ذہنی بیمار مسلمان اور توہین مذہب کا قانون

عزیز دوستو! میرا یہ مضمون حال ہی میں دیگر 2 مقامات پر شائع ہو چکا۔ اس فورم پر آپ کی نذر۔ کہ شاید کسی کی اصلاح کا باعث بن جائے۔ ملاحظہ ہو ۔ شکریہ۔

امت مسلمہ کا یہ المیہ قدیم زمانوں سے چلتا آ رہا ہے کے اس کی وحدت اور اتفاق کو اپنی ہی صفوں میں چھپے شریروں سے گزند پہنچتا رہا ہے۔ ظاہر اور باطن میں اختلاف، خود کو دوسروں سے بڑا مسلمان سمجھنا، بغیر تحقیق کے کسی بھی اطلاع کو درست مان لینا اور پھر اس پر رد عمل دکھانا آج کل کے مسلم معاشروں خصوصا پاکستانی مسلمانوں کی بہت بڑی خامی اور شرعی کمزوری ہے، جس کی وجہ سے بے شمار مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی برائیوں اور جرائم نے تیزی سے پرورش پائی ہے۔

توہینِ رسالت کا قانون اور اس کا استعمال بھی انہی مسائل کی ایک کڑی ہے۔ علم کی کمی، شریعت سے ناواقفیت، اور اسلام کی اصل تعلیمات سے دوری نے ہمیں ایسا الجھا دیا ہے کہ ہم پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ یہ جان ہی نہی پاتے کہ توہین مذہب یا توہینِ رسالت کیا ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک بار پھر ایک مسیحی لڑکی کے توہین رسالت و مذہب کے مرتکب ہونے کی خبریں پوری شد و مد کے ساتھ سیاسی و گروہی مقاصد کے حصول کا سبب بن رہی ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز پہ کوئی اپنے "علم و فضل" کی دھاک بٹھانے کی کوشش کر رہا ہے تو کوئی اس قانون کے فوائد و نقائص پر مبصر بنا بیٹھا ہے۔ کئی ایسے چہرے بھی اس مسیحی لڑکی کی حمایت میں سامنے آئے ہیں جو چند سال قبل گوجرہ کے مسیحیوں کے قتلِ عام میں مبینہ طور پر ملوث پائے گئے تھے ، شائد وہ اپنے اوپر لگے اس داغ کو دھونا چاہتے ہیں۔

ہم اس تصویر کا دوسرا رخ آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، جس کا سامنا کرنے کے لیئے ہماری اکثریت کتراتی ہے۔ لیکن ہم نا تو کسی کے تنخوادار ملازم ہیں، نہ ہی کسی دنیا دار کے ٹکڑوں پہ پلتے ہیں اور نا ہی کسی سیاست کے حمام میں نہانے کا مکروہ شوق رکھتے ہیں، لہٰذا اس موضوع پر سچا اور کھرا تجزیہ وقت کی ضرورت ہے۔

ایک مسیحی نے مقدس اوراق آگ میں جھونک دئیے اور وہ گستاخ ٹھہرے، کبھی آپ نے غور کیا کہ پاکستان کی پارلیمینٹ میں سیاسی جذبات دکھاتے ہوئے اور دھواں دار تقریریں کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مخالفت میں ارکان پارلیمنٹ کئی بار کتنے اوراق پھاڑ دیتے ہیں؟ ہمارے قدموں تلے روزانہ مقدس اسماء، اخبارات پر لکھی قرآنی آیات اور ان کے تراجم روندے جاتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو شیطان، فرعون، قارون، ابلیس، خبیث، نجس، خنزیر،زنا، حمار اور جہنم جیسے الفاظ جو ہمارے ہاں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، یہ سب قرآنی الفاظ ہی تو ہیں۔ ان الفاظ کا نا مناسب اور غلط استعمال بھی تو توہین قرآن و مذہب ہی ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو قرآن کریم ، احادیثِ رسول ﷺ، اور دیگر مذہبی کتب کے غیر مجلد اور اور شہید نسخوں کو شرعی احکامات کے مطابق دفن کرتے یا محفوظ کرتے ہیں؟ ہمارے گھروں میں کتنی مرتبہ اخبارات کے تراشے جن پر جگہ جگہ اللّہ اور اس کے رسول کے ناموں کے علاوہ مقدس الفاظ لکھے ہوتے ہیں، ہمارے چولہوں میں آگ جلانے کے کام آتے ہیں۔ اس پر تو کبھی توہین رسالت و مذہب کا قانون لاگو نہی ہوا؟ حالانکہ یہ پوری پوری توہین مذہب بھی ہے اور توہین اسلام بھی۔ اس موقع پر صاحبان جبہ و دستار، علم و فضل، اقتدار و اختیار کی مساند کے مالک بالکل خاموش کیوں؟؟؟

اگر ہم بات کریں صریحا توہین رسالت اور سرکار مدینہ ﷺ کی عزت و ناموس پر حملوں کی تو اس میں بھی خود کو اسلام کے ٹھیکیدار کہلوانے والوں کا کردار اور کارنامے ڈھکے چھپے نہی ہیں۔ بیسیوں ایسی کتابیں اس وقت بھی پاکستان اور ہندوستان کے بازاروں میں مل سکتی ہیں جن میں "مسلمان" مصنفین نے ذات رسول پاک ﷺ پر ایسے ایسے حملے کیئے ہیں جو آج تک کسی غیر مسلم نے بھی نہی کیئے۔ جس کا کلمہ پڑھا اسی کے علم، خاندان، مرتبہ، نبوت و رسالت اور اختیارات کو متنازعہ بنا دیا، جس کی وجہ سے آج امت گروہ در گروہ بٹ کر ذلت و پستی کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔ ان "علماء" اور "مسلمانوں" پر توہین مذہب و رسالت کا قانون کیوں خاموش ہے؟ جب کسی مسجد یا امام بارگاہ پر خود کش حملہ ہوتا ہے تو وہ بھی توہین مذہب و رسالت ہی ہے، آج تک اس پر کسی نے توجہ نہی دی۔ ایک دوسرے کے مسجدوں کو گرانا، وہاں لکھی ہوئی مقدس عبارات کو مٹانا توہین مذہب ہے جناب ۔اور یہ توہین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمان ہی کرتے ہیں، انہی نا تو امریکہ بھیجتا ہے اور نا وہ اسرائیل کے تنخوٰدار ہوتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ ہندو، عیسائی یا سکھ ہوتے ہیں۔ جی ہاں کلمہ شہادت پڑھنے والے "مسلمان" ہی ہوتے ہیں۔ اگر انصاف کرنا ہے تو اپنے مسلم معاشرے میں رہنے والے ان بے لگام "مؤمنین" کی بھی خبر لیجیئے ۔

پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں موجود سینکڑوں قبرستان بھنگی اور چرسی ملنگوں سے بھرے پڑے ہیں، جہاں وہ شریعت اور طریقت کے اجھلے ماحول سے کوسوں دور نجس و غلاظت کے عمیق اندھیروں میں دنیا ومافیہا سے بے خبر اہل قبور کی ارواح کو اذیت پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ ان قبور میں اللّہ کی وحدانیت اور حضرت محمد ﷺ کے خاتم المرسلین ہونے کے دعویدار ہی مدفون ہوتے ہیں، ان قبور پر کتبے لگے ہوتے اور قرآنی آیات بھی منقش ہوتی ہیں، مسلمانوں کے بچے ان قبرستانوں میں گلی ڈنڈا، کرکٹ، فٹ بال اور کئی مکروہ کھیل وہاں کھیل رہے ہوتے ہیں، یہ توہین مذھب کے ساتھ ساتھ قبور، میتوں اور لاشوں کی بے حرمتی کی زبردست مثال ہے، مجال ہے کسی کی نظرِ انصاف کبھی اس برائی پر پڑے۔

مجھے محسن انسانیت ﷺ کے وہ الفاظ یاد آ رہے ہیں جب آپ سرکارﷺ نے کعبہ شریف کی چوکھٹ کو پکڑ کر اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا " ایک مؤمن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے" ۔
مگر آج "مؤمن" ہی تو مؤمنوں کے گھروں میں صفِ ماتم بچھا رہے ہیں۔ کیا یہ فرمانِ رسول ﷺ کی توہین نہی ہے؟؟؟ تن کے اجھلے اور من کے گندے مسلمانوں کو بغداد و کوفہ، کابل و قندھار اور شمالی و جنوبی وزیرستان میں شہید ہونے والے بے گناہ بچے اور مساجد نظر نہی آتیں ۔

اگر اس معاشرے میں بہتری لانی ہے اور قوانین کا درست استعمال کرنا ہے تو مسجد منبر کے ورثا کو انصاف پسند ہونا پڑے گا، مسلمانوں کو انصاف سکھانا پڑے گا، اسلاف کا طریقہ پھر سے سکھانا پڑے گا کیونکہ معاشرتی و روحانی بیماریوں کے شکار مسلمان نہی جانتے کہ حقائق کیا ہیں، دین و شریعت کی اصل روح کیا ہے۔ زہنی بیمار مسلمانوں کو روحانی و معاشرتی تربیت و اصلاح کی ضرورت ہے۔
 
Top