ام اویس

محفلین
روزہ اور تزکیۂ نفس

اسلام دین حق ہے جو شخص اسلام کو قبول کرلیتا ہے گویا اپنی گردن میں الله اور اسکے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کا پٹکا ڈال لیتا ہے ۔ کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول الله پڑھنے کے بعد لازم ہے کہ وہ تمام فرائض کو دل کی خوشی اور پوری رضامندی کے ساتھ ادا کرے ۔ ایک دن میں پانچ وقت کی نماز کے بعد اسلام کا ایک اور اہم رکن صوم یعنی روزہ ہے

اسلام کا بنیادی ستون ۔

بخاری ومسلم میں حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم کی گئی ہے ۔ ایک یہ کہ اس حقیقت کی گواہی دینا کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی الله علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں ، دوسرے نماز قائم کرنا ، تیسرے زکوة دینا چوتھے حج کرنا ، پانچویں رمضان کے روزے رکھنا ۔

روزے کی فرضیت کا حکم

سورة بقرہ کی آیت نمبر 185 میں روزے کی فرضیت کا حکم بیان کیا گیا ہے جس کا اردو مفہوم ہے کہ تم میں سے جو شخص اس مہینے یعنی رمضان میں موجود ہو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کے روزے رکھے ۔

چنانچہ روزہ ہر عاقل ، بالغ ، تندرست ، مقیم مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے ۔ بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ چھوڑ دینا سخت نقصان کا سبب ہے ۔ روزے رکھنا اسلام کے بنیادی ارکان میں شامل ہے اس لیے اسلام کی عمارت کو قائم کرنے اور مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس ستون کو قائم رکھنے کی پوری کوشش کی جائے ورنہ ایک ستون کی کمزوری سے پوری عمارت کے گرجانے کا خطرہ ہے ۔

معنی ومفہوم ۔

روزے کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں جس کا مطلب رُک جانا ہے ۔ اصطلاح شریعت میں الله تعالی کے حکم سے خالص نیت کے ساتھ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک روزہ توڑنے والی چیزوں (کھانے پینے اور میاں بیوی کے تعلق ) سے مکمل طور پر رکے رہنے کا نام روزہ ہے ۔

روزے کا مقصد

صحیح بخاری ومسلم میں ایک روایت ابوھریرہ رضی الله عنہ سے ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے ۔ جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے تو اس کے وہ سب گناہ معاف کر دئیے جائیں گے جو اس سے پہلے وہ کرچکا ۔ اور جس شخص نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان میں قیام کیا تو اس کے گزشتہ تمام گناہوں سے درگزر کیا جائے گا ۔

احتساب یعنی ہر عمل میں یہ جائزہ لیا جائے کہ اس کام کو کرنے کا مقصد کیا ہے ؟ کرنے والے کی نیت کیا ہے اور اس کا حاصل کیا ہے ؟

سورة بقرہ کی آیت 183 میں بیان کیا گیا کہ مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم متقی یعنی پرہیز گار بنو۔۔

یعنی روزے کا بنیادی مقصد تقوی کا حصول ہے ۔ تقوٰی درحقیقت اس کیفیت کا نام ہے کہ جس کی وجہ سے دل اچھائی سے خوش اور برائی سے تنگی محسوس کرنے لگتا ہے متقی بننے اور تقوٰی کی راہ پر چلنے کے لیے نفس کو پاک کرنا بہت ضروری ہے ۔ الله تعالی نے انسانی نفس کو اس طرح تخلیق کیا ہے کہ اس میں نیکی اور بدی دونوں رجحان رکھ دئیے ہیں ۔ اور اسے یہ صلاحیت بخشی کہ وہ ان دونوں کے درمیان فرق کر سکے ۔ کوشش کے ساتھ نیکی کو بدی پر اور اچھائی کو برائی پر غالب کرنے کا نام تزکیہ ہے ۔ تزکیہ انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی ہر پہلو سے گہرا تعلق رکھتا ہے ۔

تزکیہ کا مفہوم ۔

کسی چیز کو صاف ستھرا بنانا ، نشو ونما دینا اور اس کو پروان چڑھانا تزکیہ کہلاتا ہے ۔
چنانچہ نفس کو صاف کرنے کے لیے سب سے پہلے اس میں موجود برائیاں اور خرابیاں دور کی جائیں پھر نیکیوں کے بیج بو کر ان کی حفاظت اور پرورش کرکے انہیں پروان چڑھایا جائے تاکہ ان کی جڑیں مضبوط اور پھل خوب ہو ۔

تزکیہ نفس کسی ایک شخص یا گروہ کا کام نہیں بلکہ ہر ایک کی کامیابی ونجات کے لیے لازمی شرط ہے اسی لیے اسلام میں تزکیہ نفس کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ تزکیہ کا اصل مأخذ ومصدر کتاب الله ہے اسی کی تعلیم سے تزکیہ کا آغاز ہوتا ہے اور اسی پر عمل سے تزکیہ نفس کی تکمیل ہوتی ہے ۔

انبیاء علیھم السلام کی بعثت کا مقصد بھی نفس انسانی کا تزکیہ ہے قرآن مجید میں الله تعالی موسی علیہ السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیتے ہیں ۔ فرمان باری تعالی ہے ۔

“اور حکم دیا کہ فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہو رہا ہے۔ پھر اس سے کہو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہو جائے”
النازعات ۔ ۱۶-۱۷

یعنی اس کو تزکیہ نفس کی ترغیب دیں ۔

اسی طرح نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے لیے ابراھیم علیہ السلام نے جو دعا کی اس کے الفاظ یہ ہیں

“ اے پروردگار ان لوگوں میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرما جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے۔ اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان کے دلوں کو پاک صاف کیا کرے بیشک تو غالب ہے صاحب حکمت ہے۔
سورة بقرہ ۔ ۱۲۹

قرآن مجید میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد اور خصوصیات کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے

“جس طرح منجملہ اور نعمتوں کے ہم نے تم میں تمہیں میں سے ایک رسول بھیجے ہیں جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کے سناتے اور تمہیں پاک بناتے اور کتاب یعنی قرآن اور دانائی سکھاتے ہیں اور ایسی باتیں بتاتے ہیں جو تم پہلے نہیں جانتے تھے”
سورة بقرہ ۔ ۱۵۱

اگر غور کیا جائے تو پیغمبر علیہ السلام کی تشریف آوری کا اصل مقصد تزکیہ نفوس ہے ۔

جس طرح رمضان المبارک اور قرآن مجید کا ایک خاص تعلق ہے کہ قرآن مجید کا نزول رمضان میں ہوا اسی طرح تزکیہ نفس کا قرآن مجید کے ساتھ خاص تعلق ہے ۔ قرآن مجید میں بیان کردہ احکام پر عمل کے ذریعے نفس کی خرابیوں کو دور کرنا اور اس کی خوبیوں کو اجاگر کرنا ، پھر اس سے بھی آگے بڑھ کر نفس کی ہر پہلو سے ایسی تربیت کرنا جس سے “نفس امارہ “ “نفس مطمئنہ” میں بدل جائے ۔ نفس مطمئنہ کا مطلب یہ ہے کہ خوشی غمی ، راحت و رنج ، دکھ اور سکھ کی ہر کیفیت میں الله پر مکمل یقین ، بھروسہ اور اطمینان رہے اور ہر حال میں الله کی رضا پیشِ نظر رہے ۔
رمضان کے روزے کا اصل مقصد بھی نفس کا تزکیہ ہے ۔ روزہ رکھنے کا مقصد صرف کھانے پینے سے رُکے رہنا نہیں بلکہ الله تعالی کے موجود ہونے کا ایسا قوی احساس پیدا کرنا ہے جس کے تحت نفس ہر اُس کام سے رُک جائے جس سے قرآن اس کو روکتا ہے اور ہر اس کام کو اختیار کرلے جس کا قرآن اس کو حکم دیتا ہے ۔
اگرچہ رمضان المبارک کا مہینہ تزکیہ نفس کے لیے خاص نہیں لیکن یہ ایک ایسی پریکٹس ہے جس کے اثرات اگلے گیارہ مہینے تک مسلمان کے شب وروز پر رہتے ہیں شرط وہی ہے کہ کامل اخلاص کے ساتھ اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے جائیں ۔
نفس کے تزکیہ کے لیے براہ راست قرآن مجید سے استفادہ کرنا ، رمضان میں قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معنی ومطالب سمجھنااور اس میں بیان کردہ احکام کو جاننے کی کوشش کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ ان پرعمل کی بنیاد رکھی جا سکے ۔

ابن خزیمہ کی ایک روایت ہے جس کا مفہوم ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔

رمضان المبارک میں چار کام زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کرو ۔ دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کرو گے اور دو کاموں کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں ۔ ان میں ایک لا الہ الا الله کی گواہی دینا اور دوسرا اس سے بخشش طلب کرنا ، جن دوکاموں کے بغیر تمہارا چارہ نہیں ان میں سے ایک یہ کہ تم الله تعالی سے جنت کا سوال کرو اور دوسرا یہ کہ جہنم سے پناہ مانگو ۔

جنت کا حصول کامیابی کی علامت ہے کیونکہ کوئی بھی نفس کے تزکیہ کے بغیر جنت کو نہیں
پاسکے گا ۔

قد افلح من تزکی ۔

بیشک وہ مراد کو پہنچ گیا جو پاک ہوا۔
الاعلیٰ ۔۱۴

قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا

کہ جس نے اپنے نفس کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا۔
الشمس ۔۹

جنہوں نے اپنے نفس کو برے اخلاق اور دلوں کو شرک کی آلودگی سے پاک کر لیا وہ کامیابی کی منزل پر پہنچ گئے اور اس کامیابی کا تمام تر دارومدار تزکیہ نفس پر ہے ۔
تزکیہ نفس ایک مسلسل اور پرمشقت عمل ہے جو زندگی کے ہر لمحے پر محیط ہے اور مسلسل ریاضت چاہتا ہے ۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹہرتی ہے جا کر نظر کہاں ؟

ہر وقت نفس کی صفائی کرتے رہنا آسان کام نہیں ۔ لیکن جو شخص اس محنت میں لگ جاتا ہے تو الله سبحانہ وتعالی خود اس کا مددگار بن جاتا ہے اور مسلسل محنت اور مشقت سے الله تعالی کی طرف سے حوصلہ اور مدد ملتی ہے جیسا کہ سورة العنکبوت کی آخری آیت میں الله تعالی فرماتے ہیں ۔
اور جن لوگوں نے ہمارے راستے میں محنت کی ہم ان کو ضرور اپنے رستوں پر چلا دیں گے۔ اور اللہ تو نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ رمضان المبارک کے دوران ہر قدم پر اپنے اعمال وافعال اور اپنی نیتوں کی جانچ پڑتال کی جائے اپنی کمزوریوں ،کوتاہیوں اور خامیوں کو دور کرنے کی جدوجہد کر کے اپنے ایمان کی نشوونما کی جائے ۔ پورے رمضان پختہ ارادے کے ساتھ اپنی خامیاں دور کرکے تزکیہ نفس کی راہ پر چل پڑنا ہی روزے کا اصل مقصد ہے ۔ صرف منہ کو کھانے پینے سے روکنے کا نہیں بلکہ جسم کے تمام اعضاء کو الله سبحانہ وتعالی کی نافرمانی سے روک لینے کا نام روزہ ہے ۔
مثلا
روزہ رکھ کر جھوٹ سے بچنے کی کوشش کرنا کیونکہ جھوٹ ام الخبائث ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

“ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا اور جہالت کی بات نہ چھوڑے تو الله تعالی کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ بھوکا پیاسا رہے ۔ بخاری

اسی طرح غیبت سے پرھیز کرنا ۔ کہ روزے کے دوران انسان الله کے حکم سے حلال کھانے سے تو رکا رہے لیکن غیبت کرکے اپنے بھائی کا کچا گوشت کھائے ۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا روزہ اس وقت تک ڈھال ہے جب تک اس میں سوراخ نہ کرو ۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس میں سوراخ کس چیز سے ہوجاتا ہے ۔ فرمایا جھوٹ اور غیبت سے ۔ ( سنن دارمی )

اسی طرح لڑائی جھگڑے سے پرھیز کرنا ۔ یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اگر کوئی تم سے جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دو بھائی میں روزے سے ہوں ۔

میل ملاپ اور لین دین میں ایمانداری کی روش اپنانا ۔ بے ایمانی ، ذخیرہ اندوزی اور ناپ تول میں کمی سے باز آجانا ، دوسروں کی نعمتوں پر حسد اور جلن کڑھن کے بجائے اپنی کوشش اور محنت کے صلہ پر صبر اور قناعت سے کام لینا ، غصے پر قابو پانا ، حقوق کا تقاضا کرتے رہنے کی بجائے اپنے فرائض کو احسن طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرنا ، مغربی ترقی اور بے راہ روی کی چکا چوند سے متاثر ہونے کی بجائے اسلام کی سادگی اور حقانیت کو قبول کرنا ، رمضان المبارک میں بے تحاشا کھانے پینے کی عادات سے پرھیز کرنا ، غریبوں اور لاچاروں کی بھوک کا احساس کرنا ، لایعنی باتوں اور مشغلوں کو چھوڑ کر تعمیری کاموں اور خدمت خلق میں خود کو مصروف رکھنا تزکیہ نفس کی شروعات ہیں جس کا اختتام میدان حشر میں الله کی رحمت پر ہوگا ۔ جب الله سبحانہ وتعالی اپنے فضل سے تزکیہ نفس کی کوشش کرنے والوں کو پاک کرکے جنت میں داخل کر دیں گے یعنی کامیابی کی سند عطا فرمائیں گے ۔

تزکیہ نفس کی کوشش کے ساتھ دعا کی بھی بہت اہمیت ہے ۔ آئیے اس رمضان المبارک میں الله کے نبی حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی اس مسنون دعا کے ساتھ تزکیہ نفس کی کوشش شروع کریں ۔

اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْہُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی وَالْعِفَّۃ.

اے اللہ، میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاکدامنی، استغنا اور نفس کی پاکیزگی کا سوال کرتا / کرتی ہوں۔
 
Top