رودادِ مشاعرہ ۔ جدہ ۔ امیر محمد خان کی زبانی

محمداحمد

لائبریرین
جدہ کی ڈائری ۔۔۔ امیر محمد خان

زبانیں اظہار ابلاغ کا مستند اور موثر ذریعہ ہیں اسی حوالے سے اردو زبان کو شرف فضیلت حاصل ہے کہ اس زبان کی وسعت وگہرائی کا اندازہ لگانا ہوتو اس کی شاعری پر نگاہ ڈالی جائے۔ ایسے ایسے ان چھوئے خیالات پرشعراءنے گرہیں لگائی ہیں کہ دل سے داد بی ساختہ واہ واہ کی صورت نکل آتی ہے۔دامن اردو کو زرخیز کرنے میں مشاعرے کی ثقافت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔اردو کا دامن شعراءسے تو زرخیز تھا ہی،اس میں نئی کلی مشاعروں نے ڈال دی ۔ مشاعرہ گاہیںہماری تہذیب کی تابندگی کا اظہار کرتی ہیں۔ زندہ قومیں اپنے ادب و ثقافت سے جانچی جاتی ہیں۔جدہ میں شاعری کا فروغ ہویامشاعرہ ثقافت کا عروج ڈاکٹر منور ہاشمی کا لگایا ہوا پودا ”عالمی اردو مرکز “ اپنا کام نہائت خوش اسلوبی کےساتھ انجام دے رہا ہے،گو کہ ڈاکٹر منور ہاشمی سعودی عرب سے جارہے ہیں اوراب سنجیدہ شاعر برادر اطہر عباسی اس مرکزکو اپنے مخلص دوستوں کے ہمراہ چلا رہے ہیں ۔گزشتہ پانچ سال سے عالیشان مشاعرے منعقد کررہے ہیں مگرنہ جانے کیوں ایک مرتبہ بھی اس مرکز کے موجد ڈاکٹر منور ہاشمی جوخود ایک مستند شاعر ہیں صاحب کتاب ہیں اور اقبالیات میں پی ایچ ڈی یافتہ ہیں کو ایک مرتبہ بھی بحیثیت مہمان شاعر دعوت دے سکے ۔ بہر حال یہ انکا اپنا مسئلہ ہے ۔
جمعرات کی شب اس ادبی تنظیم نے 5واں سالانہ عالمی مشاعرہ منعقد کر کے دنیائے اردو ادب میں اک اور یادگار شب کا اضافہ کر کے پھر میدان مار لیا ۔اکثر مشاعروں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ شعر اءکی تعداد زیادہ ہو تو سامعین آخر میں کم رہ جاتے ہیں مگر جدہ میں مشاعرہ سے محبت کرنے والے رات دو بجے تک ہمہ تن گوش رہے،اسکا اظہار مشاعرے کے دوران افتخار عارف نے بھی کیا کہ یہاں دیکھا ہے کہ سامعین کی تعداد رات گئے کم نہیں بلکہ بڑھ رہی ہے ۔

”ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کئے“

پانچواںسالانہ عالمی مشاعرہ محض آدھے گھنٹے کی تاخیرسے شروع ہوا۔مشاعرے کے مہمان خصوصی، پاکستان کے قونصل جنرل عبدالسالک خان تھے۔ تلاوت قرآن کریم کی سعادت قاری بشیرکے حصے میں آئی۔نعت طیبہ پیش کرنے کے لئے محمد نواز جنجوعہ تشریف لائے۔انہوں نے صدر مشاعرہ افتخار عارف کی لکھی ہوئی نعت پاک خوبصورت لحن کے ساتھ پیش کی۔عالمی اردومرکز کے جنرل سیکریٹری حامد اسلام خان نے شرکا ئے مشاعرہ کوتنظیم عہدیداروں سے متعارف کروایا۔عالمی اورمرکزکے صدر اطہر عباسی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یوم پاکستان کے حوالے سے شعر وادب کا یہ دریچہ پچھلے5 سالوں سے ہے۔ 23مارچ سے منصوب اس مشاعرے کو پاکستانیت کے فروغ کی ایک کڑی کے طورپر دیکھا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ا نہوں نے چند یوم قبل جاری کی جانے والی ویب سائٹ کا بھی ذکر کیا۔انہوں نے گزر جانے والے احباب کو یاد کرتے ہوئے منتظمین اورتمام مقامی ادبی و ثقافتی تنظیموں کے تعاون کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

پاکستان انٹرنیشنل اسکول، عزیزیہ ،جدہ کے پرنسپل محمد اشفاق محمود نے اپنے ادارے کی خدمات اور کامیاب طلبہ کا خصوصی ذکر کیا۔مشاعرے کے مہمان خصوصی قونصل جنرل پاکستان، عبد السالک خان نے اکابرین کا شکریہ ادا کیا اور کامیاب سے کامیاب ترین مشاعرے کو منعقد کرنے پر مبارک باد دی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان قربانیوں کے بعد حاصل ہوا۔اب ایک شہری ہونے کے حوالے سے یہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے کہ ہم دوسروں کی طرف دیکھے بغیراپنی ذمہ داریوں کااحساس کریں اورپاکستان کو مضبوط بنائیںاور آگے لے کر چلیں۔انہوں نے کہا کہ زبانیں سب میٹھی ہوتی ہیں۔پاکستان میں بولی جانے والی ساری زبانیں ہماری اپنی زبانیں ہیں۔ملک کو مضبوط کرنے کے لئے سب کو ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنا ہے۔اپنی زبان بولئے اور اس پر فخر کیجئے۔

شعراءمعاشرے کے نباض ہوتے ہیں ۔معاشرے پر ان کی نظرگہری اور عمیق ہوتی ہے۔ان بڑے لوگوں کی خاص تکریم ہونی چاہئے ۔
قونصل جنرل کے خطاب کے بعداطہر عباسی نے اسٹیج پر شعراءکا استقبال کیا۔ مشاعرہ دو ادوار پر مشتمل تھا۔پہلادورمقامی شعراءحضرات کا جبکہ دوسرا دور مہمان شعرا ءکا تھا۔ نکتہِ اعتراض ہماری جانب سے یہ ہے کہ اردو ادب کا دامن کیا سنجیدہ خواتین شعراءسے یکسر خالی ہو گیا ہے کہ مقامی اور مہمان شعراءکے کسی بھی دور میں ان کی نمائندگی نہ ہوسکی یوں یہ مشاعرہ خالصتاً مردانہ تھا۔
مشاعرے کی نظامت اس مرتبہ بھی عامر خورشید کے ہاتھ میں تھی ۔مشاعرے کے پہلے دورکی ابتداءکرتے ہوئے ناظم نے کہا کہ شاعری تازہ کاری سے عبارت ہے۔ہر نئے مشاعرے میں فکر کے نئے زاویے ہوتے ہیں ۔ نئے دریچے وا کرنے کے لئے پہلے جو مقامی شاعر مشاعرہ گاہ میں جلوہ افروز ہوئے ان میں فاروق مونس، نوشاد عثمانی،بہترین شاعر انور انصاری، محسن علوی جنہوں نے خوبصورت نعت پیش کی، دمام سے آئے ہوئے شاعر اقبال قمر ،سید قمر حیدر قمر ، نعیم بازید پوری ،اور آخر صدر عالمی اردو مرکز اطہر عباسی نے اپنے کلام پڑھے ۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مشاعرے کے دوسرے دور میں پاکستان سے آئے ہوئے مہمان شعراءنے اپناکلام سنایا۔اقتباس نذر ہے:

٭٭ شہاب اقتدار قدر :
دورِ سرکار میں ہواہوتا
میں بھی نعلین چومتا ہوتا
رب کے محبوب چل رہے ہوتے
ذرے پلکوں سے چن رہا ہوتا
٭٭٭
زندگی سے حیات سے پہلے
عشق تھا کائنات سے پہلے
حسن کی کائنات کچھ بھی نہ تھی
عشق کی واردات سے پہلے
عشق کے کھیل میں عموماً لوگ
ہار جاتے ہیں مات سے پہلے
کیا شہاب اقتدار لطف ِغزل
حسن کی کائنات سے پہلے

ہانگ کانگ سے آئے ہوئے شاعر عابد علی بیگ نے 23 مارچ کے حوالے سے مندرجہ ذیل نظم پڑھی :
علیم ہے وہ خبیر ہے وہ
اسے خبر ہے وہ جانتا ہے
کہ میری دھرتی کو پاک دھرتی کہا تھا جس نے
تو اس کے ذہن رسا کے گوشوں میں
اس وطن کے ہر ایک پیروجواں کے
خوش رنگ مستقبل کے خواب ہونگے
کبھی نہ اس نے یہ سوچا ہوگا
کہ اس طرح کرب وابتلامیں قوم اسیر ہوگی
مروت و درگزر بھلا کر یہ
رنجشوں کی عداوتوں کی سفیر ہوگی
میرے خدا یا علیم ہے تو خبیر ہے تو
توجانتا ہے
جو میرے قائد نے خواب دیکھا تھا
زندگی کا محبتوں کا صداقتوں کا
میری دعا ہے اب تو پورا وہ خواب کر دے

ظریفانہ کلام نے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کیا اور شاعر نے بے پناہ داد حاصل کی ، الیکٹرانک میڈیا پر سیاسی ٹاک شوز کے حوالے سے انہوںنے کہا ::
ہم سنا کرتے تھے لڑکپن میں
جھوٹ بولے تو کوا کاٹے گا
اور دیوار پر اگر گھرکی
بولے کا گاتو کوئی آوے گا
اب تو خود کوے جھوٹ بولتے ہیں
کس قدر کائیں کائیں کرتے ہیں
کوئی مہماں مگر نہیں آتا
ایسے کوﺅں کو کون کاٹے گا

سیاسی صورتحال پر خوبصورت اشعار پیش کئے جسے حاضرین نے تو پسند کیا ،مگر وہاں بیٹھے ہوئے قونصل جنرل پریشانی کا شکار نظر آرہے تھے ،دل سے شائد پسند کررہے ہوںمگر سرکاری ذمہ داریاں بھی تو ہیں :: جن اشعار پر بے پناہ داد ملی ان میں :
پس زنداں کیا تھا وعدہ یہ
جتنے دکھ سکھ ہیں مل کے بانٹیں گے
جیل کاٹی ہے جتنے برسوں تک
اتنے ہی سال جیب کاٹیں گے

سعید آغا :
رات میں نے خواب دیکھا ہے وفاقی قسم کا
میں وزیر باجرہ ہوں تو وزیر گھاس ہے
ایک صاحب کل پجیرو میں نظر آئے مجھے
یوں لگا جیسے کوئی آپے سے باہر ہو گیا
میں نے پوچھاآپ ڈاکو ہیں کہ لیڈر تو کہا
پہلے ڈاکو تھا ترقی پا کے لیڈر ہو گیا

عاصم واسطی (ابوظبی )
وہ خود ملنے نہیں آیا، تو اس کے گھر گیا میں
حد یں معلوم تھیں لیکن ، تجاوز کر گیا میں
اندھیرا راستے میں دور تک پھیلا ہوا تھا
نہیں معلوم کتنی دور بے منظر گیا میں
ابھی تک توحدیں شہرجنوں کی طے نہیں ہیں
کہیں باہر نہ رہ جاﺅں، اگر اندر گیا میں
میرے چاروں طرف نفرت کا پہرا لگ چکا تھا
مگر پھر بھی کسی صورت محبت کر گیا میں

میں بولتا تھا کہ مجھ کو نہیں تھا کچھ معلوم
میں چپ ہوا ہوں کہ مجھ کو خبر زیادہ ہے
خدا کر ے کہ ہمیشہ مجھے گمان رہے
کہ میرے پاس ضرورت سے زر، زیادہ ہے
میرے وطن کا یہی مسئلہ رہا عاصم
وہاں دماغ ہے کم اور سرزیاد ہ ہے

شاہین عباسی:
وہ سامنے تھا تو ، کم کم دکھائی دیتا تھا
چلا گیا تو برابر دکھائی دینے لگا
کچھ اتنے غور سے دیکھا چراغ جلتا ہوا
کہ میں چراغ کے اندر دکھائی دینے لگا

موجہء خونِ پریشان ، کہاں جاتا ہے
مجھ سے آگے میرا طوفان کہاں جاتا ہے
بات یونہی تو نہیں کرتا ہوں میں رک رک کر
کیا بتاﺅں کہ میرا دھیان کہاں جاتا ہے
چائے کی پیالی میں تصویروہی ہے کہ جوتھی
یوں چلے جانے سے مہمان کہاں جاتا ہے

پہلے ٹھوکر کھائی پھر میں چوٹ سہلاتا رہا
آدمی ایک بار کہلایا تو کہلاتا رہا
خالی کمروں میں پڑا میں ،خالی آنگن میں کھڑا
جانے کس کس کو خسارہ اپنا گنواتا رہا

میں تھا کہ اپنے آپ میں خالی ساہوگیا
اس نے تو کہہ دیا ، میرا حصہ جدا کرو
اک نقش ہونہ پائے ادھر سے اُدھر مرا
جیسا تمہیں ملا تھا میں ویسا جدا کرو

محسن چنگیزی:

شب ِ گزشتہ عجب اک عذاب دیکھا تھا
اُڑی تھی نیند مگر پھر بھی خواب دیکھا تھا
ہےں میری آنکھ کے چھالے گواہ کہ میں نے
غروب ہوتا ہوا آفتاب دیکھا تھا

کیا بے سروسامانی تھی ،غربت کے دنوں میں
گھر میں نہ تھا اک آئینہ ، حیرت کے دنوں میں
اک ہاتھ میں گلدستہ ہے اک ہاتھ میں تیشہ
مزدور ِزمانہ ہوں محبت کے دنوں میں

اسی احساس کی دل میں فراونی رہے گی
خوشی کم ہے تو کیا ، گننے میں آسانی رہے گی
اسی مہتاب میں ہوگا کوئی گلنار چہرا
مگر آنکھوں میں کوئی اور حیرانی رہے گی

اکتائی تھی مجھ سے،مری دیوار سے در سے
تنہائی کو ٹہلانے نکل آیا ہوں گھر سے
ہم لوگ کہ جو گرتے مکانوں کے مکیں ہیں
پلکیں بھی جھپک سکتے نہیں نیند کے ڈر سے
مٹی کے چمکنے کی ادا غور سے دیکھو
گزراہے ستارہ کوئی اس راہ گزر سے

دئیے سے پوچھتے ہیں،کچھ ہوا سے بات کرتے ہیں
کہ ٹل جائے گی کب تک ابتلا سے بات کرتے ہیں
بہت مشکل زمانہ ہے محبت مر بھی سکتی ہے
تو چل کر اپنے اپنے بے وفا سے بات کرتے ہیں
خریداروں کی آنکھوں سے تاسف کیوں چمکتا ہے
سرِبازار ، قیمت آشنا سے بات کرتے ہیں

امانتاً میری آنکھیں وہ لے گیا مجھ سے
پھر اس کے بعد پلٹ کر کبھی نہیں آیا
اسی کی چاپ میں سنتا ہوں اپنے آنگن میں
جو ایک شخص میرے گھر کبھی نہیں آیا

عجب اڑان کا منظر مری نظر میں رہا
ہوا میں اڑتا ہوا ایک پَر سفر میں رہا
رعایت ِ درودیوار بھی نہ کام آئی
جلاوطن کوئی مجھ سا ہی میرے گھر میں رہا
سخن شناس تھے تم پھر بھی پڑھ نہیں پائے
وہ اشک شعر تھا جو میری چشم تر میں رہا

شفاتھی جس کی نگاہیں،سلوک تھا مر ہم
وہ آدمی بھی مگر دل دکھانے والا تھا
طویل کیسے نہ ہوتی یہ عمرِِ دوروزہ
سبھی نے وعدہِ فردا پہ مجھ کو ٹالا تھا

قمار خانہء ہستی سنوارنے کےلئے
بس ایک دل ہے میرے پاس ہارنے کےلئے
کھڑا ہوا ہوں سمندر کے سامنے چپ چاپ
کسی کی آنکھ کا صدقہ اتارنے کیلئے
بچھڑتے وقت ان آنکھوں کے رخصتی آنسو
ادھار رہ گئے مجھ پر اتارنے کےلئے

عجیب رنگ دکھاتی ہے زندگانی بھی
نڈھال پیاس سے ہونے لگا ہے پانی بھی
نہ ہو کہ کچھ بھی میر ے پاس جیسے سب کچھ ہے
عجیب ہے یہ محبت کی رائیگانی بھی

لیاقت علی عاصم:
دشت کی تیزہواﺅں میں بکھر جاﺅ گے کیا
ایک دن گھر نہیں جاﺅ گے تو مرجاﺅ گے کیا
پیڑنے چاند کو آغوش میں لے رکھا ہے
میں تمہیں روکنا چاہوں تو ٹھہرجاﺅ گے کیا

عشق بار دگر ہوا ہی نہیں
دل لگایا تھا دل لگاہی نہیں
ایک سے لوگ ایک سی باتیں
گھر بدلنے کا فائدہ ہی نہیں
اس طرح ٹوکتا ہوں اوروں کو
جیسے میں جھوٹ بولتا ہی نہیں
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں

سونے دیتے ہیں کہاں شہرکے حالات مگر
ہم بھی سفاک ہیں جی مار کے سوجاتے ہیں

کوئی آکے جیسے چلا گیا کوئی جاکے جیسے گیا نہیں
مجھے اپنا گھر کبھی گھر لگا تو خیال تیری طرف گیا
میری بے کلی تھی شگفتنی سو بہار مجھ سے لپٹ گئی
کہا وہم نے کہ یہ کون تھا تو خیال تیری طرف گیا

شجاعت علی راہی:
میں نے حقیقتوں کے حوالے سے بات کی
اس نے حکایتوں کا حوالہ دیا مجھے
میں نے کہا کہ زہر سے بھی تلخ کوئی چیز؟
ساقی نے زندگی کا پیالہ دیا مجھے

درخت نت نئی کلیوں سے بھرتے جاتے ہیں
کہ تیرے دھیان کا موسم جگادیا میں نے
میں تشنگی کے جزیرے میں بند تھا لیکن
تمہاری رہ میں سمندر بچھا دیا میں نے
دیے میں میرا لہو تیل بن کے جلتا تھا
سو خود جلایا اسے خود بجھادیا میں نے

قتیل ہو کے بھی میں اپنے قاتلوں سے لڑا
کہ میرے بعد میرے دوستوں کی باری تھی

انور شعور :
کیا بادلوں میں سفر زندگی بھر
زمیں پر بنایا نہ گھر زندگی بھر
سبھی زندگی کے مزے لوٹتے ہیں
نہ آیا ہمیں یہ ہنر زندگی بھر
محبت رہی چار دن زندگی میں
رہا چار دن کا اثر ، زندگی بھر

کوئی دیوانگی نہیں ہے یہ
حالت اعتدال ہے میری
کھو گیا ہوں کہیں محبت میں
بازیابی محال ہے میری
لوگ صدموں سے مر نہیں جاتے
سامنے کی مثال ہے میری

کیا کریں ہم جھوٹ کے عادی نہیں
اور سچ کہنے کی آزادی نہیں
گل کھلاتا ہے زمانہ صبح و شام
زندگی رنگین ہے سادی نہیں
اس تعلق میں کہاں ممکن طلاق
یہ محبت ہے کوئی شادی نہیں

سڑک پہ سوئے ہوئے آدمی کو سونے دو
وہ خواب میں تو پہنچ جائیگا بسیرے تک
تھکا ہواہوں مگر اس قدر نہیں کہ شعور
لگا سکوں نہ میں اس کی گلی کے پھیرے تک

اتفاق اپنی جگہ، خوش قسمتی اپنی جگہ
خود بناتا ہے جہاں میں آدمی اپنی جگہ
کہہ تو سکتا ہوں مگر مجبور کرسکتا نہیں
اختیار اپنی جگہ ہے بے بسی اپنی جگہ
کچھ نہ کچھ سچائی ہوتی ہے ہر بات میں
کہنے والے ٹھیک کہتے ہیں سبھی اپنی جگہ
دوست کہتا ہوں تمہیں شاعر نہیں کہتا شعور
دوستی اپنی جگہ ہے شاعری اپنی جگہ

رات کے ڈیڑھ بجے جب افتخار عارف کی باری آئی تو مشاعرہ گاہ میں ایک،ایک شائق اپنی جگہ انہیں سننے کےلئے مشتاق بیٹھا تھا، افتخار صاحب نے لوگوں کی فرمائشیں بھی پوری کیں ، ابتداءاس کلام سے کی:
تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے میرے شہر تیرے لوگ بھی اب تیرے نہیں
میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں

ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں
بہت مشکل زمانوں میں بھی ہم اہل محبت
وفا پہ عشق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں

جیسا ہوں میں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں
تم نے پوچھا توہوتا بتلا سکتاتھا میں
آسودہ رہنے کی خواہش مار گئی ورنہ
آگے اور بہت آگے تک جاسکتا تھا میں

میزان و تیغ و خلعت و منصب مزے میں ہیں
سب کررہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں

شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کاوارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے
کبھی افلاک سے نالوں کے جواب آتے تھے
ان دنوں عالمِ افلاک سے خوف آتا ہے

بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا
چراغِ حجرہِ درویش کی بجھتی ہوئی لَو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہوگا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جاچکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا

جس روز ہمارا کوچ ہوگا
پھولوں کی دکانیں بند ہونگی
شیریں سخنوں کے حرفِ دشنام
بے مہر زبانیں بند ہونگی

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے
یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کردے

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

٭نعتیہ اشعار :
دل و نگاہ کی دنیا نئی نئی ہوئی ہے
درود پڑھتے ہی یہ کیسی روشنی ہوئی ہے
میں خود یونہی تو نہیں آگیا ہوں محفل میں
کہیں سے اذن ہوا ہے تو حاضری ہوئی ہے
خدا کا شکر غلامانِ شاہِ بطحی میں
شروع دن سے میری حاضری لگی ہوئی ہے
یہ سر اٹھائے جو میں جارہا ہوں جانب خُلد
میرے لئے میر ے آقا نے بات کی ہوئی ہے

افتخار عارف کے کلام کے بعد رات گئے یہ مشاعرہ اپنے اندر خوبصور ت اشعار کے باز گشت اور یادیں لیکراختتام پذیر ہوا۔

بشکریہ : نوائے وقت۔

اصل ربط

پسِ نوشت: انتخابِ کلام اچھا لگا سوچا آپ سب سے شئر کرتا چلوں۔ کافی تو میں نے ٹھیک کردی ہیں پھر بھی رہ جانے والی اغلاط "بر گردنِ کاتب" کیونکہ ہم نے تو صرف کاپی پیسٹ ہی کیا ہے۔ :D
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے کسی پوسٹ کے لئے کیرکٹر لمٹ بھی ہے یہ تو مجھے آج پتہ چلا اس لئے تحریر دو ٹکڑوں میں شاملِ محفل کرنا پڑی۔
 

الف عین

لائبریرین
ہانگ کانگ سے آئے ہوئے شاعر عابد علی بیگ نے ۳۲ مارچ کے حوالے سے مندرجہ ذیل نظم پڑھی :
لیکن یہ درست نہیں کیا جا سکا۔ ویسے بہت مزا آیا پڑھ کر۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہانگ کانگ سے آئے ہوئے شاعر عابد علی بیگ نے ۳۲ مارچ کے حوالے سے مندرجہ ذیل نظم پڑھی :
لیکن یہ درست نہیں کیا جا سکا۔ ویسے بہت مزا آیا پڑھ کر۔

جی یہ نظر انداز ہوگیا حالانکہ پڑھتے وقت دیکھا تھا میں نے ۔ o_O

بہر کیف بہت شکریہ۔۔۔۔۔!
 
Top