رات کی زلفیں بھیگی بھیگی اور عالم تنہائی کا

شمشاد خان

محفلین
رات کی زلفیں بھیگی بھیگی اور عالم تنہائی کا
کتنے درد جگا دیتا ہے اک جھونکا پروائی کا

اڑتے لمحوں کے دامن میں تیری یاد کی خوشبو ہے
پچھلی رات کا چاند ہے یا ہے عکس تری انگڑائی کا

کب سے نہ جانے گلیوں گلیوں سائے کی صورت پھرتے ہیں
کس سے دل کی بات کریں ہم شہر ہے اس ہر جائی کا

عشق ہماری بربادی کو دل سے دعائیں دیتا ہے
ہم سے پہلے اتنا روشن نام نہ تھا رسوائی کا

شعر ہمارے سن کر اکثر دل والے رو دیتے ہیں
ہم بھی لئے پھرتے ہیں دل میں درد کسی شہنائی کا

تم ہو کلیمؔ عجب دیوانے بات انوکھی کرتے ہو
چاہ کا بھی ارمان ہے دل میں خوف بھی ہے رسوائی کا

(کلیم عثمانی)
 

شمشاد خان

محفلین
ﮔﻼﺏ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ , ﺷﺮﺍﺏ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﯾﮩﯽ ﺗﻮ ﮬﯿﮟ ، ﻻ ﺟﻮﺍﺏ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﺍﻧﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻔﺖ , ﺍﻧﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﻔﺮﺕ
ﺛﻮﺍﺏ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ، ﻋﺬﺍﺏ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ، ﺑﻼ ﮐﯽ ﺷﻮﺧﯽ
ﮐﺒﮭﯽ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﺣﺠﺎﺏ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﭼُﮭﭙﺎﺗﯽ ﮬﯿﮟ ﺭﺍﺯ ﺩﻝ ﮐﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﮬﯿﮟ ﺩِﻝ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺗﻮ ﺟﮭﯿﻞ ﺟﯿﺴﯽ
ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﺳَﺮﺍﺏ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﻭﮦ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﻟﻮﮒ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﮯ
ﺣﻀﻮﺭ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ، ﺟﻨﺎﺏ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﻋﺠﯿﺐ ﺗﮭﺎ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻢ
ﺳﻮﺍﻝ ﮐﻮﺋﯽ ، ﺟﻮﺍﺏ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﯾﮧ ﻣَﺴﺖ ﻣَﺴﺖ ﺑﮯ ﻣﺜﺎﻝ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﻧﺸﮯ ﺳﮯ ﮬﺮ ﺩﻡ ﻧﮉﮬﺎﻝ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﺍُﭨﮭﯿﮟ ﺗﻮ ﮬﻮﺵ ﻭ ﮬﻮﺱ ﮐﻮ ﭼﮭﯿﻨﯿﮟ
ﮔﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ، ﮐﻤﺎﻝ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﮬﮯ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﮐﺮﻡ ﮐﺎ ﻃﺎﻟﺐ
ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺷﻮﻕِ ﻭﺻﺎﻝ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﻧﮧ ﯾﻮﮞ ﺟﻼﺋﯿﮟ ﻧﮧ ﯾﻮﮞ ﺳﺘﺎﺋﯿﮟ
ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﯾﮧ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﮬﮯ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﺍِﮎ ﺑﮩﺎﻧﮧ ﯾﺎﺭﻭ
ﯾﮧ ﺭُﻭﺡ ﭘﺮﻭﺭ ، ﺟﻤﺎﻝ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﺩَﺭﺍﺯ ﭘﻠﮑﯿﮟ ﻭﺻﺎﻝ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﻣﺼّﻮﺭﯼ ﮐﺎ ﮐﻤﺎﻝ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﺷﺮﺍﺏ ﺭَﺏ ﻧﮯ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﺮ ﺩﯼ
ﻣﮕﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﺭکھیں ﺣﻼﻝ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ؟
ﮬﺰﺍﺭﻭﮞ ﺍِﻥ ﺳﮯ ﻗﺘﻞ ﮬُﻮﺋﮯ ﮬﯿﮟ
ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮮ ، ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
 

شمشاد خان

محفلین
اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ تو میں تمہارا
یا اس پہ مبنی کوئی تأثر کوئی اشارا تو میں تمہارا

غرور پرور انا کا مالک کچھ اس طرح کے ہیں نام میرے
مگر قسم سے جو تم نے اک نام بھی پکارا تو میں تمہارا

تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو میں جیسے چاہوں لگاؤں بازی
اگر میں جیتا تو تم ہو میرے اگر میں ہارا تو میں تمہارا

تمہارا عاشق تمہارا مخلص تمہارا ساتھی تمہارا اپنا
رہا نہ ان میں سے کوئی دنیا میں جب تمہارا تو میں تمہارا

تمہارا ہونے کے فیصلے کو میں اپنی قسمت پہ چھوڑتا ہوں
اگر مقدر کا کوئی ٹوٹا کبھی ستارا تو میں تمہارا

یہ کس پہ تعویذ کر رہے ہو یہ کس کو پانے کے ہیں وظیفے
تمام چھوڑو بس ایک کر لو جو استخارہ تو میں تمہارا
(عامر امیر)
 

شمشاد خان

محفلین
عشق میں نے لکھ ڈالا قومیت کے خانے میں
اور تیرا دل لکھا شہریت کے خانے میں

مجھ کو تجربوں نے ہی باپ بن کے پالا ہے
سوچتا ہوں کیا لکھوں ولدیت کے خانے میں

میرا ساتھ دیتی ہے میرے ساتھ رہتی ہے
میں نے لکھا تنہائی زوجیت کے خانے میں

دوستوں سے جا کر جب مشورہ کیا تو پھر
میں نے کچھ نہیں لکھا حیثیت کے خانے میں

امتحاں محبت کا پاس کر لیا میں نے
اب یہی میں لکھوں گا اہلیت کے خانے میں

جب سے آپ میرے ہیں فخر سے میں لکھتا ہوں
نام آپ کا اپنی ملکیت کے خانے میں
(عامر امیر)
 

شمشاد خان

محفلین
دھیان میں آ کر بیٹھ گئے ہو تم بھی ناں
مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو تم بھی ناں

دے جاتے ہو مجھ کو کتنے رنگ نئے
جیسے پہلی بار ملے ہو تم بھی ناں

ہر منظر میں اب ہم دونوں ہوتے ہیں
مجھ میں ایسے آن بسے ہو تم بھی ناں

عشق نے یوں دونوں کو آمیز کیا
اب تو تم بھی کہہ دیتے ہو تم بھی ناں

خود ہی کہو اب کیسے سنور سکتی ہوں میں
آئینے میں تم ہوتے ہو تم بھی ناں

بن کے ہنسی ہونٹوں پر بھی رہتے ہو
اشکوں میں بھی تم بہتے ہو تم بھی ناں

میری بند آنکھیں تم پڑھ لیتے ہو
مجھ کو اتنا جان چکے ہو تم بھی ناں

مانگ رہے ہو رخصت اور خود ہی
ہاتھ میں ہاتھ لئے بیٹھے ہو تم بھی ناں
(عنبرین حسیب عنبر)
 

شمشاد خان

محفلین
سید ذیشان آپ نے میرے نام کا کیا سے کیا بنا دیا؟

اور ہاں میں عاشق مزاج بالکل بھی نہیں ہوں۔
 

شمشاد خان

محفلین
گلی کے موڑ پہ بچوں کے ایک جمگھٹ میں
کسی نے درد بھرے لے میں ماہیا گایا

مجھے کسی سے محبت نہیں مگر اے دل
یہ کیا ہوا کہ تو بے اختیار بھر آیا
(احمد ندیم قاسمی)
 

شمشاد خان

محفلین
تجھ کو اپنا کے بھی اپنا نہیں ہونے دینا
زخم دل کو کبھی اچھا نہیں ہونے دینا

میں تو دشمن کو بھی مشکل میں کمک بھیجوں گا
اتنی جلدی اسے پسپا نہیں ہونے دینا

تو نے میرا نہیں ہونا ہے تو پھر یاد رہے
میں نے تجھ کو بھی کسی کا نہیں ہونے دینا

تو نے کتنوں کو نچایا ہے اشاروں پہ مگر
میں نے اے عشق! یہ مجرا نہیں ہونے دینا

اس نے کھائی ہے قسم پھر سے مجھے بھولنے کی
میں نے اس بار بھی ایسا نہیں ہونے دینا

زندگی میں تو تجھے چھوڑ ہی دیتا لیکن
پھر یہ سوچا تجھے بیوہ نہیں ہونے دینا

مذہب عشق کوئی چھوڑ مرے تو میں نے
ایسے مرتد کا جنازہ نہیں ہونے دینا
(عامر امیر)
 

شمشاد خان

محفلین
ابهی مٹی گندهی ہے بس، ابهی تجسیم باقی ہے
ابهی سانچے میں ڈهلنا ہے، ابهی ترمیم باقی ہے

مرا دعوی ہے یہ لوگو محبت جانتی ہوں میں
ابهی چار حرف سیکهے ہیں ابهی تفہیم باقی ہے

زنجیرعشق میں جکڑی ابهی مقتل میں پہنچی ہوں
ابهی تو ٹکڑے ہونے ہیں، ابهی تقسیم باقی ہے

عجب عالم ہے دل کا بهی، اداسی موجزن سی ہے
ابهی پت جهڑ کے ڈیرے ہیں ابهی تسنیم باقی ہے

ابهی دربار الفت کے ہیں مجهکو سیکهنے آداب
بجا لانا ہے حکم شاہ، ابهی تعظیم باقی ہے

ابهی میں اسکی راہوں میں بچهاتی ہوں فقط پلکیں
ہے باقی جان کا صدقہ، ابهی تکریم باقی ہے
 
Top