ریاست حیدرآباد ۔۔۔ ماضی کے جھروکوں سے

ثمر بہشت

(ایسی تحاریر قسمت والے لکھتے ہیں اور نصیب والے پڑھتے ہیں۔۔ اس جملے سے اتفاق )

آم اور امرائیوں کا شوق حیدرآباد میں نواب اور امراء کو خوب رہا۔ حیدرآباد بھی اس سلسلے میں لکھنؤ‘ فیض آباد اور ملیح آباد سے پیچھے نہیں تھا۔ نوابین پائیگاہ میں وقار الامراء جن کے نام سے وقار آباد موسوم ہے اور شمس الامراء جن کے نام سے شمس آباد موسوم ہے‘ ان دونوں امراء نے اپنی اپنی امرائیوں میں طرح طرح کے قلم لگائے تھے اور نئے قلم کو خزانہ ہی کی طرح حفاظت میں رکھا جاتا کہ اگر کسی اور نواب کے باغ میں یہ قلم لگ گیا تو گویا ناک ہی کٹ گئی۔
پھلوں کا بادشاہ آم بھی اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ کوئی پانچ ہزار سال سے یہ انسان کا من پسند پھل ہے‘ لیکن یہ پیڑ تخمی ہوا کرتے تھے۔ مغلوں نے پیوند کاری سے اس میں قلم لگانے کو رواج دیا اور مغلیہ باغات قلمی آم کے پیڑوں سے سج گئے۔ کہا جاتا ہے کہ تخمی پیڑ میں قلم سب سے پہلے تیمور لنگ نے لگائی تھی اور اس کی نگہداشت تیمور کی بڑی بہو ’’اولجائی‘‘ نے کی تھی۔ چنانچہ قلمی آم میں آج بھی ’’تیمور لنگ‘‘ باقی ہے اور اس کی ایک اور شکل ’’لنگڑا‘‘ پسندیدہ آموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ حیدرآباد کے خوش ذوق نوابوں نے ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے قلمی پودے منگوائے اور پھر ان کو اور اقسام سے میل دے کر ہمہ رنگی اور ہمہ ذائقہ آم پیدا کئے۔ ان کی اقسام اور نام تو بہت ہیں‘وقت کی گرد نے میرے حافظہ پر بھی چادر سی ڈال دی ہے۔ جو آم‘ نام اور ذائقے یاد رہ گئے وہ تیمور لنگ‘ حسن آراء‘ آب حیات‘ دسہری‘ چوسا‘ لکھنوی‘ اکھلوی‘ لنگڑا‘ نیلم‘ رومانی‘ سراولی‘ بیگن پلی‘ فضلی‘ زرد آلو‘ آٹری‘ مال خورد‘ کیسر‘ راجہ پوری‘ جمعدار‘ بے نشان‘ ملغوبہ‘ جومال گوا کی صورتگری ہے‘ راس پوری‘ بادامی‘ عالم پوری بے نشان‘ حمایت‘ جہانگیر‘ بتوہ‘ سکی‘ من پسند‘ اعظم پسند‘ سفیدہ‘ رس پونیا‘ متوا‘ تیموریہ‘ شربتی‘ گلاس‘ نورس‘ رس گولہ‘ شکر گٹھلی‘ طوطا پری‘ راتول‘ منجیرہ‘ امر پالی‘ لاکھا باغ‘ لیلی مجنوں‘ فجری کلاں‘ گلاب خاص ہیں۔ ایک آم انور رتاول بھی ہوا کرتا تھا‘ لیکن 1947 ء میں ترک وطن کرگیا۔ سنا ہے پاکستان میں پنپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کبھی جمہوریت شاخیں کاٹ دیتی ہے تو کبھی فوجی حکومت جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر تل جاتی ہے۔ اب تو شاید اس پر دہشت گردوں کا بھی سایہ پڑ گیا ہو۔ کمبخت یہیں رہ جاتا تو شاخ تو کٹتی لیکن جڑیں محفوظ رہ جاتیں۔ ان آموں کے علاوہ سمستان ونپرتی‘ رانی صاحبہ نے ایک اور شاخ لگائی اور اس کا نام ’’سورن ریکھا‘‘ رکھا۔ ریاست حیدرآباد کے انضمام کے بعد اب تو صرف ’’چنا رسال‘‘ اور ’’پدا رسال‘‘ کا بولا بالا ہے۔ جن کو گلدان اور اگالدان کا فرق معلوم نہیں وہ آم کے رنگ‘ خوشبو اور مٹھاس میں کیا فرق کرپاتے اور انھیں زعفران کی کیا قدر معلوم ہوتی۔
شمس الامراء اور وقار الامراء کے بیچ آموں کا مقابلہ بھی ہوتا۔ پاس پڑوس کی امرائیوں سے بھی آم آتے‘ لیکن بازی ان دونوں ہی کے درمیان ہوتی۔ یہ نمائش اور مقابلے ایک سال وقار آباد میں اور ایک سال شمس آباد میں منعقد ہوتے تھے۔ شمس الامراء کی سات امرائی شمس آباد کے شمال میں کوئی دو کوس پر تھی‘ لیکن شمس آباد کے جنوب میں کوئی کوس بھر دور ایک موضع مامڑ پلی بھی واقع تھا‘ یہاں بھی آم کے باغات کثرت سے تھے۔ اسی کی وجہ سے اس کا نام مامڑ پلی تھا۔
جس سال کا تذکرہ ہے‘ اس سال شمس آباد میں نمائش کا اہتمام تھا۔ ریاست حیدرآبادکے ایک ممتاز افسر کو جج کے فرائض کے لئے نامزد کیا گیا۔ وہ اعلی تعلیم یافتہ بھی تھے اور خاندانی رئیس بھی۔ ان کے ساتھ نو ہے‘ مضافات کی بھی سیر کرلیں۔ گھوڑا لے کر مامڑ پلی کی طرف چل پڑے۔ امرائیوں میں پہنچ کر گھوڑا چھوڑ پیدل چلنے کی سوجھی۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد یکایک امرائیوں کے بیچ ایک چھوٹے سے خطہ پر نظر پڑی تو دیکھا ایک ایکڑ سے بھی کچھ کم رقبہ پر سرخ قالین سی بچھی ہے۔ قریب پہنچے تو دیکھا سرخ گلابوں کا تختہ ہے‘ بیچ میں ایک کٹیا ہے جس کے چاروں کونوں پر پیڑ ہیں اور اس پر سرخ رنگ کے پھل ہیں۔ وہ حیران و مبہوت کھڑے تھے۔ مالی کمر کو خم کئے ہاتھ جوڑکر آکھڑا ہوا۔ جج صاحب کو حیران دیکھ کر کہنے لگا سرکار‘ مالک نے تھوڑی سی زمین بخش دی تھی‘ اس پر گلاب لگا دےئے۔ انھوں نے پوچھا ’’اتنے گلاب کیا کرتے ہو؟‘‘ تو مالی نے کہا ’’سرکار! جانے کس کے سہرے میں گوندھے جائیں‘ جانے کس کی قبر پر چڑھائے جائیں‘ میں تو بس مالی ہوں سرکار!‘ پھولوں کی تقدیر میں کیا جانوں‘‘۔ پھر اس نے کہا ’’سرکار! بیٹھئے نا‘ غریب کی کٹیا ہے‘‘ اور چار پائی ڈال کر چادر بچھا دی اور آواز دے کر کہا ’’اری او! باہر تو چلی آ‘‘۔ اور ایسے میں ’’آئی باپو‘‘ کہتی ہوئی کٹیا سے جو نکلی تو صاحب نے شہنائی کے سر‘ شہد اور خوشبو کو پہلی مرتبہ ایک ساتھ دیکھا۔ دونوں ہاتھ جوڑکر نمسکار کیا‘ انگلیوں کی پورپر نظر پڑی تب صاحب کی سمجھ میں آیا کہ انگوٹھی پہنانا تو ہاتھ تھامنے کا ایک بہانہ ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جلووں کی چھوٹ کی تاب نہ آئے تو آدمی انکھیں بند کرلیتا ہے‘ لیکن آنکھ بند کرلینے سے کوئی چیز اوجھل نہیں ہو جاتی‘ مگر وہ اوجھل ہو گئی اور اب جو آئی تو تھالی میں پھل سجالائی۔ اس نے قاش کاٹ کر پیش کی۔ صاحب کی نظر قاش پر تو تھی نہیں بس ترشی ہوئی انگلیوں کو تراشتے ہوئے دیکھتے رہ گئے۔ جیسے ہی قاش دہن میں ابین اور امراء بھی جیوری کے طورپر ہم نشین ہونے والے تھے‘ جنھیں آم کی پرکھ تھی‘ لیکن مقابلہ میں شامل نہ تھے۔ سب ایک دن پہلے شمس آباد پہنچ چکے تھے۔ جج صاحب نے سوچا چلو شام کا وقت ریاست حیدرآبادرکھی مٹھاس اور گلابوں کی خوشبو سے مشام جاں معطر ہو گئی۔ انھوں نے پوچھا کہ اس کا رنگ سرخ مٹھاس اور ذائقہ آم کا اور خوشبو گلاب کی‘ یہ سب کیسے ہو گیا تو مالی نے دست بستہ عرض کیا ’’سرکار! مالن کی بیٹی ہے‘ اس نے آم کے پودے میں گلاب کی قلم لگا دی تھی سو رنگ گلاب کااور خاصیت آم کی رہ گئی‘‘۔ پوچھا ’’خوشبو‘‘ تو کہا ’’سرکار! جن پھولوں کا کوئی مقدر نہیں ہوتا‘ یہ ان کی پنکھڑیوں کو ٹوٹ کر زمین پر بکھرنے سے پہلے جمع کرکے اس میں آم رکھ دیتی ہے‘‘۔ صاحب نے بے اختیار اسے دیکھا اور اپنے آپ کو شاید سوچ رہے ہوں کہ پسینہ گل جب بدن میں جذب ہوتا ہے تو بدن بھی اپنے آپ کو بھول جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کل تم اپنے آم مقابلہ میں لیتی آنا اور چل پڑے۔
دوسرے دن جب مقابلہ کا آغاز ہوا تو ہر امرائی کے آم ایک کے بعد ایک پیش ہوتے رہے۔ جیوری کے ارکان فیصلے محفوظ کرتے رہے‘ لیکن جج صاحب کی نظریں اسے تلاش کر رہی تھیں اور یکایک وہ آئی گھاگرہ چولی سرخ گوٹ‘ لال چنری آگے کو پڑی گھنے بالوں کی چوٹی جیسے خزانے پر ناگ کا پہرہ‘ رخسار پر پڑی کاکل یوں جھول رہی تھی جیسے ناگن ڈس کے پلٹتی ہے اور پلٹ کر ڈستی ہے۔ گھنیری پلکیں جھکی ہوئیں‘ معصوم چہرے پر بھولی مسکراہٹ خود اپنے آپ سے بے خبر داہنے ہاتھ سے سرپر رکھی آم کی ٹوکری سنبھالے ہوئے اور الٹے ہاتھ سے گھاگرا سنبھالے یوں سیڑھیاں چڑھتی چلی آئی کہ دیکھنے والوں کا دم سینے میں رک گیا۔ وہ اپنی کٹار اپنے ساتھ لائی تھی۔ آم کی قاشیں تراش تراش کر سامنے رکھتی رہی۔ پہلی قاش دہن میں رکھتے رکھتے یہ بھی نہ خبر ہوئی کہ حسن ہوتا ہی انگشت تراش ہے‘ یا تاثیر زلیخائی مبہوت کردیتی ہے۔
جج صاحب نے قاش کی ٹھنڈک محسوس کرکے اسے دیکھا تو اس نے معصومیت سے کہہ دیا آم نے گلاب سے خود کو ڈھک لیا تو اوس نے چادر ڈال دی۔ جج صاحب کے منہ سے نکلا ’’ثمربہشت‘‘ اور سب نے متفقہ فیصلہ اسی کے حق میں دے دیا‘ البتہ نوابوں کے تیور چڑھ گئے۔
دوسری صبح گلابوں کا تختہ اجڑ چکا تھا۔ مالی کی کٹیا اور چاروں درخت جل چکے تھے۔ مالی اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے سرحدوں سے دور نکل چکا تھا‘ مگر لڑکی کی کمر پر رکھے چھوٹے سے گملے میں ایک شاخ لگی تھی اور سینے میں پھانس بھی۔
شمس آباد ایرپورٹ پر جب میں کنگ فشر کے سرخ طیارے کو رن وے پر دوڑتے ہوئے دیکھتا ہوں تو جانے مجھے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ گلابوں کے تختے کو روندتا ہوا دور سرحدوں سے پار نکلا جا رہا ہے۔ اس وقت مجھے خاموشی اچھی لگتی ہے‘ جیسے قبر کی خاموشی۔ تنہائی اچھی لگتی ہے‘ جیسے قبر کی تنہائی۔ اندھیرا اچھا لگتا ہے‘ جیسے قبر کا اندھیرا۔ پھر مجھے وہی مامڑ پلی‘ وہی شمس آباد اور وہی حیدرآباد دکھائی دینے لگتا ہے اور میں سوچتا ہوں۔

چاک کرنا ہے اسی غم میں گریبان کفن
کون کھولے گا ترے بند قبا میرے بعد
,
علامہ اعجاز فرخ
جہان اردو
 
Top