چاہ رہا تھا جو ہمارے ہاں ان دونوں لسانیاتی سطحوں پر موجود ہے۔ انگریزی ہرگز مشار الیہ نہیں۔ بلکہ مراد ایک طرف اس املغم سے ہے جو اردو اور انگریزی کا آمیزہ ہے اور دوسری طرف اس مرقع سے جو ادبا کے ہاں رائج ہے۔ پہلا طبقہ حالی کے زمانے سے چلا آتا ہے جبکہ دوسرا اردو پرستی کے جوش میں انٹر کنٹکسچوئلٹی جیسے الفاظ کا ترجمہ "بین المتونیت" کر کے ابلاغ کے فرائض سے سبکدوش ہو جاتا ہے۔ امید ہے اب بات سامنے آ گئی ہو گی۔
 
بات یہ ہے دوستو کہ “کلام الملوک ملوک الکلام“ یعنی جو بادشاہ کی زبان، وہ زبانوں کی بادشاہ۔ جب عربوں کا راج تھا تو یورپ تک کی زبانوں نے عربی سے فخر کے ساتھ الفاظ قبول کیے۔ جب فارسی والوں کا طوطی بولتا تھا تو ہندوستان بھر کی زبانیں دوڑ دوڑ کر فارسی اپناتی تھیں۔ اب انگریزی کا سکہ چلتا ہے، تو یار لوگ گفتگو میں انگریزی الفاظ استعمال کرنے میں اپنی شان سمجھتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی، معاشی اور فکری عمل ہے، جو تمام دنیا میں بہ یک وقت ہو رہا ہے۔ اس پر کوئی بند نہیں باندھ سکتا۔ جب تک انگریزی بولنے والے ملکوں کا غلبہ رہے گا، تب تک انگریزی زبان کا غلبہ بھی رہے گا۔ مضامین کا انبار لگانے، سیمینار کروانے وغیرہ سے کچھ نہیں ہو گا۔

اگر اردو کا بول بالا چاہتے ہیں تو اقوامِ عالم میں اپنی قوم کا مقام پیدا کیجیئے۔ اردو خود بخود سرفراز ہو جائے گی۔
زیف
(سید صاحب ! مکمل احترام کے ساتھ اختلاف رائے)
چند باتیں :
پہلے تو اس مقولے کلام الملوک میں کلام اور لسان میں فرق ضروری ہے آپ جس معنی کا استدلال کرنا چاہتے ہیں اس کا اور اس مقولے کا دور تک رشتہ نہیں
دوسرے یہ ضروری نہیں کہ غالب اقوام کی زبانیں مغلوب اقوام کی قسمت ہوتی ہے ، اگرچہ چند مثالیں آپ کو مل جائیں مگر اس سے کہیں زیادہ مثالیں ایسی موجود ہیں کہ قوموں نے جس ملک پر کئی سال حکومت کی وہاں آج ان کی زبان کا نام ونشاں تک نہیں
(مزاحا)اقوام عالم میں مقام پیدا کرتے کرتے ہم خود انگریز ہو گئے ہوں گے پهر اردو کی ترقی کی فکر چہ معنی دارد
 
فارسی مشکل تراکیب کا استعمال اردو کے دور تطور میں تها اردو ابھی پروان چڑھ رہی تھی اسے فارسی عربی و غیرہ الفاظ کی ضرورت تهی مگر اب ہزار سال سے زیادہ کے دورانیہ پر مشتمل ثقافت اور ادب اردو کے استقلال کے لیے کافی ہے اسے کسی زبان کے سہارے کی ضرورت مجهے نہیں لگتا کہ ہو
اب اردو لشکری اور متواضع زبان ہے اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم ہر زبان کے الفاظ اس میں ضم کرکے معجون بنائیں
 
Top