رکھتے ہیں عشقِ چشم و رخِ گلعذار ہم - مولانا فصیح اللہ وفا لکھنوی

حسان خان

لائبریرین
رکھتے ہیں عشقِ چشم و رخِ گلعذار ہم
ہیں مبتلائے گردشِ لیل و نہار ہم
گر بے وفا سمجھتے تمہیں اے نگار ہم
بھولے سے بھی لگاتے نہ دل زینہار ہم
پیری میں اُس جوان سے ہیں ہمکنار ہم
اپنی خزاں کی دیکھ رہے ہیں بہار ہم
آئینہ وار شیخ و برہمن سے صاف ہیں
رکھتے نہیں ہیں دل میں کسی سے غبار ہم
معلوم کیا ہوں خنجرِ برّاں کی تیزیاں
رکھتے ہیں عشقِ ابروئے خمدارِ یار ہم
یہ شوقِ مے کشی ہے کہ فصلِ بہار میں
میخانے روز جاتے ہیں بے اختیار ہم
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اپنا کسی کو پاتے نہیں غمگسار ہم
آئے ہیں فاتحے کو وہ ہمراہ غیر کے
تڑپیں نہ کس طرح سے میانِ مزار ہم
بالیں پہ وہ مسیح ہے دم بھر ذرا ٹھہر
کہتے ہیں موت سے یہ دمِ احتضار ہم
عالم کو زلزلے کا گماں کس طرح نہ ہو
اے یار تیرے ہجر میں ہیں بے قرار ہم
تربت میں چین آئے گا کیونکر پسِ فنا
جاتے ہیں ساتھ لے کے دلِ بے قرار ہم
اُس ماہ نے چھپایا ہے رخ کو نقاب میں
بجلی کی طرح کیوں نہ ہوں پھر بے قرار ہم
باغِ جہاں میں جب ہوئی آمد بہار کی
دامان و جیب کرنے لگے تار تار ہم
اے موت کیوں نہ آئی شبِ ہجرِ یار میں
کرتے رہے کمال ترا انتظار ہم
احبابِ رفتگاں ہمیں یاد آتے ہیں وفا
جس وقت دیکھتے ہیں کسی کا مزار ہم
(مولانا فصیح اللہ وفا لکھنوی)
 

طارق شاہ

محفلین
آئینہ وار شیخ و برہمن سے صاف ہیں
رکھتے نہیں ہیں دل میں کسی سے غبار ہم
کیا کہنے صاحب !
تشکّر شیئر کرنے پر
 
Top