رباب زیست

سیما کرن

محفلین
ہمی کو ہیں نظر انداز کرتے
گزاری عمر جن پر ناز کرتے
رباب زیست کا بودا تھا ہر ساز
ذرا اونچی اگر آواز کرتے
مری وحشت میں ہر دم ساتھ تھا وہ
مزید اب کیا شریک راز کرتے
صراط عشق کے دونوں تھے راہی
ہم اپنے دل کو کیوں پھر باز کرتے
وہ تھا مجبوریوں کے آگے پسپا
بہم تقدیر سے کیا ساز کرتے
سیما کرن
 
Top