قمر جلالوی رستے میں غیر مِل گئے یا رات ہو گئی

یوسف سلطان

محفلین
رستے میں غیر مِل گئے یا رات ہو گئی
اُن کےلئےکوئی نہ کوئی بات ہو گئی

اُن کی طرف سے ترکِ مُلاقات ہو گئی
ہم جِس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی

آنسُو تھمّےتوآنکھوں میں یہ بات ہو گئی
میخانے جیسے کُھل گئے برسات ہو گئی

آئینہ دیکھنے میں نئی بات ہو گئی
اُن سے ہی آج اُن کی مُلاقات ہو گئی

ملے اُن سے روزِحشرمُلاقات ہو گئی
اِتنی سی بات کِتنی بڑی بات ہو گئی

آئے ہیں وہ مریضِ مُحبت کو دیکھ کر
آنسو بتا رہے ہیں کوئی بات ہو گئی

کم ظرفیِ حیات سے تنگ آ گیا تھا میں
اچھا ہوا قضا سے مُلاقات ہو گئی

دن میں بھٹک رہے ہیں جو منزل کی راہ سے
یہ لوگ کیا کریں گے اگر رات ہو گئی

اچھا ہوا کہ تُم مِرے رونے پہ ہنس دئیے
کہنے کو عُمر بھرکےلئے بات ہو گئی

اب دُشمنوں کی کرتے ہومجھ سے شکائتیں
جب دُشمنوں کی مجھ سے ملاقات ہو گئی

تھا اورکون پُوچھنے والا مریض کا
تُم آ گئے تو پُرسشِ حالات ہو گئی

اے بُلبلِ بہارِ چمن اپنی خیر مانگ
صیّاد و باغباں میں ملاقات ہو گئی

جب زُلف یاد آ گئی یُوں اَشگ بہہ گئے
جیسے اندھیری رات میں برسات ہو گئی

گلشن کا ہوش اہلِ جنوں کو بھلا کہاں
صحرا میں پڑرہے توبسر رات ہو گئی

درپردہ بزمِ غیر میں دونوں کی گُفتگو
اُٹھی اِدھر نِگاہ اُدھر بات ہو گئی

کب تک قمرؔ ہو شام کے وعدے کا اِنتظار
سُورج چُھپا، چراغ جلے، رات ہو گئی​
 
Top