روایت پرستی

حمیر یوسف

محفلین
روایت پرستی
مروج الذہب (ابوالحسن المسعودی۔ خلفائے بنو عباس کا ایک اہل تشیع مورخ) میں خلافت بنو امیہ کی مدت ایک معمہ کی شکل میں بیان کی گئی ہے، ملاحظہ ہو۔

"یہ کل مدت نوے سال گیارہ ماہ اور تیرہ دن ہوئے۔ اگر اسمیں وہ زمانہ بھی شامل کرلیا جائے جس میں کہ مروان (آخری اموی خلیفہ )اپنے قتل ہونے تک بنی عباس سے لڑتا رہا، تو یہ کل مدت اکیانوے سال سات ماہ اور تیرہ دن ہوجاتی ہے۔ اگر اس میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت جو پانچ ماہ دس دن ہے اور عبداللہ بن الزبیر کے قتل ہونے تک انکا عہد حکومت جو سات سال دس ماہ اور تین دن ہے، نکال دیا جائے تو بنی امیہ کی کل مدت حکومت تراسی سال چار ماہ رہ جاتی ہے، جو پورے ایک ہزار مہینے ہوتے ہیں۔

بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول لیلۃ القدر خیر میں الف شھر (سورہ القدر) کی یہی تاویل کی ہے، ان ہزار ماہ سے بنی امیہ کا عہد مراد لیا ہے۔ "


ان بعض آدمیوں میں خود مسعودی بھی شامل ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نہ تو وہ جمع اور تفریق کے یہ مہمل عمل کرکے ایک ہزار ماہ کی مدت پوری کرنے کی کوشش کرتے اور نہ بعض جگہ مدت میں کمی بیشی کرتے۔ یہ صریح غلطی تو یہ ہے کہ التنبیہ الاشراف (مسعودی کی کتاب) میں صاف طور پر پوری ایک مدت خلافت 91 سال سات ماہ ستائیس دن بتائی ہے۔ اور مروج الذہب (یہ بھی مسعودی کی کتاب ہے) میں پہلے نوے سال گیارہ ماہ تیرہ دن اور پھر اکیانوے سال سات ماہ تیرہ دن بیان کی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا دور کتاب ہذا (التنبیہ الاشراف) میں 9 سال دو ماہ کی جگہ 8 سال 9 مال متعین کیا ہے۔ لیکن مروج الذہب میں مصلحتا کمی کرکے یہ مدت صرف 7 سال دس ماہ کردی ہے۔ غرض مورخ موصوف (المسعودی) نے اپنا مقصد پورا کرنے کے لئےکسی قدر درایتی انداز اختیار کیا ہے۔ اسکے مقابلے میں مولٰنا جلال الدین سیوطی نے خالص روایتی اختیار کیا ہے جو انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ فرماتے ہیں

"ترمذی کہتے ہیں یوسف بن سعد سے مروی ہے کہ جس وقت امام حسن رض نے معاویہ رض سے بیعت کرلی تو ایک آدمی کھڑا ہوکر امام حسن رض سے کہنے لگا کہ تو نے مسلمانوں کا منہ سیاہ کردیا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا تجھ پر رحمت فرمائے، مجھے بُرا نہ کہ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شب خواب میں بنو امیہ کو منبر پر دیکھا تو آپکو بہت ناگوار معلوم ہوا تھا۔ اسی وقت ان اعطینک الکوثر اور انا انزلنا ہ نازل ہوئیں۔ یعنی نازل کیا ہم نے قرآن کو قدر کی رات میں اور تو کیا جانتا ہے کہ رات قدر کی۔ رات قدر کی بہتر ہے ہزار مہینے سے۔ آپ کے انتقال کے ہزار مہینے بعد اے محمد ﷺ بنو امیہ مالک ہوجائیں گے۔ قاسم کہتے ہیں کہ ہم نے حساب لگایا تو امیر معاویہ رض کی بیعت بالکل ہزار ہی مہینے کے بعد واقع ہوئ نہ کم و بیش۔ ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔ یہ حدیث قاسم ہی سے مروی ہے۔ اگرچہ وہ ثقہ ہیں مگر ان کے استاد مجہول ہیں۔ اسی حدیث کو حاکم نے اپنی مستدرک میں اور ابن جریر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔ حافظ ابوالحجاج کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے اور ابن کثیر بھی یہی کہتے ہیں۔"

اس پوری بحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ طریقہ استدلال کتنا عجیب ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو صرف اس وجہ سے غریب بتا کر کمزور کردیا کہ اسکا ایک راوی ثقہ اور دوسرا مجہول ہے۔ اگر کہیں دوسرا بھی ثقہ ہوتا تو پھر حدیث کو صحیح ماننے میں کوئی عذر نہ ہوتا، خواہ حقائق اسکے کتنے ہی خلاف ہوتے۔ قاسم کا یہ کہنا کہ "ہم نے حساب لگا کردیکھا حضرت امیر معاویہ رض کی بیعت بالکل ہزار ہی مہینے کے بعد ہوئی" کس حد تک صحیح ہے۔ علامہ سیوطی یا امام ترمذی اگر آنحضرت ﷺ کے انتقال سے حضرت امیر معاویہ کی بیعت تک کی مدت جو صرف تیس سال ہے، بارہ سے ضرب دیکر معلوم کرلیتے تو پتہ چل جاتا کہ تیس کا بارہ گنا محض 360 ہوتا ہے۔ گویا جس مدت کو قاسم نے حساب لگا کر ایک ہزار مہینہ بتایا ہے، وہ محض 360 مہینے بنتی ہے ۔ یہ غلطی معلوم ہونے کے بعد راویوں کے جانچنے اور روایت کا درجہ مقرر کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔

التنبیہ والاشراف (ابوالحسن علی بن حسین بن علی المسعودی)
اردو ترجمہ : مولانا عبداللہ العمادی
ترتیب و حواشی: نصیب اختر ایم – اے
صفحہ 204-206 حواشی
 
Top