ذیشان ہر چیز کو زندہ کر سکتا تھا(انورسن رائے)

سجادعلی

محفلین
سنیچر کی شام میرے بزرگ اور ساتھی، رضا علی عابدی، اپنی میز سے اٹھ کر میرے قریب آئے اور اس طرح کہ مجھے ان کے آنے کا احساس تک نہ ہوا اور اس سے پہلے کہ مجھے ان کے آنے کا احساس ہوتا اور میں عادتاً ان کے احترام میں کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوتا۔ انہوں نے بڑے دھیمے انداز میں کہا: ذیشان کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس وقت لندن میں شاید شام کے پانچ بج رہے تھے۔



’ذیشان‘ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔ میری زندگی میں تین ذیشان ہیں اور میں نہیں جان سکا کہ ان میں سے کون میرے اور رضا علی عابدی کے درمیان مشترک ہو سکتے ہیں۔ لیکن میرے کسی فیصلے سے پہلے انہوں نے کہا: ’ذیشان ساحل‘

میں ان کے لہجے کی اداسی کو نظر انداز نہیں کر سکا۔

’ذیشان ساحل‘ میں نے بے یقینی سے دہرایا۔ ایک تو ذیشان ساحل کی موت کی اور ایک اس بات کی بھی کہ انہیں میرے اور ذیشان ساحل کی قربت کا بھی علم ہے۔

’ابھی فون آیا تھا، شام چھ بجے کے قریب انتقال ہوا ہے۔ کراچی میں‘۔ عابدی صاحب کو شاید میری کیفیت کا اندازہ ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے مزید کسی سوال کے بغیر ہی باقی تفصیلات بتا دیں۔ اس کے ڈیڑھ گھنٹے بعد اجمل کمال کی ای میل نے اس تصدیق کر دی۔

ذیشان سے میری شناسائی تین دہائیوں سے زیادہ پر پھیلی ہوئی تھی لیکن جس ذیشان کو دنیا بھر کے لوگ جانتے ہیں۔ ’ایرینا‘ سے ’نیم تاریک محبت‘ تک والا ذیشان اس سے ہماری، میری اور عذرا (عذار عباس) کی ملاقات کراچی میں اجمل کمال کی آمد کے بعد ہوئی۔ وہ اور اجمل لڑکپن کے دوست ہیں اور ان میں حیدرآباد سے زیادہ ان کے درمیان ادب اور شاعری کا رشتہ ہے۔

دسمبر 2006 میں جب میں کراچی گیا تو میں اور عذرا ذیشان سے ملنے گئے۔ ہم نے بہت ساری باتیں کیں اس نے اپنے پہلے شعری مجموعے ’ایرینا‘ 1985 کی بات کی۔ اس نے آگ کا ذکر کیا۔ اس نے ’ایرینا‘ کا پیش لفظ دہرایا جس میں اس نے لکھا تھا: ’ہمیشہ باقی رہنے والی آگ میرا بنیادی عنصر ہے۔ کشتیوں، پرندوں اور درختوں کے علاوہ مجھے ہوا بھی بہت پسند ہے۔ سفر اور باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے خواب دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ پھول، رنگ اور لفظ اچھے لگتے ہیں مگر پانی اور آسمان زیادہ پسند ہیں۔ قناعت پسندی، گوشہ نشینی اور یکسانیت سے کوفت ہوتی ہے۔ راسخ العقیدہ لوگ اور بےترتیب گھر بہت برے لگتے ہیں‘۔



وہ انتہائی ہولناک یا معمولی، روز مرہ کے واقعات کے بارے میں بھی اس طرح لکھتے ہیں کہ حسن، معصومیت اور پاکیزگی کا احساس پیدا ہوتا ہے، جیسے نظموں میں ان سب کو بچا لیا گیا ہو



وہ کہتا تھا کہ وہ گوتم بدھ، بیتھوون، کیٹس، بیورن بورگ اور ایرینا سے بے حد متاثر ہے۔ پابلو نیرودا، تادیوش روزے وچ، محمود درویش، پال سیلین اور ہلڈے ڈومن کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس کہنا تھا کہ وہ مغرب کی ذہنی و جسمانی بود و باش کا بے پناہ مداح ہے اور اپنے مغرب زدہ ہونے پر قطعی افسردہ نہیں۔

’ایرینا‘ میں پہلی نظم ’ایرینا‘ ہی ہے:

’زندہ رہنے کے لیے
مجھے جو علاقہ دیا گیا ہے
وہی میرا ایرینا ہے
میں نے اس کے چاروں طرف
خاردار تاروں کی باڑھ لگا رکھی ہے
جس میں ہر وقت
کرنٹ گردش کرتا رہتا ہے‘

’میرے پاس ایک کشتی ہے
جو پانی کی آواز اور لمس سے اجنبی ہے
اور ایک درخت
جو ہوا اور آگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا‘

اس نے ہمیں بہت سے نظمیں سنائیں۔ خاص طور پر ایک نظم ’جہاز‘ جس کے بارے اس نے کہا کہ یہ نظم محمد خالد اختر صاحب کو بہت پسند تھی اور ان سے زیادہ فہمیدہ ریاض کو۔

اس نظم میں ایک جہاز کا ذکر ہے اور ایک لڑکی کا، جہاز لڑکی کو لے کر آنے والا ہے اور خوش ہے لیکن اسے خیال آتا ہے: ائر پورٹ سے باہر نکل کر یہ لڑکی شہر میں کھو جائے گی، وہ سوچتا ہے اور آسمان پر چکر لگانے لگتا ہے، زمین پر اترنے سے پہلے بادلوں میں چھپنے کی کوشش کرتا ہے، سوچتا ہے: اگر میں دوبارہ اس کے گھر کے اوپر سے گزرا تو کیا پہچان پائے گی مجھے، وہ دکھی ہونے لگتا ہے، لیکن اس کے آنسو نہیں نکل سکتے، وہ اپنے پروں کو اپنی آنکھوں پر نہیں رکھ سکتا، سائنس کہتی ہے، مشین ہوتا ہے جہاز، محبت نہیں کر سکتا، سنتا ہے جہاز اور بے قرار ہو کر پھر سے اڑ جاتا ہے۔


ذیشان ساحل کی نظمیں ایسی تصویروں کی طرح ہیں جن کی سطح پر بہت خوبصورت، روشن رنگ ہیں لیکن ان کے نیچے سیاہی کی کئی پرتیں ہیں۔ اس طرح وہ ہمارے ذہن میں تلخی یا غصہ پیدا کیے بغیر ایسی اداسی اور غم بھی دیتے ہیں کہ ہم سارا دن سوچتے رہتے ہیں کہ باہر کیا ہو رہا ہے



اس نظم کو پڑھنے اور سننے کے بعد وہی خاموشی اختیار کی جا سکتی ہے جس کا ذکر کہیں فہمیدہ ریاض نے کہا ہے: ’ذیشان کی نظموں میں ہر چیز زندہ ہو سکتی ہے‘۔ فہمیدہ نے کہا تھا۔ واقعی۔

لیکن سب سے اچھی بات تو وہ ہے جو ویرتا نے فہمیدہ ریاض کو بتائی تھی۔ اس نے ذیشان کی نظموں کے بارے میں کہا: ’وہ انتہائی ہولناک یا معمولی، روز مرہ کے واقعات کے بارے میں بھی اس طرح لکھتے ہیں کہ حسن، معصومیت اور پاکیزگی کا احساس پیدا ہوتا ہے، جیسے نظموں میں ان سب کو بچا لیا گیا ہو۔ ذیشان انکل کی نظمیں ایسی تصویروں کی طرح ہیں جن کی سطح پر بہت خوبصورت، روشن رنگ ہیں لیکن ان کے نیچے سیاہی کی کئی پرتیں ہیں۔ اس طرح وہ ہمارے ذہن میں تلخی یا غصہ پیدا کیے بغیر ایسی اداسی اور غم بھی دیتے ہیں کہ ہم سارا دن سوچتے رہتے ہیں کہ باہر کیا ہو رہا ہے‘۔

ذیشان! آج پیر ہے۔ تمہیں رخصت کیا جا چکا ہو گا۔ اجمل نے لکھا ہے کہ نمازِ جنازہ انچولی میں ہوگی۔ کون کون ہو گا وہاں؟ اگرچہ اب مکالمہ یک طرفہ رہ گیا ہے لیکن گفتگو جاری رہے گی۔ اور تمہاری نظمیں ہیں نا ہم یہ نظمیں لوگوں کو سنائیں گے اور تم ہمارے درمیان رہو گے اور سنو تمہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا ہم بھی آ رہے ہیں نا۔ اور سنو آپ کہتے تھے نا:

’جب کبھی
میں اندھیرے میں
سفر کرتا ہوں
اپنے ہاتھ
چہرے پر رکھ لیتا ہوں
کہیں تاریکی
اسے ہمیشہ کے لیے
مجھ سے چھین نہ لے‘

لیکن اب تمہیں اس کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ اب ایرینا، چڑیوں کا شور، کہر آلود آسمان کے ستارے، کراچی او دوسری نظمیں، ای میل، شب نامہ، جنگ کے دنوں میں اور نیم تاریک محبت میں شامل نظمیں اور باقی جو اب شائع ہونگی تمہارا چہرہ بن جائیں اور انہیں کوئی تاریکی چھین نہیں سکے گی۔ اس کے علاوہ تہمینہ احمد کے تراجم بھی تو ہیں (on the outside) اور وہ پھر آصف نے بھی تمہاری کتنی ہی نظمیں ترجمہ کی ہیں۔ کراچی پر تمہاری نظموں کے ساتھ ساتھ نفیسہ شاہ کی ڈرائنگز ہمیں اس وقت تک ایک ایک دن کی یاد دلاتی رہیں گی جب تک ہم پھر ایک ساتھ نہیں ہو جائیں گے۔

دیکھو خالد اختر صاحب اور انور خالد کو ہمارا سلام کہنا مت بھولنا اور صغیر ملال سے بھی کہنا کہ لطیفوں نے ہمیں ہنسانا چھوڑ دیا ہے۔

(یہ مضمون بی بی سی اردو کی اشاعت14۔اپریل سے لیا گیا ہے۔
 
Top