رُوپ کے فسُوں گر نے

khawar

محفلین
رُوپ کے فسُوں گر نے۔ رُوپ کے فسُوں گر نے، طِلسمی اداؤں سے، شبنمی سحر آ کر خُوشبُوؤں کے لہجے میں، مُجھ کو آن لُوٹا ھے اور میرے گھر آکر گُفتگُو کے جھرنے میں دُودھیا رداؤں کی اِک بہار ساعت میں میں نے آزمایا تھا اِک انا کی دیوِی کے سامنے ہُنر آ کر جِسم کا شجر میرے جِس طرح زمستاں میں برف اوڑھے ساکِت ھے ِاِک سوال پُوچھا ھے اُس نے مُدّتُوں کے بعد آج چشم تر آ کر گھر کے چار سُو پانی، آنکھ میں کھنڈر بنتے خواب کچھ ادُھورے سے غرق ھو کے رہ جائیں، نہ بچا سکے ھم کو، چارہ گر اگر آ کر چاند اور تاروں کا مُدّتوں کا رِشتہ ھے، جُگنُوؤں کا مُجھ سے ھے اِس اٹُوٹ ناتے کو کِس غُرُور سے توڑا، صُبح نے مگر آ کر پیاس اِستعارے کو گِرہ باندھ رکھی تِھیں، کیسی کیسی تاویلیں اپسرا ادا نے کی پائلوں کی چھن چھن سِی بات مُختصر آ کر اُس کے لب سے اُترے ہیں وادئِ سماعت میں حرف کُچھ صحِیفوں سے وقت کے خُدا حسرتؔ، پِھر سے آرا ڈالیں گے، جِسم وجان پر آ کر۔ (رشید حسرؔت )
 
Top